"وزیر اعظم بھارت" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
اضافہ مواد
سطر 49: سطر 49:


مئی 1996ء میں راؤ کا عہد ختم ہونے کے بعد بھارت نے تین سال کی مدت میں چار وزرائے اعظم بنائے۔ جن میں دو مرتبہ [[اٹل بہاری واجپائی]]، ایک مرتبہ [[ایچ ڈی دیوے گوڑا]] ( 1 جون 1996ء سے 21 اپریل 1998ء) اور ایک مرتبہ [[اندر کمار گجرال]] ( 21 اپریل 1997ء سے مارچ 1998ء)۔ 1998ء میں منتخب اٹل جی کی حکومت نے کچھ ٹھوس اقدامات کیے جن میں [[پوکرن]] میں پانچ زیر زمین ایٹمی دھماکے شامل تھے۔ <ref>{{Cite web|url=http://www.cnn.com/WORLD/asiapcf/9805/17/india.nuke.tests/|title=India releases pictures of nuclear tests|date=17 مئی 1998|website=[[سی این این]]|publisher=[[Turner Broadcasting System]]|publication-place=[[نئی دہلی]]|access-date=5 اپریل 2018|agency=CNN}}</ref> ان دھماکوں کے جواب میں متعدد مغربی ممالک بشمول [[ریاستہائے متحدہ امریکا]] نے بھارت پر اقتصادی پابندی لگا دی، <ref>{{Cite web|url=http://news.bbc.co.uk/2/hi/special_report/1998/05/98/india_nuclear_testing/92797.stm|title=US imposes sanctions on India|date=13 مئی 1999|website=[[برطانوی نشریاتی ادارہ]]|access-date=5 اپریل 2018}}</ref> لیکن لیکن [[روس]]، [[فرانس]]، [[خلیجی ممالک]] اور دیگر ممالک کی تائید کی وجہ سے یہ پابندی کامیاب نہ ہو سکی ۔<ref>{{Cite journal|last=Morrow|first=Daniel|last2=Carriere|first2=Michael|date=1 جنوری 1999|title=The economic impacts of the 1998 sanctions on India and Pakistan|url=https://www.tandfonline.com/doi/abs/10.1080/10736709908436775|journal=The Nonproliferation Review|publisher=[[روٹلیج]]|volume=6|issue=4|pages=1–16|doi=10.1080/10736709908436775|issn=1073-6700|access-date=5 اپریل 2018|via=[[Taylor & Francis]]}}</ref><ref>{{Cite book|url=https://www.worldcat.org/oclc/313061697|title=India's nuclear diplomacy after Pokhran II|last=Rai|first=Ajai K.|publisher=[[Longman]]|others=Foreword by [[Ved Prakash Malik]]|year=2009|isbn=978-8131726686|location=[[دہلی]]|oclc=313061697}}</ref> ان دھماکوں کے جواب میں [[پاکستان]] نے بھی ایٹمی تجربات کیے۔ <ref>{{Cite book|url=https://www.worldcat.org/oclc/816041307|title=Eating grass: The making of the Pakistani bomb|last=Khan|first=Feroz Hassan|publisher=[[Stanford University Press]]|year=2012|isbn=978-0-8047-8480-1|location=[[Stanford, California|Stanford]]|pages=281|oclc=816041307}}</ref>
مئی 1996ء میں راؤ کا عہد ختم ہونے کے بعد بھارت نے تین سال کی مدت میں چار وزرائے اعظم بنائے۔ جن میں دو مرتبہ [[اٹل بہاری واجپائی]]، ایک مرتبہ [[ایچ ڈی دیوے گوڑا]] ( 1 جون 1996ء سے 21 اپریل 1998ء) اور ایک مرتبہ [[اندر کمار گجرال]] ( 21 اپریل 1997ء سے مارچ 1998ء)۔ 1998ء میں منتخب اٹل جی کی حکومت نے کچھ ٹھوس اقدامات کیے جن میں [[پوکرن]] میں پانچ زیر زمین ایٹمی دھماکے شامل تھے۔ <ref>{{Cite web|url=http://www.cnn.com/WORLD/asiapcf/9805/17/india.nuke.tests/|title=India releases pictures of nuclear tests|date=17 مئی 1998|website=[[سی این این]]|publisher=[[Turner Broadcasting System]]|publication-place=[[نئی دہلی]]|access-date=5 اپریل 2018|agency=CNN}}</ref> ان دھماکوں کے جواب میں متعدد مغربی ممالک بشمول [[ریاستہائے متحدہ امریکا]] نے بھارت پر اقتصادی پابندی لگا دی، <ref>{{Cite web|url=http://news.bbc.co.uk/2/hi/special_report/1998/05/98/india_nuclear_testing/92797.stm|title=US imposes sanctions on India|date=13 مئی 1999|website=[[برطانوی نشریاتی ادارہ]]|access-date=5 اپریل 2018}}</ref> لیکن لیکن [[روس]]، [[فرانس]]، [[خلیجی ممالک]] اور دیگر ممالک کی تائید کی وجہ سے یہ پابندی کامیاب نہ ہو سکی ۔