دیوالی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

دیوالی
رنگولی، رنگوں کے سفوف سے نقوش نگاری کی جاتی ہے۔ دیوالی کے دور میں یہ عام ہے۔
عرفیتدیپاولی، دیوالی، تی وازی، دیوں کی عید (جشن چراغاں)
منانے والےہندو، جین، سکھ
قسممذہبی
تقریباتدیا اور چراغاں، گھروں کو سجانا، خریدّاری، آتش بازی، پوجا (دعائیں)، تحائف، دعوتیں اور مٹھائیاں
آغازدھنتیرس، دیوالی کے دو دن پہلے
اختتامبھائی دوج، دیوالی کے دو دن بعد
تاریخہندو تقویم کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔
منسلککالی پوجا، دیوالی، بندی چھوڑ دیوس

دیوالی جو دیپاولی اور عید چراغاں کے ناموں سے بھی معروف ہے ایک قدیم ہندو تہوار ہے، جسے ہر سال موسم بہار میں منایا جاتا ہے۔[2][3] یہ تہوار یا عید چراغان روحانی اعتبار سے اندھیرے پر روشنی کی، جہالت پر علم کی، بُرائی پر اچھائی کی اور مایوسی پر اُمید کی فتح و کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔[4][5][6] اس تہوار کی تیاریاں 9 دن پہلے سے شروع ہوجاتی ہیں اور دیگر رسومات مزید 5 دن تک جاری رہتے ہیں۔ اصل تہوار اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔ اصل تہوار شمسی-قمری ہندو تقویم کے مہینہ کارتیک میں اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔ گریگورین تقویم کے مطابق یہ تہوار وسط اکتوبر اور وسط نومبر میں پڑتا ہے۔
دیوالی کی رات سے پہلے ہندو اپنے گھروں کی مرمت، تزئین و آرائش اور رنگ و روغن کرتے ہیں،[7] اور دیوالی کی رات کو نئے کپڑے پہنتے ہیں، دیے جلاتے ہیں، کہیں روشن دان، شمع اور کہیں مختلف شکلوں کے چراغ جلائے جاتے ہیں، یہ دیے گھروں کے اندر اور باہر، گلیوں میں بھی رکھے ہوتے ہیں۔ اور دولت و خوش حالی کی دیوی لکشمی کی پوجا کی جاتی ہے، پٹاخے داغے جاتے ہیں،[8] بعد ازاں سارے خاندان والے اجتماعی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں اور خوب مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ دوست احباب کو مدعو کیا جاتا ہے اور تحفے تحائف تقسیم کیے جاتے ہیں۔ جہاں دیوالی منائی جاتی ہے وہاں دیوالی کو ایک بہتریں تجارتی موسم بھی کہا جاتا ہے۔[9]
دیوالی ہندوؤں کا اہم تہوار ہی نہیں بلکہ اہم رسم یا رواج بھی ہے اور بھارت کے [10]علاقوں کی بنیاد پر اس کا دارومدار ہے۔ بھارت کے کئی علاقوں میں،[11] یہ تہوار دھنتیرس سے شروع ہوتا ہے، نرک چتردشی دوسرے دن منائی جاتی ہے، دیوالی تیسرے دن، چوتھے دن دیوالی پاڑوا شوہر بیوی کے رشتوں کے لیے وقف ہے اور پانچواں دن بھاؤبیج بھائی بہن کے رشتوں کے لیے مخصوص ہے، اس پر یہ تہوار ختم ہوجاتا ہے۔ عام طور پر دھنتیرس، دسہرا کے اٹھارہ دن بعد پڑتا ہے۔
جس رات کو ہندو دیوالی مناتے ہیں، اُسی رات کو جین پیروکار مہاویر کے موکش (نجات) پانے کی خوشی میں جشنِ چراغاں دیوالی مناتے ہیں،[12][13] سکھ پیروکار اس تہوار کو بندی چھوڑ دیوس کے نام سے مناتے ہیں۔[14]
بھارت میں، دیوالی کے ایام میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے،[15] نیز نیپال، ماریشس، سری لنکا، میانمار، گیانا، ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو، سرینام، ملیشیا، سنگاپور اور فجی میں بھی دیوالی سرکاری تہوار ہے۔

وجہ تسمیہ[ترمیم]

دیوالی کی تقریباتa
دیوالی کی رات گھروں میں دیے جلاکر روشنی کرنے کا خوشنما منظر
نیپال کا ایک مندر جو دیوالی میں سجایا گیا ہے۔
بندی چھور دیوس تقاریب شہر امرتسر میں۔
دیوالی کی رات اور پٹاخے پھلجھڑیاں، ایک شہر کا منظر۔
دیہی تقاریب میں دریائے گنگا میں دییوں کو تیرانے کا منظر۔
دیوالی کی مٹھائیاں، جنوبی ایشیا کی خصوصی مٹھائی۔
دیوالی تہوار کے تقاریب میں دلکش مناظر، آواز، فنون اور ذائقے شامل ہیں۔ یہ تہوار ہر علاقے میں مختلف پایاجاتا ہے۔[16][17][18]

لفظ دیپاولی سنسکرت زبان سے ماخوذ ہے۔ جو لفظ دیپ (दीप) سے ماخوذ ہے اس کے معنی ‘‘دیپ‘‘، ‘‘شمع‘‘، ‘‘چراغ‘‘ یا ‘‘روشنی‘‘ کے ہیں، [19][20]) اور ‘‘آولی‘‘(आवली) کے معنی ‘‘قطار‘‘ کے ہیں،[21]) اس طرح دیپاولی یا دپاولی کا مطلب “دییوں کی قطار یا “چراغوں کی قطار“ کے ہیں۔ ۔[22] اس کی تقریب میں لاکھوں دیے گھر کے آنگنوں، عمارتوں، حلقوں اور ان ممالک میں جہاں اس کو منایا جاتا ہے جلتے ہیں۔[16]


دیوالی[2] مختلف ریاستوں کی مختلف زبانوں میں علاحدہ علاحدہ ناموں سے موسوم ہے۔ بالخصوص تلفظ میں فرق دیکھا جا سکتا ہے۔

تاریخ[ترمیم]

