آل عمران

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
آل عمران
آل عمران
دور نزولمدنی
نام کے معنیعمران کی اولاد
اعداد و شمار
عددِ سورت3
عددِ پارہ3 اور 4
تعداد آیات200
الفاظ3,503
حروف14,605
گذشتہالبقرہ
آئندہالنساء

ترتیب کے اعتبار سے قرآن مجید کی تیسری سورت جو مدینے میں نازل ہوئی۔۔ اس سورت کا خطاب یہود و نصاریٰ اور مسلمان سے ہے۔ اول الذکر گروہوں کو ان کی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں پر تنبیہ کے بعد فرمایا گیا ہے کہ قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمھیں اسی دین کی طرف بلا رہے ہیں، جس کی دعوت انبیا علیہم السلام شروع سے دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اس دین کے سیدھے راستے سے ہٹ کر جو راہیں تم نے اختیار کر رکھی ہیں۔ وہ خود ان کتب میں موجود نہیں ہیں جن کو تم کتب آسمانی تسلیم کرتے ہو۔

اللہ تبارک و تعالٰیٰ نے مسلمانوں کو اپنی اُن کمزوریوں کی اصلاح پر بھی متوجہ کیا گیا ہے جن کا ظہور جنگ احد کے سلسلے میں ہوا تھا اور انھیں یقین دلایا ہے کہ دین حق پر ثابت قدم رہے تو ان کے لیے کامیابی کی راہیں کھلی ہوئی ہیں۔

نام

اس صورت میں ایک مقام پر "آلِ عمران" کا ذکر آیا ہے۔ اسی کو علامت کے طور پر اس کا نام قرار دیا گیا۔


آلِ عمران سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں

عمران تین گذرے ہیں ایک حضرت موسیٰ اور ہارون کے والد ماجد دوسرے حضرت مریم کے والد اور تیسرے حضرت ابو طالب۔ کیونکہ ان کا نام دراصل عمران تھا آیت مجیدہ میں بعض لوگوں نے آل عمران سے مراد حضرت موسیٰ و ہارون لیے ہیں اور بعض لوگوں نے آل عمران سے مراد حضرت عیسیٰ لیے ہیں اور تفسیر عمدۃ البیان میں ہے کہ تفسیر اہل بیت میں آل عمران سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب ہیں اور بروایت ابن عباس انھوں نے نقل کیا ہے کہ حضرت رسول کریم نے فرمایا کہ میں آل ابراہیم ہوں اور علی آل عمران ہیں[1]


آلِ ابراہیم اور آل عمران کی لفظیں گو عام ہیں لیکن ان سے مراد وہ انسان ہو سکتے ہیں، جو طاہر اور معصوم ہوں کیونکہ "اصطفاء" غیر معصوم کا نہیں ہو سکتا نیز اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہو کہ لوگ ملائکہ سے افضل ہیں کیونکہ ان کو عالمین پر چُنا گیا ہے اور فرشتے عالمین میں داخل ہیں۔

زمانۂ نزول اور اجزائے مضمون

اس میں چار تقریریں شامل ہیں : پہلی تقریر آغاز سورت سے چوتھے رکوع کی ابتدائی دو آیات تک ہے اور وہ غالباً جنگ بدر کے بعد قریبی زمانے میں ہی نازل ہوئی ہے۔ دوسری تقریر آیت "ترجمہ:اللہ نے آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام دنیا والوں پو ترجیح دے کر اپنی رسالت کے کام کے لیے منتخب کیا تھا" سے شروع ہوتی ہے اور چھٹے رکوع کے اختتام پر ختم ہوتی ہے۔ یہ 9 ھ میں وفدِ نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی۔ تیسری تقریر ساتویں رکوع کے آغاز سے لے کر بارہویں رکوع کے اختتام تک چلتی ہے اور اس کا زمانہ پہلی تقریر سے متصل ہی معلوم ہوتا ہے۔ چوتھی تقریر تیرہویں رکوع سے ختمِ سورت تک جنگ احد کے بعد نازل ہوئی ہے۔

خطاب اور مباحث

ان مختلف تقریروں کو ملا کر جو چیز ایک مسلسل مضمون بناتی ہے، وہ مقصد و مدعا اور مرکزی مضمون کی یکسانی ہے۔ سورت کا خطاب خصوصیت کے ساتھ دو گروہوں کی طرف ہے : ایک اہل کتاب (یہود و نصاریٰ)۔ دوسرے وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔

