جلال الدین محمود عثمانی پانی پتی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کبیر الاولیاء
جلال الدین
پانی پتی
محمد
معلومات شخصیت
پیدائشی نام محمد
اصل نام جلال الدین محمد بن محمود عثمانی
مدفن پانی پت
رہائش بھارت
شہریت خلجی خاندان
لقب کبیر الاولیاء
نسل عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
مذہب اسلام
فرقہ حنفی
والد شیخ محمود
عملی زندگی
مادری زبان فارسی
پیشہ ورانہ زبان عربی ، فارسی
وجۂ شہرت ولایت
مؤثر بو علی شاہ قلندر
متاثر احمدعبدالحق ابدال

کبیر الاولیاء شیخ مخدوم جلال الدین محمد عثمانی پانی پتی سلسلہ چشتیہ کے اکابر بزرگان میں شمار ہوتے ہیں۔

نام[ترمیم]

آپ کا نام محمدبن محمود یا خواجہ محمود، لقب کبیر الاولیاء اور مرشد گرامی کی طرف سے عطا کردہ لقب جلال الدین ہے۔ والد ماجد کا نام شیخ محمود ہے جو پانی پت کے امیر الامراء تھے

ولادت[ترمیم]

ولادت 695ھ ہجری آپ امیر المؤمنین عثمان غنی کی اولاد سے ہیں۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

ایام طفولیت ہی سے آپ پر عشق الٰہی کا غلبہ رہتا تھا مگر رہن سہن میں امیر زادگی بدستور تھی۔ بو علی شاہ قلندر پانی پتی آپ کو بہت عزیز رکھتے تھے اور لوگوں کو آپ کی تابناک مستقبل کی بشارت دیتے تھے۔ آپ بھی ان سے بہت متاثر تھے چنانچہ ایک بار ان سے بیعت ہونے کی خواہش ظاہر کی تو قلندر صاحب نے فرمایا کہ جلال الدین جلدی نہ کرو تمھارا پیر و مرشد عنقریب یہاں وارد ہوگا۔ منقول ہے کہ آپ چالیس سال تک سیر و سیاحت میں مشغول رہے اور علما و مشائخ کی زیارت فرمائی پھر جب سیر و سیاحت سے پانی پت لوٹے تو یہاں حضرت شمس الدین ترک پانی پتی کا سورج نصف النہار پر چمک رہا تھا۔ پہلی نظر پڑتے ہی آپ ان کے دام محبت میں گرفتار ہو گئے اور حلقہ ارادت میں داخل ہو کر روحانی کمالات سے مالامال ہوئے۔ حضرت ترک پانی پتی نے جب آپ کو پہلی بار دیکھا تو فرمایا: ’’میں اپنی نعمت اس لڑکے کی پیشانی پر تاباں دیکھتا ہوں‘‘ اور جب بیعت و خلافت سے نوازا تو فرمایا کہ ’’میں نے تجھ کو یہ بھی دیا اور وہ بھی دیا۔‘‘ آپ نے اپنے پیر و مرشد کی دل و جان سے خدمت کی اوران کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہوئے۔[1]

کرامات[ترمیم]

ایک مرتبہ جلال الدین کبیرالاولیاء ایک گاؤں سے گذرے تو دیکھا کہ لوگ اپنا سامان اٹھائے ہوئے جا رہے ہیں۔ جلال الدین کبیرالاولیاء نے وجہ پوچھی تو لوگوں نے بتایا کہ گاؤں میں ژالہ باری کی وجہ سے فصل خراب ہو گئی ہے لگان ادا کرنے سے قاصر ہیں حاکم سخت ہے۔ آپ نے فرمایا اس گاؤں کو ہمارے ہاتھ فروخت کردو اور اس کا نام جلال آباد رکھ دو تو تمھارا لگان بھی ادا ہو جائے گا اور تمھیں اچھی خاصی رقم بھی بچ جائے گی۔ وہ لوگ راضی ہو گئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان لوگوں سے لوہا اور لکڑی منگوائی اور ان سے کہا کہ اس لکڑی کو جلاؤ اور اس میں لوہے کے ٹکڑے ڈال دو۔ جلال الدین کبیرالاولیاءنے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ گھر چلے جائیں اور صبح آکر اسے دیکھیں کہ کیا ہواہے چنانچہ وہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ آپ بھی اس رات اس گاؤں سے چلے گئے۔ صبح کو جب گاؤں والے وہاں واپس آئے تو وہ یہ دیکھ کر سخت حیرت میں مبتلا ہوئے کہ سارا لوہا سونے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ انھوں نے لگان ادا کیا اور باقی روپیہ اپنے خرچ میں لائے۔ لوگوں نے پھر اس گاؤں کا نام جلال آباد رکھ دیا۔[2]

