"طبیعیات" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 22: سطر 22:
=== قرون وسطی کی اسلامی دنیا میں طبیعیات ===
=== قرون وسطی کی اسلامی دنیا میں طبیعیات ===


[[قرون وسطی|قرونِ وُسطیٰ][ کے مسلمان سائنسدانوں میں سے [[ابن سینا]]، [[الکندی]]، [[نصیر الدین طوسی]] اور [[ملا صدرا]] کی خدمات طبیعیات، [[میکانیات]] اور [[حرکیات (طبیعیات)|حرکیات]] کے فروغ میں اِبتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد اَزاں [[محمد ابن زکریا الرازی]]، [[البیرونی]] او ر [[ابو البرکات البغدادی]] نے اُسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے [[علم کائینات|علمِ کائنات]] کو خاصا فروغ دیا۔ [[البیرونی]] نے [[ارسطو]] کے کئی طبیعیاتی نظریات کو ردّ کیا۔ البغدادی کی کتاب ’کتاب المعتبر‘ قدیم فزکس میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ [[حرکت (طبیعیات)|حرکت]] اور [[سمتی رفتار]] کی نسبت البغدادی اور ملاصدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لیے بھی باعثِ حیرت ہیں۔ پھر [[ابن الہیثم]] نے علم پیمائش، [[کرہ ہوائی]]،[[کثافت]]، [[وزن|اوزان]]، سمتی رفتار، [[کشش ثقل]] اور [[زمان و مکاں]] جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت بنیادی مواد فراہم کر کے علمِ طبیعیات کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ اِسی طرح میکانیات اور حرکیات کے باب میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سراَنجام دیں۔ ابنُ الہیثم کی کتاب [[کتاب المناظر|کتابُ المناظر]] نے اِس میدان میں گرانقدر علم کا اِضافہ کیا۔ ابنِ باجّہ نے بھی حرکیات میں نمایاں علمی خدمات اِنجام دیں۔ اُنہوں نے [[ارسطو]] کے نظریۂ رفتار کو ردّ کیا۔ اِسی طرح [[ابن رشد|ابنِ رشد]] نے بھی اِس علم کو ترقی دی۔ اِن مسلم سائنسدانوں نے [[گلیلیو گلیلی|گلیلیو]] سے بھی پہلے [[قوتِ ثقل]] کی خبر دِی مگر اُن کا تصوّر دورِ حاضر کے تصوّر سے قدرے مختلف تھا۔ اِسی طرح [[معیار حرکت]] کا تصوّر بھی اِسلامی سائنس کے زرِیعے مغربی دُنیا میں متعارف ہوا۔ [[ثابت بن قرہ]] نے لیور/[[بیرم]] پر پوری کتاب لکھی، جسے مغربی تاریخ میں لبر کراٹونس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بغداد کے دِیگر مسلم سائنسدانوں نے تاریخ کے کئی میکانکی آلات اور پرزہ جات وغیرہ پر بہت زیادہ سائنسی مواد فراہم کیا۔ علم [[بصریات]] کے میدان میں تو اِسلامی سائنسی تاریخ کو غیر معمولی عظمت حاصل ہے۔ بقول [[پروفیسر آرنلڈ]] اِس میدان میں چوتھی صدی ہجری کے ابنُ الہیثم اور [[کمال الدین محمد الفارسی]] کی سائنسی خدمات نے پچھلے نامور سائنسدانوں کے علم کے چراغ بجھادیئے۔ ابنُ الہیثم کی معرکۃُ الآراء کتاب آن آپٹکس آج اپنے لاطینی ترجمہ کے زرِیعے زندہ ہے۔ اُنہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ [[عدسہ (بصریات)|عدسہ]] کی [[کلاں نمائی طاقت|کلاں نمائی طاقت (Magnifying Power)]] کو دریافت کیا اور اِس تحقیق نے [[مکبر عدسہ]] کے نظریہ کو اِنسان کے قریب تر کر دیا۔ ابنُ الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ بصارت کو ردّ کر کے دُنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے رُوشناس کرایا اور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اَجسام کی طرف سے آتی ہیں۔ اُنہوں نے [[پردہ بصارت|پردۂ بصارت]] کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث کی اور اُس کا [[عصب بصری|عصبِ بصری]] اور دِماغ کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔ الغرض ابنُ الہیثم نے بصریات کی دُنیا میں اِس قدر تحقیقی پیش رفت کی کہ [[اقلیدس]] اور [[کیپلر]] کے درمیان اُس جیسا کوئی اور شخص تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وُہی جدید بصریات کے بانی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کام نے نہ صرف وٹیلو روجر بیکون اور پیکہام جیسے قدیم سائنسدانوں کو ہی متاثر کیا بلکہ دورِ جدید میں [[کیپلر]] اور [[نیوٹن]] کے کام بھی اُن سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ مزید برآں اُن کا نام روشنی، سمتی رفتار، عدسہ، فلکیاتی مشاہدات، [[موسمیات]] اور تاریک عکسالہ/کیمرا وغیرہ پر تاسیسی شان کا حامل ہے۔ اِسی طرح [[قطب الدین شیرازی]] اور [[القزوینی|القزوِینی]] نے بھی اِس میدان میں گرانقدر خدمات اِنجام دی ہیں۔<ref>https://mantiq.pk/article/109</ref>
