کتاب واعظ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اس کتاب واعظ میں وہ تمام باتیں اور نصیحتیں درج ہے جو ایک واعظ کسی مجمع سے خطاب کرتے ہوئے لوگوں کر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا نام ہی کتاب واعظ رکھ دیا گیا ہے۔ کتاب واعظ خیموں کی عید کے وقت لوگوں کے مجمع کو سنائی جاتی تھی۔ اس کی تصنیف کے حوالے سے علما کا کہنا ہے کہ اسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے دسویں صدی قبل مسیح میں تصنیف کیا۔ اس میں سلیمان کی بیان کی گئی امثال بھی بیان کی گئیں ہیں۔
اس کتاب میں زندگی اور موت کے موضوع پر جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ بہت ہی فلسفیانہ رنگ میں مگر واضح انداز میں ہے جس کی تشریح کرتے ہوئے علما کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس کتاب کے بہت سے حصوں اور باتوں میں ربط کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ کئی الفاظ نامانوس ہیں۔ انداز بیان بھی ایک سا نہیں لگتا بلکہ بدلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کتاب کا نچوڑ یہ ہے کہ زندگی کو دنیاوی اور نفسانی خواہشات کے تابع نہیں گذارنا چاہیے۔ اس ایسا ہے تو زندگی بے کار ہے۔ جب تک انسان خدا سے اپنا تعلق نہیں جوڑ لیتا اس کی زندگی فضول ہی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہا گیا ہے کہ زندگی میں کوئی بھی چیز انسان کو مطمئن نہیں کر سکتی۔ انسان کا انجام موت ہی ہے۔ اس کی منزل قبر ہی ہے۔
اگر زندگی اسی طرح گذر رہی ہے جیسے خدا نے کہا ہے تو ٹھیک ورنہ اس زندگی کا کوئی فائدہ نہیں۔ خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی کی آسائشوں کا حصول ہی زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔
اس کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

  1. پہلا وعظ: انسانی حکمت فضول ہے (باب 1 تاباب 2)
  2. دوسرا وعظ: زندگی کی مایوسیاں (باب 3 تا باب 5)
  3. تیسرا وعظ: دولت اور شہرت فضول ہیں(باب 6 تا باب باب 8)
  4. خدا زندگی کی غیر انصافی کا فیصلہ کرے گا (باب 9 تا باب 12)
  5. نتیجہ، ابدیت کی روشنی میں جینا (باب 12)