غلام نبی للہی
بانی آستانہ للہ شریف | |
---|---|
خواجہ غلام نبی للہی | |
للہی | |
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | للہ شریف |
مقام وفات | للہ شریف |
رہائش | پاکستان |
نسل | سنادھا اعوان |
عملی زندگی | |
پیشہ | خدمت دین |
درستی - ترمیم |
خواجہ مولانا غلام نبی للہی آستانہ عالیہ للہ شریف کے بانی اور جامع ظاہر و باطن تھے۔
ولادت
[ترمیم]غلام نبی للّٰہی ابن مولانا قاضی حسن دین 1234ھ؍1819ء میں للہ شریف ضلع جہلم میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق اعوان قبیلہ کی شاخ سنادھا سے ہے۔[1]
تعلیم
[ترمیم]صرف نحو کی کتب کے علاوہ میر قطبی ، شرح وقایہ اور خیالی وغیرہ اپنے والد ماجد اور اس کے بعد اوڈھروال چکوال میں حافظ محمد سردار احمد کے پاس معقولات کی کتابیں پڑھیں، بعد ازاں علامۃ العصر مولانا محمد احسن المعروف بہ حافظ دراز سے پشاور میں تحصیل و تکمیل کی اور وطن واپس آکر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ۔
طریقت و سلوک
[ترمیم]اسی دوران میں اچانک شوق الٰہی کا ایسا غلبہ ہواکہ آپ مرشد کی تلاش میں گھر سے چل کھڑے ہوئے ۔ اتفاقاً شاہ پور میں مولانا خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری تشریف فرماتھے،استخارہ کے بعد ان کے دست اقدس پر بیعت ہو گئے ۔ خواجہ قصوری نے توجہ فرما کر مختصر سے عرصہ میں مقامات مجددیہ طے کرادئے اور خلعت خلافت سے سر فراز فرمایا ،اثناء سلوک میں آپ نے چھ ماہ میں قرآن مجید حفظ کر کے تراویح میں سنادیا[2]
درس و تدریس
[ترمیم]خواجہ قصوری کے وصال کے بعد آپ نے للہ شریف میں خلق خد اکی اصلاح و ہدایت اور علم ظاہری و باطنی کی اشات شروع کی۔ آپ کی کی خدمت میں 70،80 طلبہ حاضر رہا کرتے تھے، آپ مبتدی اور منتہی طلبہ کو یکساں توجہ والتفات پڑھاتے تھے جو کتاب بھی زیر درسن ہوتی اس کے شروح بھی سامنے رکھ لیتے اور انھیں ملاحظہ فرماتے جاتے تھے حتی کہ سکندر نامہ اور زلیخا کی شرح بھی سامنے رکھ لیا کرتے تھے ۔ طلبہ کے طعام،کتب اور دیگر ضروریا ت کا آپ خود انتظام فرماتے ، پہلے طلبہ کے لیے گھر سے کھانا بھجواتے اور خود بعد میں کھایا کرتے تھے ۔ اپنے تمام اوراد و وظائف پابندی اور اطمینان سے ادا کرتے ، باقی اوقات طلبہ کو درس دینے اور مستر شدین پر توجہ دینے میں صرف کرتے تھے [3]
سیرت و خصائل
[ترمیم]آپ کے مزاج اقدس میں کبر غرور نام کو نہ تھا ، حد درجہ منکسر المزاج تھے۔ ایک دفعہ کیس جگہ تشریف لے گئے ، لوگ استقبال کے لیے حاضر ہوئے اور پیچھے پیچھے چلنے لگے،آپنے فرمایا ایسے ہجوم پر فخر نہیں کرنا چاہیے ، اگر کوئی بندر یار یچھ والا کسی گاؤں میں آنا ہے تولوگ اس کے پیچھے بھی ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو روشن ضمیری کا وہ مقام بخشا ہوا تھا کہ ایک شخص نے صاف پانی پینے کے لیے پیش کیا۔آپ نے فرمایا یہ مکدر ہے کوئی اور شخص پانی لے آئے۔ اس شخص سے وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا راستے میں میری نظر محرم عورت پر پڑ گئی تھی تصلب اور دینداری کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ نے غیر مقلدوں کے بعض مسائل پر فتوے دیا۔ انھوں نے آپ خلاف مقدمہ دائر کر دیا ڈپٹی اور تحصیلدار آپ کے خیر خواہ تھے،انھوں نے کوشش کی کہ فریقین میں مصالحت ہو جائے ، کہیں قید نہ ہو جائے ۔ جب آپ سے عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا کوئی مضائفہ نہیں بشر طیکہ دین میں فرق نہ آئے اور جو فتویٰ دیا ہے اس سے انحراف نہیں ہو سکتا خواہ قید ہی کیوں نہ ہو جائے ، آخر آپ کو کامیابی ہوئی
وصال
[ترمیم]21؍ربیع الاول 25 ؍نومبر 1307ھ؍ 1888ء آپ کا وصال ہوا۔ [4]