[[قرون وسطی|قرونِ وُسطیٰ][ کے مسلمان سائنسدانوں میں سے [[ابن سینا]]، [[الکندی]]، [[نصیر الدین طوسی]] اور [[ملا صدرا]] کی خدمات طبیعیات، [[میکانیات]] اور [[حرکیات (طبیعیات)|حرکیات]] کے فروغ میں اِبتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد اَزاں [[محمد ابن زکریا الرازی]]، [[البیرونی]] او ر [[ابو البرکات البغدادی]] نے اُسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے [[علم کائینات|علمِ کائنات]] کو خاصا فروغ دیا۔ [[البیرونی]] نے [[ارسطو]] کے کئی طبیعیاتی نظریات کو ردّ کیا۔ البغدادی کی کتاب ’کتاب المعتبر‘ قدیم فزکس میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ [[حرکت (طبیعیات)|حرکت]] اور [[سمتی رفتار]] کی نسبت البغدادی اور ملاصدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لیے بھی باعثِ حیرت ہیں۔ پھر [[ابن الہیثم]] نے علم پیمائش، [[کرہ ہوائی]]،[[کثافت]]، [[وزن|اوزان]]، سمتی رفتار، [[کشش ثقل]] اور [[زمان و مکاں]] جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت بنیادی مواد فراہم کر کے علمِ طبیعیات کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ اِسی طرح میکانیات اور حرکیات کے باب میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سراَنجام دیں۔ ابنُ الہیثم کی کتاب [[کتاب المناظر|کتابُ المناظر]] نے اِس میدان میں گرانقدر علم کا اِضافہ کیا۔ ابنِ باجّہ نے بھی حرکیات میں نمایاں علمی خدمات اِنجام دیں۔ اُنہوں نے [[ارسطو]] کے نظریۂ رفتار کو ردّ کیا۔ اِسی طرح [[ابن رشد|ابنِ رشد]] نے بھی اِس علم کو ترقی دی۔ اِن مسلم سائنسدانوں نے [[گلیلیو گلیلی|گلیلیو]] سے بھی پہلے [[قوتِ ثقل]] کی خبر دِی مگر اُن کا تصوّر دورِ حاضر کے تصوّر سے قدرے مختلف تھا۔ اِسی طرح [[معیار حرکت]] کا تصوّر بھی اِسلامی سائنس کے زرِیعے مغربی دُنیا میں متعارف ہوا۔ [[ثابت بن قرہ]] نے لیور/[[بیرم]] پر پوری کتاب لکھی، جسے مغربی تاریخ میں لبر کراٹونس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بغداد کے دِیگر مسلم سائنسدانوں نے تاریخ کے کئی میکانکی آلات اور پرزہ جات وغیرہ پر بہت زیادہ سائنسی مواد فراہم کیا۔ علم [[بصریات]] کے میدان میں تو اِسلامی سائنسی تاریخ کو غیر معمولی عظمت حاصل ہے۔ بقول [[پروفیسر آرنلڈ]] اِس میدان میں چوتھی صدی ہجری کے ابنُ الہیثم اور [[کمال الدین محمد الفارسی]] کی سائنسی خدمات نے پچھلے نامور سائنسدانوں کے علم کے چراغ بجھادیئے۔ ابنُ الہیثم کی معرکۃُ الآراء کتاب آن آپٹکس آج اپنے لاطینی ترجمہ کے زرِیعے زندہ ہے۔ اُنہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ [[عدسہ (بصریات)|عدسہ]] کی [[کلاں نمائی طاقت|کلاں نمائی طاقت (Magnifying Power)]] کو دریافت کیا اور اِس تحقیق نے [[مکبر عدسہ]] کے نظریہ کو اِنسان کے قریب تر کر دیا۔ ابنُ الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ بصارت کو ردّ کر کے دُنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے رُوشناس کرایا اور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اَجسام کی طرف سے آتی ہیں۔ اُنہوں نے [[پردہ بصارت|پردۂ بصارت]] کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث کی اور اُس کا [[عصب بصری|عصبِ بصری]] اور دِماغ کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔ الغرض ابنُ الہیثم نے بصریات کی دُنیا میں اِس قدر تحقیقی پیش رفت کی کہ [[اقلیدس]] اور [[کیپلر]] کے درمیان اُس جیسا کوئی اور شخص تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وُہی جدید بصریات کے بانی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کام نے نہ صرف وٹیلو روجر بیکون اور پیکہام جیسے قدیم سائنسدانوں کو ہی متاثر کیا بلکہ دورِ جدید میں [[کیپلر]] اور [[نیوٹن]] کے کام بھی اُن سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ مزید برآں اُن کا نام روشنی، سمتی رفتار، عدسہ، فلکیاتی مشاہدات، [[موسمیات]] اور تاریک عکسالہ/کیمرا وغیرہ پر تاسیسی شان کا حامل ہے۔ اِسی طرح [[قطب الدین شیرازی]] اور [[القزوینی|القزوِینی]] نے بھی اِس میدان میں گرانقدر خدمات اِنجام دی ہیں۔<ref>{{Cite web |url=https://mantiq.pk/article/109 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2018-01-18 |archive-date=2018-10-20 |archive-url=https://web.archive.org/web/20181020125332/http://mantiq.pk/article/109 |url-status=dead }}</ref>