پہلے گروہ کو اسی طرز پر مزید تبلیغ کی گئی ہے جس کا سلسلہ سورۂ بقرہ میں شروع کیا گیا تھا۔ ان کی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں پر تنبیہ کرتے ہوئے انھیں بتایا گیا ہے کہ یہ رسول اور یہ قرآن اسی دین کی طرف بلا رہا ہے جس کی دعوت شروع سے تمام انبیا دیتے چلے آئے ہیں اور جو فطرت اللہ کے مطابق ایک ہی دین حق ہے۔ اس دین کے سیدھے رستے سے ہٹ کر جو راہیں تم نے اختیار کی ہیں وہ خود ان کتب کی رو سے بھی صحیح نہیں ہیں جن کو تم کتبِ آسمانی تسلیم کرتے ہو۔ لہٰذا اس صداقت کو قبول کرو جس کے صداقت ہونے سے تم خود بھی انکار نہیں کرسکتے۔

دوسرے گروہ کو، جو اب بہترین امت ہونے کی حیثیت سے حق کا علمبردار اور دنیا کی اصلاح کا ذمہ دار بنایا جاچکا ہے، اسی سلسلے میں مزید ہدایات دی گئی ہیں، جو سورۂ بقرہ میں شروع ہوا تھا۔ انھیں پچھلی امتوں کے مذہبی و اخلاقی زوال کا عبرتناک نقشہ دکھا کر متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلنے سے بچیں۔ انھیں بتایا گیا ہے کہ ایک مصلح جماعت ہونے کی حیثیت سے وہ کس طرح کام کریں اور ان اہلِ کتاب اور منافق مسلمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں، جو خدا کے راستے میں طرح طرح سے رکاوٹیں ڈال رہے تھے۔ انھیں اپنی اُن کمزوریوں کی اصلاح پر بھی متوجہ کیا گیا ہے جن کا ظہور جنگ احد کے سلسلے میں ہوا تھا۔

اس طرح یہ سورت نہ صرف آپ اپنے مختلف اجزا میں مسلسل و مربوط ہے، بلکہ سورۂ بقرہ کے ساتھ بھی اس کا ایسا قریبی تعلق نظر آتا ہے کہ یہ بالکل اس کا تتمہ معلوم ہوتی ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا فطری مقام بقرہ سے متصل ہی ہے۔

شان نزول

سورت کا تاریخی پس منظر یہ ہے :

