مندرجات کا رخ کریں

مشرقی پاکستان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مشرقی پاکستان
পূর্ব পাকিস্তান
1955–1971
شعار: 
ترانہ: 
مغربی اور مشرقی پاکستان
دار الحکومتڈھاکہ
عمومی زبانیںبنگالی
اردو
انگریزی
منتظم 
• 1960–1962
اعظم خان
• 1962–1969
عبد منعم خان
• 1969–1971
سید محمد احسن
• 1971
امیر عبد اللہ خان نیازی
وزیر اعلیٰ 
• 1955–1956، 1958
ابو حسین سرکار
• 1956–1958
خان عطاء الرحمن
گورنران 
• 1955–1956
امیردّین احمد
• 1956–1958
اے کے فضل الحق
• 1958–1960
ذاکر حسین
مقننہمشرقی پاکستان قانون ساز اسمبلی
تاریخی دورسرد جنگ
• 
1955
22 نومبر 1954
26 مارچ 1971
3 دسمبر 1971
• 
16 دسمبر 1971
کرنسیپاکستانی روپیہ
ماقبل
مابعد
مشرقی بنگال
بنگلہ دیش عبوری حکومت
موجودہ حصہ بنگلادیش

بنگال کا مشرقی حصّہ 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت پاکستان کا حصہ بنا اور مشرقی پاکستان (East Pakistan) کہلایا۔ پاکستان کے ان دونوں حصوں کے درمیان 1600 کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان واحد رشتہ اسلام کا تھا حالانکہ نسلی اور لسانی دونوں لحاظ سے یہ ممالک بالکل جدا تھے اور مغربی پاکستان کی عاقبت نا اندیش حکومت نے ان تعصبات کو جگایا اور بنگلہ دیش نے شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں 16 دسمبر 1971ء میں آزادی حاصل کی۔ بھارت نے جنگ 1971ء میں بنگلہ دیش کی حمایت کی اور یوں امت مسلمہ کی سب سے بڑی مملکت پاکستان دو لخت ہو گئی۔

پاکستان کے دونوں حصے ایک دوسرے سے 16 سو کلومیٹر دور تھے۔ بھارت کی لڑائی کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔جس کی وجہ سے قریبی تعلق قائم نہیں ہو سکے ۔ دونوں حصوں کی عوام میں غلط فہمیاں ابھرنے لگیں۔ بھارت اپنے مخالف موقف کی وجہ سے اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مشرقی پاکستان کی عوام کو گمراہ کرنے والے پروپیگنڈہ کے ذریعے مغربی پاکستان کے خلاف کر دیا، عدم اعتماد کی انہی فضا میں دونوں حصوں کی عوام ایک دوسرے بہت دور ہو گئی۔

سماجی حیثیت کی تفاوت

[ترمیم]

دونوں حصوں کے مسئلے الگ الگ نوعیت کے تھے، اس لیے مفاہمت کے جذبے کو بڑھا نہیں سکے۔ مشرقی پاکستان کے سرکاری عملدار زیادہ عوام دوست اور ہمدرد تھے۔ انھوں نے لوگوں مسئلوں کو حل کرنا چاہا، اس کے الٹ مغربی پاکستان کے آفیسروں کا رویہ بالکل مختلف تھا۔جن کو مشرقی پاکستان میں مقرر کیا گیا تھا۔ وہ عوام کو اپنی رعیت سمجھتے تھے اوراپنے آپ کو حکمران طبقہ سمجھتے تھے۔اس روش سے مغربی پاکستان کے لیے مقامی لوگوں میں (بنگالیوں) کی دلوں میں نفرت پیدا ہوئی، انھوں نے محسوس کیا کہ وہ حکومتی کار میں حصہ دار نہیں بلکہ غلام ہیں۔

مارشل لا

[ترمیم]

مارشل لا لاگو کرنے سے مشرقی پاکستان کی عوام میں محرومی کا احساس بڑھا، جنرل ایوب خان نے پارلیمانی نظام کی ناکامی کا سارا الزام سیاست دانوں پر ڈال دیا۔جبکہ پاکستانی عوام کا یہ خیال تھا کہ پارلیمانی نظام کو نہ رائج کرنے کی ساری ذمہ داری مارشل لا حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے جمہوریت پنپ نہ سکی۔

زبان کا مسئلہ

[ترمیم]

