محمد حسن عسکری
محمد حسن عسکری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (عربی میں: محمد حسن عسكري) |
پیدائش | 5 نومبر 1919ء میرٹھ ، برطانوی ہند |
وفات | 18 جنوری 1978ء (59 سال) کراچی ، پاکستان |
مدفن | دارالعلوم کراچی |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | الہ آباد یونیورسٹی |
تعلیمی اسناد | ایم اے |
استاذ | کرار حسین ، فراق گورکھپوری |
پیشہ | ماہرِ لسانیات ، فلسفی ، ادبی نقاد ، مترجم ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، انگریزی |
ملازمت | آل انڈیا ریڈیو ، ذاکر حسین دہلی کالج ، میرٹھ کالج |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
محمد حسن عسکری (پیدائش: 5 نومبر 1919ء- وفات: 18 جنوری 1978ء) پاکستان کے نامور اردو زبان و ادب کے نامور نقاد، مترجم، افسانہ نگار اور انگریزی ادب کے استاد تھے۔ انھوں نے اپنے تنقیدی مضامین اور افسانوں میں جدید مغربی رجحانات کو اردو دان طبقے میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
حالات زندگی
[ترمیم]محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء کو سراوہ، میرٹھ، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔[1][2] ان اصل نام اظہار الحق تھا جبکہ محمد حسن عسکری کے والد کا نام محمد معین الحق تھا۔ وہ بلند شہر میں کورٹ آف وارڈز میں ملازم تھے۔ وہاں سے وہ والی شکار پور رگھوراج کے یہاں بطور اکاؤنٹنٹ چلے گئے جہاں انھوں نے 1945ء تک ملازمت کی۔ انھوں نے 1936ء میں مسلم ہائی اسکول بلند شہر سے میٹرک اور 1938ء میں میرٹھ کالج سے انٹر پاس کیا۔ الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے اور پھر 1942ء میں انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ اس یونیورسٹی میں انھوں نے فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا۔[3]
محمد حسن عسکری نے پہلی ملازمت آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں بطور اسکرپٹ رائٹر اختیار کی۔ اسی زمانے میں شاہد احمد دہلوی اور رسالہ ساقی سے ان کا تعلق قائم ہوا۔ 1941ء اور 1942ء میں بالترتیب کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین شائع ہوئے۔ 1943ء میں فراق گورکھپوری نے ساقی میں باتیں کے عنوان سے مستقل کالم لکھنا شروع کیا۔ جب فراق صاحب اس کالم سے دست کش ہو گئے تو دسمبر 1943ء سے یہ کالم عسکری صاحب لکھنے لگے، جنوری 1944ء میں اس کالم کا عنوان جھلکیاں رکھ دیا گیا۔ یہ کالم 1947ء کے فسادات کے تعطل کے علاوہ کم و بیش پابندی سے نومبر 1957ء تک چھپتا رہا۔ وہ کچھ دنوں تک اینگلو عربک کالج دہلی میں انگریزی کے استاد رہے۔ اس کے بعد میرٹھ چلے گئے جہاں وہ میرٹھ کالج میں انگریزی پڑھاتے رہے۔ 1947ء میں وہ قیام پاکستان کے بعد لاہور منتقل ہو گئے۔ وہاں انھوں نے سعادت حسن منٹو کے ساتھ مل کر مکتبہ جدید لاہور سے اردو ادب جاری کیا۔ صرف دو شمارے شائع ہو سکے۔ 1950ء میں وہ کراچی چلے گئے۔ وہاں ابتدا میں وہ فری لانس ادیب کے طور پر ترجمے اور طبع زاد تحریریں لکھتے رہے۔ جنوری سے جون 1950ء تک ماہ نو کراچی کے مدیر بھی رہے۔ پھر انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے ملحق کالج میں انگریزی کے استاد کے فرائض انجام دیے۔[3]
ادبی خدمات
[ترمیم]عسکری صاحب اردو کے ایک اہم افسانہ نگار تھے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ جزیرے 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے شائع ہوا۔ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعہ انسان اور آدمی اور ستارہ اور بادبان ان کی زندگی میں اور جھلکیاں، وقت کی راگنی اور جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔ اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ فرانسیسی ادب سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے جس کا ثبوت ان تراجم سے ملتا ہے جو انھوں نے گستاف فلابیر(Gustave Flaubert) کا ناول مادام بواری اور ستاں دال (Stendhal) کا ناول سرخ و سیاہ کے نام سے کیے ہیں۔ آخری دنوں میں عسکری صاحب مفتی محمد شفیع کی قرآن مجید کی تفسیر کا انگریزی زبان میں ترجمہ کر رہے تھے جن میں سے ایک جلد ہی مکمل ہو سکی۔[3]