جوگی کا قبول اسلام[ترمیم]

ایک دن آپ دریا کے کنارے تشریف لے گئے وہاں ایک جوگی آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔ آپ کے وہاں پہنچنے پر جوگی نے آنکھیں کھولیں اور آپ کو سنگ پارس دیا۔ آپ نے اس پتھر کو دریا میں پھینک دیا جوگی خفا ہوا۔ آپ نے جوگی سے فرمایا کہ دریا میں جاکر اپنا پتھر لے آئے لیکن اس کے علاوہ اور کوئی پتھر نہ لے۔ جب جوگی دریا میں گیا تو اس نے وہاں ہزاروں اس قسم کے پتھر پائے۔ اس نے اپنے پتھر کے علاوہ ایک اور پتھر اٹھایا اور باہرآیا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ وہ دوسرا پتھر کیوں چھپا کر لایا۔ اس نے دونوں پتھر آپ کے سامنے رکھ دیے اور آپ کا مرید ہوا۔[3][4]

پانی کا گھڑا[ترمیم]

ایک دن جلال الدین کبیرالاولیاء کہیں جا رہے تھے کہ ایک ضعیف عورت سر پر پانی کا گھڑا رکھے جا رہی تھی۔ اس کے پاؤں کانپ رہے تھے آپ نے پوچھا کیا آپ کا کوئی اور آدمی پانی نہیں لا سکتا کہنے لگی میں بے کس اور بے سہارا ہوں۔ حضرت نے پانی کا گھڑا اٹھایا اور اپنے کندھے پر رکھ کر چلنے لگے اور اس کے گھر پہنچے۔ گھڑا رکھ کر فرمایا آج کے بعد انشااللہ یہ گھڑا پانی سے بھرا رہے گا تمھیں پانی لانے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ وہ ضعیف عورت اس گھڑے سے پانی استعمال کرتی رہی مگر پانی کبھی کم نہ ہوا۔[5]

وجد و حال[ترمیم]

جلال الدین محمود کبیر الاولیاء وجد و سماع میں مشغول رہتے تھے۔ آپ کی دعا کبھی نامنظور نہ ہوتی تھی۔ آپ کی زبان مبارک سے جو بھی نکل جاتا پوراہوتا تھا۔ عمر کے آخری حصہ میں آپ کے اوپر استغراق کا یہ عالم تھا کہ نماز کے وقت آپ کے کان میں تین مرتبہ حق حق کہا جاتا پھر آپ ہوش میں آتے اور نماز ادا کرتے نماز سے فارغ ہوکر آپ دوبارہ پھر مراقبے میں چلے جاتے۔[2]

تصنیف[ترمیم]

ایک کتاب زاد الابرا ان کی تصنیف ہے۔[6]

وصال[ترمیم]

آپ کی تاریخ وصال 13 ربیع الاول 765ھ ہے عمر شریف ستر سال بتائی جاتی ہے۔ آپ کے پانچ صاحبزادے اور چالیس خلفاء تھے مگر سلسلہ آگے مخدوم احمد عبد الحق ردولوی سے چلا۔ آپ کا مزار مبارک پانی پت میں آج بھی مرجع خاص و عام ہے۔[7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. حضرت مراد علی خاں رحمۃ اللہ علیہ
  2. ^ ا ب خزینۃ الاصفیاءجلد دوم، غلام سرور لاہوری،صفحہ 235مکتبہ نبویہ لاہور
  3. خزینۃ الاصفیاء جلد دوم، غلام سرور لاہوری،صفحہ 236مکتبہ نبویہ لاہور
  4. تاریخ مشائخ چشت از محمد زکریا المہاجر المدنی صفحہ 185ناشر مکتبہ الشیخ کراچی
  5. خزینۃ الاصفیاءجلد دوم، غلام سرور لاہوری،صفحہ 238مکتبہ نبویہ لاہور
  6. برکات الاولیاء ،سید امام الدین احمد نقوی صفحہ 80رفاعی مشن ناسک مہاراسٹرا
  7. تاریخ مشائخ چشت از محمد زکریا المہاجر المدنی صفحہ 145ناشر مکتبہ الشیخ کراچی