مشرقی پاکستان کی عوام نے وفاقی حکومت کی سرکاری زبان کے فیصلے کی سخت مخالفت کی۔ حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے اور کئی طلبہ مارے گئے، بنگالیوں کے دلوں کو اس واقعے نے بہت متاثر کیا۔مشرقی پاکستان کی زبان ہندی زبان سے کافی ملتی جلتی تھی۔بنگلہ دیش کے علاوہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی زبانیں عربی رسم ا لخط میں لکھی جاتی تھیں۔

پاکستانی روپیہ بنگالی اور اردو زبان میں
بنگالی زبان
23 مارچ 1971 کو عوامی لیگ کی طرف سے لہرایا گیا عَلمِ بغاوت۔

صوبائی خود مختاری

[ترمیم]

مشرقی پاکستان نے مکمل صوبائی خود مختاری کی مانگ کی۔ اس مطالبے کو مغربی پاکستان کے طاقتور لوگوں نے قبول نہیں کیا، اسی اثنا میں 1971ء میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ اگر مشرقی پاکستان کی اسی مانگ کو پورا کیا جاتا تو شاید الگ نہ ہوتے۔

اقتصادی محرومی اور پروپیگنڈا

[ترمیم]

عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان نے، بنگال میں یہ مشہور کیا کہ بنگالیوں کو اقتصادی فوائد سے محروم رکھا گیا۔ انھوں نے 6 نکات کے نام سے ایک منشور عوامی لیگ کی طرف سے پیش کیا۔ملک کی دوسری پارٹیوں نے اس منشور کو رد کر دیا، جس کی وجہ سے اس نے بھارت سے قریبی تعلقات قائم کر لیے۔ آل انڈیا ریڈیو لگاتار مغربی پاکستان کے خلاف، مشرقی پاکستان کی عوام کو بھڑکاتے اور ورغلاتے رہے۔

ہندو استادوں کا کردار

[ترمیم]

مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو استادوں کی ایک بڑی تعداد معلمی کے فرائض انجام دے رہی تھی، انھوں نے ایسے قسم کا لٹریچر تیار کیا۔ جس میں بنگالیوں کے دلوں میں بغاوت کی سوچ پیدا کی اور وہ مغربی پاکستان کی عوام کے خلاف ہو گئے۔

بین الاقوامی سازشیں

[ترمیم]

مشرقی پاکستان میں ہندو اقلیت کی آبادی 10ملین کے لگ بھگ تھی۔ ان ہندوؤں کے حقوق کی حفاظت بھارت حکومت کر رہی تھی۔ بھارت کی یہ خواہش تھی کہ کسی بھی طرح مشرقی پاکستان الگ ہو تاکہ ہندؤوں کی اقتصادی حالت کو مضبوط بنایا جاسکے۔ ان ہندؤوں نے بھارت کی جانب سے جاسوسی کرنا شروع کی۔ سویت یونین کی حکومت بھی پاکستان کے خلاف تھی، اس لیے کہ پاکستان نے امریکا کو ملک میں فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی تھی، دوسری طرف امریکا بھی مشرقی پاکستان کو الگ کرنا چاہتے تھے۔ اس صورت حال میں سوویت یونین نے پاکستان کے خلاف بھارت کی کھلی حمایت کی۔

1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی اکثریت

[ترمیم]

1970ء کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے 169 میں سے 167 اسمبلی کی نشستیں حاصل کر کے مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کر لی، انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے بعد شیخ مجیب الرحمان اپنے مطالبات میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ جن کو پاکستان کے حکمرانوں نے رد کر دیا۔

آپریشن سرچ لائٹس 25 مارچ 1971

[ترمیم]

عام انتخابات کے کے بعد پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بہت خراب ہو گئی، اس وقت کی فوجی حکومت نے مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈنے کی بجائے عوامی لیگ کے خلاف فوجی ایکشن لینے کا کیا۔ عوامی لیگ کو غیر قانونی پارٹی قرار دیا گیا اور عوامی لیگ کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ اس قدم نے جیسے آگ کو ہوا دے دی۔ جن سے بنگالیوں میں شدید حقارت کا جذبہ پیدا ہوا اور انھوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔یہ پاکستانی فوج کا ڈھاکہ میں تاریخی شکست کا دن ہے ، جس دن پر پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں 30 لاکھ بنگالیوں کا قتلِ عام اور یہ الزام ہے 8 لاکھ بنگالی عورتوں کی عصمت دری کرنے کے بعد بالآخر بنگالیوں کی انقلابی گوریلوں "مُکتی باہنی" سے شکست کھائی اور اتنے بڑے انسانی سانحے کے بعد ہندوستانی فوج بنگلہ دیش میں بنگالیوں کی مدد کے لیے آ گئی ،جس کے سامنے ڈھائی لاکھ پاکستانی فوجیوں نے سرینڈر کرکے اپنے ہتھیار ڈال دیے۔

