ہم جنس پسند اردو ادب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تعارف

ہم جنس پرستی یا ہم جنس پسندی اردو میں کبھی ایک اور کبھی دو الگ اصطلاح سمجھی جاتی ہیں۔ اس میں امرد پرستی (Pederasty) (جسے اغلام بازی یا بچہ بازی بھی کہا جاتا ہے) مرد کا مرد (Gay) یا عورت کا عورت (Lesbian) کے ساتھ جنسی میلان اور مخنث (Transgender) اور دو جنسی رحجان (Bisexuality) کی مختلف شاخیں نظر آتی ہیں۔ دراصل یہ سادہ جنسیت (Heterosexuality) (صنف مخالف) کا الٹ ہے۔ اس پر مختلف ادوار میں مختلف نوعیت کا تحریری کام کیا گیا ہے۔ جسے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

ادب[ترمیم]

ادب (Literature) عربی زبان کا لفظ ہے اور مختلف النوع مفہوم کا حامل ہے۔ ظہور اسلام سے قبل عربی زبان میں ضیافت اور مہمانی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ بعد میں ایک اور مفہوم بھی شامل ہوا جسے ہم مجموعی لحاظ سے شائستگی کہہ سکتے ہیں۔ عربوں کے نزدیک مہان نوازی لازمہ شرافت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ شائستگی، سلیقہ اور حسن سلوک بھی ادب کے معنوں میں داخل ہوئے۔ جو مہمان داری میں شائستہ ہوگا وہ عام زندگی میں بھی شائستہ ہوگا اس سے ادب کے لفظ میں شائستگی بھی آگئی۔ اس میں خوش بیانی بھی شامل ہے۔ اسلام سے قبل خوش بیانی کو اعلٰی ادب کہا جاتا تھا۔ گھلاوٹ، گداز، نرمی اور شائستگی یہ سب چیزیں ادب کا جزو بن گئیں۔ بنو امیہ کے زمانے میں بصرے اور کوفے میں زبان کے سرمایہ تحریر کو مزید فروغ حاصل ہوا۔ اسی زمانے میں گرامر اور صرف ونحو کی کتب لکھی گئیں تاکہ ادب میں صحت اندازبیان قائم رہے۔ جدید دور میں ادب کے معنی مخصوص قرار دیے گئے۔ ادب کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تخیل اور جذبات ہوں ورنہ ہر تحریری کارنامہ ادب کہلا سکتا ہے۔

خواہش تخلیق انسان کی فطرت ہے۔ اسی جبلی خواہش سے آرٹ پیدا ہوتا ہے۔ آرٹ اور دوسرے علوم میں یہی فرق ہے کہ اس میں کوئی مادی نفع مقصد نہیں ہوتا۔ یہ بے غرض مسرت ہے۔ ادب آرٹ کی ایک شاخ ہے جسے "فن لطیف" بھی کہہ سکتے ہیں۔ میتھو آرنلڈ کے نزدیک وہ تمام علم جو کتب کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، ادب کہلاتا ہے۔ کارڈ ڈینل نیومین کہتا ہے "انسانی افکار، خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے ادب کہلاتا ہے "۔ نارمن جودک کہتا ہے کہ "ادب مراد ہے اس تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔

یہ بھی قابل غور ہے کہ :’ اردو اور فارسی شاعری میں ہم جنس پرستی نہیں ؛بلکہ امرد پرستی ہے۔ [امردپرستی] کسی نوخیز لڑکے سے عشق اور محبت کے اظہار کو کہتے ہیں، جبکہ [ہم جنس پرستی] بالغ افراد کا بالغ سے عشق کہلاتی ہے۔ فارسی اور اردوشاعری نیز صوفیہ کے کلام میں جو کچھ بھی عشق و محبت کے عنصر پائے جاتے ہیں ، وہ امر د پرستی ہے۔کیوں کہ ایران اور افغانستان میں امرد پرستی کا چلن زیادہ تھا اور آج بھی یہ چیز پائی جاتی ہے۔ خانقاہوں ، مزاروں اور رئیسوں کی کوٹھیوں اور محلات میں نوخیز لڑکے ہی ہوا کرتے تھے۔جیسا کہ مرزا مظہر جانِ جاناں کی خانقاہ کی محفلوں میں عبد الحئی تاباں ہوا کرتے تھے۔ اس لیے ان دونوں شاعری پر امرد پرستی کا اثر زیادہ ہے۔ فی نفسہ امرد پرستی کو محبوب بھی سمجھا گیا ہے، جبکہ ہم جنس پرستی کو ممنوع سمجھا گیا ہے۔ سوائے میر تقی میر کے ، کیوں کہ میر تقی میر کے یہاں ہم جنس پرستی اور ’ہوس‘ بھی پائی جاتی ہے، میر تقی میر نے محبوب سے جس رشتے کا اظہار کیا ہے، وہ شہوت پر مبنی ہے، جبکہ فارسی شاعری اور صوفیہ کے کلام میں شہوت نہیں پائی جاتی ،بلکہ محبوب سے یک گونہ احترام ، مؤ دت ، پاس اور لحاظ کے جذبے کا اظہار کیا گیا ہے۔

