نسوانی ختنہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
photograph
Road sign near کاپچوروا، یوگنڈا، 2004
DefinitionDefined in 1997 by the WHO، یونیسف and UNFPA as the "partial or total removal of the external female genitalia or other injury to the female genital organs for non-medical reasons."[1]
AreasMost common in 27 countries in افریقا، as well as in یمن and عراقی کردستان[2]
Numbers133 million in those countries[3]
AgeDays after birth to puberty[4]
Prevalence، ages 15–49
15–49Source: UNICEF, نومبر 2014[5]
Prevalence, ages 0–14
0–14, as reported by their mothersSource: UNICEF, نومبر 2014[5]
Legislation
LawsAs of 2013 there was legislation in place against FGM in the following practising countries (several have introduced restrictions short of a ban; an asterisk indicates a ban according to UNICEF–UNFPA in 2012):
  • Benin (2003)
  • Burkina Faso (1996*)
  • Central African Republic (1966, amended 1996)
  • Chad (2003)
  • Côte d'Ivoire (1998)
  • Djibouti (1995, amended 2009*)
  • Egypt (2008*)
  • Eritrea (2007*)
  • Ethiopia (2004*)
  • Ghana (1994, amended 2007)
  • Guinea (1965, amended 2000*)
  • Guinea-Bissau (2011*)
  • Iraqi Kurdistan (2011)
  • Kenya (2001, amended 2011*)
  • Mauritania (2005)
  • Niger (2003)
  • Nigeria, some states (1999–2006)
  • Senegal (1999*)
  • Somalia (2012*)
  • Sudan, some states (2008–2009)
  • Tanzania (1998)
  • Togo (1998)
  • Uganda (2010*)
  • Yemen (2001)۔[6]
یوگنڈا میں نسوانی ختنہ کے خلاف سڑک کے لگا ایک بورڈ

نسوانی ختنہ (عربی: ختان الإناث، انگریزی: FGM یا Female Genital Mutilation) سے مراد خواتین کے جنسی اعضا کے بیرونی حصے کو قطع کرنے کا عمل ہے۔ یہ عمل صحارا اور شمال مشرقی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سمیت 27 ممالک اور یہاں سے تعلق رکھنے والے مختلف نسلی گروہوں کے یہاں رائج ہے۔ یہ ختنہ عموماً کسی تیز دھار آلے کے ذریعہ دردکش ادویہ کے ساتھ یا ان کے بغیر کیا جاتا ہے۔ ایسی خواتین کی عمریں چند ماہ سے لے کر سنِ بلوغت تک کی ہوتی ہیں۔ یونیسیف کے مطابق 2013ء تک دستیاب اعداد و شمار کے مطابق نصف ممالک میں زیادہ تر ختنے پانچ سال کی عمر سے پہلے کر دیے جاتے ہیں۔ اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں اس عمل سے گزرنے والی خواتین کی تعداد 70 کروڑ ہے۔

مختلف نسلی گروہوں میں اس کے مختلف طریقے ہیں جن میں بظر کے کاٹنے، بظری چادر کے کاٹنے اور داخلی لیبیہ وغیرہ کا کاٹنا شامل ہے۔ بعض حالات میں ایک یا زیادہ حصوں کو کاٹنے کے علاوہ فرج کو بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ موخر الذکر صورت کو عالمی ادارہ صحت نے نسوانی ختنہ کی قسم سوم قرار دیا ہے، جس میں پیشاب کے عمل اور خونِ استحاضہ کے لیے ایک تنگ سوراخ چھوڑ دیا جاتا ہے، جبکہ فرج کو جنسی عمل اور زچگی کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس عمل کی بنا پر صحت پر دوسرے مضر اثرات کے علاوہ انفیکشن، ناقابلِ برداشت تکلیف، استقرار حمل سے معذوری اور زچگی میں پیچیدگیوں کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔

افریقا اور مشرق وسطیٰ میں ساڑھے 12 کروڑ خواتین ختنہ شدہ ہیں، جبکہ 80 لاکھ خواتین ایسی ہیں جو قسم سوم کے نسوانی ختنہ کا شکار ہوئی ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین کا تعلق جبوتی، اریٹریا، حبشہ، صومالیہ اور سوڈان سے ہے۔ اس عمل کو صنفی عدم مساوات، کنواری لڑکیوں کے حصول کی مردانہ خواہش اور نسوانی جنسیت کو اپنے قابو میں رکھنے کے رجحانات کی پیداوار قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم جن ممالک میں یہ عمل میں لایا جاتا ہے وہاں اسے مردوں اور خواتین دونوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے خواتین کی عصمت اور بکارت کی حفاظت ہوتی ہے۔

نسوانی ختنے کو زیادہ تر ممالک میں غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ اس عمل پر پابندی کے لیے 1970ء سے کوششیں جاری ہیں، تاہم 2012ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے باضابطہ طور پر ایک متفقہ قرارداد میں اس عمل کے خاتمے کے عزم کا اعلان کیا۔ ماہرین عمرانیات کے نزدیک نسوانی ختنے کا معاملہ ہمارے عہد کا ایک نہایت اہم اخلاقی مسئلہ ہے۔

طریقہ کار اور صحت پر اثرات[ترمیم]

حالات، طریقہ ہائے کار، بچیوں کی عمریں[ترمیم]

یہ عمل عام طور پر روایتی ختنہ کاروں کے ذریعے دردکش ادویہ کے ساتھ یا ان کے بغیر بچیوں کے گھروں پر سر انجام دیا جاتا ہے۔ یہ ختنہ کار عام طور پر علاقے یا قبیلے کی دایائیں ہوتی ہیں۔ کچھ قبائل میں زنانہ حجامنیں، جو خواتین کے طبی امور کو بھی دیکھتی ہیں، دایہ کے کام کے ساتھ ساتھ یہ کام کرتی ہیں۔ عام طور پر اس کام کے لیے طبی ماہرین کی معاونت نہیں لی جاتی، تاہم کچھ ممالک مثلاً مصر، سوڈان، کینیا وغیرہ جیسے ملکوں میں یہ کام پیشہ ور طبی ماہرین کرتے ہیں۔ مصر میں 1997 سے 2011 کے عرصے میں کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں 70 فی صد نسوانی ختنے طبی ماہرین کرتے ہیں، یہ سروے نومولود سے 17 سال عمر تک کی ختنہ شدہ بچیوں کی ماوں پر کیا گیا تھا۔

روایتی ختنوں میں مختلف آلات مثلاً اُسترا، قینچی، شیشے کی دھار، پھل دار پتھروں اور مختلف انداز کے کیلوں یا سوئیوں سے کیا جاتا ہے۔ 2007 میں یوگنڈا کی ایک نرس نے بتایا کہ ایک چاقو یا اُسترا عام طور پر تقریباً 30 بچیوں کے ختنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ قسم سوم میں زخم کے ساتھ ساتھ فرج کو جراحی دھاگے اور سوئی یا کانٹے کے ذریعے سی دیا جاتا ہے اور زخم کے اندمال کے لیے بچی کی دونوں ٹانگوں کو 2 سے 6 ہفتوں کے لیے آپس میں باندھ دیا جاتا ہے۔

مصر میں کی گئی ایک یونیسیف تحقیق کے مطابق 2013ء میں 60 فیصد کیسز میں تکلیف میں کمی کے لیے مقامی انیستھیٹک کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، 13 فیصد کیسز میں عمومی دردکش ماہر کو بلایا جاتا ہے، جبکہ 25 فیصد معاملات میں درد میں کمی کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔

نسوانی ختنے میں بچیوں کی عمومی عمریں نوزائیدہ سے لے کر 19 سال تک کی ہیں۔ زیادہ تر جگہوں پر بچپن اور لڑکپن کے درمیانی عرصوں میں یہ عمل سر انجام دیا جاتا ہے۔ جن ممالک کے بارے میں اعداد و شمار دستیاب ہیں، ان میں سے نصف ممالک میں زیادہ تر ختنے پانچ سال کی عمر سے پہلے کر دیے جاتے ہیں۔ نائجیریا، مالی، اریٹیریا، گھانا اور موریتانیہ میں 80 فی صد سے زائد بچیوں کے پانچ سال کی عمر تک ختنے کر دیے جاتے ہیں۔ جبکہ صومالیہ، مصر، چاڈ اور وسطی افریقی جمہوریہ میں 80 فی صد ختنے پانچ سے 14 سال کی عمروں میں کیے جاتے ہیں۔ 1997ء کے ایک سروے کے مطابق یمن میں 76 فیصد بچیوں کے پیدائش کے دو ہفتوں کے اندر اندر ختنے کر دیے جاتے ہیں۔