بھارت کا حملہ

[ترمیم]

فوجی ایکشن کی وجہ سے عوامی لیگ کے سربراہ اور کتنے ہی بنگالی بھارت کی طرف بھاگ گئے۔ بھارت کو پاکستان کے اندرونی مسئلوں میں دخل اندازی کرنے کی وجہ مل گئی۔ بھارت نے دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے منفی پروپیگنڈا مہم چلائی اور کہا کہ لاکھوں بنگالی مہاجروں کی آنے کی وجہ سے بھارتی سلامتی کو خطرہ ہو گیا ہے۔ مشرقی پاکستان میں لیے ہوئے قدم کو بھارت نے پہلا جنگی عمل قرار دے دیا۔ شیخ مجیب الرحمان نے "مکتی باہنی" نام سے ایک نیم فوجی تنظیم قائم کی تھی۔ جس نے پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ شروع کی، جن کی حمایت میں بھارت نے بھی پاکستانی فوجیوں پر حملے کرنا شروع کیے۔ 3 دسمبر 1971ء سے پاکستان اور بھارت کے بیچ باقاعدہ جنگ شروع ہوئی۔ مغربی پاکستان پر کسی بڑا حملہ کرنے کے سواء، جنگ بندی عمل میں آئی۔بھارتی فوجی بنگلہ دیش میں ڈھاکہ اور چٹاگانگ پر قبضہ کرنا چاہتے تھے لیکن منصوبہ بندی میں ڈھاکہ پر قبضہ کرنا شامل نہیں تھا۔ انھوں نے سوچہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو ڈھاکہ پر قبضہ کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کی سٹریٹیجک اہمیت یہ ہے کہ یہ مشرقی پاکستان کا جغرافیائی دل بھی ہے۔

لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم کھلنا اور چٹاگانگ لے لیتے ہیں تو ڈھاکہ خود ہی ہمارے قبضے میں آ جائے گا۔ بھارتی فوج صرف یہ جانتی تھی کہ ہمیں صرف کھلنا اور چٹاگانگ پر قبضہ کرنے کا تحریری حکم ملا تھا۔ ایئر مارشل پی سی لال نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈھاکہ پر قبضہ منصوبے کا حصہ ہی نہیں تھا اور اس بارے میں بھارتی ہیڈکوارٹر میں کافی اختلافات تھے۔

سولہ دسمبر کا دن مانک شاہ کا فون آیا کہ جیکب ڈھاکہ جا کر ہتھیار ڈلوائیں۔ میں جب ڈھاکہ پہنچا تو پاکستانی فوج نے مجھے لینے کے لیے ایک بریگیڈیئر کو بھیجا۔

اس وقت ڈھاکہ میں پاکستان کے پاس 26400 فوجی تھے جبکہ بھارت کے پاس صرف تین ہزار۔

مشرقی پاکستان میں متحرک پاکستانی فوج

مکتی باہنی اور پاکستانی فوج کے درمیان لڑائی جاری تھی اور گولیاں چلنے کی آواز سنی جا سکتی تھی۔ ہم جیسے ہی کار میں بیٹھے مکتی فورسز نے اس پر گولیاں چلا دیں کیونکہ وہ پاکستانی فوج کی کار تھی۔

میں ہاتھ اوپر کر کے کار سے نیچے اتر گیا۔ وہ پاکستانی برگیڈیئر کو مارنا چاہتے تھے، ہم کسی طرح مشکل سے پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر پہنچے۔

جب جیکب جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے سے متعلق دستاویز پڑھ کر سنائیں تو انھوں نے کہا کہ ’کس نے کہا ہے کہ ہم ہتھیار ڈال رہے ہیں، آپ یہاں صرف جنگ بندی کرانے آئے ہیں۔ اس بارے میں بحث ہوتی رہی میں نے ان سے کہا کہ ہم نے آپ کو بہت اچھی پیشکش کی ہے اور اس سے بہتر پیشکش نہیں کر سکتے، ہم آپ کی اور آپ کے خاندانوں کی حفاظت کی ضمانت دیتے ہیں لیکن آپ اس پیشکش کو نہیں مانتے تو پھر ہماری کوئی ذمہ دار نہیں ہوگی۔ اس پر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘

جنرل جیکب نے کہا کہ میں تیس منٹ دیتا ہوں اگر آپ نہیں مانتے تو میں پھر سے جنگ شروع کرنے اور ڈھاکہ پر بمباری کا حکم دے دوں گا۔ ’یہ کہہ کر میں باہر چلا گیا لیکن دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ یہ میں نے کیا کر دیا۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں اور ان کے پاس ڈھاکہ میں 26400 فوجی ہیں اور ہمارے پاس صرف تین ہزار اور وہ بھی ڈھاکہ سے تیس کلومیٹر باہر۔ اگر وہ نہ کر دیتے ہیں تو میں کیا کروں گا۔‘

’میں تیس منٹ بعد اندر گیا دستاویز وہیں میز پر تھیں، میں نے ان سے پوچھا کیا آپ کو یہ منظور ہے تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے تین بار سوال کیا پھر کاغذ میز سے اٹھا کر کہا میں یہ مان کر چل رہا ہوں کہ آپ کو یہ منظور ہے۔‘

جنرل نیازی سرینڈر کرتے ہوئے

یہ پوچھے جانے پر کہ پاکستانیوں کے پاس ڈھاکہ کا تحفظ کرنے کے لیے فوجی تھے تب بھی انھوں نے ہتھیار کیوں ڈالے، جنرل جیکب نے حمودد الرحمن کمیشن کی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جب جنرل نیازی سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس ڈھاکہ میں 26400 فوجی تھے جبکہ بھارت کے پاس صرف تین ہزار آپ کم سے کم دو ہفتے اور لڑ سکتے تھے۔ سکیورٹی کونسل کا اجلاس جاری تھا، اگر آپ ایک دن اور لڑ پاتے تو بھارت کو شاید واپس جانا پڑتا تو پھر آپ نے ایک شرمناک شکست اور بغیر کسی شرط کے ہتھیار ڈالنا کیوں منظور کیا۔ اس پر نیازی کا جواب تھا کہ مجھے ایسا کرنے کے لیے جنرل جیکب نے مجبور کیا تھا۔ نیازی کی یہ بات بالکل غلط تھی اور کمیشن نے نیازی کو قصور وار ٹھہرایا 16 ڈسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد ملک بن گیا۔

فوجیوں کی رہائی

[ترمیم]
ذو الفقار علی بھٹو

جب دنیا کی سب سے بڑی اور بہادر پاکستانی فوج کے جنرل نے ہتھیار ڈال دیے۔ جو ایک لاکھ باقاعدہ اور پچاس ہزار سے زائد نیم فوجی دستوں سمیت بھارتی جنرل کے سامنے شیر بنگلہ اسٹیڈیم میں ہتھیار ڈالنے کے معاہدہ پر دستخط کیے۔اقوام عالم کی تاریخ میں دنیا کی کسی فوج کے اتنی بڑی تعداد نے سرنڈر نہیں کیا۔بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کی رہائی کشمیر کو دو طرفہ تنازع قرار دینے کی مانگ کر دی اخر ذو الفقار علی بھٹو نے انڈیا کی بات مانتے ہوئے شملہ ماہدہ پر دستخط کر کے کشمیر کی قیمت پر ان فوجیوں کو رہا تو کرا دیا۔۔ لیکن اسی بہادر فوج نے پھر ذو الفقار علی بھٹو کو ہی پھانسی پہ چڑھا دیا۔دنیا کے کتنے ہی ملکوں نے بنگلہ دیش کو یکدم ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ لیکن مشرقی پاکستان کے علاحدہ اور ان کا بنگلہ دیش بننا، مغربی پاکستان کے محب وطن لوگوں کے لیے بڑا المیہ تھا۔ جن کو پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سانحہ اور پاکستان کی وحدت خلاف ایک شدید وار قرار دیا۔ اس لیے پاکستان کی عوام کو ایسا دکھ دیا کہ اس کی تکلیف آج بھی محسوس ہو تی ہے۔ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس 22سے 24 فروری پر 1974ء میں لاہور کے شہر میں منعقد ہوئی۔ جس میں 40مسلم ملکوں کے وفد نے شرکت کی۔ پاکستان کے لیے وہی اہم واقعہ تھا۔ جب بڑے اسلامی ملکوں کے سربراہان نے حصہ لیا۔ یہ پہلی بار جب اسلامی بھائی چارے اور دوستی کا روح پرور نظارہ دیکھنے میں آیا۔ سربراہی کانفرنس میں مسلم دنیا کے درپیش کتنے ہی مسئلے زیرِ غور آئے۔ اخوت اور بھائی چارے کو محسوس کرتے ہوئے بنگلہ دیش کو اس سربراہی کانفرنس میں مدعو کیا گیا۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا اور شیخ مجیب الرحمان کی شاندار ضیافت کی۔

