قم
قم | |
---|---|
شہر | |
کلانشہر قم Qom Metropolis قم میٹروپولس | |
عرفیت: ایران کا مذہبی دار الحکومت, ایران کا ثقافتی مرکز, ایران کا سائنسی دار الحکومت, کتب خانوں کا شہر | |
ملک | ایران |
صوبہ | قم |
کاؤنٹی | مرکزی |
حکومت | |
• میئر | مرتضیٰ سقاییاننژاد |
بلندی | 928 میل (3,045 فٹ) |
آبادی (2011) | |
• کل | 1,074,036 |
منطقۂ وقت | ایران معیاری وقت (UTC+3:30) |
• گرما (گرمائی وقت) | ایران معیاری وقت (UTC+4:30) |
رمز ڈاک | 37100 |
ٹیلی فون کوڈ | (+98) 25 |
ویب سائٹ | www |
قم
(تلفظ (معاونت·معلومات) (فارسی: قم) اسلامی جمہوریہ ایران کے اہم شہروں میں ایک شہر ہے۔ جسے قم المقدس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایران کا آٹھواں بڑا شہر ہے ۔ اور شیعہ مسلمانوں کا نجف اشرف عراق کے بعد سب سے اہم علمی مرکز شمار ہوتاہے۔ قم، اہل تشیع کے لیے بہت اہمیت کا حامل شہر ہے ۔ اس شہر میں شیعوں کے آٹھویں امام علی بن موسی الرضامعروف بہ امام رضا کی بہن فاطمہ معصومہ کا مزار ہے جس کی زیارت کے لیے دنیا بھر سے شیعہ یہاں پر اکٹھے ہوتے ہیں۔2016ء کی مردم شماری کے مطابق قم کی آبادی 1201000 تھی ۔ اس آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ علما اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلاب کا ہے، ان علما اور طلاب میں ایرانیوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں افغانی، عراقی، پاکستانی، ہندوستانی ، لبنانی، کویتی، سعودی، بحرینی ،یمنی، جزائری، مراکشی، ترکی، آذری، انڈونیشین، ملائشین، تھائیلنڈی، چینی اور دیگر یورپی ممالک کے لوگ میں شامل ہیں۔ قم کی آبادی میں سے 99.76 فی صد آبادی شیعہ اثنا عشری ہیں۔ اس شہر میں اہل سنت کا کوئی گھرانہ نہیں ہے بلکہ بقیہ زرتشتی یا پھر مسیحی دین کے پیروکار آباد ہیں۔
قم کا موسم بارشوں کی کمی کی وجہ سے خشک اور گرم رہتا ہے۔ چونکہ قم ایک صحرائی علاقہ میں آباد ہوا یہاں کی سوغات میں قم کا حلوا جسے یہاں کی زبان میں سوہان کہتے ہیں بہت معروف اور مشہو رہے۔
قم شہر کو مختلف القابات اور ناموں سے یاد کیا جاتاہے۔ جن میں سے مشہور شہر حرم اہل بیت، شہر علم، ایران کا علمی اور ثقافتی دار الخلافہ، عالم تشیع کا دار الحکومت، علما کا شہر، شہر کریمہ اہل بیت ہیں۔قم شہر میں مختلف مزار اور زیارت گاہیں ہیں جن میں سے سب سے مشہور فاطمہ معصومہ کا مزار ہے جن کا لقب کریمہ اہل بیت ہے اور اس کے علاوہ مختلف امام زادوں کے مزارات اور قم کی مشہور ترین مسجد جمکران شہر کے جنوب مشرقی سمت میں واقع ہے۔
فاطمہ معصومہ
