ابوطاہرسلیمان الجنابی
ابوطاہرسلیمان الجنابی | |
---|---|
(عربی میں: سليمان بن الحسن بن بهرام الهجري)[1] | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 جنوری 906ء سرزمین بحرین |
وفات | سنہ 944ء (37–38 سال)[1] سرزمین بحرین |
وجہ وفات | چیچک |
طرز وفات | طبعی موت |
والد | ابو سعید الجنبی |
مناصب | |
شاہ بحرین | |
برسر عہدہ 923 – 931 |
|
عملی زندگی | |
پیشہ | عسکری قائد ، گورنر |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
وفاداری | قرامطہ |
شاخ | قرامطہ |
درستی - ترمیم |
قرامطہ ایک شیعہ اسماعیلی، جو 899 عیسوی میں ایک مثالی جمہوریہ قائم کرنے کی کوشش میں مشرقی عرب میں مرکوز گروپ تھے - یہ عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کرنے کی وجہ سے مشہور تھے - اس کے والد ابوسعید قرامطی تھا جس نے قرامطی حکومت قائم کی، ابو طاہر سلیمان الجنّابی نے بڑے بھائی و جانشین سعید کو شکست دے کر والد کی وفات کے بعد تحت حاصل کر لیا، اس کا سب سے مشہور کام یہ ہے کہ اس نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور اس عظیم اور پاک شہر کی بے حرمتی کی، خاص طور سے وہاں بے شمار لوگوں کا قتل عام کیا- اس نے خانہ کعبہ سے حجر اسود کو بھی چرایا اور زمزم میں لوگوں کی لاشیں پھینکیں اور یہ سب انھوں نے 930ء کے حج کے دوران کیا- حجر اسود کی واپسی ایک
تاریخی واقعہ۔.!
7 ذی الحجہ] 317ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کر لیا، خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ اس سال کو حج بیت اللہ نہ ہو سکا، کوئی بھی شخص عرفات نہ جا سکا-
یہ اسلام میں پہلا ایسا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہو گیا، اسی ابوطاہر قرمطی نے حجر اسود کو بیت اللہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لے گیا- پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابو طاہر کے ساتھ معاہدہ کر فیصلہ کیا اور تیس ہزار دینار دیے اور حجر اسود خانہ کعبہ کو واپس کیا گیا-
یہ واپسی 339ھ کو ہوئی، گویا کہ 22 سال تک خانہ کعبہ حجر اسود سے خالی رہا، جب فیصلہ ہوا کہ حجر اسود کو واپس کیا جائے گا تو اس سلسلہ میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے عالم محدث عبد اللہ کو حجر أسود کی وصولی کے لیے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا-
یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب شیخ عبد اللہ بحرین پہنچے تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جہاں حجر اسود کو ان کے حوالہ کیا جائے گا- اب انھوں نے ایک پتھر جو خوشبودار ہیں، خوبصورت غلاف سے نکالا گیا کہ یہ حجر اسود ہے اسے لے جائیں-
محدث عبد اللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ حجر اسود میں دو نشانیاں ہیں اگر اس میں یہ نشانیاں پائی جائیں تو یہ حجر اسود ہو گا ورنہ نہیں! ایک تو یہ کہ یہ ڈوبتا نہیں ہے، دوسری یہ کہ آگ سے بھی گرم نہیں ہوتا- اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو ڈوب گیا پھر آگ میں اسے ڈالا گیا تو سخت گرم ہو گیا یہاں تک کہ پھٹ گیا-
محدث عبد اللہ نے فرمایا یہ ہمارا حجر اسود نہیں پھر دوسرا پتھر لایا گیا اس کے ساتھ بھی یہی عمل ہوا اور وہ پانی میں ڈوب گیا اور آگ پر گرم ہو گیا فرمایا کہ ہم اصل حجر اسود ہی لیں گے- پھر اصل حجر اسود لایا گیا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا تو وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا تو محدث عبد اللہ نے فرمایا : ” یہی ہمارا حجر اسود ہے اور یہی خانہ کعبہ کی زینت ہے اور یہی جنت والا پتھر ہے-"
اس وقت ابو طاہر قرامطی نے تعجب کیا اور پوچھا کہ یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں۔..؟ تو محدث عبد اللہ نے فرمایا : یہ باتیں ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہیں کہ حجر اسود پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آگ سے گرم نہیں ہو گا- ابو طاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے-
جب حجر اسود مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا جس نے تیز رفتاری کے ساتھ اسے خانہ کعبہ پہنچایا، اس اونٹنی میں زبردست قوت آگئی اس لیے کہ حجراسود اپنے مرکز (بیت اللہ) کی طرف جا رہا تھا لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جا رہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا وہ مرجاتا حتی کہ بحرین پہنچنے تک 40 اونٹ اس کے نیچے مرگئے- (تاریخ مکہ للطبری) (وفات ابو طاہر) تاریخی روایات کے مطابق اس کی موت چیچک کی وجہ سے ھوئی۔
- ^ ا ب پ مصنف: خیر الدین زرکلی — عنوان : الأعلام — : اشاعت 15 — جلد: 3 — صفحہ: 123 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://archive.org/details/ZIR2002ARAR