مندرجات کا رخ کریں

سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
لاہور، پاکستان میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ
فائل:Gaddafi stadium daytime.jpg
مقاملاہور، پاکستان
تاریخ3مارچ، 2009ء
8بج کر چالیس منٹ مقامی وقت کے مطابق [1] (UTC+5)
حملے کی قسمگھات لگا کر حملہ
ہلاکتیںپانچ پاکستانی پولیس اہلکار
زخمی6 سری لنکن کرکٹ کھلاڑی مع دو عملہ کے اہلکار اور ایمپائر حسن رضا
شرکا کی تعداد12
دفاع کنندگانپاکستانی پولیس

3 مارچ، 2009ء کو مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بج کر چالیس منٹ پر 12 نامعلوم مسلح دہشت گردوں نے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے کارواں کی بس کو قذافی اسٹیڈیم لاہور، پاکستان کے نزدیک دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔[2] سری لنکن کرکٹر پاکستان کرکٹ ٹیم کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ کی تیسرے دن کے کھیل کے لیے قذافی اسٹیڈیم جا رہے تھے۔ اس حملے میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کے چھ ارکان زخمی اور پاکستان پولیس کے پانچ سپاہی ہلاک ہوئے۔[3] پولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے دستی بم اور راکٹ لانچر برآمد ہوئے۔[4] سری لنکا کی کرکٹ ٹیم ممبئی میں دہشت گردی کی کاروائیوں کی وجہ سے بھارت کے دورے کی منسوخی کے بعد پاکستان کے دورے پر تھی۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کو برابر قرار دے دیا گیا۔[5] حملے کے بعد سری لنکا کی کرکٹ ٹیم فوری طور پر اسٹیڈیم لے جایا گیا، جہاں سے ہنگامی طور پر پاک فضائیہ کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے لے جایا گیا[6] اور فوری طور پر اگلی دستیاب پرواز سے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کو وطن واپس بھیجنے کے انتظامات کردیے گئے۔[7]

دورے کا پس منظر

[ترمیم]

پاکستان کا دورہ کرنے والی ٹیم کی حفاظت عرصہء دراز سے موضوعِ گفتگو رہی جبکہ حال ہی میں آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم نے حفاظتی نقطہء نظر سے پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا۔[8] مئی 2002ء میں نیوزی لینڈ نے اپنی کرکٹ ٹیم کو اُس وقت فوری طور پر پاکستان سے واپس بلالیا، جب نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے ہوٹل کے باہر ایک خود کش حملے میں 12 افراد ہلاک ہو گئے۔[9] سری لنکا کی کرکٹ ٹیم بھی پاکستان میں بھارتی کرکٹ ٹیم کی جگہ آئی تھی جو ممبئی حملوں کی وجہ سے کھیل میں حصہ نہ لے سکے۔[10]

حملہ

[ترمیم]

سرکاری ذرائع کے مطابق، 12 مسلح دہشت گرد لبرٹی چوک کے نزدیک قذافی اسٹیڈیم کے راستے میں سری لنکا کی ٹیم کے لیے گھات لگاکر بیٹھے ہوئے تھے۔ جب سری لنکا کے کھلاڑیوں کی بس وہاں سے گذری تو دہشت گردوں نے بس پر فائرنگ شروع کردی، تاہم حفاظت پر مامور پولیس نے جوابی فائرنگ کی۔ اس کارروائی میں پانچ پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے، 20 منٹ کی شدید فائرنگ کے بعد دہشت گرد وہاں سے فرار ہو گئے اور راکٹ لانچرز اور دستی بم وہیں چھوڑ گئے۔[3] مسلح افراد نے پہلے بس کے پہیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی اور پھر بس اور اس میں سوار لوگوں پر فائرنگ شروع کی۔[11] حملہ آوروں نے بس پر ایک راکٹ بھی فائر کیا جو خطا ہو گیا اور قریب ہی بجلی کے کھمبے پر لگا۔ بس کے ڈرائیور مہر محمد خلیل نے بس نہیں روکی اور پانچ سو میٹر کے فاصلے سے ڈرائیونگ کرتا رہا، یہاں تک کہ بس اسٹیڈیم میں پہنچ گئی۔ حملہ آوروں نے بس کے نیچے ایک دستی بم بھی پھینکا جو بس کے گزرنے کے بعد پھٹا۔[12]

حملے کی ذمہ داری

[ترمیم]

سری لنکا کے سرکاری ذرائع کے مطابق ان حملوں میں تامل ٹائیگر ملوث نہیں ہیں۔[13] جبکہ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملے ممبئی کے دہشت گردی کے حملوں سے بہت ملتے جلتے ہیں۔[3] وفاقی وزیر نبیل گبول نے الزام عائد کیا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔[14] طب الشرعی تجزیہ سے معلوم ہوا ہے کہ حملہ میں استعمال ہونے والا جیسا اسلحہ بھارتی فوج کے زیر استعمال ہے۔[15]

ردِ عمل

[ترمیم]

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے ان حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔[16] سری لنکا کے صدر ماهیندا راجاپاکسا نے کہا ہے کہ “میں دہشت گردوں کی اس بزدلانہ کارروائی کی سختی سے مذمت کرتا ہوں، سری لنکا کے کھلاڑی پاکستان میں نیک خواہشات لے کر گئے تھے۔[17]

