محمد عارف جمیل مبارکپوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد عارف جمیل مبارکپوری
معلومات شخصیت
پیدائش 10 مارچ 1971ء (53 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مبارکپور  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عرفیت عربی: محمد عارف جميل القاسمي المباركفوري
(اردو: محمد عارف جميل قاسمی مبارکپوری)
عملی زندگی
مادر علمی احیاء العلوم مبارک پور
دار العلوم دیوبند
جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ
شاہ سعود یونیورسٹی  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ محمود حسن گنگوہی،  نصیر احمد خان بلند شہری،  عبد الحق اعظمی،  وحید الزماں کیرانوی،  نعمت اللہ اعظمی،  قمر الدین احمد گورکھپوری،  ریاست علی ظفر بجنوری،  ارشد مدنی،  نور عالم خلیل امینی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم،  مصنف،  کالم نگار،  مترجم  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی،  اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

محمد عارف جمیل مبارکپوری (پیدائش: 10 مارچ 1971ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم دین، عربی و اردو زبان کے ادیب، مقالہ نگار، کالم نگار، مصنف اور مترجم ہیں۔ نیز دار العلوم دیوبند کے فاضل و استاذِ عربی ادب اور عربی زبان کے مشہور رسالہ الداعی کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔

ولادت و خاندانی پس منظر[ترمیم]

محمد عارف جمیل مبارکپوری 10 مارچ 1971ء کو مبارکپور، ضلع اعظم گڑھ، بھارت میں پیدا ہوئے۔[1] ان کے والد جمیل احمد قاسمی مبارکپوری (1939ء - 2018ء) دار العلوم دیوبند کے فاضل، سید فخر الدین احمد مرادآبادی کے شاگردِ رشید اور اعجاز احمد اعظمی، ابو بکر غازی پوری اور نسیم احمد بارہ بنکوی جیسے علما کے استاذ تھے۔[2] ان کا سلسۂ نسب یوں ہے: محمد عارف بن جمیل احمد بن عبد الحئی بن خدا بخش بن عبد اللہ بن بھولن بن لعل محمد بن عبد اللطیف بن غلام محمد۔[2]

تعلیم و تربیت[ترمیم]

مبارکپوری نے 1407ھ (بہ مطابق 1987ء) کو جامعہ عربیہ احیاء العلوم، مبارکپور سے امتیازی نمبرات کے ساتھ عالمیت کی تکمیل کی،[1][3] پھر 1409ھ بہ مطابق 1989ء کو دار العلوم دیوبند سے اول پوزیشن کے ساتھ سند فضیلت حاصل کی،[4][3] 1410ھ (بہ مطابق 1990ء) میں وہیں سے تکمیلِ ادب عربی کیا۔[1] 1414-15ھ (بہ مطابق 1994-95ء) میں کلیۃ الشریعہ، جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ سے شریعت اسلامی میں لائسنشیٹ (عربی: الليسانس) کی ڈگری حاصل کی، 1423-24ھ (بہ مطابق 2002-3ء) شاہ سعود یونیورسٹی، ریاض سے عربی زبان میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما (عربی: الدبلوم العالي في تعليم اللغة العربية) کیا۔[1][3] 1416ھ (بہ مطابق 1995ء) میں انھیں امیرِ منطقۂ مدینہ (عبدالمجید بن عبدالعزیز آل سعود) کی جانب سے سرٹیفکیٹ آف ایکسی لینس اینڈ اکیڈمک ایکسیلنس (عربی: شهادة التفوق و النبوغ الدراسي) سے نوازا گیا۔[1][5][6]

تدریسی و عملی زندگی[ترمیم]

دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد 1411-12ھ (بہ مطابق 1991-92ء) وہیں پر معین مدرس منتخب ہوئے،[3] 1417-18ھ (بہ مطابق 1996-97ء) میں پہلی بار دار العلوم دیوبند میں استاذ رہے۔[1] پبلک پراسیکیوشن (عربی: النيابة العامةشارجہ، متحدہ عرب امارات میں 1998ء تک تقریباً ساڑھے تین سال مترجم کی حیثیت سے کام کیا۔[1] جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارکپور میں تقریباً پانچ سال حدیث و عربی ادب کے استاذ رہے۔[1][3] پھر دوبارہ بَہ حیثیت مدرس 1431ھ (بہ مطابق 2010ء) کو دار العلوم دیوبند میں تقرر ہوا اور 1441ھ (بہ مطابق 2020ء) کو درجۂ علیا میں ترقی ہوئی۔[1] [7][3]