[ترمیم]فاطمہ معصومہ جنہیں معصومہ قم یا حضرت معصومہ بھی کہاجاتاہے، مشہور قول کے مطابق یکم ذی القعدہ 173 ہجری مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں اور 10 ربیع الثانی ، 201 ہجری وفات پائی، جب عباسی خلیفہ مامون نے امام علی رضا کو خراسان بلایا تو ایک سال بعد فاطمہ معصومہ اپنے بھائی کی جدائی برداشت نہ کرسکنے کی وجہ خراسان کی عازم سفر ہوئیں۔ اور ایک بہت بڑے قافلے کے ہمراہ جب قم کے قریب ساوہ نامی جگہ پر پہنچیں تو دشمنوں نے قافلے پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں قافلے کے بہت سارے افراد قتل ہو گئے اور فاطمہ معصومہ کو ایک خاتون نے زہر دیا، قم شہر کے عرب اور اہل بیت سے محبت رکھنے والے اشعری قبیلے کے لوگ ان کو قم لے آئے جہاں وہ 17 دن زندہ رہنے کے بعد زہر کے اثر سے وفات پا گئیں۔اور اپنے بھائی سے ملاقات اور خراسان کا سفر مکمل نہ کرپائیں۔ قم فاطمہ معصومہ کے مزار کی وجہ دنیا بھر کے شیعہ مسلمانوں کے لیے اہم شہر شمار کیا جاتاہے۔
حدود اربعہ
[ترمیم]شہر قم ایران کے دار الخلافہ تہران کے جنوب میں 157 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ شمال میں تہران، جنوب میں اصفہان ، مغرب میں اراک اور مشرق میں سمنان شہر واقع ہے۔
قم کے باسیوں کے رسم ورواج
[ترمیم]قم کے لوگ اپنے مذہبی رجحانات کی وجہ سے بہت سارے مذہبی رسوم ورواج کو انجام دیتے ہیں۔ جن میں سے محرم کے نویں اور دسویں تاریخ کو تاسوعاء اور عاشوراء کے جلوس نکالنا اور پندرہ شعبان کو مسجد جمکران یا فاطمہ معصومہ کے حرم میں شب بیداری اور دعائیں پڑھنا۔ چونکہ پندرہ شعبان کی رات شیعہ مسلمانوں کے نزدیک بارہویں اور آخری امام ، امام مہدی کی ولادت کی رات ہے ا س لیے اس رات کو جشن ، خوشی اور عبادت میں گزارا جاتاہے۔
اہل تشیع کے دیگر اماموں کی ولادت اور شہادت کے دنوں کو خوشی اور عزاداری کے ساتھ منانا بھی قم کے لوگوں کا شیوہ ہے۔ 28 صفر، امام حسین کا چہلم ،18 ذی الحجہ جسے شیعہ مسلمانوں کے نزدیک عید الغدیر کے نام سے یاد کیا جاتاہے کہ اس دن شیعہ عقیدہ کے مطابق اللہ کے آخری نبی محمد بن عبد اللہ نے اپنے بعدعلی بن ابی طالب کو اپنا خلیفہ اورجانشین بنایا تھا۔ اسی جانشینی کی خوشی کے دن کو عید نے نام سے تعبیر کیا جاتاہے۔
قم کی قداست اور طہارت کا راز
[ترمیم]متعدد احادیث میں قم کے تقدس پر تاکید ہوئی ہے۔ امام صادق(ع) نے قم کو اپنا اور اپنے بعد آنے والے اماموں کا حرم قرار دیا ہے اور اس کی مٹّی کو پاک و پاکیزہ توصیف فرمایا ہے:۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
الا انَّ حرمى و حرم ولدى بعدى قم۔ ترجمہ:آگاہ رہو کہ میرا اور میرے بعد آنے والے پیشواؤں کا حرم شہر قم ہے۔
حوالہ: بحارالانوار ج 60 صفحہ 216۔
امام صادق علیہ السلام ہی اپنی مشہور حدیث میں اہل رے سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
و ان لاميرالمؤمنين عليه السلام حرماً و هو الكوفة الا و انَّ قم الكوفة الصغيرة ألا ان للجنة ثمانيه ابواب ثلاثه منها الى قم۔
اور حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے لیے بھی ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے۔ جان لو کہ قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی جانب کھلتے ہیں۔
امام علیہ السلام قم کے تقدس کی سلسلے میں اپنی حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