نقصانات

[ترمیم]
سری لنکا کی ٹیم کے کپتان مہیلا جے وردن جو حملے میں زخمی ہوئے

چھ پاکستانی پولیس کے اہلکار اور دو عام شہری ان حملوں میں جاں بحق ہوئے۔[18] جبکہ سری لنکن ٹیم کے کئی اراکین معمولی زخمی ہوئے، جن میں درج ذیل ارکان شامل ہیں:

سمارا ویرا اور پرانا ویتانا کو واقعے کے فوراً بعد اسپتال میں داخل کر دیا گیا جبکہ دیگر کھلاڑیوں کے زخم معمولی نوعیت کے تھے۔[12] سماراویرا کو ران پر جبکہ پرانا ویتانا کو سینے پر گولی کا زخم لگا۔[19] ٹیم کے نائب کوچ پاؤل فربریس بھی زخمی ہوئے۔[20] یہ اطلاعات بھی تھیں کہ ٹیم کے کوچ ٹریور بائیلس بھی معمولی زخمی ہوئے ہیں[21][22] تاہم بعد میں یہ اطلاعات غلط ثابت ہوئیں۔[18]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. سامے لائیو کا وقت پر مضمون
  2. "سری لنکا کی ٹیم پر حملے میں ملوث چار افراد پاکستانی پولیس نے گرفتار کرلئے"۔ SamayLive.com۔ 3 مارچ 2009۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-03-03
  3. ^ ا ب پ "مسلح افراد کی سری لنکن کرکٹرز پر فائرنگ"۔ بی بی سی نیوز۔ 3 مارچ 2009۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-03-03
  4. "سری لنکن کرکٹ ٹیم پر فائرنگ"۔ گارڈین۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-03-03
  5. "پاکستان بمقابلہ سری لنکا 2008/9"۔ Cricket Archive۔ 3 مارچ 2009۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-03-03
  6. "جیو سپر کا پاک فضائیہ کے ہیلی کاپٹرز پر مضمون"۔ 2009-08-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-03-03
  7. "سری لنکن کھلاڑی واپس زخموں کے ساتھ وطن واپس"۔ 2009-03-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-03-03
  8. Knight، Ben (9 اگست 2002ء)۔ "آسٹریلوی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا"۔ اے بی سی نیوز۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مارچ، 2009ء {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت)
  9. "انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں بم دھماکے کے بعد شدید ہلچل"۔ بی بی سی کھیل۔ 8 May 2002۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مارچ، 2009ء {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت)
  10. "سری لنکا نے دورے کی منظوری دے دی ۔ پاکستان بورڈ"۔ کرک انفو، پاکستان۔ 10 دسمبر، 2008ء۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مارچ، 2009ء {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= و|date= (معاونت)
  11. "حملے کے بعد سری لنکا کے کھلاڑی محفوظ اور خطرے سے باہر ہیں"۔ ٹیلیگراف۔ 3 March 2009۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مارچ، 2009ء {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت)
  12. ^ ا ب برگس، سائمن (3 مارچ 2009)۔ "سری لنکا کے کھلاڑی پاکستان میں حملے میں بچ گئے"۔ دی ٹیلیگراف۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-03-03
  13. Ali، Rizwan (3 March 2009)۔ "مسلح افراد کا پاکستان میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ"۔ مشرتکہ مطبوعات۔ MSNBC.com۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مارچ، 2009ء {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت)
  14. حیدر، ذیشان (3 March 20009)۔ "پاکستانی وزیر کی جانب سے سری لنکا کی ٹیم پر حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کا الزام"۔ Reuters۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 March 20009 {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= و|date= (معاونت)
  15. روزنامہ ڈان، 24 مارچ 2009ء،[مردہ ربط] "Indian hand seen in attack on Lanka’s team "
  16. "پاکستانی رہنماؤں کی جانب سے سری لنکا کی ٹیم پر حملے کی مذمت"۔ زین ہوا نیوز ایجنسی۔ 3 March 2009۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مارچ، 2009ء {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت)
  17. "سری لنکن صد رکی جانب سے حملے کی مذمت"۔ اے ایف پی۔ خلیج ٹائمز۔ 3 مارچ 2009۔ 2011-06-08 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-03-03
  18. ^ ا ب "سری لنکن کرکٹ ٹیم پر فائرنگ"۔ اسکائی نیوز۔ 3 مارچ، 2009ء۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 March 2009 {{حوالہ خبر}}: تحقق من التاريخ في: |date= (معاونت)
  19. برگس، سائمن (3 مارچ 2009)۔ "سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ:کمارا سنگا کارا پاکستان میں فارئرنگ سے زخمی"۔ دی ٹیلیگراف۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-03-03
  20. "حملے کے بعد لاہور ٹیسٹ منسوخ"۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-03-03
  21. Ali، Rizwan۔ "Sri Lankan cricket team attacked in Pakistan"۔ Associated Press۔ 2009-03-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-03-03
  22. "پانچ سری لنکن کھلاڑی زخمی۔ وزیرِ کھیل"۔ مشترکہ مطبوعات۔ 2009-03-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-03-03