دیوالی کی تاریخ انتہائی قدیم ہے۔ یہ تہوار موسمِ گرما کے بعد آتا ہے اور ہندو تقویم کے مطابق کارتیک مہینے میں منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کا ذکرپدم پران، اسکند پران اور دیگر سنسکرت ہندو کتابوں میں مذکور ہے؛ ‘‘دیوا (دہپا)‘‘ (دیے) کا ذکر اسکند پرانا میں مثالی طور پر سورج کے لیے ملتا ہے۔ یہی سورج جو نظامِ شمسی کے مختلف سیاروں کو روشنی دیتا ہے اور یہی شمسی موسمی تغیر کارتیک مہینے میں پاتا ہے۔[17][23]
قدیم بھارت کا ایک بادشاہ “ہرش“، ساتویں صدی کے سنسکرت زبان میں تحریر ایک ڈرامے میں دیوالی کے بارے میں یوں کہتا ہے دیپاپراتیپادُتساوا“ جہاں دیے جلائے جاتے ہیں، جن کی شادی کا رشتہ طے ہوتا ہے ایسے جوڑوں کو تحفے دیے جاتے ہیں۔[24][25] راج شیکھر نے نویں صدی مین اپنی تصنیف کااویامیمامسا میں دیوالی کو “دیپامالیکا“ لکھتے ہیں، اس میں انھوں نے لکھا ہے کہ یہ گھروں کو صاف ستھرا کرنے، راتوں میں دیے جلانے اور گلی کوچوں اور بازاروں کو چراغاں کرنے کا دستور اور موسم ہے۔[24] فارسی سفیر ابو ریحان البیرونی گیارہویں صدی میں ہندوستان کا سفر کیا اور لکھتے ہیں کہ ہندو پیروکار، کارتیک مہینے کے نئے چاند کی رات کو دیوالی مناتے ہیں۔[26]

اہمیت[ترمیم]

بھارت میں “دیوالی“ نہایت ہی خوشی کے ساتھ منایا جانے والا تہوار ہے، بالخصوص اس کی تیاریاں کافی دلچسپ ہوتی ہیں۔ لوگ گھربار، دکان، کارخانے، دفاتر، صاف ستھرے کرلیتے ہیں اور سجا بھی لیتے ہیں۔ دیوالی بھارت کا ایک بڑا، عمدہ، خاص شاپنگ سیزن ہے۔ گھر بار کی ضروری اشیاء خریدی جاتی ہے۔ سونا چاندی، زر زیور بھی اس موقع پر خریدے جاتے ہیں۔[27] لوگ اپنے دوست و اقارب کو اور نوکر چاکر کو تحفے خرید کر دیتے ہیں۔ کارخانوں کے اور تجارتی لوگ اپنے ہاں کام کرنے والے نوکروں کو مزدوروں کو “بونس“ کے روپ میں ایک ماہ کی تنخواہ مزید تحفتاً دیتے ہیں۔ دیوالی کا دور فصل کاٹنے کا دور مانا جاتا ہے۔ اس فصل کے فائدے میں دیگر احباب کو حصہ دار سمجھ کر اُن کے حقوق کو بھی پہچان کر ادا کرتے ہیں۔ نہایت دلجو، دلفریب تقاریب منائی جاتی ہیں۔ چند گھر ایسے بھی ہیں، جن کی تقاریب میں روحانی ماحول نظر آتا ہے۔ اپنے اپنے ایمان، ایقان اور عقائد کی بنیاد پر انحصار رکھنے والے عقیدت مند پوجا، پرستش کرتے ہیں۔ خوشی کا اظہار پٹاخے جلاکر کرتے ہیں۔[18][28]

علاقائی عقائد کی بنا پر لوگ رسم و رواج ادا کرتے ہیں۔ پوجا بھی الگ الگ دیوی دیوتاؤں کی کرتے ہیں۔ مقصود دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنا اور اپنی زندگیوں میں خوش حالیوں کا استقبال کرنا ہوتا ہے۔[18][28]

روحانی اہمیت[ترمیم]

دیوالی ہندو، جین اور سکھ دھرم کے پیروکار مناتے ہیں، ان کے عقائد کے مطابق، کئی قصے، کہانیاں، قیاس آرائیوں پر مبنی داستانیں ہیں، جن کا اہم مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ دیوالی اندھیرے پر روشنی کا غلبہ، نادانی پر دانشوری کا غلبہ، برائی پر اچھائی کا غلبہ اور مایوسی پر اُمید کا غلبہ ظاہر کرنا ہے۔[4][29][30]

یوگا، ویدانت اور سانکھیہ ہندو فلسفہ، کے مطابق مرکزی فلسفہ یہ ہے کہ کہ کچھ ایسی بات ہے جو مادی اجسام اور ذہن سے بالا ہے، جو خالص، لامتناہی، لافانی جسے آتماں کہتے ہیں۔ دیوالی کا منانا گویا کہ برائی پر اچھائی کی جیت ہے۔ اسی طرح روشنی کو تاریکی پر فتح تصور کیا جاتا ہے۔ دیوالی کو روحانی تاریکی پر داخلی روشنی کا غلبہ تصور کیا جاتا ہے،[31][32] جہالت پر علم و فراست کی جیت، کذابت پر صداقت کی جیت اور برائی پر اچھائی کی جیت تصور کیا جاتا ہے۔[33][34]

مذہبی اہمیت[ترمیم]

دیوالی ہندو، جین اور سکھ دھرم کے پیروکار مناتے ہیں، ان کے عقائد کے مطابق، کئی قصے، کہانیاں، قیاس آرائیوں پر مبنی داستانیں ہیں، جن کا اہم مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ دیوالی اندھیرے پر روشنی کا غلبہ، نادانی پر دانشوری کا غلبہ، برائی پر اچھائی کا غلبہ اور مایوسی پر اُمید کا غلبہ ظاہر کرنا ہے۔[4][29][30]

یوگا، ویدانتا اور سانکھیہ ہندو فلسفہ، کے مطابق مرکزی فلسفہ یہ ہے کہ کہ کچھ ایسی بات ہے جو مادی اجسام اور ذہن سے بالا تر ہے، جو خالص، لامتناہی، لافانی جسے آتماں کہتے ہیں۔ دیوالی کا منانا گویا کہ برائی پر اچھائی کی جیت تصور کیا جاتاہے۔ اسی طرح روشنی کو تاریکی پر فتح تصور کیا جاتا ہے۔ دیولی روحانی تاریکی پر داخلی روشنی کا غلبہ تصور کیا جاتا ہے،[31][32] جہالت پر علم و فراست کی جیت، کذابت پر صداقت کی جیت اور برائی پر اچھائی کی جیت تصور کیا جاتا ہے۔[33][34]

ہندومت میں مذہبی اہمیت[ترمیم]

مذہبی اعتبار سے ہندو مت میں دیوالی کی اہمیت علاقائی سطح پر مختلف پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ وسیع ملک اور کثیر تعداد میں مختلف عقائد کے پیروکار۔ علاقائی داستانیں، قصے کہانیاں، ایقان و عقائد کی بنا پر مختلف رسم و رواج کو مانا جاتا ہے۔

