من لایحضرہ الفقیہ، اہل تشیع کی کتب احادیث میں سے ایک اہم بنیادی حدیث کی کتاب ہے۔ اسے ابوجعفر محمد بن علی بن حسن بن موسی بن بابویہ قمی، معروف بہ شیخ صدوق (306 تا 381 ق) نے ترتیب دیا۔ شیخ صدوق کا چوتھی صدی میں ایران،خراسان، عراق اورشام کے بہترین علما میں شمار ہوتا تھا۔ اس کتاب کو اصول اربعہ میں موجود معتبر روایات اور تین سو سے زائد روایان سے روایت کیا گيا ہے۔ یہ تمام راوی شیخ صدوق کے استاد شمار ہوتے ہیں۔
اس کتاب میں تقریبا چھ ہزار احادیث مسائل اور فقہی مباحث کے متعلق موجود ہیں، یہ کتاب بھی کتاب کافی کی طرح اپنی تالیف کے زمانہ سے لے کر آج تک شعیہ علما کے نزدیک مستند رہی ہے اور شروع سے ہی اس کی شروحات لکھی جاتی رہی ہیں۔ اور اس اسے درس و تدریس کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ من لایحضرہ الفقیہ اور اس کے مصنف کوعلمائے اہل سنت نے بھی سراہا ہے ۔[حوالہ درکار]
پروردگار عالم نے اپنی رحمت بے پایاں کے تحت اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے تقریباَ 124000 انبیا علیہم السلام مبعوث فرمائے اور جناب ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ائمہ طاہرین علیہم السلام کا سلسلہ قائم کیا جن کی طرف سے ہدایت تا قیامت رہے گی۔ چونکہ ائمہ طاہرین علیہم السلام علم لدنی کے حامل تھے اس لیے ان ذوات مقدسہ کے طفیل مختلف النواع علوم کے بے شمار باب کھلے۔ ان علوم کو عام کرنے کے لیے ہمارے بزرگوں نے بیش بہا کاوشیں کیں اور علوم و ارشادات معصومین علیہم السلام پر مبنی ان گنت کتب و رسائل تالیف و تصنیف کیے۔ جن میں سر فہرست کتب اربعہ ہیں یعنی الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام اور استبصار۔ بلاشبہ ان میں من لا یحضرہ الفقیہ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ کتاب 1100 برس پہلے مرتب کی گئی تھی لیکن مذہب اثنا عشری کی بنیادی کتاب ہونے کے باوجود اس کا ابھی تک کسی بھی زبان میں ترجمہ نہیں کیا گیا۔[1]