... تقبض فيها امراة من ولدى اسمها فاطمہ بنت موسى (س) و تدخل بشفاعتها شيعتى الجنة با جمعهم۔
میرے فرزندوں میں سے ایک خاتون ۔ جن کا نام فاطمہ بنت موسی ہے۔ قم میں رحلت فرمائیں گی جن کی شفاعت سے ہماری تمام شیعہ بہشت میں وارد ہوں گے۔
راوی کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث امام موسی کاظم علیہ السلام کی ولادت سے بھی پہلے امام صادق علیہ السلام سے سنی تھی۔ یہ حدیث قم کی قداست کا پتہ دیتی ہے اور قم کی شرافت و تقدس کے راز سے پردہ اٹھاتی ہیں؛ اور یہ کہ اس شہر کا اتنا تقدس اور شرف ۔ جو روایات سے ثابت ہے ـ ریحانۃ الرسول (ص)، کریمۂ اہل بیت سلام اللہ علیہا کے وجود مبارک کی وجہ سے ہے جنھوں نے اس سر زمین میں شہادت پا کر اس کی خاک کو حور و ملائک کی آنکھوں کا سرمہ بنا دیا ہے۔
قم کی تاریخ
[ترمیم]آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق عرب مسلمانوں کے حملے سے قبل کئی ہزار سالوں سے شہر قم آباد تھا، پستہ اور زعفران کی پیداوار کے لحاظ سے معروف تھا۔ لیکن بہت سے ماہرین اور مورخین قم شہر کی آبادکاری کو عرب مسلمانوں کے حملے اور پھر عراق سے اشعری قبیلے کے افراد کی ہجرت سے جوڑتے ہیں کہ قم اور اس نواحی علاقہ جات کو عمر بن خطاب کے دور میں ابو موسی اشعری نے فتح کیا اور اس فتح کے بعد اس علاقے میں عربوں کی ہجرتیں شروع ہوئیں۔ جن میں سے سب سے اہم اشعری قبیلے کی ہجرت تھی کہ جنھوں قم اور اس کے اردگرد کے دیہاتوں کو ملا کر اس شہر کی بنیاد رکھی اور چونکہ اشعری قبیلے کے افراد شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے تھے اس لیے قم شیعہ اثنا عشری مسلمانوں کا مرکز بن گیا۔ اور فاطمہ معصومہ جو شیعہ مسلمانوں کے آٹھویں امام علی رضا کی بہن ہیں، کی ہجرت سے اس مرکز کی قوت ووسعت میں مزید اضافہ ہوا جس کی وجہ سے دنیا بھر کے شیعہ اور علما کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
شیعہ مذہب کے پیروکار ہونے کی وجہ اموی اور عباسی خلفاء کی طرف یہاں کے لوگوں پر بادشاہی ٹیکس کا تناسب زیادہ ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں نے ان حکومتوں کے خلاف مسلحانہ قیام و جدوجہد بھی کی اور قم شہر کوکئی مرتبہ تباہی وبربادی کا سامنا کرنا پڑا، آل بویہ اور سلجوقی کے دور میں قم کو ترقی ملی جبکہ صفوی خاندان کے دور میں شیعہ مذہب کے رسمی ہونے کے بعد قم مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا۔
قاجاری دور میں قاجاری بادشاہ فتح علی شاہ نے فاطمہ معصومہ کے حرم کی توسیع اور سنہری گنبد کی تعمیر کرائی ، جنگ عظیم اول نے قم شہر کو بھی متاثر کیا اور روس کے تہران پر حملے کے خطرے کے پیش نظر بہت سارے لوگوں نے قم میں پناہ لی جبکہ پہلوی خاندان کے دور میں روح اللہ خمینی معروف بہ امام خمینی نے پہلوی حکومت کے خلاف قیام اور انقلاب کا آغاز بھی اسی شہر سے کیا۔ اور فروری 1979ء میں ایران کا اسلامی انقلاب کامیاب ہونے کے بعد ایران میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور ولایت فقیہ کی حکومت قائم ہوئی۔
