مندرجات کا رخ کریں

علی ابن ابی طالب کی جائے پیدائش

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

علی ابن ابی طالب کی جائے پیدائش

شیعہ نظریہ

[ترمیم]

اکثر مآخذ اور منابع میں من جملہ تمام امامیہ مکاتب فکر (بشمول شیعہ اثنی عشری کے تمام فرقے، اسماعیلی کے تمام فرقے، زیدیہ کے تمام گروہ اورعلویہ وغیرہ نیز ان کے علاوہ غلات و نصیری جیسے غیر مسلم گروہوں) کا نظریہ ہے کہ ان تمام مکاتب فکر کے پہلے امام، حضرت علی بن ابی طالب ہی وہ پہلے اور اکلوتے فرد ہیں جو مکہ میں موجود مسجد الحرام میں واقع خانہ کعبہ (جو عالم اسلام کا قبلہ بھی ہے اور وہاں حج و عمرہ بھی کیا جاتا ہے۔) کے اندر پیدا ہوئے۔ یہ سب مکاتب فکر ان کو مولود کعبہ بھی کہتے ہیں۔

فائل:Rukn yamani.jpg
رکن یمانی خانہ کعبہ کے جنوب مغربی کونے کو کہتے ہیں۔

ان بہت سے منابع میں ہے کہ خانہ کعبہ کی دیوار خود بخود شق ہوئی اور علی کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد جو حاملہ تھیں کعبہ کے اندر داخل ہو گئیں۔ تین دن اندر رہیں (لوگوں نے دروازہ کھولنے کی بے سود کوششیں کیں) جب وہ خود باہر آئیں تو کعبہ کے بطن میں پیدا ہونے والے بچے علی بن ابی طالب کو اپنی گود مبارک میں اٹھائے ہوئے تھیں۔
جہاں سے دیوار شق ہوئی اس جگہ کو رکن یمانی کہا جاتا ہے۔ خانہ کعبہ کی دیوار میں یہ مقدس دراڑ صدیوں سے بھری نہیں جا سکی۔ دنیا کی کوئی دھات یا مواد اس میں قائم نہیں رہتا[1]۔ یہ دراڑ حضرت علی ابن ابی طالب کی پیدائش[2] کے لیے خانہ کعبہ میں اللہ تعالٰی کے حکم سے پڑی تھی[3]۔
جو شخص بھی خانہ کعبہ کے پاس جا کر رکن یمانی کو دیکھے اس پر حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ صدیوں سے بار بار اس جگہ کی ترمیم کے با وجود[4] اس جگہ پر دیوار بالکل بقیہ دیوار سے یکسر مختلف اور نا موزوں ہے۔ ان مآخذ سے اختلاف کرتے ہوئے چند ایک روایات کا دعوی ہے کہ: کعبہ بتوں بھرا ہوا تھا۔ اور علی کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے کعبہ کے پاس علی کو جنم دیا۔ پھر دروازے کے ذریعے اندر گئیں اور تین دن اندر رہیں۔
روایات کے مطابق اپنے کزن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے تک، علی نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ جب آنحضرت تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی گود میں بچے کو لے لیا اور اپنی زبان مبارک بچے کے منہ میں ڈال دی- اس طرح جملہ علوم کو منتقل کر دیا۔ جب علی نے زبان مبارک کو چوسنا شروع کیا تو آنکھیں کھول کر سب سے پہلے جس شخصیت کا دیدار کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے۔

حضرت محمد نے فاطمہ بنت اسد پوچھا آپ نے اس بچے کا نام رکھا ہے؟

تو انھوں نے جواب دیا جب وہ اندر تھیں تو انھیں ایک نام بتایا گیا یعنی بچے کی پیدائش میں سہولت اور ہماری دیکھ بھال کے لیے آسمان سے آنے والی مخلوق نے ایک شاندار آواز میں اس کا نام علی رکھا جس کا معنی ہے برتر[5][6]

سنی نظریہ

[ترمیم]

کچھ سنیوں کے نزدیک خانہ کعبہ میں صرف حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی ہے۔بعض حضرات نے خلیفہ رابع، امیر الموٴمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ ان کی پیدائش بھی بیت اللہ کے اندر ہوئی تھی،ملاحظہ ہو: ”امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں ایک روایت ذکر کی ہے، جس میں راوی حدیث مصعب بن عبد اللہ رحمہ اللہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے بیت اللہ کے اندر پیدا ہونے کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ”ولم یولد قبلہ ولا بعدہ في الکعبة أحد“․ کہ نہ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کوئی بھی کعبہ میں پیدا ہوا۔ لیکن اس پر امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”وَھِمَ مصعبٌ في الحرف الأخیر، فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمیر الموٴمنین علي بن أبي طالب کرم اللہ وجہہ في جوف الکعبة“․کہ اس آخری بات میں ”مصعب“ کو وہم ہو گیا ہے، اس لیے کہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بیت اللہ کے اندر جنم دیا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین، ذکر مناقب حکیم بن حزام القرشی رضی اللہ عنہ، رقم الحدیث: 6044، 3/550، دارالکتب العلمیہ)

شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”واز مناقب علي رضی اللہ عنہ کہ در حین ولادت او ظاہر شد یکی آن است کہ در جوف کعبہ معظمہ تولد یافت․ قال الحاکم في ترجمة حکیم بن حزام قول مصعب؛ فیہ: ”ولم یولد قبلہ ولا بعدہ في الکعبة أحد“ مانصہ: ”وھم مصعب في الحرف الأخیر، فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمیر الموٴمنین علي بن أبي طالب کرم اللہ وجہہ في جوف الکعبة“․(ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء: 6/359)

لیکن یہ بات دعوی بلا دلیل کی قبیل سے ہے؛ اس لیے کہ کتبِ احادیث یا کتبِ رجال میں حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی بھی شخص کے بیت اللہ میں پیدا ہونے کا ذکر موجود نہیں ہے، چہ جائیکہ اس بارے میں روایات یا آثار واخبار تواتر تک پہنچی ہوئی ہوں، حدِ تواتر تک پہنچ جانے والی روایات کو نہ تو امام حاکم نے ذکر کیا اور نہ کسی اور کتاب میں وہ ملتی ہیں۔

رہ گئی قائلین کی بات؛ تو وہ محض انہی قائلین کی بات ہے، جو بلا کسی سند کے ذکر کی گئی ہے۔ نیز قائلین میں سے تقریباً سب نے امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کو بنیاد بناتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا ہے، جب کہ علامہ سیوطی اور علامہ نووی رحمہما اللہ نے بالتصریح ان حضرات کی تردید فرمائی ہے۔

علامہ سیوطی نے امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کو ضعیف قرار دیا ہے۔

قال شیخ الإسلام: ولا یعرف ذٰلک لغیرہ، وما وقع في ”مستدرک الحاکم“ - من أن علیا وُلِدَ فیھا - ضعیفٌ․(تدریب الراوي، النوع الستون: التواریخ والوفیات، فرع الثاني: صحابیان عاشا ستین سنة في الجاھلیة: 2/482، دار العاصمة)

اور علامہ نووی نے بھی امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کو ضعیف قرار دیا ہے۔

”قالوا: ولد حکیم (بن حزام) في جوف الکعبة، ولا یعرف أحد ولد فیھا غیر ہ، وأما ما روي أن علي ابن أبي طالب رضي اللہ عنہ ولد فیھا؛ فضعیف عند العلماء“․ (تھذیب الأسماء واللغات للنووي، حرف الحاء، حکیم بن حزام: 1/166، دارالکتب العلمیة)

اس کے علاوہ علامہ حسین بن محمد الدِّیار البَکْري (المتوفی: 966ھ)نے تاریخ الخمیس میں ذکر کیا کہ کہا جاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے؛ لیکن یہ بات ثابت نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو: ”ویقال: ولادتہ في داخل الکعبة، ولم یثبت“․ (تاریخ الخمیس في أحوال أنفس النفیس، ذکر علي بن أبي طالب: 2/275، دار صادر)

اسی طرح شرح نہج البلاغہ لابن عبد الحمید بن ھبة اللہ (المتوفی: 656)میں مذکور ہے: ”واختلف في مولد علي (رضي اللہ عنہ) أین کان؟ فکثیر من الشیعة یزعمون أنہ ولد في الکعبة، والمحدثون لا یعترفون بذٰلک، ویزعمون أن المولود في الکعبة حکیم بن حزام بن خویلد بن أسد بن عبد العزی بن قصي“․ (شرح نھج البلاغة، القول في نسب أمیر الموٴمنین علي بن أبي طالب وذکر لمع بسیرة من فضائلہ: 1/14، دار الجیل)

اسی طرح السیرة الحلبیة لعلي بن إبراہیم الحلبي (المتوفی: 1044ھ) میں مذکور ہے: ” وکون علي صلی اللہ علیہ وسلمصلی اللہ علیہ وسلم ولد في الکعبة صلی اللہ علیہ وسلمصلی اللہ علیہ وسلمقیل الذي ولد في الکعبة حکیم بن حزام، قال بعضھم : لا مانع من ولادة کلیھما في الکعبة، لٰکن في النور: حکیم بن حزام ولد في جوف الکعبة، ولا یعرف ذٰلک لغیرہ، وأما ما روي أن علیاً ولد فیھا، فضعیف عند العلماء“․ (السیرة الحلبیة، باب تزوجہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجة بنت خویلد: 1/202)[7]

