عبد اللہ شاہ اصحابی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد اللہ شاہ اصحابی
معلومات شخصیت
مقام پیدائش بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1650ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹھٹہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مکلی قبرستان  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مغلیہ سلطنت  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد

خواجہ سید عبد اللہ شاہ خواجہ سید عبد القادر ثانی پیر کوٹی کے پوتے اورخواجہ سید محمود کے جانشین ہیں۔[1] سید عبد اللہ شاہ اصحابی کا شمار مکلی ٹھٹھہ کے عظیم بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ بغداد سے ٹھٹھہ میں تشریف لائے تھے۔ آپ شیخ عبد القادر جیلانی کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کا تین روزہ عرس ہر سال تیرہ شعبان کو شروع ہوتا ہے جس میں ہزاروں عقیدت مند شامل ہوتے ہیں۔

نام و نسب[ترمیم]

آپ کا اسم گرامی عبد اللہ حسنی ہے لیکن آپ پورے سندھ میں عبد اللہ شاہ اصحابی کے نام سے مشہور ہیں۔ [2]

سلسلہ نسب[ترمیم]

سید عبد اللہ شاہ اصحابی کا سلسلہ نسب شیخ عبد القادر جیلانی سے جا کر ملتا ہے اس لیے آپ حسنی حسینی سید ہیں۔ شیخ عبد القادر جیلانی تک سلسلہ نسب کچھ یوں ہے

عبد اللہ بن محمود بن عبد القادر بن عبد الباسط بن حسین بن احمد بن شرف الدین قاسم بن شرف الدین یحیی بن بدر الدین حسن بن علاؤ الدین بن شمس الدین بن شرف الدین یحیی بن شہاب الدین احمد بن ابو صالح النصر بن عبد الرزاق بن شیخ عبد القادر جیلانی۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

عبد اللہ شاہ اصحابی اور آپ کے تمام اجداد شیخ عبد القادر جیلانی تک اپنے اپنے والد ہی کے مرید ہوتے چلے آئے اس لیے آپ کا سلسلہ بیعت بعینہ سلسلہ نسب ہے۔ آپ نے سندھ و ہند میں سلسلہ قادریہ کی ترویج و اشاعت کا کام کیا۔ [3]

سندھ میں آمد[ترمیم]

عبد اللہ شاہ اصحابی بغداد (عراق) سے بذریعہ گجرات ٹھٹھہ تشریف لائے۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ سید منبہ، سید کمال اور سید شکراللہ شیرازی جیسے عظیم بزرگ موجود تھے۔ یہ عظیم ہستیاں مرزا شاہ بیگ ارغون کے دور حکومت میں ٹھٹھہ تشریف لائیں۔ [4]

تبلیغ اسلام[ترمیم]

سید عبد اللہ شاہ ہمیشہ یاد الہٰی زہد و عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ مخلوق خدا سے یکسو رہتے اور اگر لوگوں سے ملتے تو وعظ نصیحت کرتے اور گناہوں سے توبہ کرواتے تھے۔ آپ کی نظر میں شاہ و گدا، امیر وغریب سیاہ سپید سب برابر تھے۔ مخلوق خدا کے ساتھ محبت پیار کا خاص و صف تھا یہی وجہ تھی کہ اگر کوئی غیر مسلم بھی آپ کی صحبت میں آجاتا تو وہ آپ کے اخلاق حسنہ کا گرویدہ ہوکر آپ پر پروانہ وار قربان ہو جاتا۔ آپ کی استقامت فی الدین ، عالی ہمتی اور عزم راسخ کی بدولت سندھ کے علاقہ میں گمراہی اور ضلالت یکسر ہدایت و معروفت سے بدل گئی اور آپ نے قوت ولدیت محمد کی بدولت بھٹکی ہوئی روحوں کو کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی دولت سے سرشار فرمایا۔ آپ اور آپ کی اولاد امجاد نے بر صغیر پاک و ہند کے قریہ قریہ میں اسلام اور خاص طور پر سلسلہ قادریہ کی نشر و اشاعت کی۔

برہمنوں کا قبول اسلام[ترمیم]