بہت سارے لوگوں کے تصور میں رامائن کے مطابق، شری رام، سیتا اور لکشمن بن باس سے واپس ہونے کے موقع پر خوشی کا اظہار کرنا ہے۔

کئی لوگوں کے خیال میں مہابھارت کے مطابق، پانڈؤ کے اپنے 12 سالہ بن باس اور ایک سالہ اگیات واس سے واپس ہونے پر خوشی کا اظہار ہے۔ بہت سارے ہندو پیروکاروں کے مطابق دولت اور ثروت کی دیوی، وشنو کی بیوی لکشمی دیوی کی یاد میں منائے جانے والا تہوار “دیوالی“ ہے۔ کائناتی دودھیا سمندر میں کھنگال کے موقع پر برائی پر اچھائی غلبہ پایا اور اس وقت لکشمی دیوی کا جنم ہوا، تب لکشمی نے وشنو کو اپنا شوہر مانا اور شادی کی۔[17][35] چند ہندو پیروکار مختلف انو دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے جیسے، کالی، گنیش، سرسواتی اور کُبیرا۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ وشنو “ویکنٹھ“ میں دوبارہ لکشمی کے پاس پہنچے، اس موقع کو خوشی کا موقع تصور کر لکشمی کی خوشنودی کے لیے پوجا کرتے ہوئے “دیوالی“ مناتے ہیں۔[36] بھارت کے مشرقی علاقے میں لکشمی پوجا نہیں کی جاتی۔ یہاں پر عموما کالی پوجا کی جاتی ہے۔[37][38] بھارت کے برج اور شمالی علاقوں میں کرشن مشہور ہیں، اس لیے یہاں ان کی پوجا کی جاتی ہے۔ بھارت کے مغربی اور جنوبی علاقوں میں “ہندو نئے سال“ کے روپ میں منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر دولت کی دیوی لکشمی کی پوجا کی جاتی ہے، رُکاوٹوں کو دور کرنے والے گنیش، ادب موسیقی اور علم کی دیوی سرسواتی، خزانے اور حساب کتاب کے دیوتا “کُبیرا“ کی پوجا کی جاتی ہے۔[17]

جین مت میں مذہبی اہمیت[ترمیم]

جین دھرم میں دیوالی کی کافی اہمیت ہے۔ جین مت کے آخری تیرتھانکر وردھمان مہاویر نے نروانا (موکش) یعنی مغفرت 15 اکتوبر 527 ق۔ م۔ کو پاواپوری نامی مقام پر کارتیک چتردشی کو حاصل کیا۔ جین دھرم کی مقدس کتاب کلپاسوترا جسے آچاریہ بھدراباہو نے تیسری صدی ق۔ م۔ میں لکھا تھا کہ بہت سارے دیو موجود تھے، اندھیرے پر روشنی کا غلبہ حاصل ہونے کا ایک بڑا کارنامہ پیش آیا۔[29] اس طرح جین دھرم کے ماننے والے مہاویرا کی یاد میں دیوالی مناتے ہیں

سکھ مت میں مذہبی اہمیت[ترمیم]

سکھ پیروکاروں کے لیے دیوالی، بندی چھور دیوس ہے، جب گروہر گووند سنگھ نے اپنے ساتھیوں کو اور چند ہندو راجاؤں کو نورالدین جہانگیر کی قید سے گوالیئر قلعے سے آزاد کروایا اور امرتسر آئے، اس موقع کو سکھ قوم کے چند گروہ “بندی چھور دیوس“ کے نام سے مناتے ہیں۔
بندی = (قیدی)، چھور = (آزاد)، دیوس = (تہوار)۔

وضاحتیں اور رسم و رواج[ترمیم]

واضح رہے کہ دیوالی ایک دن کا تہوار نہیں بلکہ پانچ دن کے تہوار کا سلسلہ ہے۔ ہندو تقویم کے مہینے اشویں کے آخر میں اور کارتیک مہینے کی شروعات میں واقع ہوتا ہے۔ عام تقویم کے اکتوبر اور نومبر مہینے کے درمیان میں پیش آتا ہے۔ دیوالی اماوس کی رات کو منائی جاتی ہے۔ اماؤس گہری سیاہ رات ہوتی ہے، اس گہری سیاہ رات میں دیے روشن کرکے عید منائی جاتی ہے۔[39] دیوالی صرف دییوں کا تہوار ہی نہیں بلکہ آواز، پٹاخے، رنگولی، ذائقے، مٹھائیاں، جذبات اور روحانیت کا بھی تہوار ہے۔[22] جذباتی طور پر دیوالی سارے خاندان کو، دوست احباب کو ایک جگہ جوڑتا ہے۔[18][28] اس تہوار کی تیاریاں ایک ہفتے پہلے سے ہوجاتی ہیں اور دیوالی کے دو دین پہلے سے ہی تقاریب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور پانچ دن تک چلتا ہے:[17][40][41]

دھنتیرس کے موقع پر ‘‘دییے‘‘ جلائے جانے کا ایک منظر - 2013.[17]
دھنتیرس

دیوالی کی پانچ دن کی تقاریب کا پہلا دن ہے۔ اس دن گھر، مکان، کاروباری دفاتر، دکان، گلی کوچے، آنگن، کھیت کھلیان، سبھی کو پاک و صاف کیا جاتا ہے۔ اور ان مقامات کو سجانے سنوارنے کا کام شروع ہوجاتا ہے۔ ہندو پیروکاروں کے عقائد کے ماتحت، دولت، عشرت کی دیوی لکشمی کی پوجا (دعا، پرستش) کی جاتی ہے۔ اس دھنتیرس کے دوران میں دییوں کو لگاتار جلایا جاتا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ یہ دن دھنونتری کا جنم دن بھی ہے، جو ایک زبردست حکیم بھی تھے، ان کی یاد میں یہ “دھنتیرس“ منایا جاتا ہے۔[17][35] دھنتیراس کا دن خرید و فروخت کے لیے بھی کافی مشہور ہے۔ اشیاء کے خرید و فروخت، دولت کی پوجا، لکشمی دیوی کی پوجا، اسی کو “لکشمی پوجا“ بھی کہتے ہیں، کی جاتی ہے۔ دکانوں کو سجایا جاتا ہے، پوجا پاٹ کرکے مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، ان مٹھائیوں کو “پرساد“ یعنی “تبرک“ بھی کہا جاتا ہے۔

؛نرک چتردشی

ناراکا چتُرتھی دیوالی سلاسل کا دوسرا دن ہے، اس کو “چھوٹی دیوالی“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس دن رنگولی سے گھر آنگن کو سجایا جاتا ہے۔ اس دن چھوٹی چھوٹی پوجائیں بھی ادا کی جاتی ہیں۔ گھروں میں خواتین ہاتھوں میں مہندی (حنا) لگاتی ہیں اور میٹھے پکوان پکاتی ہیں جو دیوالی کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔[4][17]