ہم جنسیت اور اردو کلاسیکی ادب کی تاریخ[ترمیم]

ہندوستان پر بیرونی اثرات کا غلبہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ اس لیے دیگر تہذیبوں کے اثرات بھی ہندوستانی تہذیب پر پڑے ہیں جن میں نہ صرف رسم و رواج، مذہبی تہوار، لباس، نشست و برخاست، قیام و طعام شامل ہے بلکہ امرد پرستی کا بھی بیرونی حملہ آوروں (تیموری اور افغان سلاطین) کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

بات اردو شاعری کی ہو تو اردو شاعری فارسی کی مرہون منت ہے۔ فارسی مضامین، تراکیب، تشبیہات، استعارات اور محاورات کثرت سے اردو میں داخل ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا آزاد آب حیات میں لکھتے ہیں۔

”خیالات میں اکثر ان داستانوں یا قصوں کے اشارے بھی آ گئے ہیں جو خاص ملک فارس سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلا بجائے عورت کے لڑکوں کا عشق، ان کے خط کی تعریف، شمشاد، نرگس، سنبل، بنفشہ ، موے کمر، قد، سرو وغیرہ کی تشبیہات، لیلیٰ شیریں گل سرو وغیرہ کا حسن، مجنوں فرہاد بلبل و قمری، پروانہ کا عشق، فانوس کا برقع، غازہ اور گلگونہ، مانی و بہزاد کی مصوری، رستم و اسفند یار کی بہادری، زحل کی نحوست، سہیل یمن کی رنگ افشانی، مشاہیر فارس و یونان اور عرب کے قصے، راہ ہفتخواں، کوہ الوند، کوئے بے ستون، جوئے شیر، قصر شیرین، جیحوں سیحوں وغیرہ وغیرہ“


مولانا آزاد کے اس قول سے معلوم یہ ہوا کہ اردو ادب میں ’لڑکوں سے محبت‘ بھی فارسی ادب سے درآمد ہے۔ مولانا حالی بھی اردو کی پہلی تنقید، اپنی شہرہ آفاق کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری“ میں فارسی شاعری کا مثالی محبوب مرد ہی کو قرار دے چکے ہیں۔

نامور اردو نقاد سید علی عباس جلالپوری بھی اس حوالے سے لکھتے ہیں:

’’فارسی غزل کا مثالی محبوب مرد ہی ہے۔ سلاطین و امرا خوبصورت لڑکوں کو پاس بٹھاتے اور برملا ان سے عشق کا اظہار کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوخیز خوش گل امرد صوفیہ کی خانقاہوں اور شاعروں کے دیوان خانوں کی زینت سمجھے جاتے تھے۔‘‘

ظہیر الدین بابر جیسا عظیم بادشاہ بھی اپنی خودنوشت تزک بابری میں اپنی ہمجنسیت کے واقعات بیان کرتے ہیں۔

تاہم يہ بات ہميں سمجھ لينا چاہيے كہ اردو شاعرى ہو يا پھر فارسى شاعرى ، ا ن دونوں زبانوں كى شاعرى ميں محبوب يعنى امرد كے ساتھ احترام ، حسن سلوك اور مؤدت كا رويہ ہى اختيار كيا گيا ہے۔ اردو زبان كے كچھ شاعروں كو چھوڑ ديں تو يہ بات سامنے آتى ہے كہ ہوس يا جنسى شہوت كے بجائے احترام اورحسن عقيدت كا اظہار ہوتا ہے۔

