باب:حدیث/منتخب محدث
ابو عیسیٰ محمد بن سورہ بن شداد (209ھ - 279ھ / 824ء - 892ء) امام ترمذی کے نام سے معروف ہیں، آپ کے حالات کے متعلق بہت کم علم ہے۔ کہتے ہیں کہ پیدائشی نابینا تھے۔ بعض کے بقول آخری عمر میں نابینا ہوگئے تھے۔ آپ نے امام احمد ابن حنبل ، امام بخاری اور امام ابو داؤد سے حدیث کا درس لیا اور پھر احادیث جمع کرنے کے لیے خراسان عراق اور حجاز گئے۔ شہر ترمذ میں ، جو بلخ سے کچھ فاصلے پر دریائے آمو کے کنارے واقع ہے ، انتقال کیا، آپ کی دو تصانیف ہم تک پہنچی ہیں۔ ایک آنحضرت کی سیرت ، جس کا نام شمائل ترمذی ہے۔ اور دوسری احادیث کا مجموعہ جو جامع ترمذی کے نام سے مشہور ہے۔ دونوں کتابیں بہت وقیع اور مستند ہیں۔ ان کے علاوہ انساب ، کنیت ، اور اسماء الرجال پر بھی آپ نے کچھ کام کیا تھا مگر یہ کتابیں اب نہیں ملتیں۔
استعمال
[ترمیم]ان ذیلی صفحات کا ڈیزائن وضع کاری وضع کاری پر موجود ہے۔
- اگلے دستیاب ذیلی صفحہ کے لیے ایک محدث شامل کریں.
- تجدید آخر = to new total for the randomizer above۔
محدثین کی فہرست
[ترمیم]
مالک بن انس بن مالک بن عمر (93ھ - 179ھ/ 711ء - 795ء) جن کا پورا نام مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر اصبحی ہے اور ابوعامر اصبحی دادا ہیں ان کے والد انس بن مالک ایک جلیل القدر صحابی ہیں جو سوائے جنگ بدر کے اور سب غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔مالک بن انس مسلمانوں میں "امام مالک" اور "شیخ الاسلام" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اہل سنت کی نظر میں وہ فقہ کے مستند ترین علماء میں سے ایک ہیں۔ امام شافعی ، جو نو برس تک امام مالک کے شاگرد رہے اور خود بھی ایک بہت بڑے عالم تھے ، نے ایک بار کہا کہ "علماء میں مالک ایک دمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہیں"۔ فقہ مالکی اہل سنت کے ان چار مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروان آج بھی بڑی تعداد میں ہیں۔یہ ایک مشہور مؤلف حدیث تھے ان کی مشہور تصنیف موطأ امام مالک ہے۔
ابو عبداللہ محمد بن اسماعيل بخاری/ خر بخاری (13 شوال 194ھ - 1 شوال 256ھ / 20 جولائی 810ء - 1 ستمبر 870ء) بخارا میں پیدا ہوئے گو ان کے والد بھی ایک محدث تھے اور امام مالک کے شاگرد تھے مگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانچ پڑتال، پھر ان کی جمع و ترتیب پر آپ کی مساعی جمیلہ کو آنے والی تمام مسلمان نسلیں خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی۔ آپ کا ظہور پر سرور عین اس قرآنی پیش گوئی کے مطابق ہوا جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ جمعہ میں فرمائی تھی۔ واخرین منھم لما یلحقوا بھم وھو العزیز الحکیم (سورہ الجمعہ 3) یعنی زمانہ رسالت کے بعد کچھ اور لوگ بھی وجود میں آئیں گے جو علوم کتاب وحکمت کے حامل ہوں گے حضرت امام بخاری یقینا ان ہی پاک نفوس کے سرخیل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ آل فارس میں سے کچھہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ اگر دینی علوم ثریا ستارے پر ہوں گے تو وہاں سے بھی وہ ان کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ امام بخاری کا درجہ احادیث کو چھان پھٹک کر ترتیب دینے میں اتنا اونچا ہے کہ بلا اختلاف الجامع الصحیح یعنی صحیح بخاری شریف کا درجہ صحت میں قرآن پاک کے بعد پہلا ہے۔