== کلیدی نظریات ==
== کلیدی نظریات ==

نسخہ بمطابق 19:26، 15 جنوری 2021ء

طبیعیات کے مظاہر کی مختلف مثالیں۔

طبیعیات (انگریزی: physics) علم طبیعی (physical science) کا ایک بنیادی شعبہ ہے۔ اس کی تعریف یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ فطرت یا طبیعہ کے اصول و قوانین کے مطالعہ کا نام ہے۔ طبیعیات ایک ایسا سائنسی علم ہے جس میں فطرت و طبیعہ کے ان بنیادی قوانین پر تحقیق کی جاتی ہے کہ جو اس کائنات کے نظم و ضبط کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ فطرت کے قوانین چار اہم اساسوں کے گرد گھومتے ہیں جو بنام زمان و مکاں اور مادہ و توانائی ہیں۔ اس کا لب لباب یوں کہہ سکتے ہیں کہ طبیعیات دراصل کائنات کی تشکیل کرنے والے بنیادی اجزاء اور ان اجزاء کے باہمی روابط کے مطالعے اور پھر ان کے زیرِ اثر چلنے والے دیگر نظاموں (بشمول انسان ساختہ) کے تجزیات کا نام ہے۔

طبیعیات کے سلسلے میں ایک عمومی بات یہ ہے کہ یہ طبیعی اجسام سے متعلق رہتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عام طور پر اس میں غیر نامیاتی (Inorganic) اجسام یا مادوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس نامیاتی (Organic) مرکبات اور مادوں کا مطالعہ عام طور پر حیاتیات اور فعلیات کے زمرے میں آتا ہے۔ کیمیاء میں اکثر ایسے مقامات آتے ہیں جہاں اس کا علم غیر نامیاتی دائرے سے نکل کر نامیاتی اجسام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، مثال کے طور پر حیاتی کیمیاء۔ یہ دائرہ بندی گو بنیادی تصور قائم کرنے کے لیے تو اہم ہے لیکن آج سائنس کی ترقی نے ان تمام علوم کے دائروں کا مدہم کرکے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ جہاں اکثر مقامات پر ان کی سرحدیں ایک دوسرے میں نفوذ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔

تعریف

طبیعیات، مادے اور توانائی کے علم اور ان کے باہمی تعلق کے مطالعے کو کہا جاتا ہے۔

وجہ تسمیہ

انگریزی میں فزکس کا لفظ، یونانی زبان کے physis سے آیا ہے جس کے معنی فطرت یا طبیعہ کے ہوتے ہیں۔ طبیعہ سے مراد کائنات کی ہر وہ شے ہوتی ہے کہ جو انسان کے اختیار یا تضبیط سے باہر ہو (یا کم از کم اس وقت رہی ہو جب سے اس لفظ کی ان معنوں میں استعمال کی اصطلاح رائج ہوئی) اور اسی عربی لفظ طبیعہ سے آج کا مروجہ لفظ برائے فزکس یعنی طبیعیات ماخوذ ہے۔ بالکل اسی نام کی مناسبت سے طبیعیات ایک ایسا سائنسی علم ہے جس میں فطرت و طبیعہ کے ان بنیادی قوانین پر تحقیق کی جاتی ہے کہ جو اس کائنات کے نظم و ضبط کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

تاریخ

قدیم طبیعیات

فلکیات فطری سائنس میں سب سے قدیم ہے۔3000 قبل مسیح کی تہزیبوں جن میں سمیری تہزیب، قدیم مصری تہزیب اور وادئ سندھ کی تہزیبیں شامل ہیں کو سورج، چاند اور ستاروں کی حرکت کے متعلق بنیادی سمجھ بوجھ اور پیش گویانہ علم تھا۔ اس زمانے میں سورج، چاند، ستاروں کی پرستش کی جاتی تھی اور انہیں خدا کا درجہ دیا جاتا تھا۔ ان مظاہر کی وضاحت غیر سائنسی تھی اور ان میں دلائل کا فقدان تھا لیکن یہی ابتدائی مشاہدات جدید فلکیات کی بنیاد بنی۔ مشہور تاریخ دان اسگر آبو کے مطابق مغربی فلکیات کی بنیاد بین النہرین ہوسکتی ہے اور علوم دقیقہ میں تمام مغربی جدوجہد بابلی فلکیات سے نسل در نسل منتقل ہوئی ہیں۔ مصری فلکیات دانوں نے ایسی یاد گاروں کو چھوڑا جس پر اجرام فلکی کی حرکت اور ستاروں کے جھرمٹوں کے بارے میں معلومات محفوظ تھیں۔ یونانی شاعر ہومر نے بھی اپنی شاعری میں اجرام فلکی کے متعلق لکھا بعد کے یونانی ماہرین فلکیات نے نصف کرہ شمالی کے ستاروں کے جھرمٹوں کے نام مہیا کیے جو اب تک استعمال ہو رہے ہیں۔

فطری فلسفہ

طبیعیات علم کے قدیم ترین شعبوں میں شمار کیا جاتاہے اور اس کا آغاز علم فلسفہ سے ہوا ہے۔ یعنی شروع میں مظاہر فطرت کی توضیح و تشریح علم فلسفہ کا ہی حصہ تھا جو بعد میں فطری فلسفہ کہلانے لگا۔ بعد ازاں اس کو علوم فطریہ کہا جاتا رہا حتٰی کہ طبیعیات کا جدید تصور رائج ہو گیا۔ فطری فلسفہ کی ابتدا 480 ق م سے 650 ق م میں یونان کے یونان کھن کے دور سے ہوئی جب قبلِ ارسطو فلسفیوں نے فطری مظاہر کی غیر فطری طریقے سے وضاحت کو مسترد کر دیا اور دعویٰ کیا کہ ہر واقعہ کی کوئی فطری وجہ ہوتی ہے انہوں نے ہر واقعہ کی منطق اور مشاہدے سے تصدیق کی تجویز پش کی یہی وجہ ہے کہ ان کے کئی مفروضات تجربات میں کامیاب ثابت ہوئے جیسا کہ جوہری مفروضہ جو تقریباً 2000 سال بعد درست ثابت ہو کر جوہری نظریہ بنا ان فلسفیوں میں مشہور یونانی فلسفی تھالس بھی شامل تھا۔ جوہری نظریہ سب سے پہلے یونانی فلسفی لئوکیپوس اور اس کے شاگرد دیموقراطیس نے تجویز کیا۔