<ref>{{Cite journal|last=Morrow|first=Daniel|last2=Carriere|first2=Michael|date=1 جنوری 1999|title=The economic impacts of the 1998 sanctions on India and Pakistan|url=https://www.tandfonline.com/doi/abs/10.1080/10736709908436775|journal=The Nonproliferation Review|publisher=[[روٹلیج]]|volume=6|issue=4|pages=1–16|doi=10.1080/10736709908436775|issn=1073-6700|access-date=5 اپریل 2018|via=[[Taylor & Francis]]}}</ref><ref>{{Cite book|url=https://www.worldcat.org/oclc/313061697|title=India's nuclear diplomacy after Pokhran II|last=Rai|first=Ajai K.|publisher=[[Longman]]|others=Foreword by [[Ved Prakash Malik]]|year=2009|isbn=978-8131726686|location=[[دہلی]]|oclc=313061697}}</ref> ان دھماکوں کے جواب میں [[پاکستان]] نے بھی ایٹمی تجربات کیے۔ <ref>{{Cite book|url=https://www.worldcat.org/oclc/816041307|title=Eating grass: The making of the Pakistani bomb|last=Khan|first=Feroz Hassan|publisher=[[Stanford University Press]]|year=2012|isbn=978-0-8047-8480-1|location=[[Stanford, California|Stanford]]|pages=281|oclc=816041307}}</ref>
دونوں ملکوں مابین حالات مزید خراب ہونے کے بعد دونون نے اپنے تعلقات سدھارنے کی کوششیں کیں۔ فروری 1999ء میں بھارت اور پاکستان نے [[لاہور اعلامیہ]] پر دستخط کیا جس میں دونوں نے اعلان کیا کہ وہ آپسی شمنی ختم کریں گے اور اپنے اپنے ایٹمی ہتھیار پرامن مقاصد کے لیے استعمال کریں گے۔ <ref>{{Cite web|url=http://www.rediff.com/news/1999/feb/21bus.htm|title=Vajpayee, Sharief sign Lahore Declaration|last=Iype|first=George|date=21 فروری 1999|website=[[Rediff.com]]|publication-place=[[لاہور]]|access-date=5 اپریل 2018}}</ref>1999ء میں [[آل انڈیا اننا دراویڈا مونیترا کازگم]] نے [[نیشنل ڈیموکریٹک الائنس]] کے اپنی حمایت واپس لے لی ۔ <ref>{{Cite web|url=http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/318912.stm|title=Jayalalitha: Actress-turned-politician|date=14 اپریل 1999|website=[[برطانوی نشریاتی ادارہ]]|access-date=5 اپریل 2018}}</ref> اس کے بعد واجپائی حکومت تحریک عدم اعتماد 269-270 سے ہار گئی اور ستم بالائے ستم یہ کہ [[کارگل جنگ]] بھی اسی دوران میں واقع ہوئی۔<ref>{{Cite news|url=http://www.business-standard.com/article/current-affairs/india-was-ready-to-cross-loc-use-nuclear-weapons-in-kargil-war-115120300518_1.html|title=India was ready to cross LoC, use nuclear weapons in Kargil war|date=3 دسمبر 2015|work=[[Business Standard]]|access-date=5 اپریل 2018|publisher=Business Standard Ltd|others=BS Web Team|publication-place=[[نئی دہلی]]|oclc=496280002}}</ref> اس کے معا بعد ہوئے [[1999ء کے عام انتخابات]] میں بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کو ایوان زیریں کی 545 میں 299 نششتیں حاصل ہوئیں اور مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی۔ <ref>{{Cite web|url=http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/468258.stm|title=Indian election: What they said|date=8 اکتوبر 1999|website=[[برطانوی نشریاتی ادارہ]]|access-date=5 اپریل 2018}}</ref>