دیوالی
رنگولی یا کولم دیوالی کی سجاوٹیں، فرش پر دلکش خاکے، دہلیز اور در و دیواروں کے سامنے خوشنما رنگینیوں سے بھرے نقوش، لکشمی اور مہمانوں کے استقبال کے لیے۔[42]

دیوالی سلسلہ کا تیسرا دن “دیوالی“ کا ہے، جو اہم اور خاص تہوار کا دن ہوتا ہے۔ اس دن نئے کپڑے پہننا مخصوص ہے۔ شام میں دیے جلانا، پوجا کی تیاریاں کرنا، رات میں “لکشمی پوجا“ کا اہتمام کرنا مخصوص اور مقصود ہے۔ بھارت کے الگ الگ علاقوں میں، لوگ اپنے اپنے گھریلو دیوتاؤں کی پوجا کا اہتمام کرنا عام ہے۔ ان دیوی دیوتاؤں میں، سرسواتی (علم اور فراست کی دیوی)، گنیش، کبیرا (دولت کا دھنی) میں شامل ہیں۔ پوجاؤں کا مقصد نئے سال کے لیے دیوی دیوتاؤں کے ذریعے دھن دولت اور خوش حالی کو پانا اور استقبال کرنا ہے۔۔[17][43] ہندو پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ دولت کی دیوی دیوالی کے دن دنیا میں پرواز کرتی رہتی ہیں، لوگ دییوں کے ذریعے لکشمی کا استقبال کرتے ہیں۔[22] چھوٹے چھوٹے مٹی کے دیے جلانا ایک رواج ہے۔ دوست احباب کو مدعو کرنا تحفے تحائف پیش کرنا، تہوار کی نیک تمنائیں پیش کرنا اس دن کی خاصیت ہے۔ مٹھائیاں تقسیم کرنا ایک نیک دستور مانا جاتا ہے۔[4][5][44]

پوجا کے بعد پٹاخے جلانا، خوشی کا اظہار کرنا، خوشی منانا، خوشیاں بانٹنا دیکھا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر بچوں کے لیے یہ تہوار نہایت ہی دلفریب مانا جاتا اور دیکھا جاتا ہے۔ ہمہ قسم کے پٹاخے جلائے جاتے ہیں۔[45] پٹاخے اور بارودی کریکرز جلاکر بدروحوں کو بھگائے جانے کا عقیدہ عام ہے۔[46][47] پٹاخے جلانے کے بعد لوگ گھروں میں واپس ہوتے ہیں، دعوتیں نوش کرتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔[17] دیوالی، نئے سال کے روپ میں بھی منائی جاتی ہے۔ نئے معاشی سال کے روپ میں بھی ماناجاتا ہے اور اپنے حساب و کتاب بھی اس موقع پر ختم اور شروع کرتے ہیں۔

پاڑوا، بالی پرتیپدا

دیوالی کے دوسرے دن “پاڑوا“ منایا جاتا ہے۔ یہ دن میاں بیوی کے لیے، اُن کی خوش حالی کی دُعاؤں کے لیے مخصوص ہے۔[17] The میاں اپنی بیوی کو تحفے تحائف پیش کرتا ہے۔ بیوی اپنے شوہر کی سلامتی کی دعائیں اور منتیں کرتی ہیں۔ اس دن کرشن کی یاد میں “گووردھن پوجا“ کی جاتی ہے۔ شادی شدہ لوگوں کے لیے یہ دن شُبھ مانا جاتا ہے۔

بھائی دُج، بھییا دوج

یہ دیوالی کے سلاسل کا آخری دن ہے، اس کو “بھائی دوج“ کہا جاتا ہے۔ یہ دن بھائی بہنوں کے لیے مخصوص ہے۔ یہ تہوار رکشا بندھن کی طرح ہی ہوتا ہے۔ اس دن بھائی اپنی بہنوں کے لیے، بہن اپنے بھائیوں کے لیے دعائیں، منتیں مانگتی ہیں۔ بھائی بہن ایک دوسرے کو تحفے پیش کرتے ہیں۔[17]

بھارت ہی میں مختلف اطوار[ترمیم]

نیے سال کے جشن و تقاریب[ترمیم]

  • ماڑواڑی قوم کا نیا سال دیوالی تہوار سے شروع ہوتا ہے، جو کرشن پکش کا آخری دن اور اشوین مہینے کا بھی آخری دن ہوتا ہے۔ اور ہندو تقویم کے مطابق اشوین کا آخری دن ہوتا ہے۔
  • گجراتی لوگوں کا بھی نیا سال دیوالی سے شروع ہوتا ہے۔
  • نیپالی نیا سال : نیپال کے کھٹمنڈو وادیوں میں بسنے والے نیواری قبیلے والوں کا نیا سال دیوالی ہی سے شروع ہوتا ہے۔

میلے[ترمیم]

دیوالی تہوار کی تقاریب کے سلاسل میں کئی اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں اُن میں اہم “میلہ“ (en:mela)ہے۔ یہ میلے بھارت بھر میں مشہور ہی نہیں بلکہ سماج کی ضرورت اور حصہ بن گئے ہیں۔[48] میلے خاص طور پر گاؤں، قصبوں، دیہاتوں اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں معروف ہیں۔ عوام کا ہجوم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ثقافتی مظاہرے، تجارتیں، نئی نئی چیزوں کا تعارف ان میلوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یوں کہیں کہ دنیا سے دنیا کو تعارف کروانے کے مراکز یا جلوس مانے جا سکتے ہیں یہ میلے۔ رنگ برنگ کپڑوں میں لوگ سج دھج کر نکلتے ہیں، نئے زیور اور مہندی سے آراستہ خواتین نظر آتی ہیں۔ ۔

بھارت کے مختلف علاقوں میں[ترمیم]

بھارت کے مختلف ریاستوں میں الگ الگ طریقوں سے منائی جاتی ہے۔ آندھرا پردیش، گوا، مہاراشٹرا، کرناٹک، کیرلہ، تمل ناڈو، گجرات و دیگر ریاستوں میں یا تو اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منائی جاتی ہے۔ سب جگہ "نرکا چتردسی"، "نرکاسر ودھا" کے نام سے منائی جاتی ہے۔