قرون وسطی کی اسلامی دنیا میں طبیعیات

[[قرون وسطی|قرونِ وُسطیٰ][ کے مسلمان سائنسدانوں میں سے ابن سینا، الکندی، نصیر الدین طوسی اور ملا صدرا کی خدمات طبیعیات، میکانیات اور حرکیات کے فروغ میں اِبتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد اَزاں محمد ابن زکریا الرازی، البیرونی او ر ابو البرکات البغدادی نے اُسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے علمِ کائنات کو خاصا فروغ دیا۔ البیرونی نے ارسطو کے کئی طبیعیاتی نظریات کو ردّ کیا۔ البغدادی کی کتاب ’کتاب المعتبر‘ قدیم فزکس میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ حرکت اور سمتی رفتار کی نسبت البغدادی اور ملاصدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لیے بھی باعثِ حیرت ہیں۔ پھر ابن الہیثم نے علم پیمائش، کرہ ہوائی،کثافت، اوزان، سمتی رفتار، کشش ثقل اور زمان و مکاں جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت بنیادی مواد فراہم کر کے علمِ طبیعیات کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ اِسی طرح میکانیات اور حرکیات کے باب میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سراَنجام دیں۔ ابنُ الہیثم کی کتاب کتابُ المناظر نے اِس میدان میں گرانقدر علم کا اِضافہ کیا۔ ابنِ باجّہ نے بھی حرکیات میں نمایاں علمی خدمات اِنجام دیں۔ اُنہوں نے ارسطو کے نظریۂ رفتار کو ردّ کیا۔ اِسی طرح ابنِ رشد نے بھی اِس علم کو ترقی دی۔ اِن مسلم سائنسدانوں نے گلیلیو سے بھی پہلے قوتِ ثقل کی خبر دِی مگر اُن کا تصوّر دورِ حاضر کے تصوّر سے قدرے مختلف تھا۔ اِسی طرح معیار حرکت کا تصوّر بھی اِسلامی سائنس کے زرِیعے مغربی دُنیا میں متعارف ہوا۔ ثابت بن قرہ نے لیور/بیرم پر پوری کتاب لکھی، جسے مغربی تاریخ میں لبر کراٹونس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بغداد کے دِیگر مسلم سائنسدانوں نے تاریخ کے کئی میکانکی آلات اور پرزہ جات وغیرہ پر بہت زیادہ سائنسی مواد فراہم کیا۔ علم بصریات کے میدان میں تو اِسلامی سائنسی تاریخ کو غیر معمولی عظمت حاصل ہے۔ بقول پروفیسر آرنلڈ اِس میدان میں چوتھی صدی ہجری کے ابنُ الہیثم اور کمال الدین محمد الفارسی کی سائنسی خدمات نے پچھلے نامور سائنسدانوں کے علم کے چراغ بجھادیئے۔ ابنُ الہیثم کی معرکۃُ الآراء کتاب آن آپٹکس آج اپنے لاطینی ترجمہ کے زرِیعے زندہ ہے۔ اُنہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ عدسہ کی کلاں نمائی طاقت (Magnifying Power) کو دریافت کیا اور اِس تحقیق نے مکبر عدسہ کے نظریہ کو اِنسان کے قریب تر کر دیا۔ ابنُ الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ بصارت کو ردّ کر کے دُنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے رُوشناس کرایا اور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اَجسام کی طرف سے آتی ہیں۔ اُنہوں نے پردۂ بصارت کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث کی اور اُس کا عصبِ بصری اور دِماغ کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔ الغرض ابنُ الہیثم نے بصریات کی دُنیا میں اِس قدر تحقیقی پیش رفت کی کہ اقلیدس اور کیپلر کے درمیان اُس جیسا کوئی اور شخص تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وُہی جدید بصریات کے بانی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کام نے نہ صرف وٹیلو روجر بیکون اور پیکہام جیسے قدیم سائنسدانوں کو ہی متاثر کیا بلکہ دورِ جدید میں کیپلر اور نیوٹن کے کام بھی اُن سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ مزید برآں اُن کا نام روشنی، سمتی رفتار، عدسہ، فلکیاتی مشاہدات، موسمیات اور تاریک عکسالہ/کیمرا وغیرہ پر تاسیسی شان کا حامل ہے۔ اِسی طرح قطب الدین شیرازی اور القزوِینی نے بھی اِس میدان میں گرانقدر خدمات اِنجام دی ہیں۔[1]

کلیدی نظریات

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. "آرکائیو کاپی"۔ 20 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2018