ایک مرتبہ عبد اللہ اصحابی مکلی پر مصروف عبادت تھے کہ برہمنوں کا ایک گروہ ادھا اشنان کے لیے جارہا تھا۔ یہ لوگ آپ کے قریب ہی خیمہ زن ہوئے۔ آپ نے موقع مناسب سمجھ کر ان کے پاس تبلیغ اسلام کے لیے پہنچے اور اللہ کی توحید قدرت اور عظمت کا درس دیا۔ وہ بولے بابا آپ باتوں کو چھوڑو، اگر تمھارا رب واقعی کچھ کر سکتا ہے تو ایسا ہوکہ ہم سب سو جائیں تو تمام کے تمام واردھا اشنان کر لیں اور جب ہم اٹھیں تو ہم سب کے کپڑے بھیگے ہوئے ہوں۔ آپ نے فرمایا انشاء اللہ میرا رب ایسا ہی کرے گا۔ جب صبح ہوئی تو ان کے تمام مرد و زن بھیگے ہوئے اٹھے۔ ان لوگوں کو شاہ صاحب کی کرامت اورخدا کی توحید کا یقین ہو گیا۔ صبح کی نماز سے فارغ ہوکر آپ نے انھیں مشرف بہ اسلام کیا۔ انھوں نے تین باتوں کے لیے آپ سے استدعا کی، ایک تو یہ کہ ہماری اولاد کثرت سے ہو، دوسرے یہ کہ ہم تجارت میں کامیاب رہیں، تیسرے یہ کہ ہم میں حسن موجد رہے۔ آپ نے فرمایا کہ انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ آپ نے انھیں حکم دیا کہ تم جہاں بھی رہو مساجد آباد رکھو اور جہاں مسجد نہ ہو وہاں خوب عالی شان مسجد بناؤ۔ پھر آپ نے ان کے سردار کا نام عثمان رکھا اور اس کی تعلیم و تربیت بذات خود فرمائی۔ سردار کو خلافت سے بھی نوازا۔ اس خلیفہ کا مزار آپ کے قدموں میں ہے۔ یہ لوگ میمن کہلاتے ہیں۔

اصحابی لقب کی وجہ شہرت[ترمیم]

آپ کے لقب اصحابی کی وجہ شہرت کچھ یوں سید غلام صاحب نے اپنے رسالہ خوراق عادات میں درج کی ہے۔

  • جب سید عبد اللہ کو مرض وفات لاحق ہوا تو آپ نے حکم دیا کہ گھر میں فرش بچھایا جائے اور چپہ چپہ معطر کیا جائے۔ اس سب کے بعد سوائے اپنے دو بیٹوں کے سب کو باہر جانے کا حکم دے دیا۔ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مع کبار صحابہ و حسنین کریمین و غوث الاعظم بہ نفس نفیس اس جگہ تشریف لے آئیں۔ آپ ان حضرات کو دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور صلوٰۃ وسلام عرض کرنے لگے۔ پھر عرض پر دراز ہوئے کہ زہے قسمت کہ حضور نے اس غم زدہ غلام کو اپنے قدوم فیض لزوم سے مشف فرمایا۔ آپ نے فرمایا! بیٹا میں تیرے استقبال کے لیے آیا ہوں۔ سید عبد اللہ نے عرض کیا یہ غلام بھی آپ کی قدم بوسی کا مشتاق ہے مگر ان دونوں غلام زادوں کی طرف سے پریشان ہوں کہ ان کا کیا بنے گا۔ آپ نے فرمایا تسلی رکھو ہم ان کے کفیل ہیں، پھر آپ نے سید حسین کا ہاتھ پکڑ کر حضرت علی بن ابی طالب کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا کہ ان کی تربیت کرو ،یہ تمھارا بیٹا ہے۔ حضرت علی المرتضی نے ان کا ہاتھ غوث اعظم کے ہاتھ میں دے دیا۔ سید حسن کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے مجھ پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ مجھے اپنے آپ کی کوئی خبر نہ رہی یہاں تک کہ میرے والد وفات پا گئے اور ان کو دفن کر دیا گیا تین دن بعد جب مجھے ہوش آیا تو لوگوں نے بتایا کہ ہم نے ہر چند آپ کو ہوش میں لانے کی کوشش کی مگر آپ ہوش میں نہ آئے۔ ناچار والد صاحب کودفنا دیا گیا ہے۔ پھر آپ نے والد صاحب کے مزار پر جاکر دعا کی۔ اس واقعہ کو اتنی شہرت ہوئی کہ سید عبد اللہ کو لوگ اصحابی کہنے لگے۔ نیز یہ بھی منقول ہے جس حدیث کے بارے میں آپ کو کچھ تذبذب ہوتا تھا آپ حضورﷺ سے روبرو ہو کر اس کی تصحیح کرا لیتے تھے۔ [3]

وصال[ترمیم]