ابو الحسين مسلم بن حجاج بن مسلم بن ورد بن کوشاذ القشیری النیسابوری (206ھ - 261ھ/ 822ء - 875ء) امام مسلم کے نام سے معروف ہیں، محدثین کرام میں جو بلند پایہ رکھتے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ علمائے اسلام کا اگرچہ فیصلہ ہے کہ قرآن مجید کے بعد پہلا مرتبہ صحیح بخاری شریف کا ہے اور پھر صحیح مسلم شریف کا ، جس سے صحیح مسلم کے جامع امام مسلم کی عظمت کا کافی اندازا ہو جاتا ہے لیکن بعض علما کا خیال یہ بھی ہے کہ صحیح مسلم شریف کا درجہ اگر صحیح بخاری شریف سے بلند نہیں تو مساوی ضرور ہے کیونکہ صحیح مسلم شریف کی احادیث کافی تحقیقات کے بعد جمع کی گئی ہیں اور بعض اعتبارات سے تحقیقات میں امام مسلم کا درجہ امام بخاری سے بڑھا ہوا ہے۔ بہر نوع امام مسلم کا پایہ محدثین کرام میں اس قدر بلند ہے کہ اس درجہ پر امام بخاری کے سوا کوئی دوسرا محدث نہیں پہنچا اور ان کی کتاب صحیح مسلم شریف اس قدر بلند پایہ کتاب ہے کہ صحیح بخاری کے سوا کوئی کتاب اس کے سامنے نہیں رکھی جا سکتی۔
ابو عیسیٰ محمد بن سورہ بن شداد (209ھ - 279ھ / 824ء - 892ء) امام ترمذی کے نام سے معروف ہیں، آپ کے حالات کے متعلق بہت کم علم ہے۔ کہتے ہیں کہ پیدائشی نابینا تھے۔ بعض کے بقول آخری عمر میں نابینا ہوگئے تھے۔ آپ نے امام احمد ابن حنبل ، امام بخاری اور امام ابو داؤد سے حدیث کا درس لیا اور پھر احادیث جمع کرنے کے لیے خراسان عراق اور حجاز گئے۔ شہر ترمذ میں ، جو بلخ سے کچھ فاصلے پر دریائے آمو کے کنارے واقع ہے ، انتقال کیا، آپ کی دو تصانیف ہم تک پہنچی ہیں۔ ایک آنحضرت کی سیرت ، جس کا نام شمائل ترمذی ہے۔ اور دوسری احادیث کا مجموعہ جو جامع ترمذی کے نام سے مشہور ہے۔ دونوں کتابیں بہت وقیع اور مستند ہیں۔ ان کے علاوہ انساب ، کنیت ، اور اسماء الرجال پر بھی آپ نے کچھ کام کیا تھا مگر یہ کتابیں اب نہیں ملتیں۔
ابو عبداللہ احمد بن محمد ابن حنبل الشیبانی الذہلی (164ھ -241ھ / 780ء - 855ء) امام حنبل کے نام سے معروف ہیں، اپنے دور کے بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ آپ امام شافعی کے شاگرد ہیں۔ اپنے زمانہ کے مشہور علمائے حدیث میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے (مسند) کے نام سے حدیث کی کتاب تالیف کی جس میں تقریباً چالیس ہزار احادیث ہیں۔ امام شافعی کی طرح امام احمد بن حنبل کی مالی حالت بھی کمزور تھی۔ لوگ انہیں بے شمار تحائف اور ہدیہ پیش کرتے لیکن آپ اپنے اوپر اس میں سے کچھ بھی نہ صرف کرتے سب کچھ بانٹ دیتے۔ احمد بن حنبل کی عمر کا ایک طویل حصہ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں بسر ہوا۔ پاؤں میں بیڑیاں پڑی رہتیں، طرح طرح کی اذیتیں دی جاتیں تاکہ آپ کسی طرح خلق قرآن کے قائل ہو جائیں لیکن وہ عزم و ایمان کا ہمالہ ایک انچ اپنے مقام سے نہ سرکا۔ حق پہ جیا اور حق پہ وفات پائی۔
