مندرجات کا رخ کریں

قاسم بن محمد بن ابی بکر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
قاسم بن محمد بن ابی بکر
(عربی میں: القاسم بن محمد بن أبي بكر ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 660ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 730ء (69–70 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن فقہائے سبعہ   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عبد الرحمن بن قاسم
والد محمد بن ابی بکر   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ عبد اللہ بن عباس ،  صفیہ بنت ابی عبید [1]  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص سعد بن ابراہیم الزہری   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہ ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ ،  تفسیر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سات فقہائے مدینہ

قاسم بن محمد تابعی اور مشہور محدث و فقیہ سات فقہائے مدینہ میں شمار ہوتے ہیں۔ (آپ کی ولادت 24ھ اور متوفی 106ھ یا 108ھ بمطابق 724ء ) حضرت سیدنا امام قاسم بن محمد رضی اللہ تعالی عنہ۔ محمد بن ابی بکر کے صاحبزادے، ابوبکر کے پوتے اور مدینہ منورہ کے عظیم فقیہ، امام، عالم، متقی اور کثیر الروایت بزرگ تھے۔ آپ ابوبکر صدیق کے پوتے، امام زین العابدین کے خالہ زاد بھائی اور سیدنا امام جعفر صادق کے نانا تھے۔ان کی ماں سودہ ام ولد تھیں، قاسم اپنے علمی اور اخلاقی لحاظ سے مدینہ کے ممتاز ترین بزرگوں میں تھے۔[2]

تاریخ ولادت

[ترمیم]

تاریخ ولادت 23 شعبان 24ھ جائے ولادت مدینہ منورہ۔علامہ ذھبی نے ”سیر اعلام النبلاء “ میں قاسم بن محمد کی ولادت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہونا نقل کی ہے ، جب کہ ” تاریخ الاسلام “میں عثمان کے زمانہ خلافت میں پیدا ہونا لکھا ہے۔[3] دونوں میں تطبیق یوں ہے کہ ان کی پیدائش اختتام خلافت عثمان اور ابتدائے خلافت حضرت علی میں ہوئی۔امام بخاری نے فرمایا کہ ان کے والد محمد بن ابی بکر عثمان کے بعد تقریباً 36ھ میں شہید کیے گئے تو قاسم یتیم ہوئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پرورش میں آئے ۔[4]

یتیمی اورپھوپھی کی آغوش میں پرورش

[ترمیم]

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت اور شہادت کے سلسلہ میں محمد بن ابی بکرؓ کا نام تاریخ اسلام میں بڑی شہرت رکھتا ہے،وہ حضرت عثمان کے شدید ترین مخالفین میں تھے ؛بلکہ قاتلین عثمان کے سلسلہ میں ان کا نام لیا جاتا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہو گئے تھے اور ان کے اورامیر معاویہؓ کے اختلافات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پرجوش حامیوں میں رہے، ان کی ان خدمات کے صلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو مصر کا والی بنا دیا، جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مصر پر فوج کشی کی، اس وقت محمد بن ابی بکرؓ کام آگئے۔قاسم اس وقت بہت کم سن تھے،اس لیے ان کی پھوپھی ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کو اپنے آغوشِ شفقت میں لے لیا اور بڑے لاڈ پیار سے پالا، قاسم اس زمانہ کے بعض واقعات جو اُن کے حافظہ میں رہ گئے تھے ،بیان کیا کرتے تھے؛چنانچہ کہتے تھے کہ ہماری پھوپھی عائشہ عرفہ کی شب کو ہم لوگوں کے سر منڈاتی تھیں، اورہمیں ٹوپی پہنا کر مسجد بھیجتی تھیں اور دوسرے دن صبح کو ہم لوگوں کی طرف سے قربانی کرتی تھیں۔ [5]

فضل وکمال

[ترمیم]

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وہ مخدومہ تھیں جن کے ادنی ترین خدام مسند علم وعمل کے وارث ہوئے۔ قاسم تو گویا محبوب فرزند تھے، ان کی تربیت نے ان کو علم وعمل کا مجمع البحرین بنادیا تھا۔علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ وہ رفیع المنزلت وعالی مرتبت فقیہ امام اور بڑے حافظ حدیث اور متورع تھے۔ [6] امام نووی لکھتے ہیں کہ وہ بڑے جلیل القدر تابعی ہیں،ان کی جلالت توثیق اور امامت پر سب کا اتفاق ہے۔ [7]

