فضل الرحمٰن (سیاست دان)
فضل الرحمٰن (سیاست دان) | |
---|---|
(پشتو میں: فضل الرحمٰن) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 19 جون 1953ء (71 سال)[1] عبدول خیل |
شہریت | پاکستان |
جماعت | جمعیت علمائے اسلام جمیعت علمائے اسلام |
اولاد | اسد محمود ، اسجد محمود |
والد | مفتی محمود |
بہن/بھائی | عطاالرحمان ، لطیف الرحمان ، ضیاءالرحمن |
مناصب | |
رکن چودہویں قومی اسمبلی پاکستان | |
رکن مدت 5 جون 2013 – 31 مئی 2018 |
|
حلقہ انتخاب | حلقہ این اے۔24 |
پارلیمانی مدت | چودہویں قومی اسمبلی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعۂ پشاور جامعہ الازہر |
استاذ | مولانا حسن جان ، سيّد شير على شاه |
پیشہ | سیاست دان |
مادری زبان | اردو |
پیشہ ورانہ زبان | پشتو ، اردو ، عربی ، انگریزی |
درستی - ترمیم |
مولانا فضل الرحمن (قائدِ جمعیت علما اسلام) پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی امیر ہیں اور اپوزیشن تحریک (موجودہ حکومتی اتحادی جماعتوں)پاکستان ڈیمو کریٹ مومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ ہیں۔ ہندوستان میں بنائے کے دیوبندی اسلام سے انکا تعلق ہے
اہل سنت والجماعہ دیوبند مکتب فکر کے پیروکار ہونے کے باعث وہ دیوبندی حنفی کہلاتے ہیں۔ فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علما اسلام (ف) پاکستان کے صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بہت اثر ورسوخ رکھتی ہے۔ بلوچستان میں ہمیشہ ان کی جماعت کے بغیر کوئی پارٹی حکومت نہیں بنا پاتی، انھوں نے مشہور تحریک ایم آر ڈی میں قائدانہ کردار ادا کیا جو جنرل ضیاءالحق کے خلاف تھی جن میں ان کے ساتھ پیپلزپارٹی شریک تھی جس کی پاداش وہ 2 سال تک جیل میں بھی رہے ان کا کردار حکومت کی بائیں بازو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی میں 1992ء میں بڑھ گیا۔ وہ 1988ء میں قومی سطح کی سیاست میں آئے اور پہلی بار رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
پیدائش
[ترمیم]مولانا فضل الرحمٰن 19 جون، 1953ء کو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے عبدالخیل میں پیدا ہوئے۔مولانا فضل الرحمن صاحب کا سلسلہ نسب اور قبیلہ یہ ہے، فضل الرحمن بن محمود بن محمد دراز بن گلستان بن عمر بن محمد موسیٰ بن علم - قوم افغان، قبیلہ ناصر کی شاخ یحییٰ خیل کے "علم" خاندان سے ہے -[2]
تعلیم
[ترمیم]1965ء میں پانچویں جماعت پاس کی، ملت ہائی اسکول کچہری روڈ ملتان سے 1970ء میں میٹرک کا امتحان دیا فرسٹ ڈویژن حاصل کی، خلیفہ محمد صاحب رحمہ اللہ سے ناظرہ قرآن مجید کے بعد فارسی اور فقہ کی ابتدائی کتب پڑھ چکے تھے - اسکول سطح پر ہمیشہ حسن قرأت کے مقابلوں میں اول پوزیشن حاصل کرتے رہے - علم الصرف مفتی عیسی خان گورمانی رحمہ اللہ اور ان کے بھائی مولانا عبد الغفور گورمانی رحمہ اللہ سے پڑھتے رہے -
19 فروری 1972ء کو دارلعلوم اکوڑہ خٹک میں داخلہ لیا، مولانا محمد علی صاحب رحمہ اللہ سے کافیہ، علم النحو، صرف اور منطق کے قواعد و ضوابط زبانی یاد کیے - جولائی 1979ء میں وفاق المدارس کے تحت دور حدیث کا امتحان دیکر سند فضلیت حاصل کی -
ان کے اساتذہ کے نام یہ ہیں،
مولانا خلیفہ محمد، مفتی محمود (والد)، مولانا عبداللطيف، شیخ الحدیث مولانا محمد اکبر، مفتی محمد عیسٰی خان گورمانی، مولانا عبد الغفور گورمانی، مولانا محمد امیر، دارلعلوم اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا عبد الحق سے بخاری جلد اول (ابتدائی چند ابواب)، شیخ الحدیث حضرت مولانا حسن جان رحمہ اللہ سے بخاری جلد اول، ترمذی شریف، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، موطائین، شمائل، جلالین - شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ سے مقامات، نور الانوار - مولانا عبد الحلیم زروبوی سے مسلم شریف، بخاری شریف جلد ثانی، بیضاوی اور توضیح وتلویح- مفتی محمد فرید صاحب سے بخاری شریف (چند ابواب) ابو داؤد، جلالین، شرح جامی - مولانا عبد الغنی سے مشکاۃ شریف جلد ثانی، شرح چغمینی، حمداللہ، تحریر اقلیدس وغیرہ مولانا محمد علی سواتی سے کافیہ، مختصر المعانی، ھدایہ ثالث و رابع، طحاوی، ترمذی جلد ثانی-[3]
انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک مقامی دینی مدرسے جامعہ حقانیہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے جامعہ پشاور سے 1983ء میں اسلامک اسٹڈیز میں بی۔ اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کے بعد وہ مصر کے جامعہ الازہر میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گئے اور وہاں سے ایم۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ وہاں انھوں نے مذہبی علوم میں تعلیم حاصل کی اور اسی صنف میں تحقیق کی -انھوں نے الازہر یونیورسٹی سی ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔
درس و تدریس
[ترمیم]1979ء میں دار العلوم اکوڑہ خٹک سے سند فضیلت حاصل کرنے کے بعد مولانا فضل الرحمن صاحب نے اپنے والد گرامی اور دیگر اساتذہ کی نگرانی میں جامعہ قاسم العلوم ملتان سے درس و تدریس کا آغاز کیا، اسباق کے ساتھ ساتھ کچھ وقت دارالافتاء کو بھی دیتے تھے اور فقہی سوالات کی بھی تحقیق کر کے جوابات تحریر کرتے تھے - [4]
سیاسی زندگی
[ترمیم]فضل الرحمٰن نے اپنے والد مفتی محمود کی وفات کے بعد 27 سال کی عمر میں 1980ء میں جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل کے طور پر اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا جو اپنی موت سے قبل جمعیت علمائے اسلام کے رہنما تھے۔ جمعیت علمائے اسلام بعد میں سنہ 1980ء کی دہائی کے وسط میں فاضل کے زیرقیادت مرکزی دھڑا جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔
سیاسی زندگی
[ترمیم]پاکستان واپسی پر انھوں نے 1988ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ انھوں نے 1988ء کے انتخابات جمعیت علما اسلام (ف) کے پلیٹ فارم سے لڑے تھے جو ایک اسلامی بنیاد رکھنے والی پارٹی ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی اپنے حلقہ سے کامیابی ہوئی۔
انھوں نے جموں و کشمیر اور افغانستان کے متعلق علاقائی پالیسی میں اپنا کردار موؑثر طور پر ادا کیا۔ وہ 1988ء میں قومی سطح کی سیاست میں آئے اور پہلی بار رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے
فضل الرحمٰن 1988ء میں ہونے والے پاکستانی عمومی انتخابات میں پہلی بار ڈی آئی خان کی نشست سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ اس کے بعد اس نے افغان طالبان سے رابطے کیے۔ فضل الرحمٰن ڈی آئی خان کے سیٹ سے دوسری مرتبہ 1990ء میں پاکستانی عام انتخابات میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑے تھے لیکن وہ انتخاب میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔فضل الرحمٰن 1993ء میں پاکستانی جماعتی انتخابات میں دوسری مرتبہ ڈی آئی خان نشست سے اسلامی جہموری محاذ کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ فضل الرحمٰن کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ فضل الرحمٰن نے چوتھی بار پاکستانی عام انتخابات میں 1997ء میں قومی اسمبلی پاکستان کی نشست کے لیے انتخاب لڑا تھا لیکن وہ انتخاب میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے تھے۔ 2001ء میں افغانستان میں جنگ کے بعد فضل الرحمٰن نے پاکستان کے بڑے شہروں میں کئی امریکی مخالف مظاہروں اور طالبان نواز ریلیوں کی قیادت کی۔ انھوں نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دھمکی دی کہ اگر یہ بمباری جاری رہی تو امریکا کے خلاف جہاد کرنے کی دھمکی دی جائے گی۔۔ انھوں نے صدر پاکستان پرویز مشرف کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور متنبہ کیا کہ اگر وہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کی حمایت کرتے رہے تو ان کا تختہ الٹ دیا جائے گا۔ اکتوبر 2001ء میں، پرویز مشرف نے پاکستان کے شہریوں کو افواج پاکستان کے خلاف اکسانے اور حکومت پاکستان کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے پر اپنے آبائی گاؤں عبد الخیل میں فاضل کو نظربند رکھا۔ بعد ازاں مارچ 2002ء میں، فضل الرحمٰن کو رہا کر دیا گیا اور ان کے خلاف مقدمات واپس لے لیے گئے۔ فضل الرحمٰن 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر تیسری مرتبہ پاکستانی عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے دو نشستوں، این اے 24 اور این اے 25 پر کامیابی حاصل کی، بعد میں اسے خالی کر دیا گیا۔ الیکشن جیتنے پر، فضل الرحمٰن پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے ممکنہ امیدوار بن گئے لیکن ان کی تقرری نہیں ہوئی۔ انھوں نے 2004ء سے 2007ء تک حزب اختلاف کے رہنما کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ مولانا فضل الرحمان نے 2008ء میں قومی اسمبلی کی نشست کے لیے چھٹی بار متحدہ مجلس عمل کے دو حلقوں، این اے 24 ، ڈی آئی سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر انتخاب کیا تھا۔ خان جو ان کا روایتی حلقہ ہے اور این اے 26 ، بنوں ستمبر 2008ء میں، وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ فضل الرحمٰن بنوں کے حلقہ انتخاب سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر چوتھی بار پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، لیکن وہ ڈی آئی میں الیکشن ہار گئے۔ خان حلقہ۔ 2008ء تک، فضل نے خود کو طالبان سے دور کر دیا اور خود کو اعتدال پسند قرار دیا۔ مئی 2014ء میں، وزیر اعظم نواز شریف نے انھیں کشمیر سے متعلق قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے لیے وفاقی وزیر کا درجہ دے دیا۔ اگست 2017ء میں، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے انھیں دوبارہ ایک ہی درجہ دیا۔ 31 مئی 2018ء کو قومی اسمبلی کی مدت ملازمت ختم ہونے پر تحلیل ہونے پر، انھوں نے وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز ہونا چھوڑ دیا۔ مارچ 2018ء میں، وہ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ بن گئے۔ فضل الرحمٰن نے ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقوں، این اے 38 اور این اے 39 سے 2018ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی پاکستان کی نشست پر انتخاب کیا لیکن وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ 27 اگست 2018ء کو، پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت متعدد اپوزیشن جماعتوں نے انھیں 2018ء کے صدارتی انتخابات میں امیدوار نامزد کیا۔ لیکن اس میں ناکام ہوئے- اس کے بعد عمران خان حکومت کے خلاف اپوزیشن تحریک پاکستان ڈیمو کریٹ (PDM) کے سربراہ بنے اور کامیابی حاصل کی۔
ہندوستان کا سرکاری دورہ
[ترمیم]سال 2003ء میں صاحب نے ہندوستان کا ایک انتہائی اہم دورہ کیا جو سال 2002ء کے انتخابات بعد کسی سیاست دان کا ہندوستان کا پہلا دورہ تھا۔ اس وقت وہ ایم ایم اے کے قائد تھے جو دائیں بازو کی جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد تھا۔ فضل الرحمٰن کے بارے میں نئی دہلی، ہندوستان میں پہلے سے یہ تأثر موجود تھا کہ وہ افغانستان میں طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان میں خارجہ تعلقات کو درست کرنے کے لیے فضل الرحمٰن نے جموں و کشمیر کے متعلق کئی عوامی بیانات دیے۔[حوالہ درکار] ہندوستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی صاحب ان سے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ملے اور ان کے لیے ایک سرکاری ریاستی کھانے کا اہتمام کیا۔ ہندوستانی میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے فضل الرحمٰن نے کشمیر کو ایک علاقائی مسئلہ قرار دیا اور ان سے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین تجارت اور معاشی تعلقات بحال ہونے چاہئیں اور اس سے دونوں ملکوں کے درمیان میں اعتماد میں اضافہ ہو گا۔[حوالہ درکار]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ کتب خانہ کانگریس اتھارٹی آئی ڈی: https://id.loc.gov/authorities/n91043980 — اخذ شدہ بتاریخ: 27 اکتوبر 2023
- ↑ حضرت مولانا فضل الرحمن شخصیت و کردار مصنف حافظ مومن خان عثمانی -
- ↑ حضرت مولانا فضل الرحمن شخصیت و کردار مصنف حافظ مومن خان عثمانی -
- ↑ حضرت مولانا فضل الرحمن شخصیت و کردار مصنف حافظ مومن خان عثمانی -
- 1953ء کی پیدائشیں
- 19 جون کی پیدائشیں
- اقدام قتل سے زندہ بچ جانے والے
- اکیسویں صدی کے پاکستانی سیاست دان
- بقید حیات شخصیات
- بے نظیر بھٹو کی حکومت کا سٹاف اور شخصیات
- پاکستانی ارکان قومی اسمبلی 1988ء تا 1990ء
- پاکستانی ارکان قومی اسمبلی 1993ء تا 1996ء
- پاکستانی ارکان قومی اسمبلی 2002ء تا 2007ء
- پاکستانی ارکان قومی اسمبلی 2008ء تا 2013ء
- پاکستانی ارکان قومی اسمبلی 2013ء تا 2018ء
- پاکستانی اسلام پسند
- پاکستانی سیاست دان
- پشتون شخصیات
- جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیاست دان
- جمیعت علمائے اسلام کے سیاست دان
- خیبر پختونخوا کے سیاستدان
- دیوبندی شخصیات
- ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی شخصیات
- فاضل جامعہ الازہر
- قائدین حزب اختلاف، پاکستان
- دار العلوم حقانیہ کے فضلا