جب ہم صوفیہ کے کلام کا مشاہدہ کرتے ہیں،تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے کلام میں بھی مجازی طور پر امرد پرستی کی بھر مار ہے۔ چونکہ اردو زبان فارسی سے در آمد ہے، بایں علت فارسی اثرات بھی اردو میں پائے جاتے ہیں۔ چونکہ خود تصوف بھی بر صغیر میں ایران و افغانستان سے آیا ہے۔ اس لیے اس تصوف پر بھی امرد پرستی کاعکس نظر آتاہے، لیکن اسے مریدوں اور غالی عقیدت مندوں کی طرف سے ”مجاز“ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے، اس ضمن میں کئی نام لیے جا سکتے ہیں، جیسے امیر خسرو ، مرزا مظہر جانِ جاناں ، شا ہ نیاز بریلوی ، وغیرہ ۔

شاہ نياز احمد كى غزل كے دو شعر:

جسے ذات بیرنگ و بے چوں کہیں ہم

بہر رنگ جلوہ کناں دیکھتا ہوں

نیازؔ اب ہوا ناتوانی سے تو پیر

ولے عشق تیرا جواں دیکھتا ہوں


ہم جنسیت اور اردو شعرا[ترمیم]

ابو نواس، عمر خیام، حافظ شیرازی جیسے عربی فارسی شعرا پر امرد پرست ہونے کا الزام اکثر لگتا رہا ہے۔ اردو میں شاہ مبارک آبرو، شرف الدین مضمون، شاکر ناجی ، خان آرزو، میر تقی میر سے امام بخش ناسخ تک کئی کلاسیکل شعرا اس الزام سے محفوظ نہ رہے۔ ان کے کلام میں جابجا اس نوعیت کا کلام موجود ہے۔ جن کی چند جھلکیاں ہم ملاحظہ کرتے ہیں۔

میر تقی میرؔ (1723- 1810) اردو غزل کے بادشاہ، ریختہ کے استاد میر تقی میرؔ، جن کو خدائے سخن کا لقب دیا جاتا ہے، نے 6 دیوانوں میں 13,590 اشعار تحریر کیے جن میں 86 فیصد شعروں میں معشوق کی جنس مرد ہے، لونڈا، طفل یا نونہال۔ لڑکے یا لونڈے کے حسن کے قصے اور طرحداریوں کے افسانے اس کے خال و خد سے لے کر عشوہ طرازیوں تک چلے جاتے ہیں۔

سانچہ:نمونہ کلام کا اختتام میر کا یہ شعر تو ضرب المثل بن گیا ہے۔
کیفیتیں عطار کے لونڈے میں بہت ہیں اس نسخے کی کوئی نہ رہی کوئی دوا یاد
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جن کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

چہرے پر ہلکے ہلکے روئیں آنے کو خط آنا، سبز یا زمرد کہتے ہیں۔ اس کو بھی ان شاعرانِ عظیم نے سو طرح کے مضمون سے باندھا ہے۔

وہ جو عالم اس کے اوپر تھا وہ خط نے کھو دیا مبتلا ہے اِس بلا میں میرؔ اک عالم ہنوز

کیا حیرت انگیز دعویٰ ہے استاذ الشعراء میر تقی میرؔ کا۔

ترک بچے سے عشق کیا تھا ریختے کیا کیا ہم نے کہے رفتہ رفتہ ہندوستان سے شعر مرا ایران گیا


شیخ شرف الدین مضمون:

دول کے شاعر شیخ شرف الدین مضمون لکھتے ہیں:

خط آگیا ہے اس کے، مری ہے سفید ریش کرتا ہے اب تلک وہ ملنے میں شام و صبح

(مفہوم : میرے اس محبوب کے چہرے پر بھی خط آ گیا ہے جبکہ میری داڑھی سفید ہو چکی ہے۔ لیکن وہ اب بھی ساری رات مجھ سے ملتا ہے۔)

محمد شاکر ناجی (1690- 1744)

شیخ صاحب کے ہمعصر شاکر ناجی فرماتے ہیں۔

رکھے اس لالچی لڑکے کو کوئی کب تلک بہلا چلی جاتی ہے فرمائش کھبی یہ لا کھبی وہ لا


نجم الدین شاہ مبارک آبرو (وفات 1730)

مبارک آبرو لکھتے ہیں۔

عارض کہ آئینے پہ تمنا کے سبز و خط طوطی اگر جو دیکھے گلزار بھول جاوے

سراج الدین خان آرزو (1687 - 1756)

خان آرزو کے ایک شاگرد جس کا چہرہ نمک حسن سے نمکین تھا۔ وہ کھبی غیر حاضر رہتا تو زبردستی بلا کر پاس بٹھاتے۔