بھارت میں پٹاخے جلانا اور پھلچھڑیاں اُڑانا ایک گھریلو تقریب ہے۔ گھروں میں گلیوں میں دیے جلانا، خوشی کا ایک ذریعہ مانا جاتا ہے۔ سج پوچھیں تو یہ تہوار بچوں کے لیے نہایت ہی مسرت کا تہوار ہے۔[49]
دیوالی کے موقع پر گھروں میں تیارکردہ، پکوان، تحفے اور کپڑے۔

دنیا کے دیگر مقامات میں[ترمیم]

دنیا کے مختلف ممالک میں ہندو آبادی رہتی ہے، اُن ممالک میں تہوارِ دیوالی منانا بھی ایک عام بات ہے۔ ہندو ہی نہیں بلکہ جین، سکھ دھرم کے پیروکار بھی اس تہوار کو جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ ممالک مثلاً سری لنکا، پاکستان، میانمار، تھائی لینڈ، ملائیشیا، سنگاپور، انڈونیشیا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فجی ماریشس، کینیا، تنزانیہ، جنوبی افریقا، گیانا، سرینام، ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو، نیدرلینڈز، کینیڈا، امریکا، مملکت متحدہ اور متحدہ عرب امارات، میں بھی ہندو پیروکار دیوالی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ اس تہوار سے بھارتی اور ہندو ثقافت کی پہچان کروانا بھی ایک مقصد ہے۔

ایشیا[ترمیم]

ملائشیا[ترمیم]

ملائشیا میں دیوالی تہوار پر سرکاری تعطیل رہتی ہے۔ یہاں پر ہندو پیروکار کثرت سے ملتے ہیں۔ یہاں ہندو ملیشین گروہوں میں، تیلگو، تامل، ملیالی زبان بولنے والے بھی اچھی خاصی تعداد میں ملتے ہیں۔ دیوالی یہاں ایک گُڈ-ول تقریب کی طرح مناتے ہیں۔

نیپال[ترمیم]

نیپال میں اس تہوار کو “تہار“ یا "Swanti" کہتے ہیں۔ یہاں پر بھی یہ تہوار اکتوبر اور نومبر مہینے میں منایا جاتا ہے۔

سنگاپور[ترمیم]

سنگاپور میں، دیوالی تہوار مناتے ہوئے۔[50]

سنگوپور میں دیوالی ایک سرکاری تہوار ہے، اس دن سرکاری تعطیل بھی ہے۔ سنگاپور کی سرکار اس تہوار پر کئی ثقافتی اور گُڈ-ول تقاریب بھی مناتی ہے۔[51]

سری لنکا[ترمیم]

سری لنگا میں ہندو آبادی کافی ہے، اس لیے یہاں یہ تہوار دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ یہا “پوسائی“ (پوجا) کا خاص طور پر اہتمام کیا جاتا ہے۔ مندروں کی زیارت کرنا ایک عام بات ہے۔ مندر کو یہاں “کویل“ کہتے ہیں۔۔[note 1]

ایشیا سے آگے[ترمیم]

آسٹریلیا[ترمیم]

ملبورن میں دیوالی کا تہوار۔[52]

آسٹریلیا میں رہنے والے ہندو پیروکار اس دیوالی کو بڑے ہی جوش سے مناتے ہیں شہر جیسے ملبورن میں دیوالی کی ایک اچھی خاصی پہچان ہے۔

کرببین[ترمیم]

ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو میں ہندو پیروکار اس تہوار کو مناتے ہیں۔ یہاں پر بسے ہندو اور کئی تنظیمیں اور مذہبی جماعتیں، اس تہوار کو مناتے ہیں۔ لکشمی کو پوجا کرتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔[53]

فجی[ترمیم]

فجی میں دیوالی ایک سرکاری تعطیل ہے۔ یہاں کی ہندو قوم اس تہوار کو رواجی طور پر مناتی ہے۔

نیوزی لینڈ[ترمیم]

نیوزی لینڈ میں رچی بسی ہندو قوم اس تہوار کے روایتی طور پر مناتی ہے۔ اور کئی تقاریب کرتی ہے جس سے وہاں کے باشندوں کو بھارتی ثقافت اور ورثے کا پتہ چل سکے۔ نیوزی لینڈ میں سرکاری طور پر 2003 سے وہاں کے پارلیمان میں ایک سرکاری تقریب انعقاد کی جاتی ہے۔[54]

برطانیہ[ترمیم]

دیوالی کی سجاوٹ 2006 لیسسٹر، برطانیہ میں۔[55]

برطانیہ میں برصغیر کے مختلف مذاہب کے لوگ مقیم ہیں، جن میں ہندو، جینی اور سکھ بھی شامل ہیں۔ یہاں پر دیوالی کو خیرمقدم طور پر دیکھا اور منایا جاتا ہے۔ اس کی تقاریب میں غیر ہندو لوگ بھی شریک ہوکر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔[56][57] یہاں کی تقریبات کو بھارت سے باہر بہترین اور بڑی تقر یبات تصور کیا جاتا ہے۔[58]

امریکا[ترمیم]

امریکا کے کئی شہروں میں دیوالی کی تقاریب منائی جاتی ہیں، ایک تقریب سان انٹونیو ٹیکساس میں (2013)۔[59]

2003ء میں دیوالی کو سرکاری تہوار کا درجہ دیا گیا۔ وائٹ ہاؤس میں اس کے تقاریب بھی سرکاری طور پر منائی گئے۔ تب سے لے کر اب تک وائٹ ہائس میں یہ تقاریب ہر سال مناتے آ رہے ہیں، جس میں امریکا کے صدر کا شامل ہونا ایک رواج بن گیا ہے۔[60][61] باراک اوبامہ وہ پہلے صدر ہیں جو دیوالی کی تقریب وائٹ ہاؤس میں منعقد ہونے پر شریک رہے۔[62] امریکا میں ہندو تقریباً 30 لاکھ رہتے ہیں۔[63]

امن کا تہوار[ترمیم]

اس تہوار کے موقع پر: ہندو، جین اور سکھ جماعتیں بھلائی کے کام بھی انجام دیتے ہیں اور لوگوں سے الفت سے پیش آتے ہیں اور امن کے خواہاں ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بین الاقوامی سرحد پر، ہر سال دیوالی کے موقع پر، بھارتی فوج اور فوجی افسران پاکستانی فوجیوں سے ملتے ہیں، روایتی مٹھائیاں پیش کرتے ہیں اور خوشی میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس خلوص بھرے کام میں پاکستانی فوجی بھی نیک تمنائیں پیش کرتے ہیں اور بھارتی فوجیوں کو پاکستانی روایتی مٹھائیاں پیش کرتے ہیں۔[64]

دیوالی کا معاشی پہلو[ترمیم]

