مغل اعظم (فلم)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مغل اعظم
(ہندی میں: मुग़ल-ए-आज़म ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تھیٹر پوسٹر

ہدایت کار کے آصف
اداکار پرتھوی راج کپور [1][2]
دلیپ کمار [1][2]
مدھوبالا [1][2]
درگا کھوٹے [1]
نگار سلطانہ
اجیت
مراد
جیلو ماں
سریندر
جانی واکر، اداکار
جلال آغا
تبسم
گوپی کرشنا   ویکی ڈیٹا پر (P161) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فلم ساز کے آصف   ویکی ڈیٹا پر (P162) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صنف سوانحی فلم ،  ڈراما ،  رومانوی صنف   ویکی ڈیٹا پر (P136) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضوع انارکلی ،  انولوما [3]،  دربار [3]،  رومانی محبت [3]،  بین الزمرہ شادی [3]،  بداختر [3]  ویکی ڈیٹا پر (P921) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فلم نویس امان
کمال امروہی
کے آصف
وجاہت مرزا
احسن رضوی
دورانیہ 197 منٹ
زبان
ملک بھارت
مقام عکس بندی بھارت   [4] ویکی ڈیٹا پر (P915) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سنیما گرافر آر ڈی ماتھور   ویکی ڈیٹا پر (P344) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موسیقی نوشاد
بول شکیل بدایونی   ویکی ڈیٹا پر (P676) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تقسیم کنندہ نیٹ فلکس   ویکی ڈیٹا پر (P750) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
میزانیہ 10.5–15 ملین
باکس آفس 110 ملین [5]
تاریخ نمائش 5 اگست 1960  ویکی ڈیٹا پر (P577) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
فلم فیئر اعزاز برائے بہترین فلم (1961)
قومی فلم اعزاز برائے بہترین ہندی فیچر فلم (1961)[6]  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مزید معلومات۔۔۔
آل مووی v151890  ویکی ڈیٹا پر (P1562) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
tt0054098  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مغل اعظم 1960ء میں بھارت میں بننے والی ایک تاریخی دور ڈراما فلم ہے۔ اس کے ہدایت کار اور پروڈیوسر کے آصف تھے۔ اس کے اہم اداکاروں میں پرتھوی راج کپور، درگا کھوٹے، دلیپ کمار اور مدھوبالا شامل تھے۔ اس فلم میں مغل شہزادہ سلیم، جو بعد میں نورالدین جہانگیر کے نام سے شہنشاہ بنے اور ایک درباری رقاصہ انارکلی کے عشق کو فلمایا گیا ہے۔فلم میں شہزادہ سلیم کے والد جلال الدین اکبر اس تعلق کو ناپسند کرتے ہیں، جس کی وجہ سے دونوں باپ اور بیٹے کے بیچ جنگ بھی ہوتی ہے۔ اس فلم پر کام کا آغاز کے آصف نے 1944ء میں اس وقت شروع کیا، جب انھوں نے شہنشاہ اکبر (1556 سے 1605) کے دور حکومت کے دوران میں پیش آنے والے اس واقعے کے بارے میں ایک ڈراما میں پڑھا۔اس فلم کا کام مالی مشکلات اور دوسری وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہوتا رہا۔1950 کی دہائی کے اولائل میں اس کی بنیادی فوٹوگرافی کا آغاز ہونا تھا لیکن اس سے پیشر ہی اس فلم کے ایک فنانسر نے فلم پروڈیوس کرنے سے معذرت کر لی، اس کے علاوہ فلم کی کاسٹ کو مکمل طور پر تبدیل کرنا پڑا۔ مغل اعظم اپنے وقت کی مہنگی ترین فلم تھی۔ اس سے پہلے بھارتی سنیما میں اس سے زیادہ لاگت کی فلم نہیں بنی تھی۔اس فلم کے ایک گانے کا بجٹ اس دور میں بننے والی ایک پوری فلم کے بجٹ سے بھی زیادہ تھا۔ اس فلم کے گانے بھارتی کلاسیکل اور لوک گیتوں سے متاثر ہیں۔ اس فلم میں 12 گانے شامل ہیں۔ ان گانوں کو لتا منگیشکر کے ساتھ محمد رفیع، شمشاد بیگم اور کلاسیکل گلوکار استاد بڑے غلام علی خان نے گایا ہے۔ اس فلم کو موسیقی کے لحاظ سے بھی بالی وڈ کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مغل اعظم کو اُس دور میں کسی بھی فلم کے حوالے سے سب سے زیادہ سینماؤں میں ریلیز کیا گیا۔ اس فلم کے شائقین نے کئی دنوں تک لائن میں لگ کر فلم کے ٹکٹ بھی خریدے تھے۔5 اگست 1960ء کو ریلیز ہونے والی فلم مغل اعظم نے بھارتی فلمی تاریخ کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بن گئی۔ مغل اعظم کے پاس یہ ریکارڈ 15 سال تک رہا، جسے15 اگست 1975ء میں ریلیز ہونے فلم شعلے نے توڑا۔افراط زر کی شرح کو مدنظر رکھا جائے تو فلم مغل اعظم ہی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم ہے۔اس فلم نے کئی اعزازات اپنے نام کیے۔اس فلم نے ایک نیشنل فلم ایوارڈ جیتا اور آٹھویں فلم فیئر ایوارڈ کے دوران میں 3 فلم فیئر اعزازات جیتے۔ مغل اعظم وہ پہلی بلیک اینڈ وائٹ فلم ہے، جسے ڈیجیٹلی رنگین کیا گیا اور کسی بھی زبان کی پہلی فلم ہے جسے رنگین بنانے کے بعد دوبارہ سینما گھروں میں بھی ریلیز کیا گیا۔ اس فلم کا رنگین ورژن نومبر 2004ء کو سینماؤں میں جاری کیا گیا جو تجارتی حوالے سے کافی کامیاب رہا۔ اس فلم کو اپنی نوع میں سنگ میل تصور کیا جاتا ہے۔کمائی کے حوالے سے، نقادوں سے تعریف پانے کے حوالے سے اور اس فلم میں ہر طرح سے جزیات کے بیان کے حوالے سے اس فلم کو سراہا جاتا ہے فلمی محققین نے اس طرح کی تاریخی فلموں کی خوش آمدید کہا ہے لیکن اس فلم میں دکھائے گئے تاریخی حقائق کے بارے میں سوالات بھی اٹھائے ہیں۔