نسخہ بمطابق 18:06، 26 اکتوبر 2018ء

وزیر اعظم بھارت
بھارت کی ریاستی علامت
موجودہ
نریندر مودی

26 مئی 2014ء (2014ء-05-26) سے
خطابقابل احترام (رسمی)
عزت مآب (سفارتی دستاویزات میں)
حیثیتسربراہ حکومت
مخففپی ایم
رکناتحاد وزرائے مجلس
بھارتی پارلیمان
جواب دہ
رہائش7، لوک کلیان مارگ، نئی دہلی
نشستدفتر وزیر اعظم، نئی دہلی
تقرر کُننِدہصدر بھارت
لوک سبھا کے ارکان
مدت عہدہصدر کی مرضی
لوک سبھا کی مدت پانچ سال ہے
کوئی حد مقرر نہیں
تاسیس کنندہجواہر لعل نہرو (1947–1964)
تشکیل15 اگست 1947؛ 76 سال قبل (1947-08-15)
نائبنائب وزیر اعظم بھارت (اگر کوئی ہو)
تنخواہ20 لاکھ (امریکی $28,000) (سالانہ، بشمول 960,000 (امریکی $13,000) رکن پارلیمان کی حیثیت)
ویب سائٹpmindia.gov.in

بھارتی وزیر اعظم حکومت ہند کی مقننہ کا سربراہ ہوتا ہے۔ وہ صدر بھارت کا مشیر بھی ہوتا ہے۔ اور وزارتی کونسل کا صدر بھی ہوتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں; لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں سے کسی کا بھی رکن ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی اس کو کسی ایک سیاسی جماعت کا رکن ہونا بھی لازمی ہے۔ وزیر اعظم کی جماعت کو لوک سبھا میں اکثریت حاصل ہوتی ہے۔ کسی بھی پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم حکومت کی مققنہ کابینہ کا سب سے سینئر رکن ہوتا ہے۔ وہی کابینہ کے ارکان کو منتخب کرتا ہے اور انہیں برخواست کرسکتا ہے۔ وہ کابینہ کا صدر ہوتا ہے اور چیئر مین بھی۔ مرکزی کابینہ وزیر اعظم کی زیر صدارت کام کرتی ہے جس کا انتخاب صدر بھارت کے ذریعے عمل میں لایا جاتا ہے تاکہ وہ مابعد الذکر کو انتظامی اور قانونی امور میں مدد کرسکے۔ مرکزی کابینہ بحیثیت مجموعی دستور ہند کی دفعہ 75 (3) کے تحت لوک سبھا کو جوابدہ ہے۔ وزیر اعظم کو لوک سبھا میں اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے جس میں ناکامی استعفی کا سبب بنتی ہے۔

ابتدا اور تاریخ

بھارت میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے جس کی رو سے وزیر اعظم سربراہ حکومت ہوتا ہے اور وہی مقننہ کی بھی سربراہی کرتا ہے۔ اس طرح کی حکومتوں میں صدر جمہوریہ سربراہ ریاست ہوتا ہے اور وہ عام طور پر تقاریبی عہدوں کا مالک ہوتا ہے اور زیادہ تر امور میں وزیر اعظم کے مشوروں کا محتاج ہوتا ہے۔ وزیر اعظم -اگر پہلے سے ہی پارلیمان کا رکن نہیں ہے تو - حلف لینے کے بعد چھ ماہ کے اندر پارلیمان کا رکن ہونا لازمی ہے۔ پارلیمان میں کسی بھی کو پاس کروانے کے لیے اور دوسرے وزرا کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔

تاریخ

1947ء-1984ء

1974ء سے اب تک 14 مختلف وزرائے اعظم ہوئے ہیں، {Efn|اس میں گلزاری لال نندا شامل نہیں ہیں جنہوں نے در مرتبہ وزارت عظمی کی کرسی سنبھالی ہے۔}} پہلی دو دہائی تقریباً انڈین نیشنل کانگریس کے قبضہ میں رہی ہے ۔ پہلا وزیر اعظم جواہر لعل نہرو تھا جس نے 15 اگست 1947ء کو حلف لیا۔ نہرو نے لگاتار 17 برسوں تک اس عہدہ پر رہ کر اپنے فرائض انجام دیے کیونکہ اس دوران میں وہ انتخابات جیت تے رہے۔ ان کا دور مئی 1964ء میں ان کی وفات پر ختم ہوا۔ [1][2] نہرو کی موت کے بعد سابق وزیر داخلہ لال بہادر شاستری وزیر اعظم بنے۔ ان ہی کے دور میں پاک بھارت جنگ 1965ء ہوئی۔ شاستری کی موت اعلامیہ تاشقند پر دستخط کرنے کے بعد تاشقند میں ہی دل کے دورہ کی وجہ سے ہوئی۔ [3] شاستری کے بعد اندرا گاندھی بحیثیت اول خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ ان کا پہلا دور 11 سال تک چلا جس میں انہوں نے بینکوں کا قومیانہ کیا، [4] بھارت میں صرف خاص اور سیاسی عہدہ کا خاتمہ کیا۔ ان سے قبل برطانوی ہند کے صوبے اور علاقے کی نوابی ریاست کے شاہی خاندانوں کے افراد سیاسی عہدے اور صرف خاص کا فائدہ اٹھاتے تھے۔ ۔[5] ان کے علاوہ پاک بھارت جنگ 1971ء اور آزاد بنگلہ دیش کا قیام بھی ان ہی کے دور میں واقع ہوا۔ [6][7] ان ہی کے دور میں 1975ء میں ریفرینڈم کے ذریعے سکم کو بھارت میں شامل کیا گیا۔ [8] بھارت کاپہلا ایٹمی تجربہ پوکھرن میں ان ہی کے دور میں ہوا۔ 1975ء میں صدر فخر الدین علی احمد اندرا گاندھی کے مشورہ پر ہنگامی صورت حال نافذ کر دیا، ایک ایسا دور جسے حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے لیے جانا جاتا ہے۔[9][10] ملک گیر احتجاجات کے بعد 1977ء میں ایمرجنسی ختم کر دی گئی اور 1977ء کے بھارتی انتخابات ہونے والے تھے۔ ایمرجنسی کے بعد حزب مخالف کی تمام جماعتوں نے ایک ساتھ جنتا پارٹی کیa زیر قیادت 1977ء کے عام انتخابات میں کانگریس کے خلاف انتخابات میں قدم رکھا اور کانگریس کو شکست دی۔ سابق ڈپٹی وزیر اعظم مورار جی دیسائی وزیر اعظم متخب ہوئے۔ وہ پہلے غیر کانگریسی وزیر اعظم تھے۔ دیسائی کی حکومت مختلف پارٹیوں کا مجموعہ تھی جن کے نظریات میں خاصا اختلاف تھا لہذا اتحاد بنائے رکھنا ان کے لیے ایک چیلینج تھا۔ بالآخر ڈھائی سال سے زیادہ مدت مکمل کرنے کے بعد 28 جولائی 1979ء کو دیسائی کو استعفی دینا پڑا اور حکومت گر گئی۔ اس کے بعد دیسائی کی حکومت میں رہے ڈپٹی وزیر اعظم چرن سنگھ نے کانگریس کی تائید کے بعد لوک سبھا میں اکثریت ثابت کر دی اور وزارت عظمی کا حلف لے لیا۔ [11][12] حالانکہ اس کے فوراً بعد کانگریس نے اپنی حمایت واپس لے لی اور چرن سنگھ کو استعفی دینا پڑا۔ انہوں نے صرف پانچ ماہ بحیثیت وزیر اعظم اپنی خدمات انجام دیں۔ یہ کسی بھی وزیر اعظم کا سب سے مختصر دور ہے۔ ا980ء میں3 سال کے وقفہ کے بعد کانگریس پھر حکومت میں آئی اور اس مرتبہ اسے مکمل اکثریت حاصل تھی۔ اندرا گاندھی پھر وزیر اعظم بنیں اور یہ ان کا دوسرا دور تھا۔ [13] ان کے اس دور میں سکھ مت کی سب سے مقدس جائے عبادت ہرمندر صاحب میں بھارتی فوج کے ذریعے آپریشن بلیو اسٹار انجام دیا گیاجس میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ [14] اس کے معا بعد 31 اکتوبر 1984ء کو اندرا جی کا 1، صدفر جنگ روڈ ،،نئی دہلی پر واقع ان کے رہائشی گھر کے باغ میں گولی مارکر ان کا قتل کر دیا گیا۔ ان کے قاتلین ان کے ہی دو جسمانی محافظ ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ تھے۔ [15]

