محمد عارف عرف مخدوم عارف

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد عارف عرف مخدوم عارف
معلومات شخصیت

شیخ محمد عارف چشتی ردولوی :-

آ نے پ اپنے والد شیخ العالم عبد الحق سے خلافت کا منصب حاصل فرما کرے سلسلہ چشتیہ کو فروغ بخش ان کا مزار ردولی میں واقع ہے ۔

عبد القدوس گنگوہی کے مرشد[ترمیم]

رکن الدین لطائف قدسی میں فرماتے ہیں کہ میرے والدعبدالقدوس گنگوہی کا ارادہ تھا کہ وہ کسی دوسری جگہ بیعت کریں کیونکہ محمد عارف صاحب سے رشتہ داری تھی اور اسی وجہ سے ان کی توجہ محمد عارف کی طرف کم تھی۔ جب دوسری جگہ مرید ہونے کا دل میں خیال آیا تو عبدالحق ردولوی مراقبے میں ظاہر ہوکر فرماتے کہ تو میرا ہوکر دوسری جگہ کا ارادہ رکھتا ہے۔ پھر فرمایا اگر یہ خیال ظاہری بیعت کا ہے تو میرے نسبی اور روحانی پوتے محمد عارف سے بیعت کر۔ اس کے بعد میرے والد نے میرے ماموں محمد عارف سے بیعت کی۔ اگرچہ محمد عارف میرے والد کے پیر تھے مگر بوجہ میرے والد کے بڑے بہنوئی ہونے کے بہت عزت وتکریم فرماتے تھے۔

حالت استغراق[ترمیم]

محمد عارف بھی اپنے والد اور جد امجد کی طرح ہمیشہ سکر اور استغراق میں رہتے تھے۔ ہر جمعہ کو صبح کی نماز جامع مسجد میں ادا کرتے۔ تمام دن جامع مسجد میں مشغول رہتے کسی سے بات نہ کرتے جب جمعہ کا وقت آتا نماز ادا کرکے پھر مشغول ہوجاتے۔ پھر اسی طرح عصر کی نماز ادا کرتے اور پھر نماز مغرب ادا کرکے جامع مسجد سے خانقاہ تشریف لاتے۔ اپنی تمام عمر میں چاندی یا سونے کو ہاتھ نہ لگایا۔ خانقاہ میں جو کچھ بھی آتا خدام کو حکم تھا کہ شام تک کل خرچ ہو جائے اور کل کے واسطے کچھ نہ بچے۔ جو مسافر یا فقیر خانقاہ میں آتا تھا اس سے نہایت مہربانی سے پیش آتے اور جو کچھ سامنے موجود ہوتا فرماتے کہ اس کو اٹھا لو۔

ودیعت خلافت[ترمیم]

صاحب لطائف قدسی فرماتے ہیں کہ آخری عمر میں جب محمد عارف کے اوپر نزاع کا وقت طاری ہوا تو انھوں نے اس وقت اپنے فرزند کلاں شیخ بدہ کو طلب کیا حاضرین نے عرض کی کہ حضور وہ شاہ آباد میں عبد القدوس کے پاس پڑھتے ہیں۔ ان سے فوری رابطہ ممکن نہیں۔ اسی دوران احمد عبد الحق نے میرے والد عبد القدوس کو فرمایا کہ شیخ بدہ کو لے کر فوراً رودلی پہنچو۔ چنانچہ میرے والد فوراً شیخ بدہ کو لے کر رودلی کی طرف چل دیے۔ جس وقت میرے والد رودلی پہنچے تو اس وقت محمد عارف کا وقت قریب تھا اور وہ حالت استغراق میں تھے۔ میرے والد نے عرض کیا کہ یہ وقت ہوشیاری مردان خدا کا ہے۔ محمد عارف نے جواب دیا کہ اس وقت سوائے ذات حق کے میرے سینے میں کچھ نہیں سماتا۔ پھر اٹھ کر بیٹھ گئے اور خرقہ خلافت اور جملہ چیزیں امانت پیران چشت ما اسم اعظم میرے والد کو مرحمت فرمایا اور اپنا جانشین بنایا۔ میرے والد عبد القدوس گنگوہی نے عرض کی مجھے آپ کی جدائی کیسے گوارا ہوگی۔ محمد عارف نے فرمایا تجھ کو کیا ڈر ہے تو تو اولیا حق سے ہے میری جگہ تیری جگہ ہے۔ جہاں جی چاہے رہو میں تجھ سے ہرگز جدا نہیں ہوں۔ اور میں اپنے فرزند کی تربیت تمھارے حوالے کرتا ہوں۔ اس کو اسرار باطنی سے آگاہ کردیجیے۔

وصال[ترمیم]

محمد عارف یہ وصیت تمام کرکے باخوشی حق حق کہتے ہوئے اس دارفانی سے رخصت ہو گئے۔ آپ کا سنہ وفات 17صفر 898ھ ہے۔ رکن الدین فرماتے ہیں کہ میرے والدعبدالقدوس نے مخدوم زادہ شیخ بدہ کو اپنے پیر صاحب کا سجادہ نشین مقرر کیا اور پھر چند روز کے بعد خود گنگوہ تشریف لے گئے۔[1][2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. خزینۃ الاصفیاءجلد دوم، غلام سرور لاہوری،صفحہ 294مکتبہ نبویہ لاہور
  2. تاریخ مشائخ چشت از محمد زکریا المہاجر المدنی صفحہ 191ناشر مکتبہ الشیخ کراچی