آرزو کا فی البدیہہ کہا ہوا شعر :

یہ ناز یہ غرور لڑکپن میں تو نہ تھا کیا تم جواں ہو کہ بڑے آدمی ہوئے

میر عبد الحئی تاباں (1715 - 1749)

میر عبد الحئی تاباں بھی انھیں معاصر میں سے تھے۔ ان کے بارے روایت ہے کہ خوبصورتی کا عالم یہ تھا کہ بادشاہ وقت دیدار کے لیے خود تشریف لاتے۔


مظفر علی اسیرؔ (1800 - 1882)

خط نمودار ہوا، وصل کی راتیں آئیں جن کا اندیشہ تھا منہ پر وہی باتیں آئیں

سید انشاء اللہ خان انشا (1752-1817)

مختلف مزاج کے حامل اردوہیں : شاعر انشاء اللہ خان اس دور کے راجا کا پردہ بھی چاک کر دیتے ہیں۔ راجا اس درجہ پہنچا ہوا ہو تو عوام کی کیا حالت۔

راجا جی ایک جوگی کے چیلے پہ غش ہے آپ عاشق ہوئے ہیں واہ عجب لنڈ منڈ پر

امام بخش ناسخ (1772-1837)

دبستانِ لکھنؤ کے نامور شاعر ناسخ کلام کرتے ہیں:

استرا منہ پہ جو پھرنے نہیں دیتا ہے بجا محو دیں دار سے کیوں کر خط قراں ہوتا


خواجہ حیدر علی اتش (1778-1848)

عَلمِ دبستانِ لکھنؤ خواجہ حیدر علی آتش کہتے ہیں۔

چار ابرو میں تری حیراں ہے سارے خوش نویس کس قلم کا قطعہ ہے یہ کاتب تقدیر کا

محاورے میں چار ابرو کا لفظ بغیر صفائی کے نہیں آتا۔ جس سے یہ مراد کہ ابرو اور داڑھی، بھنوئیں اور مونچھ کے بال۔

ایک اور صاف شعر ملاحظہ ہو۔

"
اے خط اس کے گورے گالوں پہ تو نے یہ کیا کیا چاندنی راتیں یکایک ہوگئیں اندھیاریاں

فراق گورکھپوری (رگھوپتی سہائے) (1896-1982)

ہندو اردو شاعر فراق تو یہاں تک رقمطراز ہوئے۔

وے نہیں تو انھوں کا بھائی اور عشق کرنے کی کیا مناہی ہے

(یاد رہے کہتے ہیں کہ فراقؔ گھورکھپوری کی ہم جنسیت کی وجہ سے اس کے بیٹے نے خود کشی کر لی تھی کہ اس کا باپ اس کے دوستوں سے بھی باز نہ آتا تھا۔)


خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی (1315-1390) فارسی شاعر حافظ کا مشہور شعر تو ہر کوئی کس لذت سے سناتا ہے۔

اگر آں ترکِ شیرازی، بدست آرد دلِ مارا بخالِ ہندوش بخشم سمر قند و بخارا را

(مفہوم: اگر وہ شیراز کا ترک لڑکا مجھے مل جائے تو میں اس کی گال کے تِل کے بدلے سمر قند اور بخارا کے شہر اسے بخش دوں)


اور اسى طرح ايك نئے شاعر كا يہ شعر بھى ہم جنس پرستى كى طرف اشارہ كرتا ہے:

صدائيں ميں دوں اپنے يوسف كو پيہم

كہ آجا مرے ماہِ كنعاں تو آ جا

’’يوسف‘‘ سے شاعر نے اپنے محبوب كا استعارہ كيا ہے۔

اسى طرح:

جسے كہتے ہيں اہل ظاہر تجلى

اسے ميں بصورت بتاں ديكھتا ہوں

اس شعر ميں شاعر تعلى اختيار كرتے ہوئے محبوب كى شكل و صورت ميں تجلى ملاحظہ كر رہا ہے۔

ہم جنس پسندی اور جدید دور اردو لکھاری[ترمیم]

سعادت حسن منٹو کا ایک افسانہ ”دودا خان“ ہے۔ جس میں ہم جنس پرست اور دو جنس پرست کرداروں کا تعلق دکھایا گیا ہے۔ اگرچہ ساری کہانی منٹو کی روایتی کہانیوں کی طرح مخصوص موضوع کی حامل ہے۔