تفسیر

[ترمیم]

انھیں جملہ علوم میں پورادرک تھا۔ لیکن کلام الہیٰ کی تفسیر میں بڑے محتاط تھے اس لیے انھوں نے بحیثیت مفسر کے کوئی شہرت حاصل نہیں کی،وہ غایت احتیاط میں تفسیر ہی نہ بیان کرتے تھے۔ [8]

حدیث

[ترمیم]

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذات سرچشمۂ حدیث تھی۔قاسم زیادہ تر اسی سرچشمہ سے سیراب ہوئے تھے، ان کے علاوہ انھوں نے دوسرے سامعین حدیث میں ابن عباسؓ ابن عمرؓ اور ابوہریرہؓ سے بھی پورا استفادہ کیا تھا، ان کا خود بیان ہے کہ میں بحر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھتا تھا۔ ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھتا تھا اور ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا، ابن عمرؓ کے پاس ایسا علم و ورع تھا اور ایسے نادر معلومات تھے جو اور کہیں نہیں حاصل ہو سکتے تھے [9]ان بزرگوں کے علاوہ، ابن عمروبن العاصؓ ، عبداللہ بن جعفرؓ، امیر معاویہؓ، عبد اللہ بن خباب ، رافع بن خدیجؓ ،اسلم مولیٰ عمر وغیرہ سے بھی سماعِ حدیث کیا تھا[10] ان بزرگوں کے فیض نے ان کو ممتاز حافظِ حدیث بنادیا تھا، ابن سعد لکھتے ہیں کہ وہ کثیر الحدیث تھے [11] حافظ ذہبی انھیں حفاظِ حدیث حدیث میں امام اور قدوۃ لکھتے ہیں [12] ابو الزناد کہتے تھے کہ میں نے قاسم سے زیادہ سنت کا عالم نہیں دیکھا[13]حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی احادیث کے خصوصیت کے ساتھ بڑے حافظ تھے خالد بن بزاز کا بیان ہے کہ عائشہؓ کی احادیث کے تین بڑے واقف کار تھے،قاسم عروہ اورعمرہ۔ [14]

ان کی روایات کا درجہ

[ترمیم]

محدثین اور ارباب فن کے نزدیک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ان کی روایات طلائے خالص کا حکم رکھتی ہیں، ابن معین کا بیان ہے کہ عبید اللہ بن عمر عن قاسم عن عائشہ کا سلسلہ روایت طلائے خالص ہے۔ [15]

مذاکرۂ حدیث

[ترمیم]

روزانہ شب کو بعد عشاء وہ اور ان کے ساتھی مل کر حدیث خوانی کرتے تھے۔ [16]

روایت حدیث میں احتیاط

[ترمیم]

روایت حدیث کے باب میں اتنے محتاط تھے کہ روایت میں الفاظ کی پابندی ضروری سمجھتے تھے،اسی احتیاط کی بنا پر وہ حدیثوں کو قلمبند کرنا بھی پسند نہ کرتے تھے۔ [17]

تلامذہ

[ترمیم]

حدیث میں ان کے تلامذہ میں بڑے بڑے ممتاز ائمہ تھے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں ،عبدالرحمن بن قاسم، امام شعبی، سالم بن عبداللہ بن عمر، سعید انصاری کے لڑکے یحییٰ سعید بن ابی ملیکہ (نافع مولی ابن عمر، امام زہری ،عبیداللہ بن عمر، ایوب ابن جون اور مالک بن دینار وغیرہ۔ [18]

فقہ

[ترمیم]

قاسم کا خاص فن تھا فقہ،اس میں ان کے درجہ امامت واجتہاد حاصل تھا،ان کے فقہی کمال کی سب سے بڑی سند ہے،کہ وہ مدینہ کے ساتھ مشہور اور ممتاز فقہا میں سے ایک تھے [19] فقہ بھی انھوں نے اپنی پھوپھی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حاصل کی تھی، فرماتے تھے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں عائشہؓ مستقل فتویٰ دیتی تھیں اور میں ان کے ساتھ رہتا تھا [20]اس عہد کے تمام علما ان کے تفقہ کے معترف تھے،ابی الزناد کہتے تھے کہ میں نے قاسم سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا، امام مالک فرماتے تھے کہ قاسم اس امت کے فقہا میں تھے۔ [21]

