کراچی سرکلر ریلوے
جائزہ | |||
---|---|---|---|
مقامی | کراچی, پاکستان | ||
ٹرانزٹ قسم | تیز رفتار نقل و حمل | ||
لائنوں کی تعداد | 2 | ||
تعداد اسٹیشن | 28 | ||
یومیہ مسافر | 700,000 | ||
آپریشن | |||
عامل | کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن | ||
تکنیکی | |||
نظام کی لمبائی | 50 کلومیٹر (31.07 میل) | ||
پٹری وسعت | 1,435 ملی میٹر (4 فٹ 8 1⁄2 انچ) | ||
اوسط رفتار | 44 کلومیٹر فی گھنٹہ | ||
بلند رفتار | 100 کلومیٹر فی گھنٹہ | ||
|
کراچی سرکلر ریلوے | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
|
کراچی سرکلر ریلوے یا کراچی مدور راہ آہن پاکستان کے شہر کراچی میں ایک متروک ریلوے ہے جس کی بحالی زیرغور ہے۔ اس کی بحالی کے لیے 1999ء سے لے کر اب تک بے شمار منصوبے بناے گئے تاہم ان پر کوئی کام نہ ہوا۔
2005ء میں جاپان انٹرنیشنل کوپریشن ایجنسی کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے نرم شرائط پر قرض دینے کے لیے رضامند ہو گئی تاہم منصوبے پر پھر بھی کام کا آغاز نہ ہوا اور اب تک التوا کا شکار ہے۔
7 جون 2013ء کو سندھ کے وزیر اعلی قائم علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کے لیے 2.6 ملین امریکی ڈالر کے منصوبے کی منظوری دی۔[1]
تاریخ
[ترمیم]پاکستان ریلویز نے کراچی میں آمدورفت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے 1969ء میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز کیا۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے شروع ہو کر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی شہر ریلوے اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان ریلویز کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی شہر - لانڈھی اور کراچی شہر - ملیر چھاؤنی کے درمیان لوکل ٹرینیں چلتیں تھیں۔ کراچی کے شہریوں نے اس سروس کو بے حد پسند کیا اور پہلے ہی سال کراچی سرکلر ریلوے کو 5 لاکھ کا منافع ہوا۔
1970ء اور 1980ء کی دہائی میں جب کراچی سرکلر ریلوے عروج پر تھی روزانہ 104 ٹرینیں چلائی جاتیں تھیں جن میں 80 مرکزی لائن جب کہ 24 لوپ لائن پر چلتیں تھیں۔ لیکن کراچی کے ٹرانسپورٹروں کو کراچی سرکلر ریلوے کی ترقی ایک آنکه نا بھائی اور انھوں نے اس کو ناکام بنانے کے لیے ریلوے ملازمین سے مل کر سازشیں شروع کر دیں۔ 1990ء کی دہائی کے شروع سے کراچی سرکلر ریلوے کی تباہی کا آغاز ہوا۔ ٹرینوں کی آمدورفت میں تاخیر کی وجہ سے لوگوں نے کراچی سرکلر ریلوے سے سفر کرنا چھوڑ دیا۔ آخر کار 1994ء میں کراچی سرکلر ریلوے کی زیادہ تر ٹرینیں خسارہ کی بنا پر بند کر دیں گئیں۔ 1994ء سے 1999ء تک لوپ لائن پر صرف ایک ٹرین چلتی تھی۔ 1999ء میں کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
لائنیں
[ترمیم]مرکزی لائن
[ترمیم]- کراچی شہر
- کراچی چھاؤنی
- چنیسر ہالٹ
- کارساز
- ڈرگ روڈ > لوپ لائن
- ڈرگ کالونی
- ایرپورٹ
- ملیر > ملیر لائن
- لانڈھی
- جمعہ گوٹھ
- بن قاسم
- گڈار
- ڈابھیجی
لوپ لائن
[ترمیم]- ڈپو ہل
- کراچی یونیورسٹی
- اردو کالج
- گیلانی
- لیاقت آباد
- نارتھ ناظم آباد
- منگھو پیر
- سائٹ
- شاہ عبداللطیف
- بلدیہ
- لیاری
- وزیر مینشن
- کے پی ٹی ہالٹ
ملیر لائن
[ترمیم]مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "The News International: Latest News Breaking, Pakistan News"۔ 13 جون 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جون 2013