ضلع بارخان
ضلع بارخان | |
---|---|
تاریخ تاسیس | 1991 |
نقشہ |
|
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان [1] |
دار الحکومت | بارکھان |
تقسیم اعلیٰ | ژوب ڈویژن |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 29°53′51″N 69°31′35″E / 29.8975°N 69.526388888889°E [2] |
رقبہ | 3514 مربع کلومیٹر |
بلندی | 1098 میٹر |
مزید معلومات | |
رمزِ ڈاک | 84400 |
قابل ذکر | |
جیو رمز | 6641912 |
درستی - ترمیم |
ضلع بارکھان پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ایک ضلع ہے۔ اس کے مشہور علاقوں میں بارکھان شامل ہے۔ اس کا نام باروخان کے نام پر ہے جو باروزئی خاندان کے جد تھے۔ 2005ء میں اس کی آبادی تقریباً 185000 کے لگ بھگ تھی۔ بارکھان اب ژوب ڈویژن کا ایک ضلع ہے اور بلوچستان کا انتہائی مشرقی ضلع کہلاتا ہے۔ ضلع بارکھان کل تین ہزار چارسو گیارہ کلومیٹر رقبے پر محیط ہے جبکہ آبادی تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار ہے۔ بارکھان کے شمال میں موسیٰ خیل اور لورالائی ، جنوب میں ضلع کوہلو اور ڈیر بگٹی اور مشرق میں صوبہ پنجاب کا شہر ڈیرہ غازی خان ہے۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت کھیتران بلوچ قبیلے پر مشتمل ہے۔ کھیتران قوم اپنی مخصوص بولی کھیترانی بولتے ہیں۔ ضلع بارکھان کا زیادہ تر علاقہ زرعی ہے اور ستر فیصد آبادی زراعت سے ہی منسلک ہے۔ لوگوں کا ذریعہ معاش مالداری اور زراعت ہی ہے۔ ضلع بارکھان بارہ یونین کونسل اور ایک تحصیل پر مشتمل ہے۔ بارکھان تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ علاقہ کبھی وسطی ایشیا سے ہندوستان کو ملانے کا آسان ترین راستہ ہوا کرتا تھا۔ بارکھان بھی قدیم ثقافتی ورثے کا گہوارہ ہے، یہاں کے طول و عرض میں قدیم ٹیلوں، کاریزات، قبرستان اور دیگر آثار ابھی تک موجود ہیں۔
باروخان سے بارکھان تک
[ترمیم]بعض روایات کے مطابق بارکھان کا نام ماضی میں باروخان تھا، اس کی توجیہ یہ ہے کہ مغل دور میں یہ علاقہ سبی کے زیر اثر تھا۔ سبی کے مغل حکمرانوں کا نامزد باروزئی گورنر بارو خان اس علاقہ سے مالیہ وصول کیا کرتا تھا۔ بارو خان باروزئی کی ہی وجہ سے اس علاقے کا نام باروخان مشہور ہوا جو بعد ازاں بارکھان کہلانے لگا۔
موسم
[ترمیم]یہاں کی آب و ہوا خوشگوار ہے اور مئی جون کے گرم مہینوں میں جنوبی پنجاب سے لوگ گرمی سے تنگ آ کر ضلع بارکھا ن کا رخ کرتے ہیں یہاں مون سون کی بارشوں کا تناسب 514.6 ملی لیٹر ہے۔ یہاں گرمیوں میں درجہ حرارت کم اور سردیوں میں کبھی کبھار نقطہ انجماد تک جا پہنچتا ہے۔ سردیوں میں پہاڑوں پر اور یونین کونسل بغاو میں کبھی کبھار برف باری بھی ہو جاتی ہے۔ موسم سرما میں کوئٹہ کی طرف سے آنے والی سرد اور خشک ہوائیں ضلع بارکھان کی سردی میں اضافہ کرتی ہیں اور یہی ہوائیں خشک موسم سرما کا باعث بھی بنتی ہیں۔
بارکھان کا تہذیبی و ثقافتی ورثہ
[ترمیم]بارکھان تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے جو وسطی ایشیا سے ہندوسستان کو ملانے کا آسان اور سہل زمینی راستہ تھا۔ اس راستے سے نہ صرف تجار لکہ فاتحین و جنگجوبھی گزرتے رہے ہیں جو دوران سفر یہاں قیام بھی کرتے تھے۔ لہذا یہاں انسانی آبادی کے آثار زمانہ قدیم سے ملتے ہیں۔ یقیناً یہاں ماضی میں بھی اچھی خاصی آبادی رہی ہوگی کہ جو آنے جانے والے مسافروں کے قیام وطعام کا بندوبست کرنے کی سکت رکھتی ہو گی۔ بلوچستان کے دیگر تاریخی مقامات کی طرح بارکھان کے حوالے سے بھی تحریری مواد نہیں ملتا۔ اس علاقے کا تاریخی کردار قومی سرمایے کے طور پر تحریر کرنے اور محفوظ کرنے کی ضرورت ہے.