ابو عبد الرحمن محمد بن الحاج نوح بن نجاتی بن آدم الاشقودری الالبانی الارنووطی (1332ھ - 1420ھ / 1914ء - 1999ء) عالمِ اسلام کےایک نامور محدث تھے اور چودہویں صدی میں علم حدیث اورجرح وتعدیل کےامام تھے۔آپ تعلیم کےساتھ مزدوری بھی کرتےرہےاور تقریباََ 2سال تکبڑھئی کا کام کیا اور اس کےبعد والد صاحب کے ساتھ ان کی دکان پرگھڑی سازی کاکام کرتےرہے۔ آپ کےوالدبذات خودبہت بڑےگھڑی سازتھے۔ بواسماء شیخ حسن عوایشہ کی سند سےشیخ البانی کی تصانیف کی تعداد 66 ذکرکرتےہیں۔ جن میں سےچندذیل ہیں تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد، الروض النضیر فی ترتیب و تخریج الطبرانی الصغیر، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ، سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ، مختصر صحیح مسلم، الذب الاحمدعنمسندلامام احمد، شرح العقیدة الطحاویہ" (تحقیق و تخریج) اور صفة صلاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم (تالیف)۔
ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر بن دینار النسائی (215ھ - 303ھ / 829ء - 915ء) ابو عبدالرحمن کنیت ہے، لقب حافظ الحدیث ہے۔ نام: احمد بن شعیب بن یحییٰ یا علی بن سنان بن دینار نسائی خراسانی ہے۔ شہر مرو کے قریب ”نساء“ ترکمانستانمیں ولادت ہوئی، اسی کی طرف منسوب ہوکر ”نسائی“ اور کبھی ”نسوی“ کہلاتے ہیں۔ امام نسائی نے طلب حدیث کے لیے حجاز، عراق، شام، مصر وغیرہ کا سفر کیا اور اپنے دور کے مشائخ عظام سے استفادہ فرمایا۔ آپ کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ آپ نے 15 برس کی عمر ہی سے تحصیل علم کے لیے دور دراز علاقوں کا سفر کرنا شروع کر دیا تھا۔ آپ کے نامور اساتذہ کرام میں سے امام بخاری، امام ابوداؤد، امام احمد، امام قتیبہ بن سعید، وغیرہ معروف ہیں۔ اس کے علاوہ امام بخاری کے توسط سے آپ کے اساتذہ کا سلسلہ سراج الائمہ، امام اعظم ، سرتاج الاولیاء ابوحنیفہ بن نعمان بن ثابت سے بھی جا ملتا ہے، جس کا تذکرہ یہاں باعث طوالت ہو گا۔
ابو هُرَيْرَہ عبد الرحمن بن صخر الدوسی (متوفی سنہ 59ھ/678ء) محدث اعظم کے نام سے بھی معروف ہیں ابوہریرہ احادیث کثرت سے بیان کرتے تھے تو بعض لوگوں نے کہا کہ ابوہریرہ تو کثرت سے حدیثیں بیان کرتا ہے (جبکہ مہاجر اور انصار ان حدیثوں کو بیان نہیں کرتے) تو آپ نے ان لوگوں کو یہ جواب دیا میں مسکین آدمی تھا اور پیٹ بھرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہتا تھا۔لیکن مہاجرین بازاروں میں اپنے کاروبار میں مشغول رہتے تھے اور انصار اپنے اموال کی دیکھ بھال میں ۔میں ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میری بات ختم ہونے تک اپنی چادر کو پھیلالے پھر اپنے سے ملالے تو جو کچھ اس نے مجھ سے سنا اس کو کبھی نہیں بھولے گا۔