حلقہ درس

[ترمیم]

مسجد نبوی میں قاسم کا حلقہ درس تھا ان کی اور سالم بن عبداللہ بن عمر کی مجلس ایک ہی تھی،ان کے بعد ان کے لڑکے عبد الرحمن ، سالم کے بھائی عبید اللہ بن عمرؓ اس مجلس میں بیٹھے تھے،پھر ان دونوں کے بعد اس مقام پر امام مالک کی مسندِ درس بچھی،یہ جگہ روضہ نبوی اور منبر نبوی کے درمیان خوخہ عمر کے سامنے تھی [22]قاسم صبح سویرے درس وافتا کے لیے مسجد میں آجاتے تھے اوردو رکعتیں پڑھ کر مجلس میں بیٹھتے تھے،اس وقت لوگوں کو جو کچھ پوچھنا ہوتا پیش کرتے۔ [23]

معاصرین کا اعتراف کمال

[ترمیم]

اس عہد کے تمام بڑے بڑے علما اور ارباب کمال قاسم کے کمالات علمی کے معترف تھے، یحییٰ بن سعید انصاری کہتے تھے کہ ہم نے مدینہ میں کسی ایسے شخص کو نہیں پایا جس کو قاسم پر فضیلت دی جاسکے، ابوالزناد کہتے تھے کہ قاسم اپنے زمانہ کے سب سے بڑے جاننے والے تھے،ایوب سختیانی کہتے تھے کہ میں نے قاسم سے افضل آدمی نہیں دیکھا۔ [24]

علمی انکسار اور معاصرین کا احترام

[ترمیم]

اس علمی علوئے مرتبت کے باوجود انھیں اپنی برتری کا مطلق احساس نہ تھا،وہ اپنے سے کم پایہ معاصرین کا اتنا لحاظ رکھتے تھے کہ کسی موقع پر بھی ان کی زبان سے کوئی کلمہ ایسا نہ نکلنے پاتا جس سے ان کے کسی معاصر کی خفیف سی سبکی کا بھی احتمال ہو سکتا ہو،اس احتیاط کی وجہ سے وہ بعض مواقع پر عجب نازک صورتِ حال میں پھنس جاتے تھے، ایک مرتبہ ایک اعرابی نے ان سے سوال کیا آپ بڑے عالم ہیں یا سالم،اس سوال کے جواب دینے میں بڑی کشمکش پیش آئی،اگر اظہار واقعہ کرتے تھے تو اپنی زبان سے اپنی تعریف ہوتی تھی اوراگر سالم کو کہتے تھے تو جھوٹ ہوتا تھا،اس لیے پہلے تو انھوں نے سبحان اللہ کہہ کر ٹالا ،لیکن جب اعرابی نے دوبارہ پوچھا تو آپ نے کہا سالم موجود ہیں ان سے جاکر پوچھ لو۔ [25]

فضائل اخلاق

[ترمیم]

قاسم میں جس پایہ کا علم تھا،اسی درجہ کا عمل بھی تھا،اُن کی ذات جملہ فضائل اخلاق کی جامع تھی وہ اپنے جد بزرگوار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مثنیٰ تھے، زبیر کہتے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں میں نے اس نوجوان (قاسم) سے زیادہ ان سے مشابہ کسی کو نہیں پایا۔ [26] عمر بن عبدالعزیز ان کے علمی اور اخلاقی کمالات کے اتنے معترف تھے کہ فرماتے تھے کاش خلافت قاسم کے لیے ہوتی،ایک دوسری روایت میں ہے کہ اگر خلافت کا فیصلہ میرے اختیار میں ہوتا تو میں قاسم کو خلیفہ بنا دیتا، [27]عمر بن عبد العزیز کے ساتھ ان کے تعلقات بڑے دوستانہ اور بے تکلفانہ تھے، قاسم بہت کم گو کم سخن اورخاموش طبیعت تھے،جب عمر بن عبد العزیز خلیفہ ہوئے تو اہل مدینہ نے کہا اب کنواری (قاسم )بولے گی۔ [28]