بھارت میں دیوالی کو ایک بڑا خریدداری کا دن مانا جاتا ہے۔.[9] خرید و فروخت کے معاملے میں دیوسلی مغربی ممالک کے کرسمس سے کچھ کم نہیں ہے۔ روایتی طور پر دیوالی کا موقع گھر اور کنبے کے لیے کپڑے خریدنا، گھر کی اہم چیزیں، تحفے تحائف سونا چاندی خریدنا اور بڑے پیمانے پر جو بھی خریدنے کی چیزیں ہوتی ہیں اسی تہوار کے موقع پر خریدی جاتی ہیں۔ ایسا خریدنا ایک اچھا شگن مانا جاتا ہے۔ گویا کہ دیوالی گھروں میں خوشیاں لاتا ہے۔ ہندو دھرم ماننے والوں میں روایتی عقائد کے مطابق دولت کی دیوی لکشمی ہیں اور یہ وشنو کی پتنی ہیں، ان کو گھروں میں خوشی و خرمی لانے والی دیوی سمجھا جاتا ہے۔ اس دیوی کی پوجا کرنے سے دیوی خوش ہوکر گھروں میں دولت لائے گی ایسا عقیدہ ہے۔ ہندو دھرم کے ماننے والے جائداد خریدنا، پونجھی لگانا، مال و زر خریدنا اسی موقع پر کرنا باعثِ برکت سمجھتے ہیں۔[65][66] بھارت میں دیوالی کا موقع سونے چاندی، زیورات کی خریداری کا اہم ترین موقع ہے۔[67][68] اس کے علاوہ، مٹھائیاں، پٹاخوں کی خرید و فروخت کا بھی موسم ہے۔ ریٹیل (پرچون) خریداری کے لحاظ سے تقریباً US$ 800 ملین ( (INR 5,000 کروڑ) زر بھارت میں صرف دیوالی کے موسم میں بھارت میں ہوتا ہے۔[69]

مسائل[ترمیم]

ماحولیات پر اس کا اثر رفتہ رفتہ بڑھتا چلا جا رہا ہے، اس کے اثرات صحت پر ذہنی سکون پر بھی گہرے پڑتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق دو اہم اثرات ہیں جو دیوالی کی وجہ سے ہیں۔ ہوائی آلودگی اور حادثات۔

ہوائی آلودگی[ترمیم]

ماہرین [70] اپنی رپورٹ میں پیش کرتے ہیں کہ، پٹاخوں کے جلانے سے پہلے جتنی ہوائی یا فضائی آلودگی رہتی ہے، پٹاخے جلانے کے بعد یعنی دیوالی کے بعد ہوائی آلودگی چار گنا بڑھ جاتی ہے اور PM2.5 تک پہنچ جاتی ہے۔[71] اوزون آلودگی بھی دیوالی کو دوران میں بڑھ جاتی ہے، اس کی وجہ پٹاخے جلانا ہے۔ اسی طرح دنیا میں نئے سال کی تقریب، یومِ آزادی کی تقاریب کے دوران میں بھی پٹاخے جلانے کی وجہ سے فضائی آلودگی حد درجہ بڑھ جاتی ہے۔

جلنے اور زخمی ہونے کے حادثات[ترمیم]

دیوالی کے دوران میں بھارت میں جلنے کے حادثات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ 65٪ جلنے کے واقعات انار نامی ایک آتش بازی کے سامان سے ہوتے ہیں۔ اس کا شکار بالغ، بچے اور عام لوگ ہوتے ہیں۔ اخبارات مشورے شائع کرتے ہیں کہ جلنے کے فوری بعد متاثرہ حصے پر ٹھنڈا پانی استعمال کریں۔ ساتھ میں زخم کی مناسب دیکھ بھال کریں۔ جلنے والوں کی بڑی اکثریت کو فقط بیرونی معمولی علاج کی ضرورت پیش آتی ہے۔[72][73]

دیوالی کی مبارکبادیاں اور دعائیں[ترمیم]

دیوالی تیوہار کے موقع پر مختلف زبانوں میں مبارکبادیاں پیش کرنے کے طریقے:

  • "شبھ دیپاولی" – " शुभ दीपावली : سنسکرت، ہندی اور نیپالی زبانوں میں مبارکبادی
  • "شبھ دیوالی " / "دیوالی کی شبھکامنائیں - (दीवाली की शुभकामनाएं): ہندی زبان میں مبارکبادی
  • " دیوالی مبارک" (દીવાળી મુબારક): گجراتی زبان میں مبارکبادی
  • "شبھ دیوالی" / دیوالیچیہ ہاردک شبھچھہ - (शुभ दीवाली / दीवाळीच्या हार्दिक शुभेच्छा ): مراٹھی زبان میں مبارکبادی
  • " دیپاولی نالوزہتکل" (தீபாவளி நல்வாழ்த்துக்கள்) :تامل زبان میں مبارکبادی
  • "دیپاولی شبھاکانکشلو" (దీపావళి శుభాకా౦క్షలు) : میں مبارکبادی تیلگو
  • " دیپاولی آشام شگل" ( ദീപാവളി ആശംസകൾ): ملیالم میں مبارک بادی ۔
  • " دیپاولی حبدہ شبھشیگلو - (ದೀಪಾವಳಿ ಹಬ್ಬದ ಶುಭಾಶಯಗಳು): کنڈا زبان میں مبارکبادی
  • "تہانو دیوالی دیاں بہت بہت ودھاییاں - (ਤੁਹਾਨੂੰ ਦਿਵਾਲੀ ਦੀਆਂ ਬਹੁਤ ਬਹੁਤ ਵਧਾਈਆਂ ਹੋਣ ): پنجابی زبان میں مبارکبادی
  • "شبھو دیپابالر پریتی و سبیکشا (শুভ দীপাবলীর প্রীতি ও শুভেচ্ছা) : بنگالی زبان میں مبارکبادی
  • " دیپاولیرا انیک شبکشا" (ଦୀପାବଳିର ଅନେକ ଶୁଭେଛା) : اڑیہ زبان میں مبارکبادی
  • "ہیپی دیپاولی " : انگریزی میں مبارکبادی
دعائیں

ہندو پیروکاروں میں دعائیں الگ الگا علاقوں میں الگ الگ روپ میں نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر ویدک دعا جو اُپانیشد براھدارنیکا سے ماخوذ ہے، دییوں کی تقاریب میں یوں ہے:[74][75]

اساتوما ست گمیا |Asato ma sat gamaya | (असतो मा सद्गमय ।)
تمسوما جیوتر گمیا |Tamaso ma jyotir gamaya | (तमसो मा ज्योतिर्गमय ।)
مرتیور ما امرتم گمیا |Mṛtyor ma amṛtam gamaya | (मृत्योर्मा अमृतं गमय ।)
 اوم شانتی شانتی شانتی |Om shanti shanti shantihi || (ॐ शान्तिः शान्तिः शान्तिः ॥)

؛ترجمہ:[76][77]

From untruth lead us to Truth. (جھوٹ سے ہمیں سچ کی طرف لے چل)
From darkness lead us to Light. (اندھیرے سے روشنی کی طرف لے چل)
From death lead us to Immortality. (موت سے زندگی کی طرف لے چل)
Om Peace, Peace, Peace. (ابدی امن ہو امن امن )

نگار خانہ[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حواشی[ترمیم]

  1. In Sri Lanka, this festival is largely celebrated by the Tamil community scattered in different areas of the island but mostly concentrated in the North and in the East.