درجہ بندی[ترمیم]

اس رسم کے ہائے کار مختلف نسلی گروہوں میں مختلف ہیں۔ دی گئی تحقیقات پانچ سالوں کے عرصہ میں (1984 سے 1995 تک) مختلف افریقی خواتین سے کیے گئے سوالات اور سروے کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہیں۔ معمول خواتین کی عمریں 15 سے 49 برس کے درمیان میں ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے اس عمل کی درجہ بندی قسم اول، دوم، سوم کے نام سے کی ہے، جبکہ قسم چہارم علامتی ختنہ ہے اور اس کا طریق کار نسوانی ختنے کے طے شدہ طریق کار سے تعلق نہیں رکھتا۔ یونیسیف نے اس عمل کو چار زمروں میں تقسیم کیا ہے۔ (الف) جلد کو کاٹ کر الگ کیے بغیر، چرکا لگانا، چبھونا، علامتی ختنہ (ب) کاٹنا، جلد کا کچھ حصہ الگ کرنا (ج) فرج کو سی دینا، بند کر دینا اور (د) متفرق، طے شدہ طریقوں کے علاوہ طریقے۔

عالمی ادارہ صحت قسم اول اور دوم[ترمیم]

عالمی ادارہ صحت کے لیے ایک رپورٹ 1998ء میں سوسن عزت اور ناہید طوبیہ کے مطابق قسم اول الف سے مراد بظر اور بظری چادر کا کاٹ کر الگ کر دینا ہے۔ قسم اول ب زیادہ عام ہے جس میں بظر اور/یا بظری چادر کو جزوی طور پر کاٹ کر الگ کیا جاتا ہے۔

بظر کو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑ کر کھینچا جاتا ہے اور کسی تیز دھار آلے کے ذریعے کاٹ دیا جاتا ہے۔ ایسے میں خون کا بہنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس کو دباو مرہم پٹی یا دوسرے طریقوں سے روک لیا جاتا ہے۔ خون روکنے کے لیے ٹانکے لگانے کا طریقہ بھی رائج ہے۔

قسم دوم میں بظر اور داخلی لیبیہ کو جزوی یا کلی طور پر کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت قسم سوم[ترمیم]

قسم سوم میں عضو کے خارجی حصے کا مکمل انقطاع اور زخم کی بندش آتے ہیں۔ داخلی اور خارجی لیبیہ کو کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔ عام طور پر بظر کا قطع کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ زخم کو مکمل طور پر بند کرنے سے پہلے پیشاب کی نالی میں کوئی چھوٹی سی شے رکھ کر پیشاب اور خونِ حیض کے لیے ایک معمولی سوراخ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ روایتی دایائیں اس کے لیے کپڑے کا گوٹا یا پتھریلا ڈھیلا رکھتی ہیں۔ یہ سوراخ 2 سے 3 ملی میٹر تک چھوٹا ہو سکتا ہے۔ زخم کو طبی ٹانکوں کے دھاگوں اور سوئی یا روایتی نباتاتی کانٹوں کے ساتھ سی دیا جاتا ہے اور بچی کی ٹانگوں کو دو سے چھ ہفتوں تک باہم باندھ دیا جاتا ہے۔

خون کو روکنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں مختلف مرہم، جلد کے کونوں کو سوئی دھاگے سے سینا اور طولاً چیرے ہوئے بانس کے دو حصوں کے درمیان میں جلد کے حصوں کو پھانس دینا شامل ہے۔

1980 کی دہائی میں ماہر نفسیات ہنری لائٹ فٹ کلین کو 300 سوڈانی مردوں کے انٹرویو کے دوران میں پتہ چلا کہ قسم سوم کے ذریعے بند کیے گئے فروج کو جنسی عمل کے دوران میں عضو تناسل یا چاقو کے ذریعے کھولا جاتا ہے۔