قلمی خدمات اور مدیر ماہنامہ الداعی[ترمیم]

مبارکپوری عربی و اردو کے بہترین قلم کاروں اور نور عالم خلیل امینی کے عزیز شاگردوں میں سے ایک ہیں، عربی و اردو زبان کے البعث الاسلامی، الداعی، دار العلوم اور معارف اعظم گڑھ جیسے مشہور مجلات و رسائل میں ان کے مقالات و مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔[1] 2010ء میں وہ دار العلوم دیوبند میں عربی زبان و ادب کے استاذ بنائے گئے اور جمادی الاولی 1435ھ بہ مطابق جون 2014ء میں ان کے استاذِ عربی اور ماہنامہ الداعی کے سابق مدیر نور عالم خلیل امینی نے اپنے ضعف و کثرتِ مصروفیات کی بنا پر مبارکپوری کو دار العلوم دیوبند کی انتظامیہ کے اتفاق سے الداعی کے لیے اپنا معاون (عربی: مساعد التحرير) بنایا اور اپنا کالم ”کلمۃ المحرر“ بھی انھیں کے سپرد کر دیا۔[7][8][9] مبارکپوری بَہ نام: عربی: ابو عائض القاسمي المبارکفوري الداعی کے کالم: ”الفکر الاسلامي“ کے تحت شبیر احمد عثمانی کی ”تفسیر عثمانی“ کا قسط وار ترجمہ کر رہے ہیں۔[10] اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے زیر نگرانی موسوعہ فقہیہ، کویت (عربی) کے تقریباً چار ہزار صفحات کا اردو ترجمہ کر چکے ہیں۔[3][1] نور عالم خلیل امینی کے ایما پر سید محبوب رضوی کی کتاب ’’تاریخِ دار العلوم‘‘ کا عربی میں ترجمہ کر رہے ہیں۔[9][4] نور عالم خلیل امینی کی وفات کے بعد مجلس شوریٰ دار العلوم دیوبند نے انھیں ماہنامہ الداعی کا مدیر اعلیٰ (عربی: رئيس التحرير) منتخب کیا[4][8] اور وہ تا حال یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔

تصانیف[ترمیم]

مبارکپوری کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ تصانیف اور اردو سے عربی یا عربی سے اردو ترجموں کے نام مندرجۂ ذیل ہیں:[1][4][3][9][8][6]