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Diwali 2019 Puja Calendar"۔ drikpanchang.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اکتوبر 2019 
  2. ^ ا ب The New Oxford Dictionary of English (1998) ISBN 0-19-861263-X – p.540 "Diwali /dɪwɑ:li/ (also Divali) noun a Hindu festival with lights.۔۔"۔
  3. Diwali Encyclopedia Britannica (2009)
  4. ^ ا ب پ ت ٹ Diwali – Celebrating the triumph of goodness آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hinduismtoday.com (Error: unknown archive URL) Hinduism Today (2012)
  5. ^ ا ب Jean Mead, How and why Do Hindus Celebrate Divali?، ISBN 978-0-237-53412-7
  6. Zak Vera (فروری 2010)۔ Invisible River: Sir Richard's Last Mission۔ ISBN 978-1-4389-0020-9۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2011۔ First Diwali day called Dhanteras or wealth worship. We perform Laskshmi-Puja in evening when clay diyas lighted to drive away shadows of evil spirits. 
  7. Pramodkumar (مارچ 2008)۔ Meri Khoj Ek Bharat Ki۔ ISBN 978-1-4357-1240-9۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2011۔ It is extremely important to keep the house spotlessly clean and pure on Diwali. Goddess Lakshmi likes cleanliness, and she will visit the cleanest house first. Lamps are lit in the evening to welcome the goddess. They are believed to light up her path. 
  8. Ruth Solski (2008)۔ Big Book of Canadian Celebrations۔ S&S Learning Materials۔ ISBN 978-1-55035-849-0۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2011۔ Fireworks and firecrackers are set off to chase away evil spirits, so it is a noisy holiday too. 
  9. ^ ا ب India Journal: ‘Tis the Season to be Shopping Devita Saraf, The Wall Street Journal (اگست 2010)
  10. "Diwali"۔ Diwali۔ Diwali۔ 04.09.2012 
  11. Karen Bellenir (1997)، Religious Holidays and Calendars: An Encyclopedic Handbook, 2nd Edition, ISBN 978-0-7808-0258-2, Omnigraphics
  12. S.P. Sharma، Seema Gupta (2006)۔ Fairs and Festivals of India۔ Pustak Mahal۔ صفحہ: 79۔ ISBN 978-81-223-0951-5 
  13. A. N. Upadhye (Jan–Mar 1982)۔ مدیر: Richard J. Cohen۔ "Mahavira and His Teachings"۔ Journal of the American Oriental Society۔ American Oriental Society۔ 102 (1): 231–232۔ JSTOR 601199۔ doi:10.2307/601199 
  14. BBC – Religions – Sikhism: Diwali
  15. "Indian Government Holiday Calendar"۔ National Portal of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مارچ 2010 
  16. ^ ا ب Frank Salamone (2004)، Encyclopedia of Religious Rites, Rituals and Festivals, ISBN 978-0-415-88091-6, Routledge, pp 112-113, 174, 252
  17. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ Pintchman, Tracy. Guests at God's Wedding: Celebrating Kartik among the Women of Benares، pp. 59–65. State University of New York Press, 2005. ISBN 0-7914-6596-9.
  18. ^ ا ب پ ت Deborah Heiligman, Celebrate Diwali, ISBN 978-0-7922-5923-7, National Geographic Society, Washington DC
  19. "" in the Sanskrit-English Dictionary۔ Spoken Sanskrit (Germany)، 2009.
  20. Monier Monier-Williams۔ Sanskrit-English Dictionary۔ दीप۔ صفحہ: 481 
  21. "आवली" in the Sanskrit-English Dictionary۔ Spoken Sanskrit (Germany)، 2009.
  22. ^ ا ب پ Lochtefeld, James G. "Diwali" in The Illustrated Encyclopedia of Hinduism، Vol. 1: A–M, pp. 200–201. Rosen Publishing. ISBN 0-8239-3179-1.
  23. Lochtefeld, James G. "Kartik" in The Illustrated Encyclopedia of Hinduism، Vol. 1: A–M, p. 355. Rosen Publishing. ISBN 0-8239-3179-1.
  24. ^ ا ب BN Sharma, Festivals of India, South Asia Books, ISBN 978-0-8364-0283-4, pp. 9-35
  25. Manohar Laxman Varadpande (1987)۔ History of Indian Theatre, Volume 1۔ Abhinav Publications۔ صفحہ: 159۔ ISBN 9788170172215۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2014 
  26. R.N. Nandi (2009)، in A Social History of Early India (Editor: B. Chattopadhyaya)، Volume 2, Part 5, Pearson Education, ISBN 978-81-317-1958-9, pp. 183-184
  27. Dianne MacMillan (1997)، Diwali: Hindu Festival of Lights, Enslow Publishers, ISBN 978-0-89490-817-0
  28. ^ ا ب پ Suzanne Barchers (2013)، The Big Book of Holidays and Cultural Celebrations, Shell Education, ISBN 978-1-4258-1048-1
  29. ^ ا ب پ Hermann Jacobi (1884)۔ Sacred Books of the East۔ 22: Gaina Sutras Part I 
  30. ^ ا ب Jean Mead, How and why Do Hindus Celebrate Divali?، ISBN 978-0-237-53412-7, pages 8-12
  31. ^ ا ب Diwali, India's Festival of Light آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ kids.nationalgeographic.com (Error: unknown archive URL) R.M. Hora, National Geographic (2011)
  32. ^ ا ب Hindu Festivals آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hinduismtoday.com (Error: unknown archive URL) Hinduism Today (2010)
  33. ^ ا ب Thompson, Elizabeth Kelley (2013)، Shouldn't Their Stories Be Told In Their Voices: International Students’ Experiences of Adjustment Following Arrival to the U.S.، Master's Thesis, University of Tennessee
  34. ^ ا ب Carol Plum-Ucci (2007)، Celebrate Diwali, Enslow Publishers, ISBN 978-0-7660-2778-7, page 39-57
  35. ^ ا ب Karen Pechilis (2007)، The Journal of Asian Studies, 66(1)، pp 273-275
  36. Diwali History آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ indiaexpress.com (Error: unknown archive URL) Indian Express (2007)
  37. BUCK, C. (2008)، HINDU FESTIVALS, Festivals In Indian Society (2 Vols. Set)، Vol 1, ISBN 81-8324-113-1
  38. Holm, J. (1984)، Growing up in Hinduism, British Journal of Religious Education, 6(3)، pages 116-120
  39. J Gordon Melton, Religious Celebrations: An Encyclopedia of Holidays Festivals Solemn Observances and Spiritual Commemorations, ISBN 978-1-59884-205-0, see Diwali, Constance Jones (2011)، ABC-CLIO, pp 252-255