قسم سوم کے ختنے سے گزرنے والی خواتین کو شادی کے وقت جنسی عمل کے دوران میں دخول کے لیے 3 سے 4 دن اور بعض اوقات کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ کچھ مرد کبھی بھی ایسی خاتون کے ساتھ دخول نہیں کر پاتے۔ ایسے مردوں کی تعداد تحقیق کے مطابق 15 فی صد تک بتائی جاتی ہے۔ کئی بار ایسی خواتین کے ساتھ پہلی بار جنسی عمل کرتے ہوئے دخول کے لیے مرد کو ایک دایہ کی مدد تک حاصل کرنا پڑتی ہے، اکثر ثقافتوں میں یہ کام نہایت رازداری سے عمل میں لایا جاتا ہے۔ اگرچہ اس سے مردوں کی جنسی خوداعتمادی میں بھی کمی آتی ہے۔ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں کہ قسم سوم کے ختنے سے گزرنے والی خاتون کو شادی کے بعد کوشش کر کے حاملہ کر دیا جاتا ہے، جبکہ وہ زچگی اور بچہ جننے قابل نہیں ہوتی۔

سوڈان میں اس کی ایک قسم العدل کے نام سے جانی جاتی ہے، جس کے تحت زچگی کے دوران میں فرج کو کھولا جاتا ہے اور بچے کی پیدائش کے فرج کو سی ڈالنے کا عمل دہرایا جاتا ہے۔ قسم سوم کا اطلاق کسی شادی شدہ خاتون کی طلاق پر بھی دوبارہ کیا جا سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت قسم چہارم[ترمیم]

قسم چہارم میں بظر کو کاٹنا، (روایتی طریقہ) گیشری قطع، انگوریہ قطع، داغنا، جھلسانا، چرکے لگانا اور اندام کو کسنے یا بند کرنے کے لیے اس کے اندر کوئی خاص چیز ڈالنا وغیرہ شامل ہیں۔ گیشری قطع سے مراد اندام کو بڑا کرنے کے لیے اس کے سامنے کا حصہ کاٹنا ہے، جبکہ انگوریہ سے مراد اندام کے گرد کی بافتوں کو کاٹ پھینکنا ہے۔ مغربی افریقہ کے علاقے ہوسا میں رائج ایک طریقے میں پردہ بکارت کو الگ کیا جاتا ہے۔ لیبیہ کو پھیلانا بھی قسم چہارم میں آتا ہے۔ تنزانیہ اور کانگو میں لڑکیوں کو دو سے تین ہفتے تک روزانہ اپنا لیبیہ پھیلانے کا کہا جاتا ہے؛ زیادہ عمر کی خواتین لیبیہ کو اپنی جگہ پھیلانے کے لیے چھوٹی چھڑیوں کا استعمال کرتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت لیبیہ پلاسٹی جیسے جراحی طریقوں کو نسوانی ختنے میں شمار نہیں کرتا۔

پیچیدگیاں[ترمیم]

نسوانی ختنے کے اب تک کوئی واضح طبی فوائد ثابت نہیں ہو سکے۔ تاہم اس عمل سے بہت زیادہ پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔ ان پیچیدگیوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ ختنہ کی کون سی قسم کا اطلاق کیا گیا ہے، یہ عمل کسی پیشہ ور ماہر کی نگرانی میں ہوا یا نہیں، عمل میں استعمال ہونے والے آلات اور ان کی صفائی کا معیار کیا ہے، اس عمل کے دوران میں اور بعد میں جراثیم کش ادویہ کی رسائی کس حد تک ممکن تھی، پیشاب اور خونِ استحاضہ کے لیے چھوڑا جانا والا سوراخ کس قدر چھوٹا تھا اور یہ عمل ایک بار سر انجام دیا گیا یا اسے دہرایا بھی گیا، وغیرہ۔

فوری پیچیدگیوں میں خون کا مہلک حد تک بہنا، پیشاب کے ساتھ سوزش، زخم کی انفیکشن، سپٹیسیمیا (خون کی زہر آلودگی)، تشنج یا غیر صاف آلات کے ذریعے ہیپاٹائٹس یا ایڈز کا انتقال وغیرہ شامل ہیں۔ اس عمل میں ہونے والی اموات کا ریکارڈ اکٹھا کرنا آسان نہیں ہے، البتہ چند ایک معاملات میں اموات کا ریکارڈ رکھا گیا ہے۔ اس عمل سے واقع ہونے والی اموات بہت کم رپورٹ کی جاتی ہیں۔