  • سورۂ بقرہ میں اِس دین حق پر ایمان لانے والوں کو جن آزمائش اور مصائب سے مشکلات سے قبل از وقت متنبہ کر دیا گیا تھا، وہ پوری شدت کے ساتھ پیش آچکی تھیں۔ جنگ بدر میں اگرچہ اہل ایمان کو فتح حاصل ہوئی تھی، لیکن یہ جنگ گویا بھڑوں کے چھتے میں پتھر مارنے کے ہم معنی تھی۔ اس اولین مسلح مقابلے نے عرب کی ان سب طاقتوں کو چونکا دیا تھا جو اس نئی تحریک سے عداوت رکھتی تھیں۔ ہر طرف طوفان کے آثار نمایاں ہو رہے تھے، مسلمانوں پر ایک دائمی خوف اور بے اطمینانی کی حالت طاری تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مدینے کی یہ چھوٹی سی بستی، جس نے گرد و پیش کی دنیا سے لڑائی مول لے لی ہے، صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالی جائے گی۔ ان حالات کا مدینے کی معاشی حالت پر بھی نہایت برا اثر پڑ رہا تھا۔ اول تو ایک چھوٹے سے قصے میں جس کی آبادی چند سو گھروں سے زیادہ نہ تھی، یکایک مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کے آجانے ہی سے معاشی توازن بگڑ چکا تھا۔ اس پر مزید مصیبت اس حالت جنگ کی وجہ سے نازل ہو گئی۔
  • ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اطراف مدینہ کے یہودی قبائل کے ساتھ جو معاہدے کیے تھے، ان لوگوں نے ان معاہدات کا ذرہ برابر پاس نہ کیا۔ جنگ بدر کے موقع پر ان اہل کتاب کی ہمدردیاں توحید و نبوت اور کتاب و آخرت کے ماننے والے مسلمانوں کی بجائے بت پوجنے والے مشرکین کے ساتھ تھیں۔ بدر کے بعد یہ لوگ کھلم کھلا قریش اور دوسرے قبائلِ عرب کو مسلمانوں کے خلاف جوش دلا دلا کر بدلہ لینے پر اکسانے لگے۔ خصوصاً بنو نضیر کے سردار کعب بن اشرف نے تو اس سلسلے میں اپنی مخالفانہ کوششوں کو اندھی عداوت، بلکہ کمینے پن کی حد تک پہنچا دیا۔ اہل مدینہ کے ساتھ ان یہودیوں کے ہمسایگی اور دوستی کے جو تعلقات صدیوں سے چلے آ رہے تھے، ان کا پاس و لحاظ بھی انھوں نے اٹھادیا۔ آخر کار جب ان کی شرارتیں اور عہد شکنیاں حد برداشت سے گذر گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بدر کے چند ماہ بعد بنو قینقاع پر، جو ان یہودی قبیلوں میں سب سے زیادہ شریر لوگ تھے، حملہ کر دیا اور انھیں اطراف مدینہ سے نکال باہر کیا۔ لیکن اس سے دوسرے یہودی قبائل کی آتشِ عناد اور زیادہ بھڑک اٹھی۔ انھوں نے مدینے کے منافق مسلمانوں اور حجاز کے مشرک قبائل کے ساتھ ساز باز کرکے اسلام اور مسلمانوں کے لیے ہر طرف خطرات ہی خطرات پیدا کردیے، حتیٰ کہ خود نبیصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کے متعلق ہر وقت اندیشہ رہنے لگا کہ نہ معلوم کب آپ پر قاتلانہ حملہ ہو جائے۔ صحابۂ کرام اس زمانے میں بالعموم ہتھیار بند سوتے تھے۔ شب خون کے ڈر سے راتوں کو پہرے دیے جاتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی کہیں نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے تو صحابۂ کرام آپ کو ڈھونڈنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے تھے۔
  • بدر کی شکست کے بعد قریش کے دلوں میں آپ ہی انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی کہ اس پر مزید تیل یہودیوں نے چھڑکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہی سال میں مکے سے تین ہزار کا لشکرِ جرار مدینے پر حملہ آور ہو گیا اور احد کے دامن میں وہ لڑائی پیش آئی جو جنگ احد کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ایک ہزار آدمی مدینے سے نکلے تھے مگر راستے میں تین سو منافقین یکایک الگ ہوکر مدینے کی طرف پلٹ گئے اور جو سات سو آدمی آپ کے ساتھ رہ گئے تھے ان میں بھی منافقین کی ایک چھوٹی سے جماعت شامل رہی، جس نے دوران جنگ مسلمانوں کے درمیان فتنہ برپا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے اپنے گھر میں اتنے کثیر التعداد مارِ آستین موجود ہیں اور وہ اس طرح باہر کے دشمنوں کے ساتھ مل کر خود اپنے بھائی بندوں کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔
  • جنگ احد میں مسلمانوں کو جو شکست ہوئی، اس میں اگرچہ منافقین کی تدبیروں کا ایک بڑا حصہ تھا، لیکن اس کے ساتھ مسلمانوں کی اپنی کمزوریوں کا حصہ بھی کچھ کم نہ تھا اور یہ ایک قدرتی بات تھی کہ ایک خاص طرز فکر اور نظام اخلاق پر جو جماعت ابھی تازہ تازہ ہی بنی تھی، جس کی اخلاقی تربیت ابھی مکمل نہ ہو سکی تھی اور جسے اپنے عقیدہ و مسلک کی حمایت میں لڑنے کا یہ دوسرا ہی موقع پیش آیا تھا، اس کے کام میں بعض کمزوریوں کا ظہور بھی ہوتا۔ اس لیے یہ ضرورت پیش آئی کہ جنگ کے بعد اس جنگ کی پوری سرگزشت پر ایک مفصل تبصرہ کیا جائے اور اس میں اسلامی نقطۂ نظر سے جو کمزوریاں مسلمانوں کے اندر پائی گئی تھیں، ان میں سے ایک ایک کی نشان دہی کرکے اس کی اصلاح کے متعلق ہدایات دی جائیں۔ اس سلسلے میں یہ بات نظر میں رکھنے کے لائق ہے کہ اس جنگ پر قرآن کا تبصرہ ان تبصروں سے کتنا مختلف ہے جو دنیوی جرنیل اپنی لڑائیوں کے بعد کیا کرتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. تفسیر انوار النجف