1984ء-1999ء

اندرا جی کے بعد ان کے 40 سالہ بیٹے راجیو گاندھی نے 3 اکتوبر 1984ء کو بحیثیت وزیر اعظم حلف لیا اور وہ سب سے کم عمر وزیر اعظم بن گئے۔ راجیو نے فوراً انتخابات کرانے کا حکم دے دیا۔ ان انتخابات میں کانگریس کو مکمل اکثریت حاصل ہوئی ۔ اس نے لوک سبھا کی 552 نششتوں میں سے 401 نششتوں پر جیت حاصل کی۔ یہ بھارت کی تاریخ میں کسی بھی پارٹی کی طرف کی سب سے بڑی جیت تھی۔ [16][17] وی پی سنگھ - پہلے وزیر خزانہ اورراجیو گاندھی کابینہ کے وزیر دفاع نے ایک بد عنوانی کا پردہ فاش کیا جسے بعد میں بوفورس اسکینڈل کے نام سے جانا گیا۔ بعد میں سنگھ کو کانگریس سے نکال باہر کیا گیا اور انہوں نے جنتا دل کی بنیاد رکھی اور متعدد کانگریس مخالف جماعتوں کی مدد سے نیشنل فرنٹ بنایا۔ [18] 1989ء کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور بایاں فرنٹ کی خارجی حمایت سے نیشنل فرنٹ نے حکومت بنا لی۔ [19] وی پی سنگھ ۔[19] ایک سال سے کم کی مدت کے دوران میں ہی سنگھ نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو قبول کرلیا۔ [20] وی پی سنگھ دور اس وقت ختم ہوگیا اور ان کو استعفی دینا پڑا جب انہوں نے بی جے پی کے رکن لال کرشن اڈوانی کی حراست کے حکم دے دیا۔ [21] نتیجتا بی جے پی اپنی حمایت واپس لے لی اور وی پی سنگھ تحریک عدم اعتماد میں 146-320 سے ناکام رہے اور ان کو استعفی دینا پڑا۔ [22] وی پی سنگھ کے بعد ان کی کابینہ کے وزیر داخلہ بھارت چندر شیکھر نے سماجوادی جنتا پارٹی (راشٹریہ) کی مدد سے لوک سبھا میں اکثریت ثابت کر دی اور انہیں کانگریس کی بھی حمایت حاصل تھی۔ [23][24] لیکن ان کا دور زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا اور کانگریس نے حمایت واپس لے لی، شیکھر کی حکومت گرگئی اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔ [25] 1991ء کے عام انتخابات میں نرسمہا راؤ کی زیر قیادت کانگریس نے اقلیتی حکومت بنائی۔ راو جنوبی ہند کے پہلے وزیر اعظم بنے ۔ [26] سوویت اتحاد کی تحلیل کے بعد بھارت دیوالیہ پن کے دہانے ہر کھڑی تھی، لہذا راو نے معاشیات میں ڈھیل دینے کا عہد کیا اور منموہن سنگھ -ایک ماہر اقتصادیات اور سابق گورنر برائے بھارت ریزرو بینک- کو وزیر مالیات بنا دیا۔ [26] تب منموہن سنگھ نے اکانومی کو لبرلائز کرنے کی خاطر کئی اقدامات کیے [26] اور اس طرح بھارت نے اچانک اور غیر یقینی طور پر اقتصادی ترقی کی۔ [27] ان کی وزارت عظمی بابری مسجد کا انہدام کے لیے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی جس کی وجہ سے تقریباً 2000 افراد جاں بحق ہوئے۔ [28] راؤ نے اپنا پانچ سالا دور مکمل کیا حالانکہ اس سے قبل صرف نہرو گاندھی خاندان ہی پانچ سالہ میعاد مکمل کرپایا تھا۔ [26]