مابعد ختنہ کی پیچیدگیوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ کون سی قسم کا اطلاق کیا گیا ہے۔ مختلف طرح کے زخم مختلف انداز میں اخراجی اور تولیدی نالیوں کی وضع کو متاثر کرتے ہیں۔ پیشاب کی نالی میں نمودار ہونے والی تبدیلیاں مثانے اور دیگر نظام اخراج کو متاثر کر سکتی ہیں۔

اس عمل کی وجہ سے حمل کے دوران میں بہت سی پیچیدگیاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ قسم سوم سے گزرنے والی خواتین کو دوران میں حمل کی نگہداشت کے عمل میں پیشاب کا واضح نمونہ حاصل کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ مختون خواتین کے ہاں زچگی کے دوران میں سیزیرین آپریشن اکثر ناگزیر ہو جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق مختون خواتین کی ہر 1000 زچگیوں میں 10 سے 20 بچے مر جاتے ہیں۔ یہ اندازہ 2006ء میں برکینافاسو، گھانا، کینیا، نائجیریا، سینیگال اور سوڈان کے 28 زچگی مراکز میں بچہ جننے کے لیے داخل 28,393 خواتین کے مطالعے سے اخذ کیا گیا۔ تمام اقسام کے ختنے سے گزرنے والی خواتین کے بچے میں مر جانے کا خطرہ بہت زیادہ پایا گیا۔ قسم اول میں 15 فیصد زیادہ خطرہ، قسم دوم میں 32 فیصد، جبکہ قسم سوم کی صورت میں بچے کی موت کا خدشہ 55 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

نفسیاتی پیچیدگیوں میں ذہنی دباو اور مابعد صدمہ کھچاو کا مرض اس عمل کا ایک نتیجہ ہو سکتا ہے۔ مزید براں ایسی خواتین کے دوسرے ثقافتی گروہ میں آنے جانے پر مزید منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مختون خواتین کے لیے جنسی عمل نہایت دردناک ہو جاتا ہے اور جنسی حظ اندوزی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ قسم سوم کے ختنہ سے جنسی خواہش کے ختم ہونے جیسے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

پھیلاو[ترمیم]

افریقہ میں نسوانی ختنہ کا پھیلاو

مختلف آبادیوں کے صحت اور جغرافیائی سروے کے ذریعے 1989ء سے اس مسئلہ کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔ ان سرویز کی روشنی میں وضع کی گئی 2013ء کی یونیسیف رپورٹ کے مطابق یمن اور عراقی کردستان سمیت 27 افریقی ممالک کی ساڑھے بارہ کروڑ خواتین اس مسئلے سے متاثر ہیں۔

افریقی ممالک میں اس کا رجحان بہت زیادہ رہا ہے۔ یونیسیف رپورٹ کے مطابق صومالیہ میں 98 فیصد خواتین، گنی میں 96 فیصد، مصر میں 91 فیصد، اریٹریا میں 89 فیصد، مالی میں 89 فیصد، سرالیون میں 88 فیصد، سوڈان میں 88 فیصد، گیمبیا میں 76 فیصد، برکینافاسو میں 76 فیصد، حبشہ میں 74 فیصد، موریطانیہ میں 69 فیصد، لائبیریا میں 66 فیصد اور گنی بساو میں 50 فیصد خواتین اس عمل سے گذر چکی ہیں۔

2008ء تک مصر، حبشہ اور شمالی سوڈان میں پندرہ سال سے زائد عمر کی ساڑھے پانچ کروڑ خواتین مختون تھیں، جبکہ ایسی ہر پانچویں خاتون کا تعلق مصر سے تھا۔ زیادہ تر خواتین قسم اول اور دوم سے گزرتی ہیں، جبکہ قسم سوم کا رجحان جبوتی، صومالیہ اور سوڈان کے علاوہ اریٹریا اور حبشہ کے علاقوں میں زیادہ ہے۔