دورِ جدید میں برصغیر میں بھی ہم جنس پسند ادب میں مختلف شخصوں نے طبع آزمائی کی۔ اگرچہ یہ یہاں معاشرتی و قانونی سطح پر ممنوع ہے۔ (جمہوریہ بھارت کی عدالت اعظمی ستمبر 2018 کو اس فعل ہم جنسی فعل کو قانونی قرار دے چکی ہے۔) اس لیے اس پر نا ہونے کے برابر ہی ادبی مواد شائع ہو سکا ہے۔

جدید دور میں عفتی نسیم (1948-2011) ایک پاکستانی نژاد امریکی اردو شاعر تھے۔ انکا ہم جنسی شاعرانہ کلام ’نرمان‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

بھارتی نژاد امریکی شہری پرویز شرما نے مسلم ہمجنس پرستوں کی زندگی پر پہلی بار ایک کتاب ”مکہ میں گناہگار“ لکھی جس کو اردو میں ترجمہ سے شائع کیا ج چکا ہے۔ شرما نے ”مکہ میں ایک گناہگار: ایک ہمجنس پرست مسلم کا دفاعی حج“ اور ”جہاد برائے محبت“ کے عنوان سے ملسم ہمجنسوں کی زندگی پر دستاویزی فلم بنانے کے حوالے سے عالمی پزیرائی حاصل کر چکے ہیں۔

معروف Facebook سماجی ویب اور دیگر مقامات پر صارفین ہم جنس مباشرت پر مبنی مواد ہی تلاش کیا کرتے تھے۔ انٹرنیٹ ویبز کے ذریعے ان کی رسائی ہم جنس فحش تصاویر، ویڈیوز تک ہونے لگی۔ پھر رومن اردو اور ہندی میں جذبات کو بھڑکانے فحش کہانیوں تک بات پہنچی۔ ان سب کہانیوں اور مواد کا ادب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

انھوں نے ہندوستانی (اردو، ہندی) میں ہم جنس پسند ادب میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا۔ عام نوجواں نسل اور پاکستان و ہندوستان کے دونوں جانب کے قارئین کی توجہ حاصل کرنے کی خاطر رومن رسم الخط اپنایا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ پاکستان میں اردو اور ہندوستان میں دیوناگری رسم الخط میں بھی ہم جنس ادب نے جگہ بنائی۔

لیکن آہستہ آہستہ ہم جنس طبقات سے ان لوگوں نے قدم رکھا جو اس طرح کے فحش مواد کو عام معاشرے میں ہم جنس طبقات کے خلاف بننے والی موجودہ سوچ کا سب سے بڑا سبب کہنے لگے۔ انھوں نے اس مواد سے دوری اختیار کی۔

انھوں نے ہندوستانی (اردو، ہندی) میں ہم جنس پسند ادب میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا۔ عام نوجواں نسل اور پاکستان و ہندوستان کے دونوں جانب کے قارئین کی توجہ حاصل کرنے کی خاطر رومن رسم الخط اپنایا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ پاکستان میں اردو اور ہندوستان میں دیوناگری رسم الخط میں بھی ہم جنس ادب نے جگہ بنائی۔

ہم جنس اردو ادب میں سب سے پہلے کس نے کام کیا، یہ تو حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ اولین تحریروں کے مصنفین میں زوہیب علی، نبیل احمد، اشعر چوہدری عادل علی جیسے قلمی نام ملتے ہیں۔ نبیل احمد کے علاوہ باقی سب کا تعلق پاکستان سے ہے۔ نبیل احمد کا تعلق بھارت سے ہے۔ تاہم يہ بات وثوق كے ساتھ كہى جاسكتى ہے كہ آج كے زمانے كى لكھاريوں ميں جنسى مغلوبيت زيادہ پائى جاتى ہے۔ كئى نئے شاعروں نے بھى اپنى شاعرى ميں اس عنصر كو راہ دى ہے۔

پاکستان میں سب سے پہلے اردو خط میں لکھی گئی ہمجنس ادبی تحریر ”یاقوت و زمرد“ ہے۔ جسے یاقوت نے قلم بند کیا ہے۔

ہم جنس پسند لکھاری

• اسد بلوچ

تحاریر

  1. Actually it's not a love story (2019
  2. محبت، مائی فٹ (2020)
  3. خدا کی بستی (2020)
  4. شجرِ ممنوعہ (2020)
  5. چکر ویو (2020)
  6. امانت (2020)
  7. حد (2020)
  8. ملالِ یار (2020)
  9. الجھن (2020)
  10. ٹین ایجر (2020)
  11. من و سلویٰ (2020)

• ارسل زیب

1. چار موسم ناچار موسم

2. بنجر


• اذلان شاہ

  1. عشق ممنوع (2016)
  2. اے دلِ ناداں (2017)
  3. پسِ پردہ (2017)
  4. سزا (2018-2019)

• اشعر چوہدری

1. ہم معصوم سے (2016)

2.

