تدبیر فلاح و نجات و اصلاح (رسالہ)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
تدبیر فلاح و نجات و اصلاح (رسالہ)
مصنف احمد رضا خان   ویکی ڈیٹا پر (P50) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصل زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P407) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضوع سلطنت عثمانیہ کا زوال   ویکی ڈیٹا پر (P921) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ناشر مکتبۃ المدینہ   ویکی ڈیٹا پر (P123) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ اشاعت 1913  ویکی ڈیٹا پر (P577) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صفحات

تدبیر فلاح و نجات و اصلاح چند سوالات کا جواب ہے، جو 1331ھ میں حاجی منشی لعل خان نے امام احمد رضا خان سے پوچھے تھے۔ یہ فتاویٰ رضویہ کی بارہویں جلد میں بھی شامل ہے اور الگ سے بھی شائع ہوا ہے۔

پس منظر[ترمیم]

سائل لعل خان نے سلطنت عثمانیہ کے زوال کی طرف توجہ دلوائی اور احمد رضا خان بریلوی سے دریافت کیا کہ اس بگڑتی صورت حال میں یہاں (متحدہ ہندوستان) کے مسلمان ان ترک مسلمانوں کی کیسے مالی و دیگر معاونت کر سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں احمد رضا خان نے برصغیر و سلطانت عثمانیہ اور پورے عالم اسلام کے لیے ایک چار نکاتی حل پیش کیا۔

خلاصہ[ترمیم]

  1. ان امور کے علاوہ جن میں حکومت دخل انداز ہے مسلمان اپنے معاملات خود فیصل کریں تاکہ مقدمہ بازی میں جو کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں پس انداز ہو سکیں۔
  2. مسلمان لین دین صرف آپس میں ہی کریں۔
  3. گھر کا نفع گھر میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی منڈی میں بھی مسلمانوں سے ہی لین دین کریں۔
  4. روسائے ملک یعنی امیر مسلمان گھرانے بلا سود بنک کھولیں۔
  5. مسلمان کتاب وسنت وک مضبوطی سے تھام لیں۔

اہم نکات[ترمیم]

  • اول عظیم الشان مدارس کھولے جائیں باقاعدہ تعلیمیں ہوں۔
  • طلبہ کو وظائف ملیں کہ خواہی نخواہی گرویدہ ہوں۔
  • مدرسوں کی بیش قرار تنخواہیں ان کی کارروائیوں پر دی جائیں کہ لالچ سے جان توڑ کر کوشش کریں۔
  • رطبائع طلبہ کی جانچ ہو جو جس کام کے زیادہ مناسب دیکھا جائے معقول وظیفہ دے کر اس میں لگایا جائے۔ یوں ان میں کچھ مدرسین بنائے جائیں، کچھ واعظین، کچھ مصنفین، کچھ مناظرین، پھر تصنیف و مناظرہ میں بھی توزیع ہو، کوئی کسی فن پر کوئی کسی پر۔
  • ان میں جو تیار ہوتے جائیں، تنخواہیں دے کر ملک میں پھیلائے جائیں کہ تحریراً وتقریراً وعظا و مناظرۃ اشاعت دین و مذہب کریں۔
  • حمایت ( مذہب) وہ ردِ بد مذہباں میں مفید کتب و رسائل مصنفوں کو نذرانے دے کر تصنیف کرائے جائیں۔
  • تصنیف شدہ اور نو تصنیف رسائل عمدہ اور خوش خط چھاپ کر ملک میں مفت شائع کیے جائیں۔
  • شہروں شہروں آپ کے سفیرنگراں رہیں جہاں جس قسم کے واعظ یا مناظر یا تصنیف کی حاجت ہو آپ کو اطلاع دیں۔ آپ سر کوبیِ اعدا کے لیے اپنی فوجیں، میگزین، رسالے بھیجتے رہیں۔
  • جو ہم میں قابل کار، موجود اور اپنی معاش میں مشغول ہیں وظائف مقرر کرکے فارغ البال بنائے جائیں اور جس کام میں انھیں مہارت ہو لگائے جائیں۔
  • آپ کے مذہبی اخبار شائع ہوں اور وقتاً فوقتاً ہر قسم کے حمایتِ مذہب میں مضامین تمام ملک میں بہ قمیت و بلا قیمت روزانہ یا کم از کم ہفتہ وار پہنچاتے رہیں۔ میرے خیال میں تو یہ تدابیر ہیں، آپ اور جو کچھ بہتر سمجھیں افادہ فرمائیں۔ (فتاویٰ رضویہ ج:12، ص:133-134)
  • تعلیم خواہ انفرادی طور پر دی جا رہی ہو یا اجتماعی طور پر، ہر ایک کا مرکز اسلام ہو۔
  • تعلیمی درس گاہوں سے سچے مسلمان فارغ التحصیل کیے جائیں۔ سائنس بھی علم کا حصہ ہے لیکن کسی بھی طرح کی یجاد کا علم خالق کے عطا کردہ علوم سے باہر نہ بلکہ ہر علم اسلام کی روشنی میں حاصل کیا جائے۔
  • نظام تعلیم خاص طور پر محبت رسولﷺ پیدا کرے، ساتھ ہی ساتھ صحابہ، اہل بیت، اولیاء اور علما کی محبت بھی درس گاہوں کے درس میں اول ہو۔
  • (نظام تعلیم حقانیت اسلام کا داعی ہو۔
  • طلبہ اسلام کو ایسی تعلیم دی جائے جو دنیوی و اخروی فلاح و بہبود کا ضامن ہو۔
  • اساتذہ کو صرف استاد ہونا چاہیے اور انھیں امت مسلمہ کی تعلیم و تربیت کا آفاقی تصور ذہن نشین ہونا چاہیے۔
  • طلبہ اسلام کو دوران میں تعلیم خود اعتمادی اور مسلم قومیت کی اصلاح مدنظر رکھنا چاہیے۔
  • فضول مضامین کو خارج از نصاب کیا جائے۔
  • درسگاہوں میں تعلیم پانے والے طلبہ کے اخلاق و عادات اور کردار اعلیٰ ہوں اور ذہنی قابلیت کے ساتھ ساتھ انھیں جسمانی طور پر بھی صحت مند ہونا چاہیے۔
  • درس گاہوں کے طلبہ کے لیے ایسا ماحول مہیا کرنا چاہیے جو ان کے تعلیم میں دلچسپی اور مقصد میں کامیابی کی راہ ہموار کرے۔

حوالہ جات[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]