سوران ایک مقبرہ
[ترمیم]ایک کتبہ خضدار کی یونین کونسل باغبانہ کے قریب لونڈو کے ٹیلے کے پاس ا یک پہاڑی پر کندہ ہے جبکہ دوسرا کتبہ یونین کونسل درہ، مولہ کے گاؤں پیر لاکھا میں تھا جسے وہاں سے غائب کر دیا گیا۔ سوران یونین کونسل ناہڑکوٹ میں واقع ایک مشہور و معروف مقام ہے اور اس کی وجہ شہرت اس کی قدیم تاریخ ہے جو مغل دور سے شروع ہوتی ہے۔ اس مقبرے کے بارے میں بعض مورخین نے اپنی کتب میں لکھا ہے کہ عہد جہانگیری یا اس سے بھی قبل اکبر کے دور حکومت میں مغل فوج کا ایک دستہ یا لشکر ہندوستان سے شہزادہ خسرو کی سالاری میں نکلا۔ انھوں نے سفر کے لیے بارکھان کے راستے کا نتخاب کیا۔ ڈیرہ غازی خان سے گزرنے کہ بعد ان کا ایک پڑاو موجودہ بارکھان میں ہوا جسے آئین اکبری کا مصنف جنجاہ یا جانجاہ تحریر کرتا ہے۔ یہاں قیام کے دوران شہزادہ خسرو کہ ایک معتمد خاص کی وفات ہوئی توشہزادہ موصوف نے انھیں وہیں دفنا دیا اور ان کا مقبرہ بھی تعمیر کروایا اور ساتھ ہی ایک مسجد بھی تعمیر کروائی۔ مورخین کے خیال کے مطابق بارکھان میں موجود سوران ہی وہ مقبرہ ہے جو شہزادہ خسرو نے اپنے معتمد خاص کی وفات پر تیار کرایا تھا۔ بعض روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ اس مقبرے میں ایک پتھر پرچند اشعار کندہ تھے جن کے مطالعے کے بعد ہی یہ بات واضع ہوئی کہ یہ مقبرہ واقعی شہزادہ خسرو کے کسی معتمد خاص کا تھا۔ اب وہ پتھر تو دستیاب نہیں ہے مگر جس لکھائی کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے بالکل اس سے ملتی جلتی دو تحریریں ضلع خضدار میں ملتی ہیں جو اکبر اعظم کے معتمد خاص اور بکھر اور سندھ میر معصوم البکھری سے منسوب ہیں۔ ان میں سے ایک کتبہ خضدار کی یونین کونسل باغبانہ کے قریب لونڈو کے ٹیلے کے پاس ا یک پہاڑی پر کندہ ہے جبکہ دوسرا کتبہ یونین کونسل درہ، مولہ کے گاؤں پیر لاکھا میں تھا جسے وہاں سے غائب کر دیا گیا۔ پیر لاکھا میں بھی ایک قدیم مقبرہ ہے جو میر معصوم کے کسی معتمد خاص سے منسوب ہے۔ یہاں میر مصوم نے پتھر پر کچھ اشعار کندہ کروا کے نصب کرا دیے تھے۔
تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں
[ترمیم]انتظامی طور پر اس کی تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں درج ذیل ہیں۔
دھماکا
[ترمیم]8 ستمبر 2006 ضلع کے شہر رکھنی میں زور دار دھماکے سے پانچ افراد ہلاک اور کم سے کم دس زخمی ہوئے
- ↑ "صفحہ ضلع بارخان في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 دسمبر 2024ء
- ↑ "صفحہ ضلع بارخان في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 دسمبر 2024ء