(A boy in the hurricane (2016

3. دل لگی (2016)

. ضد (2016-2017)

• عادل علی

1. یہ عشق (2016)

2. دل کی دنیا (2016)

3. تو میرا پیار ہے (2016)

4. میرا گمان (2017)

5. یہ میرا آسمان (2017)

6. میرا گمان 2 (2017)

7. احساس (2018)

8. گناہگار (2018)

• زری

  1. تم نہیں ملے تو ملال کیا (2017)
  2. ہجڑا (2017)
  3. حویلی (2018)
  4. الف (2019) نا مکمل

• اداس پرندہ


شہرِ قتل

• یاقوت

  1. یاقوت و زمرد
  2. نکلے تیری تلاش میں
  3. پارس پہیلی
  4. تیرے سنگ یار


• ترچ میر

  1. ہمارے کمروں میں حائل دیوار
  2. عبرت


• لوسیفر

عشق بے پروا (2016)


• میثم خان

خواب اور جگنو (2016)


• شاہ زیب خان

شریک محبت (2016)


• افنان شاہی

دشتِ محبت


• ذکی

ایک رشتۂ گمنام (2018)


• شانِ عالم

کافر (2019)


• عثمان خان

حذیفہ (2019)

تنقید[ترمیم]

کلاسیکل شاعری میں ”مذکر محبوب“

بعض ادبا یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اردو شاعری میں محبوب کے لیے اکثر مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے تو یہ تمام باتیں فارسی سے تعلق کے زمرے میں اردو میں آگئے اور یہاں بھی وہ وہی رہے جو تھے۔ یعنی کہ محبوب کے لیے مذکر صیغہ استعمال کرنے سے مراد عورت کے ذکر سے احتراز کرنا ہے، اسی لیے مجازاً لڑکا بول کر لڑکی ہی مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انہی کلاسیکی شعرا کے کلام میں جا بجا مجازاً لڑکے کی اصطلاح کو مکمل طور پر لڑکے کے طور پر ہی پیش کیا جاتا ہے، نا کہ مؤنث پر غلاف بنا کر۔

مولانا الطاف حسین حالی

مولانا حالی انہی شعرا کے بارے میں رقمطراز ہیں :


”جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے“ …


سماجی ذرائع ابلاغ کی برصغیر میں آمد پر جہاں دیگر پسے ہوئے اور دبائے گئے طبقات کو آزادی اظہارِ رائے و خیال کا موقع ملا۔ وہیں ہم جنس پسند طبقات بھی سامنے آئے اور اپنے جذبات، احساسات، حقوق اور مستقبل کے لیے آواز بلند کرنے لگے۔ مشرقی روایات کے حامل معاشرے نے ان کو اول تو مسترد کر دیا۔ یہاں تک کہ انتہائی قدامت پسند اور بنیاد پرست طبقات اسے اہلِ مغرب کی سازش قرار دیا کہ وہ اس طرح ہماری مذہبی و ثقافتی روایات سے تہذیبی تصادم کر رہے ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

ہم جنس پسندی

بیرونی روابط[ترمیم]

ریختہ۔ارگ کا مجموعۂ امرد پرستی https://www.rekhta.org/tags/amrad-parastii-shayari/couplets?lang=ur

ادب، امرد اور امان اللّٰہ https://www.punjnud.com/ViewPage.aspx?BookID=17128&BookPageID=396965&BookPageTitle=Adab%20Amard%20Aur%20Iman%20Allah[مردہ ربط]

اردو اور فارسی شاعری میں لونڈے کا تصور بقلم اوریا مقبول جان https://kalimajiz.blogspot.com/2016/05/?m=1

پارس پہیلی بقلم یاقوت https://www.facebook.com/212108146197950/posts/838482486893843/

’ٹین ایجر‘ بقلم اسد بلوچ https://www.facebook.com/111812590478270/posts/151402436519285/