مطبوعہ تصانیف
  • المعتصر من آثار السنن و إعلاء السنن (عربی)
  • بدیہیاتِ قرآن کریم (اردو)
  • نوجوان: مسائل، مشکلات، تجزیہ اور حل (عربی کتاب ”الشباب: مشكلات و حلول“ کا اردو ترجمہ)
  • موسوعة علما دیوبند (عربی؛ چودھویں صدی کے علمائے دیوبند پر انسائیکلوپیڈیا)
  • لمحة عن الجامعة الاسلامية: دار العلوم/ديوبند (عربی)
  • الجامعة الإسلامية: دار العلوم/ديوبند كما يراها الشخصيات السعودية (عربی)
  • تسہیل المعتصر (اردو)
  • زیب و زینت کے شرعی احکام
غیر مطبوعہ تصانیف
  • البدهيات في القرآن الكريم (عربی)
  • الزينة في الاسلام (عربی)
  • رفع اليدين بعد الدعاء بعد المكتوبة بين الإتباع و الإبتداع (عربی)
  • شرح الوقایہ (دراسة و تحقيق)
  • كشاف اصطلاحات الفنون (محمد اعلی تھانوی کی کتاب کی تحقیق و تخریج)
  • الجمع بين الروايتين لموطأ الإمام مالك
مطبوعہ ترجمے
  • موسوعہ فقہیہ، کویت (اسلامک فقہ اکیڈمی کے زیر نگرانی ترجمہ کی جانے والی کتاب موسوعہ فقہیہ، کویت کے تقریباً چار ہزار صفحات کا عربی سے اردو میں ترجمہ[6])
  • صحابۂ کرام اسلام کی نظر میں (نور عالم خلیل امینی کی عربی کتاب ”الصحابة في الإسلام“ کا اردو ترجمہ)
  • مسجد نبوی میں تراویح عہد بَہ عہد (عطیہ محمد سالم کی عربی کتاب ”التراويح أكثر من ألف عام في مسجد النبي عليه الصلاة والسلام“ کا اردو ترجمہ)
  • الإمامة والخلافة (عبد الشکور لکھنوی کی کتاب ”امامت و خلافت“ کا عربی ترجمہ)
  • الإمام محمد قاسم النانوتوي كما رأيته (محمد یعقوب نانوتوی کی کتاب ”حالات طیب جناب مولوی محمد قاسم صاحب مرحوم“ کا عربی ترجمہ)
  • مراقی الفلاح (شرنبلالی کی کتاب ”مراقي الفلاح“ کا اردو ترجمہ)
  • الفتنة الدجالية وملامحها البارزة وإشاراتها في سورة الكهف (سید مناظر احسن گیلانی کی کتاب ”سورۂ کہف کی تفسیر کے تناظر میں دجالی فتنہ کے نمایاں خدوخال [تذکیر بسورۃ الکہف]“ کا عربی ترجمہ)
  • سلفیت ایک جائزہ (محمد سعید رمضان بوطی کی عربی کتاب ”السلفية مرحلة زمنية مباركة لا مذهب إسلامى“ کا اردو ترجمہ)
  • العصيدة السماوية شرح العقيدة الطحاوية (دو جلدوں میں مفتی رضاء الحق کی افادات پر مشتمل محمد عثمان بستوی کی مرتب کردہ کتاب ”العصیدۃ السماویۃ شرح العقیدۃ الطحاویۃ“ کا عربی ترجمہ)
  • الدرۃ الفُردۃ شرح قصیدۃ البردۃ (دو جلدوں میں مفتی رضاء الحق کی افادات پر مشتمل اویس یعقوب پنجابی گودھروی اور محمد عثمان بستوی کی مرتب کردہ کتاب الدرۃ الفردۃ شرح قصیدۃ البردۃ کا عربی ترجمہ[11])
غیر مطبوعہ ترجمے
  • هدية الدراري (فضل الرحمن اعظمی کی کتاب ”ہدیۃ الدراری“ کا عربی ترجمہ)
  • الشيعة و القرآن (عبد الشکور لکھنوی کی کتاب ”شیعہ اور قرآن “ کا عربی ترجمہ)
  • حياة طيب (غلام نبی کشمیری اور محمد شکیب قاسمی کی کتاب ”حیاتِ طیب“ کا عربی ترجمہ)
  • الإيضاح لمناسك مغلو فيها (اعجاز احمد اعظمی کی کتاب ”مسائلِ حج“ کا عربی ترجمہ)
  • دار الحرب و دار الاسلام (حبیب الرحمن الاعظمی کی کتاب ”دار الحرب و دار الاسلام“ کا عربی ترجمہ)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ محمد عارف جمیل مبارکپوری (2021ء)۔ "المؤلف في سطور"، "من أعمال المؤلف"۔ موسوعۃ علماء دیوبند (بزبان عربی)۔ دار العلوم دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 502–505 