مئی 1996ء میں راؤ کا عہد ختم ہونے کے بعد بھارت نے تین سال کی مدت میں چار وزرائے اعظم بنائے۔ جن میں دو مرتبہ اٹل بہاری واجپائی، ایک مرتبہ ایچ ڈی دیوے گوڑا ( 1 جون 1996ء سے 21 اپریل 1998ء) اور ایک مرتبہ اندر کمار گجرال ( 21 اپریل 1997ء سے مارچ 1998ء)۔ 1998ء میں منتخب اٹل جی کی حکومت نے کچھ ٹھوس اقدامات کیے جن میں پوکرن میں پانچ زیر زمین ایٹمی دھماکے شامل تھے۔ [29] ان دھماکوں کے جواب میں متعدد مغربی ممالک بشمول ریاستہائے متحدہ امریکا نے بھارت پر اقتصادی پابندی لگا دی، [30] لیکن لیکن روس، فرانس، خلیجی ممالک اور دیگر ممالک کی تائید کی وجہ سے یہ پابندی کامیاب نہ ہو سکی ۔[31][32] ان دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی تجربات کیے۔ [33]

دونوں ملکوں مابین حالات مزید خراب ہونے کے بعد دونون نے اپنے تعلقات سدھارنے کی کوششیں کیں۔ فروری 1999ء میں بھارت اور پاکستان نے لاہور اعلامیہ پر دستخط کیا جس میں دونوں نے اعلان کیا کہ وہ آپسی شمنی ختم کریں گے اور اپنے اپنے ایٹمی ہتھیار پرامن مقاصد کے لیے استعمال کریں گے۔ [34]1999ء میں آل انڈیا اننا دراویڈا مونیترا کازگم نے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے اپنی حمایت واپس لے لی ۔ [35] اس کے بعد واجپائی حکومت تحریک عدم اعتماد 269-270 سے ہار گئی اور ستم بالائے ستم یہ کہ کارگل جنگ بھی اسی دوران میں واقع ہوئی۔[36] اس کے معا بعد ہوئے 1999ء کے عام انتخابات میں بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کو ایوان زیریں کی 545 میں 299 نششتیں حاصل ہوئیں اور مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی۔ [37]
  1. "'A Man Who, with All His Mind and Heart, Loved India'"۔ Life Magazine (بزبان انگریزی)۔ Time Inc۔ 5 جون 1964۔ صفحہ: 32 
  2. "India Mourning Nehru, 74, Dead of a Heart Attack; World Leaders Honor Him"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ 27 مئی 1964۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2018 
  3. Soutik Biswas (27 اگست 2009)۔ "Was Mr Shastri murdered?"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2018 
  4. Austin Granville (2003)۔ Working a democratic constitution: A history of the Indian experience۔ دہلی: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 215۔ ISBN 978-0-19-565610-7۔ OCLC 52992056 
  5. Jaffrelot Christophe (2003)۔ India's silent revolution: The rise of the lower castes in North India۔ لندن: C. Hurst & Co.۔ صفحہ: 131–142۔ ISBN 978-1-85065-398-1۔ OCLC 54023168 
  6. Kulke Hermann، Dietmar Rothermund (2004)۔ A History of India (4th ایڈیشن)۔ نیو یارک شہر: روٹلیج۔ صفحہ: 359۔ ISBN 978-0-415-32919-4۔ OCLC 57054139 
  7. Reynolds David (2001)۔ One world divisible: a global history since 1945۔ نیو یارک شہر: W. W. Norton۔ صفحہ: 244–247۔ ISBN 978-0-393-32108-1۔ OCLC 46977934 
  8. James F. Fisher، مدیر (1978)۔ Himalayan Anthropology: The Indo-Tibetan Interface۔ ہیگ: Mouton۔ صفحہ: 225۔ ISBN 978-3-11-080649-6۔ OCLC 561996779 
  9. Tarlo Emma (2001)۔ Unsettling memories: narratives of the emergency in Delhi۔ برکلے، کیلیفورنیا: University of California Press۔ ISBN 978-0-520-23120-7۔ OCLC 46421940 
  10. Arun Jaitley (5 نومبر 2007)۔ "A tale of three Emergencies: real reason always different"۔ The Indian Express۔ OCLC 70274541۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2018 
  11. Bruce Bueno de Mesquita (2009)۔ Predictioneer's game: Using the logic of brazen self-interest to see and shape the future (1st ایڈیشن)۔ نیو یارک شہر: Random House۔ صفحہ: xxiii۔ ISBN 978-0-8129-7977-0۔ OCLC 290470064 
  12. Vijay Sanghvi (2006)۔ The Congress, Indira to Sonia Gandhi۔ دہلی: Kalpaz Publications۔ صفحہ: 114–122۔ ISBN 978-8178353401۔ OCLC 74972515 
  13. "Indira Gandhi becomes Indian prime minister – Jan 19, 1966"۔ History۔ A&E Networks۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2018 
  14. John A. Guidry، Michael D. Kennedy، Mayer N. Zald (2000)۔ Globalizations and social movements: Culture, power, and the transnational public sphere۔ این آربر، مشی گن: University of Michigan Press۔ صفحہ: 319۔ ISBN 978-0-472-06721-3۔ OCLC 593248991 
  15. Barbara Crossette (6 جنوری 1989)۔ "India Hangs Two Sikhs Convicted In Assassination of Indira Gandhi"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2018 