زہد وورع

[ترمیم]

زہد و ورع کے اعتبار سے بھی ممتاز ترین تابعین میں تھے،علامہ ابن سعد ان کو ورع عجلی خیار تابعین میں اور ریل صالح لکھتے ہیں ، ابن حبان ان کو سادات تابعین میں اور افضل زمانہ میں شمار کرتے ہیں۔ [29] عالم پیری میں بھی رمی جمار کے لیے پاپیادہ جاتے تھے،ربیعہ بن ابی عبد الرحمن کا بیان ہے کہ قاسم جب زیادہ ضعیف ہو گئے تھے اس وقت وہ اپنی اقامت گاہ سے منیٰ تک سواری پر آتے، پھر یہاں سے جمار تک پا پیادہ جاتے تھے،رمی کرنے کے بعد مسجد تک پیدل واپس آتے تھے،پھر یہاں سے سوار ہوکر گھر واپس جاتے۔ [30]

دولت سے بے نیازی

[ترمیم]

دولت دنیا سے وہ اتنے بے نیاز تھے کہ اس کے لیے کسی عزیز کا احسان بھی لینا گوارانہ کرتے تھے،سلیمان بن قیتبہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عمر بن عبید اللہ نے عبداللہ بن عمر اور قاسم بن محمد رضی اللہ عنہما کے پاس میرے ہاتھ ایک ہزار دینار بھیجے، ابن عمر رضی اللہ عنہ نے لے لیا اور شکر یہ ادا کیا کہ عمر بن عبید نے صلہ رحم سے کام لیا،اس وقت مجھ کو اس کی ضرورت تھی لیکن قاسم نے قبول کرنے سے انکار کر دیا،ان کی بیوی کو معلوم ہوا تو انھوں نے کہا کہ عمر بن عبید اللہ کے ساتھ ہم دونوں کا رشتہ برابر کا ہے،اگر قاسم ان کے چچیرے بھائی ہیں تو میں ان کی پھوپھیری بہن ہوں ان کے اس کہنے پر میں نے ان کو روپیہ دے دیا۔ [31]

اعترافِ حق

[ترمیم]

حق پرست ایسے تھے کہ اپنے باپ کی غلطی کو بھی غلطی سمجھتے تھے اوران کی مغفرت کے لیے خدا سے دعا کرتے تھے، یہ اوپر معلوم ہو چکا ہے کہ ان کے والد محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے شدید ترین مخالفین میں تھے اور باغیوں کے ساتھ کاشانہ خلافت میں گھس گئے تھے،قاسم ان کی اس غلطی کو مانتے تھے اور ان کے لیے سجدہ میں بارگاہِ الہی میں دعا کرتے تھے کہ خدایا عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں میرے والد کے گناہ بخش دے۔ [32]

وفات

[ترمیم]

باختلاف روایت 107ھ یا 108ھ میں انتقال کیا،مرض الموت میں کاتب کو بلا کر وصیت لکھنے کو کہا،اس نے بغیر بتائے ہوئے لکھ دیا کہ قاسم بن محمد وصیت کرتے ہیں کہ سوائے خدا کے کوئی معبود نہیں،قاسم نے سنا تو کہا کہ اگر آج کے دن سے پہلے ہم نے اس کی شہادت نہیں دی تو کتنے بد قسمت ہیں،کفن کے متعلق وصیت کی کہ میں جن کپڑوں میں نماز پڑھتا ہوں ،اسی میں کفنایا جاؤں،اس میں قمیص،ازار اور چادر وغیرہ کفن کے تمام کپڑے ہیں،آپ کے صاحبزادے نے کہا کیا آپ اور دو نئے کپڑے پسند نہیں کرتے فرمایا، ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تین کپڑوں میں کفنائے گئے تھے، مردوں کے مقابلہ میں زندوں کو نئے کپڑوں کی زیادہ ضرورت ہے ان وصایا کے بعد قدیر میں انتقال کیا اور اس سے تین میل کے فاصلہ پر مقام مشلل میں سپرد خاک کیے گئے،انتقال کے وقت ستر یا بہتر سال کی عمر تھی۔ [33]

