نظریۂ عدد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اصطلاح term

اعداد
صحیح اعداد
اولی عدد
حساب
حسابی ہندسہ
تفاعل
بیصوی منحنی
تقسیمی
عاد اعظم
صحیح اعدادی تجزی
کامل اعداد
مطابقت
ضربی تفاعل
صحیح عدد متوالیہ
عاملیہ
حسابان
مختلط تحلیل
اولیٰ عدد قضیہ
ناطق
جزر
ثابت قضیہ
تالیفیات
قرینہ
مرغولہ

Number
Integer
Prime Number
Arithmetic
Arithmetic Geometry
Function
Elliptic Curves
Divisibility
Greatest Common Divisor
Integer Factorization
Perfect Number
Modular Arithmetic
Multiplicative Function
Integer Sequence
Factorial
Calculus
Complex Analysis
Prime Number Theorem
Rational
Roots of a Functions
Thabit Number
Combinatorics
Pattern
Spiral


نظریہ اعداد شاخ ہے خالص ریاضیات کی جو عاماً اعداد کے خاصوں سے متعلق ہے اور خاصاً صحیح اعداد (Integers) کے اور ان کے مطالعہ میں پیدا ہونے والے مسائل کی وسیع تر جماعتوں سے ۔ نظریہ اعداد کو ذیلی میدانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، استعمال ہونے والے طرائق کے مطابق اور تشویش کردہ سوالوں کی قسم کے لحاظ سے ۔

جب قدرتی اعداد کو مرغولہ (Spiral) میں سجایا جاتا ہے اور اولی عدد (Prime Number) کو تاکید دیتے ہوئے، تو ایک دساس قرینہ (Pattern) مشاہد ہوتا ہے، جسے عالم مرغولہ (Ulam spiral) کہتے ہیں۔

اصطلاحات حساب یا "حسابِ اعلٰی" کے اسم بھی نظریہ عدد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ قدرے پرانی اصطلاحات ہیں اور اب اتنی معروف نہیں جتنی کبھی پہلے تھیں۔ البتہ لفظ "حساب" بطور اسم صفت معروف ہے بجائے کہ زیادہ بوجھل فقرہ "عدد-نظریاتی" اور "کا حساب" بھی بجائے کہ " کا عدد نظریہ "، مثل حسابی ہندسہ (Arithmetic Geometry) حسابی دالہ (Function)، بیصوی منحنی کا حساب (Elliptic Curves Arithmetic)۔

میدان[ترمیم]

تاریخ[ترمیم]

یونانی نظریہ عدد[ترمیم]

اعداد کا مطالعہ یونانی ریاضیدانوں کا محبوب مشغلہ تھا۔ قدیم مصریوں سے ڈایوفینٹین مساوات کا علم یونانیوں کو ملا، جس کا نام یونانی ڈیوفانٹس (Diophantus) پر اب جانا جاتا ہے۔

برصغیری نظریہ عدد[ترمیم]

قدیم برصغیر میں ڈیوفنٹین مساوات کو وسیع مطالعہ ریاضیدانوں نے کیا۔ آریابھاٹا (499ء) نے لکیری ڈیوفنٹین مساوات جس کی ہیئت ہو کا جامع حل پیش کیا۔

اسلامی نظریہ عدد[ترمیم]

عرب مسلم ریاضیدانوں نے 9 ویں صدی سے نظریہ عدد میں گہری دلچسپی لینی شروع کی۔ ان ریاضیدانوں میں سے پہلا ثابت بن قرة تھا جس نے ایسا الخوارزم دریافت کیا جس سے محبانہ اعداد (Amicable Number) کے جوڑے ڈھونڈے جا سکتے تھے، یعنی ایسے اعداد کہ ہر عدد کے صالح قاسموں کی جمع دوسرے عدد کے برابر ہو۔ دسویں صدی میں ابن طاہر بغدادی نے ثابت بن قرہ کے مسئلہ کے تھوڑے انحراف پر نظر ڈالی۔

10 ویں صدی میں ابن ہیثم نے تمام جفت کامل اعداد (Perfect Number) (اعداد جو اپنے صالح قاسموں کی حاصل جمع ہوں) کی جماعت بندی کی جن کی ہیئت ہوتی ہے، جہاں اولی عدد ہے۔ ابن ہیثم نے یہ قضیہ بھی دیا کہ اگر p اولی عدد ہو تو عدد تقسیم ہوتا ہے p سے (اس قضیہ کو بعد میں یورپی عالموں نے اپنے ولسن کے نام سے منسوب کر دیا، اس قضیہ کا ثبوت 1771 میں لاگرینج نے دیا)۔

13ویں صدی میں فارس ریاضیدان الفارسی نے ثابت قضیہ (Thabit Number) کا نیا ثبوت پیش کیا، جس میں اس نے تجزی اور تالیفیات (Combinatorics) کے اہم نئے طرائق متعارف کرائے۔ اس کے علاوہ اس نے محبانہ اعداد جوڑا 17296, 18416 بتایا جو غلطی سے عائلر سے منسوب کیا جاتا ہے (غالبا ثابت کو بھی یہ جوڑا معلوم تھا)۔ محمد باقر یزدی نے محبانہ جوڑا 9,363,584 اور 9,437,056 دیا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]