دینی مدارس ، تعلیمی و تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیز
[ترمیم]قم یونیورسٹی، المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی، مدرسۃ الزہراء ، مدرسہ شہید سید حسن شیرازی، مدرسہ امام حسین ، مدرسہ امام باقر ، مدرسہ علمیہ امام مہدی ، مدرسہ امام المنتظر، مدرسہ رسول اعظم، حوزہ علمیہ قم، مدرسہ رضویہ، مدرسہ ستیہ، مدرسہ امام خمینی، مدرسہ اباصالح، مدرسہ المہدی، مدرسہ الہادی، مدرسہ امام مہدی موعود، مدرسہ بقیۃ اللہ، مدرسہ حقانی، مدرسہ جانبازان، مدرسہ رسالت، مدرسہ شہیدین، مدرسہ صدوق، مدرسہ عترت، مدرسہ کرمانیہا، مدرسہ معصومیہ، مدرسہ امام عصر، مدرسہ سعد حلت، مدرسہ اثیرالملک، مدرسہ سید سعید عزالدین مرتضی، مدرسہ سید زین الدین، مدرسہ ابو الحسن کمیج، مدرسہ شمس الدین مرتضی، مدرسہ مرتضی کبیر، مدرسہ درب آستانہ، حکمت یونیورسٹی قم، طلوع مہر ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ قم، شہاب دانش صنعتی یونورسٹی ، تہران یونیورسٹی قم کیمپس، ٹی وی ریڈیو کالج، قم ، صنعتی یونیورسٹی قم، آزاد اسلامی یونیورسٹی، قم کیمپس، دانشگاہ جامع علمی کاربردی واحد استان قم، مفید یونیورسٹی، قم ، پیام نور یونیورسٹی، قم ، معصومیہ یونیورسٹی، قم ، ٹیکنیکل کالج فار بوائز، قم ، میڈیکل یونیورسٹی ، قم ، جامعہ المصطفی العالمیہ، باقر العلوم یونیورسٹی قم، امام خمینی، تعلیمی اور تحقیقی ادارہ، ادیان ومذاہب یونیورسٹی، قم ، اسلامی فکر وثقافتی تحقیقی ادارہ، اسلامک انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اور سائنسز، شہید محلاتی کالج، اسلامک رائٹنگ اور ریسرچ کالج، قرآن وحدیث یونیورسٹی، قم ، معارف اسلامی یونیورسٹی، موسسہ فکر اسلامی، مجلس خبرگان رہبری کا سیکٹریٹ۔
لائبریریز
[ترمیم]قم میں عمومی لائبریریز کے علاوہ دسیوں ہر مضمون کی خاص لائبریریز بھی موجود ہیں۔ ان لائبریریز میں سے اہم مندرجہ ذیل ہیں۔ 1. کتابخانہ عمومی قم،طالقانی، 2. کتابخانہ عمومی قم، امامزادہ ابراہیم، 3. کتابخانہ امام صادق، 4. کتابخانہ مجمع آثار اسلامی، 5. کتابخانہ تخصصی صاحبالزمان، 6. کتابخانہ المہدی، 7. کتابخانہ آیتاللہ خامنہای، 8. کتابخانہ آیتاللہ گلپایگانی، 9. کتابخانہ سیدالشہداء، 10. کتابخانہ محقق طباطبایی، 11. کتابخانہ تخصصی فقہ و اصول، 12. کتابخانہ تخصصی ادبیات 13. کتابخانہ تخصصی حدیث 14. کتابخانہ آیتاللہ حائری 15. کتابخانہ آیتاللہ مرعشی نجفی 16. کتابخانہ علوم قرآن 17. کتابخانہ آستانہ مقدسہ 18. کتابخانہ قرآن و عترت 19. کتابخانہ آستانہ مقدسہ قم 20. کتابخانہ عترت 21. کتابخانہ دفتر تبلیغات 22. کتابخانہ دانشگاہ قم 23. کتابخانہ آیت اللہ مشکینی 24. کتابخانہ امام علی
سیاحتی اور تاریخی مقامات