مشرقی پاکستان کے گورنر

[ترمیم]
دور گورنر مشرقی پاکستان
15 اگست 1947ء - 5 اپریل 1950ء سر فریڈرک بورن
5 اپریل 1950ء - اکتوبر 1952ء سر فیروز خان نون
اکتوبر 1952ء - 3 اپریل 1953ء عبد الرحمان صدیقی
4 اپریل 1953ء - 25 اپریل 1954ء چوہدری خلیق الزماں
26 اپریل 1954ء - 20 ستمبر 1954ء میجر جنرل اسکندر مرزا
21 ستمبر 1954ء - 21 دسمبر 1954ء تھامس سوبرٹ ایلس
22 دسمبر 1954ء - 13 جون 1955ء جسٹس شہاب الدین
14 جون 1955 - 9 مارچ 1956 امیر الدین احمد
10 مارچ 1956 - 30 مارچ 1958 مولوی ابوالقاسم فضل الحق
1اپریل 1958 - 3 مئی 1958 حامد علی (قائم مقام)
3 مئی 1958 - 10 اکتوبر 1958 سلطان الدین احمد
10 اکتوبر 1958 - 11 اپریل 1960 ذاکر حسین
11 اپریل1960 - 11 مئی 1962 لیفٹیننٹ جنرل محمد اعظم خان
11 مئی 1962 - 25 اکتوبر 1962 غلام فاروق
25 اکتوبر1962 - 23 مارچ 1969 عبدالمنعم خان
23 مارچ 1969 - 25 مارچ 1969 مرزا نور الہدی
25مارچ 1969 - 23 اگست 1969 جنرل مظفر الدین (مارشل لا منتظم)
23 اگست 1969 - یکم ستمبر 1969 صاحبزادہ یعقوب خان (مارشل لا منتظم)
یکم ستمبر 1969 - 7 مارچ 1971 وائس ایڈمرل سید محمد احسن
7 مارچ 1971 - 31اگست 1971 لیفٹننٹ جنرل ٹکا خان (مارشل لا منتظم)
31اگست 1971 - 14 دسمبر 1971 ڈاکٹر عبدالمطلب ملک
14 دسمبر 1971 - 16 دسمبر 1971 اے کے نیازی (مارشل لا منتظم)
16 دسمبر 1971 صوبہ مشرقی پاکستان کو ختم کر دیا گیا

مشرقی پاکستان کے وزرائے اعلیٰ

[ترمیم]
دور وزیر اعلیٰ مشرقی پاکستان سیاسی جماعت
15 اگست 1947 - 15 ستمبر 1948 خواجہ ناظم الدین
16 ستمبر 1948 - اپریل 1954 نور الامین
اپریل 1954 - مئی 1956 مولوی ابوالقاسم فضل الحق
جون 1956 - اگست 1956 ابو حسین سرکار کرشک سرامک پارٹی
ستمبر 1956 - مارچ 1958 عطاء الرحمن خان عوامی لیگ
مارچ 1958 ابو حسین سرکار کرشک سرامک پارٹی
مارچ 1958 – 18 جون 1958 عطاء الرحمن خان عوامی لیگ
18 جون 1958 – 22جون 1958 ابو حسین سرکار کرشک سرامک پارٹی
22 جون 1958 – 25 اگست 1958 گورنر راج
25 اگست 1958 – 7 اکتوبر 1958 عطاء الرحمن خان عوامی لیگ
7 اکتوبر 1958 عہدہ ختم کر دیا گیا
16 دسمبر 1971 صوبہ مشرقی پاکستان ختم کر دیا گیا
 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