حضرت عبد اللہ شاہ اصحابیؒ کا وصال ایک روایت کے مطابق 1060ھ مطابق 1650ء میں ٹھٹھہ میں ہوا۔ آپ کی تدفین آپ کی قیام گاہ یا رہائش گاہ ہی میں ہوئی۔ جبکہ بعض مورخین نے اس تاریخ سے اختلاف بھی کیا ہے۔ درگاہ سے ملحقہ قدیمی مسجد پر لگے کتبے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 1093ھ بمطابق 1692ء میں تعمیر ہوئی تھی۔

اولاد[ترمیم]

عبد اللہ شاہ اصحابی نے ٹھٹھہ کے ایک سید گھرانے میں شادی کی جس سے دو صاحبزادگان تولد ہوئے جن کے نام یہ ہیں

  1. سید حسن شاہ
  2. سید محمد فاضل شاہ [2]

کرامت[ترمیم]

سید عبد اللہ شاہ اصحابی کا مزار سالہا سال گذر جانے کی وجہ سے قبر کہنگی کی وجہ سے شکستگی کے قریب تھی۔ اس عہد کے مشہور بزرگ شاہ حافظ اسد گجراتی کو شیخ عبد القادر جیلانی کا حکم ہوا کہ وہ ٹھٹھہ پہنچ کر عبد اللہ شاہ اصحابی کا مزار برآمد کرے۔ شاہ حافظ اسد گجراتی اس وقت گجرات میں تھے آپ نے اپنے خلیفہ ابو البرکات اور مرید شیخ محمد یعقوب کو ساتھ لے کر ٹھٹھہ پہنچے۔ وہاں سید علی ثانی شیرازی سے غوث پاک کا حکم اور اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ سید علی ثانی شیرازی نے یہ سن کر فوراً گردن جھکا لی اور مراقبہ میں مصروف ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد فرمایا کہ میں سید عبد اللہ کو اولیاء کی محفل کا صدر نشین دیکھا ہے۔ سب اسی وقت اٹھے اور مکلی کے قبرستان روانہ ہو گئے۔ سب نے مل کر عبد اللہ شاہ اصحابی کے مزار کو ٹھیک کیا۔ اس وقت شیخ محمد یعقوب اور خلیفہ ابو البرکات پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے، شاہ حافظ اسد گجراتی اور سید علی ثانی شیرازی ان پتھروں کو مزار پر لگاتے جاتے تھے۔ [5]


مزار[ترمیم]

سید عبد اللہ شاہ اصحابی کا مزار مکلی قبرستان میں مرجع خلائق ہے۔ اگرچہ مکلی میں بے شمار اولیاء اللہ کے مزارات ہیں مگر کراچی اور سندھ کے دوسرے حصوں سے قافلے کے قافلے اسی مزار کی زیارت کا عزم لے کر ٹھٹھہ حاضر ہوتے ہیں۔ یہ شیخ کی عظمت کا ثبوت ہے کہ متعدد بزرگوں اور عقیدت مندوں کی قبروں کے باعث آپ کے مزار کے گرد پورا قبرستان بن گیا ہے۔ اس وقت مزار کے قریب ایک پرانی مسجد ہے اس پر 1093ھ کا کتبہ موجود ہے کتبہ پر یہ شعر کندہ ہے۔

زہے فیض مسجد کہ ازیک دعا شود حاجت مستمدا روا

[3] مزار کی جدید عالی شان عمارت 1350ھ بمطابق 1931ء میں بنائی گئی۔ سارے مکلی میں یہی ایک عمارت نئی وضع کی نظر آتی ہے۔ [6]

عرس[ترمیم]

ہر سال شعبان کی 13 تاریخ سے سہ روزہ عرس شروع ہوتا ہے۔ سال بھر لاکھوں افراد آپ کے مزار پر بالخصوص ہر قمری ماہ کی پہلی جمعرات کو جسے نو چندی کہا جاتا ہے حاضری دیتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ وہ من کی مرادیں پاتے ہیں۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. جمال نقشندڈاکٹر محمد اسحاق قریشی صفحہ 355،جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد
  2. ^ ا ب پ "حضرت بابا عبداللہ شاہ اصحابیؒ"۔ www.nawaiwaqt.com.pk۔ 5 مئی، 2017 
  3. ^ ا ب پ www.ziaetaiba.com [[https://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-syed-abdullah-shah-ul-husna-baghdadi تحقق من قيمة |url= (معاونت)  مفقود أو فارغ |title= (معاونت)[مردہ ربط]
  4. تذکرہ صوفیائے سندھ مولف اعجاز الحق قدوسی صفحہ 123 اور 124
  5. تذکرہ صوفیائے سندھ مولف اعجاز الحق قدوسی صفحہ 125 اور 126
  6. تذکرہ صوفیائے سندھ مولف اعجاز الحق قدوسی صفحہ 125