  16. "1984: Rajiv Gandhi wins landslide election victory"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  17. "Rajiv Gandhi takes oath as India's prime minister"۔ Deseret News۔ نئی دہلی۔ Associated Press۔ 31 دسمبر 1984۔ ISSN 0745-4724۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  18. Barbara Crossette (18 ستمبر 1988)۔ "New Opposition Front in India Stages Lively Rally"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  19. ^ ا ب Barbara Crossette (2 دسمبر 1989)۔ "Indian opposition chooses a premier"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  20. Inder Malhotra (23 مارچ 2015)۔ "Mandal vs Mandir"۔ The Indian Express۔ Indian Express Group۔ OCLC 70274541۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  21. Barbara Crossette (30 اکتوبر 1990)۔ "India ready to bar Hindu move today"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  22. Barbara Crossette (8 نومبر 1990)۔ "India's Cabinet Falls as Premier Loses Confidence Vote, by 142-346, and Quits"۔ نیو یارک ٹائمز۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  23. Barbara Crossette (6 نومبر 1990)۔ "Dissidents Split Indian Prime Minister's Party"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  24. Sanjoy Hazarika (10 نومبر 1990)۔ "Rival of Singh Becomes India Premier"۔ نیو یارک ٹائمز۔ Special to The New York Times۔ A.G. Sulzberger۔ ISSN 0362-4331۔ OCLC 1645522۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  25. "Chandra Shekhar critical"۔ دی ہندو۔ نئی دہلی: The Hindu Group۔ Press Trust of India۔ 8 جولائی 2007۔ ISSN 0971-751X۔ OCLC 13119119۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  26. ^ ا ب پ ت "Narasimha Rao – a reforming PM"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 23 دسمبر 2004۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  27. J. Bradford DeLong (جولائی 2001)۔ "India Since Independence: An Analytic Growth Narrative"۔ In Search of Prosperity: Analytic Narratives on Economic Growth۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 – Research Gate سے 
  28. "Timeline: Ayodhya holy site crisis"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 6 دسمبر 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  29. "India releases pictures of nuclear tests"۔ سی این این۔ نئی دہلی: Turner Broadcasting System۔ CNN۔ 17 مئی 1998۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  30. "US imposes sanctions on India"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 13 مئی 1999۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  31. Daniel Morrow، Michael Carriere (1 جنوری 1999)۔ "The economic impacts of the 1998 sanctions on India and Pakistan"۔ The Nonproliferation Review۔ روٹلیج۔ 6 (4): 1–16۔ ISSN 1073-6700۔ doi:10.1080/10736709908436775۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018Taylor & Francis سے 
  32. Ajai K. Rai (2009)۔ India's nuclear diplomacy after Pokhran II۔ Foreword by Ved Prakash Malik۔ دہلی: Longman۔ ISBN 978-8131726686۔ OCLC 313061697 
  33. Feroz Hassan Khan (2012)۔ Eating grass: The making of the Pakistani bomb۔ Stanford: Stanford University Press۔ صفحہ: 281۔ ISBN 978-0-8047-8480-1۔ OCLC 816041307 
  34. George Iype (21 فروری 1999)۔ "Vajpayee, Sharief sign Lahore Declaration"۔ Rediff.com۔ لاہور۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  35. "Jayalalitha: Actress-turned-politician"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 14 اپریل 1999۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  36. "India was ready to cross LoC, use nuclear weapons in Kargil war"۔ Business Standard۔ BS Web Team۔ نئی دہلی: Business Standard Ltd۔ 3 دسمبر 2015۔ OCLC 496280002۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018 
  37. "Indian election: What they said"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 8 اکتوبر 1999۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اپریل 2018