تصانیف
[ترمیم]افسانوی مجموعے
[ترمیم]- قیامت، ہم رکاب آئے نہ آئی
- جزیرے
تنقید
[ترمیم]- انسان اور آدمی
- ستارہ اور بادبان
- جھلکیاں
- وقت کی راگنی
- جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ
تالیفات
[ترمیم]- میرا بہترین افسانہ
- میری بہتری نظم
تراجم
[ترمیم]- سرخ و سیاہ (ستاں دال ) (Stendhal) کے فرانسیسی ناول Le Rouge et le Noir کا براہِ راست ترجمہ
- موبی ڈک (ہرمن میلول ) ( Herman Melville) کے مشہور ناول Moby-Dick کا ترجمہ
- مادام بواری (گستاف فلابیر) (Gustav Flaubert) کے فرانسیسی ناول Madame Bovaryکا براہ راست ترجمہ
- آخری سلام (کرسٹوفر اِشروُڈ) (ـChristopher Isherwood)کے ناول Goodbye to Berlin کا ترجمہ
- Answer to Modernism (مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ’’ الانتباھات المفیدہ‘‘ کا انگریزی کا ترجمہ)
- Distribution of wealth in Islam (مفتی محمد شفیع عثمانی کی کتاب ’’اسلام میں تقسیمِ دولت‘‘ کا انگریزی ترجمہ)
- آخری عمر مفتی محمد شفیع عثمانی کی تفسیر معارف القرآن کا انگریزی زبان میں ترجمہ شروع کیا، ابھی سوا پارے کا ترجمہ ہی کر پائے تھے کہ وفات ہو گئی۔[4]
ناقدین کی آراء
[ترمیم]معروف نقاد ممتاز شیریں محمد حسن عسکری کے بارے میں کہتی ہیں کہ:
” | ہم عصر ادب پر اثر انداز ہونا اور اپنی تنقیدی فکر سے اپنے دور کے لکھنے والوں کو متاثر کرنا بڑی بات ہے۔ ہمارے ناقدوں میں سوائے عسکری صاحب کے شاید ہی کسی کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے[5]۔ | “ |
وفات
[ترمیم]محمد حسن عسکری 18 جنوری 1978ء کو کراچی میں وفات پا گئے۔ وہ دارالعلوم کراچی کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔[3][1][6]
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات ناموران پاکستان، لاہور، اردو سائنس بورڈ، لاہور، 2006ء، ص 724
- ↑ انعم طاہر، محمد حسن عسکری اور جدید ادبی شعور (پی ایچ ڈی مقالہ)، نگران ڈاکٹر محمد خان اشرف،شعبۂ اردو، جی سی یونیورسٹی، لاہور، ص 1
- ^ ا ب پ ت محمد حسن عسکری، پاکستانی کنیکشنز، برمنگھم برطانیہ[مردہ ربط]
- ↑ نقوش رفتگاں، مفتی محمد تقی عثمانی
- ↑ انعم طاہر، محمد حسن عسکری اور جدید ادبی شعور (پی ایچ ڈی مقالہ)، نگران ڈاکٹر محمد خان اشرف،شعبۂ اردو ، جی سی یونیورسٹی، لاہور، ص 498
- ↑ پروفیسر محمد اسلم، خفتگانِ کراچی، ادارہ تحقیقات پاکستان، دانشگاہ پنجاب لاہور، نومبر 1991، ص 50
- 1919ء کی پیدائشیں
- 5 نومبر کی پیدائشیں
- 1978ء کی وفیات
- 18 جنوری کی وفیات
- کراچی میں وفات پانے والی شخصیات
- پاکستان میں اموات
- اردو ادبی ناقد
- اردو تنقید نگار
- اردو غیر افسانوی مصنفین
- اردو کے ماہر لسانیات
- اردو محققین
- انگریزی سے اردو مترجمین
- بیسویں صدی کے فلسفی
- بیسویں صدی کے ماہرین لسانیات
- بیسویں صدی کے مترجمین
- پاکستانی ادبی نقاد
- پاکستانی افسانہ نگار
- پاکستانی علما
- پاکستانی فلسفی
- پاکستانی ماہر لسانیات
- پاکستانی ماہرین تعلیم
- پاکستانی مترجمین
- پاکستانی محققین
- پاکستانی مسلم شخصیات
- پاکستانی مصنفین
- پاکستانی معلمین
- روسی سے اردو مترجمین
- ضلع بلند شہر کی شخصیات
- فاضل جامعہ الہٰ آباد
- فرانسیسی سے اردو مترجمین
- کراچی کے مصنفین
- مہاجر شخصیات
- اردو مصنفین
- بیسویں صدی کے پاکستانی فلسفی
- اسلامی اشتراکیت پسند
- کراچی کی شخصیات