ترکہ

[ترمیم]

وفات کے وقت ایک لاکھ نقد چھوڑا، جس میں ناجائز آمدنی کا ایک حبہ بھی نہ تھا۔ [34]

حلیہ ولباس

[ترمیم]

آخر عمر میں آنکھوں سے معذور ہو گئے تھے،سر اور داڑھی میں حناکا خضاب کرتے تھے،چاندی کی انگوٹھی پہنتے تھے،جس پر ان کا نام کندہ تھا،لباس نفیس اور خوش رنگ استعمال کرتے تھے،جبہ،عمامہ اور رداء وغیرہ سارے کپڑے عموماً خز کے ہوتے تھے،خز کے علاوہ اور قیمتی کپڑے بھی استعمال کرتے تھے،چادر بوٹے دار اور رنگین ہوتی تھی،عمامہ سپید ہوتا تھا ، زعفرانی رنگ زیادہ پسند خاطر تھا کبھی کبھی سبز بھی استعمال کرتے تھے۔

چند اقوال

[ترمیم]
  • اللہ کے حق کو پہچاننے کے بعد جاہل بن کر زندگی گزارنا بہتر ہے اس سے کہ وہ ایسی بات کہے جس کا اسے علم نہ ہو۔[35]
  • صحابہ م اجمعین کا اختلاف امت کے لیے رحمت ہے [36]
  • آدمی کی اپنی عزت کرنا یہ ہے کہ وہ اپنے احاطہٴ علم سے باہر کوئی بات نہ کرے۔ [37]
  • اپنی بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:بیٹے! ان چیزوں کے بارے میں حلفیہ گفتگو نہ کرو جن کا تمھیں علم نہ ہو[38]
  • نئے کپڑے کا میت سے زیادہ زندہ محتاج ہوتا ہے۔[39]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. مجلد 12 | صفحة 430 | المجلد الثاني عشر | كتاب النساء | حرف الصاد — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اپریل 2024
  2. جلوہ گاہِ دوست
  3. سیر اعلام النبلاء : 5/ 54 ،تاریخ الاسلام : 3/ 328
  4. تھذیب الکمال 23/ 430،تھذیب التھذیب : 8/ 334
  5. (ابن سعد ایضاً:5/139)
  6. (ابن سعد:5/139)
  7. (تہذیب الاسماء:1/55)
  8. (ابن سعد:5/139)
  9. (تہذیب الاسماء:1/55)
  10. (تہذیب :8/333)
  11. (ابن سعد:5/139)
  12. (تذکرۃ الحفاظ:ا/84)
  13. (تذکرۃ الحفاظ:1/84)
  14. (تہذیب الاسماء:1/55)
  15. (تہذیب الاسماء:1/55)
  16. (ابن سعد:5/140)
  17. (ابن سعد ایضاً:140)
  18. (تہذیب التہذیب:8/333)
  19. (تہذیب السماء،ج1،ق2،ص55)
  20. (تہذیب اسماء،ج1،ق2،ص55)
  21. (تذکرۃ الحفاظ:1/85)
  22. (ابن سعد،ج5،ص139)
  23. (ابن سعد:5/140)
  24. (تذکرہ الحفاظ:1/185)
  25. (تہذیب :8/334)
  26. (ایضاً)
  27. (تذکرہ الحفاظ:1/85)
  28. (تہذیب التہذیب:8/335)
  29. (ابن سعد:5/141)
  30. (تہذیب :8/335،وتہذیب الاسماء:1/55)
  31. (ابن سعد:5/141)
  32. (ابن خلکان:1/418)
  33. (ابن سعد:5/143)
  34. (تذکرۃ الحفاظ:1/185)
  35. (الطبقات لابن سعد :5/188،تہذیب الکمال :23/ 433، تاریخ الاسلام :3/329،سیر أعلام النبلاء :5/57)
  36. ۔(الطبقات : 5/ 189، سیر أعلام النبلاء :5/60،تاریخ الاسلام:3/ 329)
  37. (تہذیب الکمال :23/ 434،سیرأعلام النبلاء :5/57)
  38. ۔(الطبقات لابن سعد:5/189)
  39. (تاریخ الاسلام :2/ 330، الطبقات :5/ 193)