[ترمیم]قم کے اہم مقامات میں فاطمہ معصومہ ، جو امام موسی کاظم کی بیٹی اور امام علی رضا کی بہن ہیں، کا مزار ، مسجد جمکران، چار سو سے زائد امامزادوں کے مزار، فاطمہ معصومہ کی عبادت گاہ جو بیت النور کے نام سے مشہور ہے وہ بھی قم کے تاریخی آثار میں شمار ہوتی ہے۔ تاریخی مساجد میں سے مسجد جامع، مسجد رفعت، مسجد امام حسن عسکری اورمسجد باب الجنہ ہیں۔
حرم فاطمہ معصومہ
[ترمیم]فاطمہ معصومہ کے حرم کی عمارت اسلامی تعمیرات کے شاہکاروں میں سے ہیں۔ معتبر تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتاہے اس مزار کی سب سے پہلے تعمیر کا کام سلجوقی دور کے ابو الفضل عراقی نے کرایا۔ ایران کے صفوی اور قاجاری خاندان کے دور میں بھی حرم فاطمہ معصومہ کی تعمیر اور مرمت پر خاص توجہ دی گئی۔ معصومہ قم کے حرم کا سنہری گنبد قاجاری بادشاہ فتح علی شاہ نے تعمیر کرایا۔
اسلامی تعمیرات کی عالیشان اس شاہکار مسجد کی عمارت وسیع وعریض رقبہ پر محیط ہے ۔ یہ مسجد شہر قم کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے ۔ یہ مسجد آخری امام ، امام مہدی جو شیعہ عقیدہ کے مطابق 255 ہجری میں پیدا ہوئے اور خدا کے حکم سے غیبت میں ہیں اور اس وقت تک زندہ ہیں اور خدا کے حکم سے ظہور کریں گے ، کے حکم سے تعمیر کی گئی ہے ، اس لیے دنیا بھر کے شیعہ اس مسجد کی زیارت اور یہاں پر دعا اور نماز کے لیے خصوصی طور پر جمع ہوتے ہیں۔
مسجد اعظم
[ترمیم]مسجد اعظم اپنی شوکت اور عظمت وبزرگی کی وجہ سے مسجد اعظم کہلاتی ہے، یہ مسجدحرم فاطمہ معصومہ کے ساتھ ہی واقع ہے جو آیت اللہ سید حسین طباطبائی بروجردی کے حکم سے تعمیر کی گئی۔ مسجد اعظم کے بلند گنبد، حجرے اور مینار،اسلامی تعمیرکی زندہ مثال ہیں۔ اس مسجد کی دیواروں ، گنبد اور میناروں پر معرق کاشی کاری اس مسجد کی خوبصورتی کی دوبالا کررہی ہے۔
مسجد امام حسن عسکری
[ترمیم]قم شہر کی قدیمی ترین مسجد ، مسجد امام حسن عسکری ہے جسے تیسری صدی ہجری میں احمد بن اسحاق قمی نے تعمیر کرایا، احمد قمی امام حسن عسکری کے وکیل اور نمائندہ تھے ، چونکہ یہ مسجد امام حسن عسکری کے حکم سے تعمیر کی گئی اس لیے شیعہ علما اور فقہا کی طرف سے توجہ کا مرکز رہی ہے، انھوں نے اس مسجد کو اپنے درس وتدریس کا محل قرار دیا، بزرگ شیعہ علما اسی مسجد میں درس پڑھا اور پڑھایا کرتے تھے، اسلامی انقلاب ایران کے بانی اور موسس امام خمینی بھی اسی مسجد میں درس پڑھا کرتے تھے۔
بیت النور
[ترمیم]بیت النور کو فاطمہ معصومہ کی عبادتگاہ کہا جاتاہے، جب وہ قم میں رہائش پزیر تھیں تو اسی جگہ کواپنے لیے محل عبادت وبندگی قرار دیا، بیت النور فلکہ چہار مردان کے قریب واقع ہے جو فاطمہ معصومہ کے حرم سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔آپ اس جگہ کی سیاحت کریں تو آپ مختلک ممالک سے یہاں زیارت کی خاطر آئے ہوئے لوگ کثرت میں نظر آئیں گے۔
قم کے دیگر سیاحتی مقامات میں امام خمینی کا کچی مٹی سے بنا گھر، شیعہ عالم شیخ صدوق کے والد علی بن حسین بابویہ قمی کا مقبرہ، شاہ عباس صفوی کا مقبرہ، فتح علی شاہ قاجار کا مقبرہ، حاج عسگر خان کا تاریخی حمام، بازار بزرگ قم، قلعہ جمکران، کوہ خضر اور دیگر علما ومشہور فقہا کی قبور سر فہرست ہیں۔