  2. ^ ا ب نور عالم خلیل امینی، محمد عارف جمیل قاسمی مبارکپوری، مدیران (رمضان - شوال 1440ھ م مئی - جون 2019ء)۔ "العالم الداعية، المصلح الفذ الشيخ جميل أحمد القاسمي المباركفوري"۔ مجلہ الداعی (بزبان عربی)۔ دار العلوم دیوبند: دفتر مجلہ الداعی۔ 43 (9-10): 79–92۔ اختلف المصادر في تحديد عام مولده، فجاء في جواز سفره تاريخ ولادته عام ١٩٤١ م ....، ولكن حضرة الوالد يؤكد أنه من مواليد عام ١٩٣٩م، و هو الذي يعضده سجلات الجامعة الاسلامية دار العلوم/ديوبند لدى التحاقه بها؛ حيث تنص على أن مولده عام ١٩٣٩م، وكان عمره عند الالتحاق بها عام ١٩٥٧م (١٨) عاما. [مولانا جمیل احمد کی سنِ ولادت کے سلسلے میں مختلف اقوال ہیں، ان کے پاسپورٹ میں ان کی سن ولادت 1941ء درج تھی......؛ لیکن وہ اپنے بیٹے کو تاکید فرماتے تھے کہ ان کی ولادت 1939ء کی ہے.....اور جیساکہ دار العلوم دیوبند کی ریکارڈ سے بھی ثابت ہے کہ امتحان داخلہ کے وقت انھوں نے سن ولادت 1939ء لکھوایا تھا اور دار العلوم دیوبند میں داخلہ کے وقت سن 1957ء میں وہ 18 سال کے تھے۔] 
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ابو الحسن اعظمی (جمادی الاولی 1441ء [مطابق: نومبر 2019ء])۔ "مولانا عارف جمیل صاحب مبارکپوری اعظمی"۔ یادوں کی کہکشاں۔ دیوبند: الحراء بکڈپو۔ صفحہ: 621–624 
  4. ^ ا ب پ ت "مولانا عارف جمیل مبارکپوری دارالعلوم دیوبند کے عربی مجلہ'الداعی' کے مدیر اعلیٰ بنائے گئے"۔ qindeelonline.com۔ قندیل نیوز ڈیسک۔ 6 اکتوبر 2021ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2022 ء 
  5. محمد عارف جمیل قاسمی مبارکپوری (2011ء)۔ "پیش لفظ از شبیر احمد صالوجی"۔ بدہیاتِ قرآن (پہلا ایڈیشن)۔ لیناسیا، جنوبی افریقا: النادی العربی، دار العلوم زکریا۔ صفحہ: 29-32 
  6. ^ ا ب پ عبید الرحمن (2021ء)۔ مساهمة علما ديوبند في اللغة العربية وآدابها ١٨٦٧م - ٢٠١٣م [عربی زبان و ادب میں علمائے دیوبند کی خدمات (1867–2013ء)] (پی ایچ ڈی) (بزبان عربی)۔ بھارت: شعبۂ عربی، بنارس ہندو یونیورسٹی۔ صفحہ: 191–193۔ hdl:10603/536377 
  7. ^ ا ب محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020ء)۔ "موجودہ اساتذۂ عربی"، "مدیران عربی رسائل"۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (دوسرا ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 768، 776 
  8. ^ ا ب پ نایاب حسن قاسمی (2022ء)۔ "صحابۂ کرام اسلام کی نظر میں (اردو)"، "الداعی میں شائع شدہ مولانا نور عالم خلیل امینی کے مضامین/تراجم کا اشاریہ"۔ اک شخص دل ربا سا (پہلا ایڈیشن)۔ نئی دہلی: مرکزی پبلیکیشنز۔ صفحہ: 149، 254 
  9. ^ ا ب پ محمد عارف جميل القاسمي المباركفوري، مدیر (محرم - ربیع الاول 1443ھ م اگست - نومبر 2021ء)۔ "الشيخ نور عالم خليل الأميني باق حبه في القلوب مابقى الليل والنهار"۔ مجلہ الداعی (بزبان عربی)۔ دار العلوم دیوبند: دفتر مجلہ الداعی۔ 46 (1-3): 44۔ و في عام ١٤٣٠ه‍/٢٠١٠م عُيّنت مدرّسا في دار العلوم/ديوبند في قسم اللغة العربية، فكانت فرصة سانحة للإستفادة منه، فكلّفني تعريب كتاب ﴿﴿تاریخ دار العلوم﴾﴾ للعلامة محبوب الرضوي، و سبق أن قمتُ بترجمة كتابه ﴿﴿الصحابة ومكانتهم في الاسلام﴾﴾ باللغة العربية إلى الأردية بطلب منه، فأشاد بعملي هذا و شجعني على مواصلة أعمال الترجمة. و ذلك حرصاً منه على نقل أعمال كبار علماء ديوبند و مشايخها إلى اللغة العربية ليطلع عليها إخواننا العرب. 
  10. خورشید عالم داؤد قاسمی (28 جولائی 2021 ء)۔ "حضرت مولانا نور عالم خلیل امینیؒ اور ماہنامہ الدّاعی کی ادارت"۔ urdu.millattimes.com۔ ملت ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2022 ء 
  11. مفتی رضاء الحق الحق (2020ء)۔ الدرۃ الفردۃ شرح قصیدۃ البردۃ (جلد اول) [الدرة الفردة شرح قصيدة البردة] (بزبان عربی)۔ ترجمہ بقلم محمد عارف جمیل مبارکپوری۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ۔ صفحہ: 4۔ ISBN 978-2-7451-9654-5 

بیرونی روابط[ترمیم]