افریقہ سے باہر یمن میں اس کا پھیلاو 23 فیصد ہے، جبکہ عراقی کردوں میں اس عمل کی مقبولیت کی وجہ سے عراق میں اس کا پھیلاو آٹھ فیصد ہے۔ نسوانی ختنے کے واقعات بھارت، اسرائیل کے بدوی علاقوں، متحدہ عرب امارات اور نسبتاً کم وقوع کے ساتھ کولمبیا، اومان، پیرو اور سری لنکا میں بھی درج کیے گئے ہیں۔ اردن اور سعودی عرب میں اس عمل کے کیے جانے کے شواہد موجود ہیں، تاہم ان ممالک سے نمائندہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، یورپ اور سکینڈے نیویا، امریکا اور کینیڈا کے تارک وطن گروہوں میں بھی نسوانی ختنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔

2013ء میں یونیسیف رپورٹ میں رجحانات میں کی نشان دہی کی گئی۔ کینیا اور تنزانیہ میں 45 سے 49 برس کی خواتین میں اس عمل سے گذرے ہونے کی شرح، 15 سے 19 سال کی خواتین کی نسبت تین گنا زیادہ تھی۔ بینن، وسطی افریقی جمہوریہ، عراق، لائبیریا اور نائجیریا میں شیرخوارگی کے دوران میں ختنے کا رجحان تقریباً نصف تک کم ہو گیا۔ 2005ء کی رپورٹ کے مطابق برکینافاسو، آئیوری کوسٹ، مصر، کینیا اور مالی میں نسوانی ختنے کی شرح میں کمی پائی گئی۔

اسباب[ترمیم]

ماہرین کا مشاہدہ ہے کہ مختلف گروہوں میں گروہی اقدار اور نسلی حدود کو نافذ رکھنے کے لیے یہ عمل بیٹی پالنے کا ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے۔ ماہر سیاسیات گیری میکی کے بقول اسے پائے بندی کی رسم کی طرح سمجھا جانے چاہیے جسے 1911ء میں پابندی نافذ ہونے تک چین میں عمل میں لایا جاتا تھا۔ قدیم چین میں پیدا ہوتے ہی بچیوں کے پیروں میں ایسے جوتے کس دیے جاتے تھے، جن سے عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے تمام جسم کی نشو و نما ہوتی رہتی، لیکن پیروں کا سائز ایک نومولود بچی سے کچھ ہی بڑا ہوتا تھا۔ میکی لکھتے ہیں کہ پائے بندی کا عمل ایک نسلی شناختی علامت تھا۔ خواتین کو جنسی طور پر قابو کرنے کی عالمگیر خواہش کے تحت غیرت، پسند کی شادی، بارآوری، جمالیات اور دوسرے حیلوں سے ان کی جسمانی ساخت کو بدلا جاتا یا بدلنے کا کہا جاتا رہا ہے۔ عام طور پر ایسے اعمال مردانہ جنسی حظ کو بڑھانے کے لیے سر انجام دیے جاتے رہے ہیں۔

ماہرین کے نزدیک خواتین میں اس عمل کے تسلیم کیے جانے کی وجوہ یہ ہیں کہ اس سے سماجی طور پر بہتر رتبہ ملتا ہے، شادی میں آسانی ہوتی ہے، بکارت کی حفاظت، جنسی خواہش میں کمی، مرد کی جنسی تشفی اور مذہبی اداروں کا دباو اس کی وجوہ میں شامل ہیں۔

عام طور پر بکارت اور نیکی کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔ فلسفی مارتھا نُسبام کے مطابق غیر مختون خواتین کو 'طوائفانہ' اور 'بچکانہ' طرز کی خواتین سمجھا جاتا ہے۔ مختلف گروہوں میں اس عمل کے جنسی محرکات مختلف ہیں۔ رحمان اور طوبیہ اپنے اطلاع نامہ میں لکھتے ہیں کہ مصر، سوڈان اور صومالیہ میں یہ عمل شادی سے قبل جنسی عمل کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے، جبکہ یوگنڈا اور کینیا میں یہ خواتین کی جنسی خواہش کو کم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، تاکہ ان کے مرد زیادہ سے زیادہ خواتین کے ساتھ شادیاں کر سکیں۔ ان دونوں صورتوں میں اس دلیل کو تقویت ملتی ہے کہ یہ عمل مردانہ جنسیت کے فوائد کو مدنظر رکھ کر سر انجام دیا جاتا ہے۔