معروف شخصیات
[ترمیم]شیخ عباس قمی، چوتھی صدی ہجری کے مشہور شیعہ محدث، آیت اللہ سید حسین طباطبایی بروجردی، معروف بہ آیت اللہ بروجردی شیعہ کے مرجع تقلید اورمجتہد، شجاع الدین شفا، معروف محقق اور رائٹر ، رضا فرجیدانا ،ایران کے وزیر ٹیکنالوجی، علی جنتی، ایران کے وزیر ثقافت ، مصطفی پورمحمدی، ایران کے وزیر قانون، شیخ صدوق، مشہور شیعہ محدث و فقیہ ، امام موسی صدر، لبنان کے شیعہ لیڈر اور رہنما، میرزا قمی، قاجاری دور کے شیعہ عالم، شاطر عباس صبوحی، قاجاری دور کے مشہور شاعر ،آیت اللہ العظمی سید محمد روحانی، چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مجتہد اور فقیہ۔
محلہ جات
[ترمیم]نیروگاہ، چہار امام زادہ، حاج زینل، قلعہ کامکار، زاویہ، زند آباد، عشق علی، عربستان، چہل درخت، علی آباد سعدگان، ژاندارمہا، تولیددارو و یخچال، مہرآباد، سید معصوم، خانم شیرازی، علی آباد، محمد آباد، حاج خلیل، قم نو، صفائیہ، مصلی، دروازہ رے، بکایی، لسانی، یخچال قاضی، شاہ احمد قاسم، جوی شور، قلعہ عمو حسین، قلعہ یزدیہا، باغ شریفی، میرزائیہ، براسون، باغ کرباسی، منبع آب، نخودی، دروازہ چوبی، سربخش، لب چال، باغ پنبہ، خاکفرج، گذرقلعہ، خندق، الوندیہ، گذرصادق، تکیہ آق سید حسن، حمام تالار، سنگ بند، سیدان، دروازہ کاشان، دربہشت، سرحوض، نوقطار، نوبہار، آلوچو، میدان نو، باغ شاہزادہ
ہوٹلز
[ترمیم]قم میں تھری اور فور سٹارز (three & four stars) ہوٹلز کے ساتھ ون سٹار اور ٹو سٹارز ہوٹلز بھی موجود ہیں۔فور سٹارز میں ہوٹل قم، ہوٹل پارسیا، ہوٹل خورشید، ہوٹل اولمپیک ، ہوٹل کریمہ ہیں جبکہ تھری سٹارز میں ہوٹل آریا، ہوٹل استقلال، ہوٹل الزہراء، ہوٹل النبی ، شامل ہیں۔
آب و ہوا
[ترمیم]آب ہوا معلومات برائے قم | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مہینا | جنوری | فروری | مارچ | اپریل | مئی | جون | جولائی | اگست | ستمبر | اکتوبر | نومبر | دسمبر | سال |
اوسط بلند °س (°ف) | 10.0 (50) |
11.8 (53.2) |
17.5 (63.5) |
25.9 (78.6) |
32.4 (90.3) |
38.3 (100.9) |
40.1 (104.2) |
39.0 (102.2) |
35.0 (95) |
26.7 (80.1) |
19.6 (67.3) |
12.9 (55.2) |
25.8 (78.4) |
اوسط کم °س (°ف) | −2.3 (27.9) |
−0.4 (31.3) |
4.2 (39.6) |
9.8 (49.6) |
15.1 (59.2) |
19.9 (67.8) |
22.7 (72.9) |
21.1 (70) |
14.8 (58.6) |
9.8 (49.6) |
3.9 (39) |
−0.4 (31.3) |
9.9 (49.7) |
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) | 16.4 (0.646) |
21.9 (0.862) |
26.8 (1.055) |
11.2 (0.441) |
11.0 (0.433) |
1.6 (0.063) |
2.4 (0.094) |
0.0 (0) |
0.8 (0.031) |
9.6 (0.378) |
10.5 (0.413) |
21.3 (0.839) |
133.5 (5.255) |
اوسط عمل ترسیب ایام | 7.7 | 8.7 | 8.2 | 4.8 | 3.6 | 0.2 | 1.4 | 0.2 | 0.2 | 3.4 | 3.2 | 4.2 | 45.8 |
ماخذ: World Meteorological Organisation |