  40. Note: there are regional variations, which are explained in a separate section.
  41. Diwali, the festival of lights Society for the Confluence of Festivals in India (2012)
  42. Welcome Goddess Lakshmi with a rangoli آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ articles.timesofindia.indiatimes.com (Error: unknown archive URL) Shivangani Dhawan, The Times of India (26 اکتوبر 2011)
  43. /www.indiaexpress.com/faith/festivals/dhistory.html Diwali History[مردہ ربط]
  44. John Bowker, ed.، Oxford Concise Dictionary of World Religions (Oxford UP, 2000)، See Festivals
  45. Light up your day The Hindu (28 اکتوبر 2013)
  46. Valerie Petrillo (28 مئی 2007)۔ Asian American History۔ Chicago Review Press۔ ISBN 978-1-55652-634-3۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2011۔ There are firecrackers everywhere to scare off evil spirits and contribute to the festive atmosphere. 
  47. David DeRocco، Joan Dundas; Ian Zimmerman (1996)۔ The International Holiday & Festival Primer۔ Full Blast Productions۔ ISBN 978-1-895451-24-5۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2011۔ But as well as delighting the spectators, the fireworks are believed to chase away evil spirits.  Cite uses deprecated parameter |coauthor= (معاونت);
  48. Dilip Kadowala (1998)۔ Diwali۔ London: Evans Brothers Limited۔ ISBN 0-237-51801-5 
  49. "Til oil bath marks Chhoti Diwali celebrations"۔ The Times of India۔ 3 نومبر 2013۔ 05 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2014 
  50. Deepavali Decoration in Singapore Little India, Singapore
  51. Deepavali in Singapore آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ littleindia.com.sg (Error: unknown archive URL) Little India, Singapore (2013)
  52. Diwali Indian Festival of Light 2013 آرکائیو شدہ 2013-12-05 بذریعہ archive.today Federation Square, Multicultural Festivals Melbourne, Australia (اکتوبر 26, 2013)
  53. "Nine-day Diwali event in Trinidad & Tobago"۔ First Post۔ 25 اکتوبر 2013۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جون 2014 
  54. Henry Johnson، Guil Figgins (2005)۔ "Diwali Downunder: Transforming and Performing Indian Tradition in Aotearoa/New Zealand"۔ New Zealand Journal of Media Studies۔ 9 (1): 25–35۔ ISSN 1173-0811۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2014 
  55. Leicester Diwali celebrations draw large crowds BBC News (3 نومبر 2013)
  56. Amit Roy (25 اکتوبر 2011)۔ "Dazzle at downing, colour at commons"۔ Mumbai Miday۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 نومبر 2013 
  57. "Transcript of the Prime Minister's Diwali reception speech"۔ Gov.UK۔ Government of the United Kingdom۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 نومبر 2013 
  58. "Diwali – The Festival of Light"۔ Leicester City Council۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2014 
  59. Diwali San Antonio Festival of Lights Texas, United States (2013)
  60. Aurelio Sanchez (2 نومبر 2007)۔ "Fest celebrates triumph of light over dark"۔ The Albuquerque Journal۔ صفحہ: 10۔ According to a resolution passed recently by the Foreign Affairs Committee of the House of Representatives, the festival is celebrated by almost 2 million in the United States and many millions more around the world. The bill, H.R. 747, calls for the U.S. Congress to acknowledge 'the religious and historical significance of the festival of Diwali.' 
  61. "US House passes resolution on significance of Diwali"۔ The Hindustan Times۔ 30 اکتوبر 2007 
  62. "Statement by the President on Diwali"۔ 4 نومبر 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2014 
  63. "New Jersey Hindus pained as no School Holiday for Diwali in 2014"۔ news.biharprabha.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 فروری 2014 
  64. Diwali Lights up India India Today (3 نومبر 2013)
  65. India’s banks face pre-Diwali cash crunch James Lamont, The Financial Times (29 اکتوبر 2010)
  66. Diwali lights up consumer spending, festive spirit beats inflation M.G. Arun, India Today (1 نومبر 2013)
  67. Festive season to boost India gold buying آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bullionstreet.com (Error: unknown archive URL) Bullion Street (15 اکتوبر 2013)
  68. Gold, Key markets: India World Gold Council (2013)
  69. Firecrackers to cost a bomb this Diwali آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ articles.timesofindia.indiatimes.com (Error: unknown archive URL) The Times of India (24 اکتوبر 2013)
  70. Barman, S. C.، Singh, R.، Negi, M. P. S.، & Bhargava, S. K. (2009)۔ Fine particles (PM2. 5) in ambient air of Lucknow city due to fireworks on Diwali festival, Journal of Environmental Biology، 30(5)، pp 625-632
  71. Attri, A. K.، Kumar, U.، & Jain, V. K. (2001)۔ Microclimate: Formation of ozone by fireworks. Nature, 411(6841)، pp 1015
  72. Mohan, D.، & Varghese, M. (1990)۔ Fireworks cast a shadow on India's festival of lights. In World Health Forum (Vol. 11, No. 3, pp. 323-6)۔ World Health Organization
  73. Ahuja, R. B.، & Bhattacharya, S. (2004)۔ ABC of burns: Burns in the developing world and burn disasters. BMJ: British Medical Journal, 329(7463)، 447
  74. Jha, J. C. (1976)، The Hindu Festival of Divali in the Caribbean, Caribbean Quarterly, pp 53-61; Also see Brhadaranyaka Upanishad, I.iii.28
  75. Diwali The Tribune, India (2013); see also Shashanka, S. (2012)، Role of Spiritual Science in Leadership and Management, Purushartha: A Journal of Management Ethics and Spirituality, 5(2)
  76. Ancient vedic prayer World Prayers Society (2012)
  77. Derrett Duncan J. (1999)، An Indian metaphor in St John's gospel, Journal of the Royal Asiatic Society (Third Series)، 9(02)، 271-286

بیرونی روابط[ترمیم]