طبی ماہر مریم مارٹینیلی اور اینرک اولیگوئے لکھتے ہیں کہ نسوانی ختنہ کرنے والے گروہوں میں نسوانی اعضائے جنسی کو ناپاک اور بدصورت سمجھا جاتا ہے۔ وہاں مردوں کی ترجیح ہوتی ہے کہ خواتین کے جنسی اعضا "سپاٹ، کرخت اور خشک" ہوں۔ مالی کے دوگون لوگوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ عورت کا بظر اس میں مردانگی کا پتہ دیتا ہے، جبکہ مرد کے لِنگ کی اوپری جلد اس میں نسوانیت کی نشانی ہے۔ وہ ان متضاد نشانیوں کو کاٹ پھینکنے کے حامی ہیں۔ ایک عمومی عقیدہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اگر بظر کو نہ کاٹا جائے تو یہ بڑھتا اور نمو پاتا رہتا ہے اور اگر پیدائش کے وقت یہ بچے کے سر سے مس ہو جائے تو بچہ بڑا ہو کر نامرد ہو گا۔

اس عمل کے نہ ختم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ختنے کرنے والوں/والیوں کا انحصار اس کام سے حاصل ہونے والی آمدن سے ہے اور وہ ہمیشہ اس رسم کی حمایت کرتے چلے آ رہے ہیں۔

مخالفت[ترمیم]

1920 کی دہائی میں مصر کی ڈاکٹرز سوسائٹی نے اس رسم پر پابندی لگائے جانے کا مطالبہ کیا۔ قاہرہ یونیورسٹی کے ڈائرکٹر اور سرجن ڈاکٹر ابراہیم پاشا نے 1928ء میں اس کے خلاف آواز بلند کی۔ 1951ء میں مصر کے طبی جریدے 'الدکتور' میں اس عمل کی پرزور مخالفت کی گئی۔ 1957ء میں خواتین کے میگزین 'حوا' نے بھی اس رسم کے خلاف مہم چلائی۔ 1958ء میں مصر میں اس عمل پر مصری طبی سہولیات کے اداروں میں پابندی عاید کر دی گئی۔ البتہ نجی طبی اداروں نے نسوانی ختنے کرنا جاری رکھا، تا وقتیکہ 2007ء میں ایک 12 سالہ بچی کی ختنے کے دوران موت ہو جانے کے واقعے پر انسانی حقوق کے حلقوں میں شدید بیچینی کی لہر دیکھنے میں آئی اور 2008ء میں اس عمل کو مصر میں مکمل طور پر غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ قاہرہ کی قدیم یونیورسٹی جامعۃ الازہر نے ایک فتوے میں اسے خلاف اسلام قرار دیا گیا۔ مصر طبی ماہر نوال السعداوی نے اپنی کتاب Women and Sex مطبوعہ 1972ء میں اس امر پر آواز اٹھائی، تو ناصرف اس کتاب پر پابندی عاید کر دی گئی بلکہ نوال ڈائرکٹر جنرل پبلک ہیلتھ کے عہدے سے بھی ہٹا دی گئیں۔

دسمبر 2012 ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افریقہ کے 54 ممالک کی معیت میں ایک مذمتی قرارداد پیش کی گئی، جس کے تحت 26 افریقی ممالک میں، قانون کے کمزور نفاذ کے باوجود نسوانی ختنے کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Classification of female genital mutilation"، World Health Organization, 2014 (hereafter WHO 2014)۔
  2. Female Genital Mutilation/Cutting: A Statistical Overview and Exploration of the Dynamics of Change، New York: United Nations Children's Fund, جولائی 2013 (hereafter UNICEF 2013)، pp. 5, 26–27.
  3. UNICEF 2013، p. 50.
  4. ^ ا ب The State of the World's Children 2015: Executive Summary، New York: UNICEF, نومبر 2014, Table 9, pp. 84–89.
  5. UNICEF 2013، p. 9; for the bans, Joint Programme on Female Genital Mutilation/Cutting: Accelerating Change، New York: UNFPA–UNICEF, Annual Report 2012 (hereafter UNFPA–UNICEF 2012)، p. 12.

سانچہ:نسائيت