میں نے اپنی چادر کو پھیلا لیا ۔ اس ذات کی قسم جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے پھر کبھی میں آپ کی کوئی حدیث جو آپ سے سنی تھی نہیں بھولا۔(صحیح بخاری ،حدیث 7354 )۔ ابوہریرہ کی کل روایات 5374 ہیں،جن میں سے 326 متفق علیہ یعنی بخاری اور مسلم دونوں میں ہیں۔ جو روایات صرف بخاری میں ہیں ان کی تعداد 93 اور جو صرف مسلم میں ہیں وہ 98 ہیں۔(سیر اعلام النبلاء جلد سوم، صفحہ 534)
عائِشہ بنت ابو بكر التیمیہ القُرَشِیہ(19 ق۔ھ - 604ء / 58ھ - 678ء) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا اِنتقال مدینہ منورہ میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جن سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے
ابو زكریا يحییٰ بن شرف الحزامی النووی الشافعی (631ھ - 676ھ / 1233ء - 1277ء) امام نووی کے نام سے معروف ہیں، يحيىٰ بن شرف نووی 19 سال کی عمر میں دمشق آئے ، وہاں مختلف اساتذہ سے علم حاصل کیا ، پھر مختلف مدارس کی مسند ہائے درس کو زینت بخشی ، تصنیف و تالیف کا نہایت وقیع کام کیا جن میں صحیح مسلم کی شرح ، تہذہب الاسماء و اللغات ، کتاب الاذکار اور ریاض الصالحین جیسی نہایت اہم کتابیں ہیں جن سے ہزاروں نہیں ، لاکھوں افراد فیضیاب ہوتے اور رہمنائی حاصل کرتے ہیں ۔ 28 سال دمشق میں گزرنے کے بعد امام نووی اپنے مولد نویٰ میں واپس تشریف لے گئے اور اسی سال 676ھ میں کچھ عرصہ بیمار رہ کر وفات پاگئے ۔ لیکن اپنی علمی خدمات کی وجہ سے علمی دنیا میں زندہ جاوید ہوگئے۔
ابو عبد الله سفیان بن سعید بن مسروق الثورى (97ھ - 161ھ / 716ء - 777ء) امام سفیان کے نام سے معروف ہیں، فقیہ و محدث جنہوں نے ضبط و روایت میں اس قدر شہرت پائی کہ شعبہ بن حجاج، سفیان بن عیینہ اور یحیی بن معین جیسے محدثین نے آپ کو امیر المومنین فی الحدیث کے لقب سے سرفراز کیا۔ ان کے زہد و ورع اور ثقاہت پر سب کا اتفاق ہے۔ امام سفیان ثوری کا تابعین کے ساتھ ساتھ ائمہ مجتہدین میں بھی شمار ہوتا ہے۔دوسری صدی کے بعد جب حدیث کا منتشر ذخیرہ بڑی حد تک جمع ہوگیا تومحدثین کے لیے لاکھوں کی تعداد میں روایات اور اُن کے سلسلہ اسناد کا یاد رکھنا آسان ہوگیا؛ لیکن جب یہ ذخیرہ منتشر تھا تو پھر دو چار ہزار حدیثوں کا بھی سینوں اور سفینوں میں محفوظ رکھنا مشکل تھا، اس لیے تبع تابعین کے عہد میں دس ہزار سے زیادہ کسی امام حدیث کوحدیثیں مشکل سے یاد تھیں؛ لیکن امام سفیان کواس حیثیت سے بھی امتیاز حاصل تھا کہ ان کی مرویات کی تعداد جو ان کے سینہ میں ہروقت محفوظ رہتی تھیں تیس ہزار تھی۔
ابو عبد الرحمن القرشی عبد الله بن عمر بن الخطاب (10 ق۔ھ - 73ھ) خلیفہ دوم عمر فاروق کے صاحبزادے تھے۔ امام عبداللہ حبر الامۃ (امت کا بڑا عالم) کے سے لقب مشہور ہیں۔ حدیث کے سات حافظوں میں ابوہریرہ کے بعد ان نمبر دوسرا ہے اسی وجہ سے ان کو کثرت سےروایت کرنے والا بھی کہا جاتا ہے۔امام عبد اللہ سے دو ہزار چھ سو تیس (2630 ) احادیث مروی ہیں۔