بیرونی روابط

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ہر سال لاکھوں ریال دیوار کی خوبصورتی بحال کرنے کی غرض سے اس کونے کی دراڑ کو بھرنے کے لیے خرچہ کیا جاتا ہے مگر دراڑ میں کوئی چیز قائم نہیں رہتی۔
  2. شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ” ازالۃ الخفاءحافظ گنجی شافعی اپنی کتاب ” کفایۃ الطالبعلامہ امینی نے اپنی کتاب ” الغدیر میں اہل سنت کے 300 کے قریب حوالے بیان کیے ہیں اور مسعودی نے اپنی کتاب مروج الذهب میں “ ابن مغازلی نے اپنی کتاب مناقب اور حاکم نیشابوری نے اپنی کتاب المستدرک الحاکم، علامہ ابن صبّاغ مالکی، احمد بن عبد الرحیم دہلوی، علامہ ابن جوزی حنفی، ابن مغازلی شافعی ، علامہ سکتواری بسنوی، علامہ محمد مبین انصاری حنفی لکھنوی، صفی الدین حضرمی شافعی، حافظ شمس الدین ذہبی، آلوسی بغدادی، عبد الحق بن سیف الدین دہلوی اپنی کتاب ”مدارج النبوۃموفق بن احمد خوارزمی نے اپنی کتاب ” مناقب“ میں، شیخ مومن بن حسن شبلنجی، عباس محمود عقاد، علامہ صفوری، علامہ برہان الدین حلبی شافعی ، باکثیر حضرمی،، مولوی اشرف علی، علّامہ سعید گجراتی نے واضح طور پر اپنی اپنی کتابوں میں تحریرکیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام بروز جمعہ تیرہ رجب تیس عام الفیل کو وسط کعبہ میں فاطمہ بنت اسد کے بطن سے پیدا ہوئے اور آپ کے علاوہ نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کوئی خانہ کعبہ میں پیدا ہوا“ یہ شرف صرف مولود کعبہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ہی حاصل ہے۔
  3. عباس بن عبدالمطلب کا کہنا ہے کہ بروز جمعہ بمطابق13 رجب، 30عام الفیل کو ” میں اور بریدہ بن قعنب بنی ہاشم و بنی عبد العزی کے دیگر افراد کے ساتھ خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کے( رکن یمانی) کی طرف آئیں۔ وہ نو مہینے کی حاملہ تھیں اور انھیں درد زہ اٹھ رہا تھا۔ وہ خانہ کعبہ کے برابر میں کھڑی ہوئیں اور آسمان کی طرف رخ کرکے کہاکہ ” اے اللہ! میں تجھ پر، تیرے نبیوں پر اور تیری طرف سے نازل ہونے والی تمام کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں۔ میں اپنے جد ابراہیم علیہ السلام کے کلام کی اور اس بات کی تصدیق کرتی ہوں کہ اس گھر کی بنیاد انھوں نے رکھی۔ بس اس گھر، اس کے معمار اور اس بچے کے واسطے سے جو میرے شکم میں ہے اور مجھ سے باتیں کرتا ہے، جو کلام کے ذریعے میرا انیس ہے اور جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ یہ تیری نشانیوں میں سے ایک ہے، اس کی پیدائش کو میرے لیے آسان فرما‘‘۔ عباس بن عبد المطلبؑ اور بریدہ بن قعنب کہتے ہیں کہ” جب فاطمہ بنت اسدؑ نے یہ دعا کی تو خانہ کعبہ کی پشت کی دیوار پھٹی اور فاطمہ بنت اسد اندر داخل ہوکر ہماری نظروں سے غائب ہوگئیں اور دیوار پھر سے آپس میں مل گئی۔ ہم نے کعبہ کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کی تاکہ ہماری کچھ عورتیں ان کے پاس جاسکیں، لیکن در کعبہ نہ کھل سکا۔ اس وقت ہم نے سمجھ لیا کہ یہ امر الہی ہے۔ فاطمہ تین دن تک خانہ کعبہ میں رہیں۔ یہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ مکہ کے تمام مرد و زن کئی دنوں تک گلی کوچوں میں ہر جگہ اسی بارے میں بات چیت کرتے نظر آتے تھے۔( کتابوں میں یہ صراحت کے ساتھ ملتا ہے کہ پشت کعبہ وہ مقام ہے جو رکن یمانی کہلاتا ہے)۔
  4. التاریخ القویم لمکۃ وبیت اللہ الکریم ( 3 / 256 )
  5. سید حسین نصر۔ "Ali"۔ Encyclopædia Britannica Online۔ Encyclopædia Britannica, Inc.۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2007 
  6. Ashraf (2005), p.6.
  7. بیت اللہ کے اندر پیدا ہونے والے ایک صحابیِ رسول