کہانی[ترمیم]

بیرونی تصویر
image icon مغل اعظم کی تصاویر اور کہانی کی تفصیل

شہنشاہ اکبر کی کوئی اولاد نرینہ نہیں ہوتی۔ وہ مریم الزمانی المعروف جودھا بائی سے بیٹا ہونے کی منت مانگنے کے لیے ننگے پاؤں ایک بزرگ کے مزار پر حاضری دیتا ہے۔اس سفر میں اس کا لشکر تو اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہوتا ہے لیکن صرف وہی پیدل اور ننگے پاؤں ہوتا ہے۔بعد میں (اگلے منظر میں) ایک ملازمہ اس کے ہاں بیٹا ہونے کی خوشخبری دیتی ہے۔خوشی سے نہال اکبر، جس کی دعائیں سنی گئی تھی، ملازمہ کو ایک انگوٹھی دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ وہ ملازمہ کی کوئی بھی خواہش پوری کرے گا۔ بیٹا شہزادہ سلیم بڑا ہوتا رہتا ہے اور لاڈ پیار کی وجہ سے حد سے زیادہ بگڑ جاتا ہے۔ایک بار اکبر بادشاہ اسے شراب کے نشے میں دھت دیکھتا ہے تو تھپڑ مارتا ہے اور اسے جنگ کے میدان میں بھیج دیتا ہے تاکہ وہ بہادر شخص بنے اور اس کی زندگی میں بھی سلیقہ آ جائے۔ چودہ سال بعد شہزادہ سلیم (دلیپ کمار) ایک ممتاز سپاہی کے طور پر واپس آتا ہے اور درباری رقاصہ نادرہ (مدھوبالا) کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ بادشاہ نے اس رقاصہ کو اس کے رنگ کی مناسبت سے انارکلی کا نام دیا ہوتا ہے۔انارکلی کا مطلب انار کا کھلتا ہوا پھول ہے۔ شہزادہ سلیم اور انارکلی کا تعلق ایک اعلیٰ درجے کی حاسد رقاصہ بہار کے علم میں بھی آ جاتا ہے۔بہار خود بھی شہزادے کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے اور ایک دن ملکہ بنناچاہتی ہے۔ شہزادے کی محبت پانے میں ناکامی کے بعد وہ شہزادہ سلیم اور انارکلی کے عشق کے راز کو افشا کر دیتی ہے۔ شہزادہ سلیم انار کلی سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن اس کا باپ انکار کر دیتا ہے، یہی نہیں بلکہ شہنشاہ اکبر انار کلی کو قید بھی کر دیتا ہے۔شہنشاہ اکبر انار کلی سے شہزادے کی محبت سے دستبرار ہونے کا بھی کہتا ہے لیکن انار کلی شہزادے کو ٹھکرانے سے انکار کر دیتی ہے۔ شہزادہ سلیم بغاوت کردیتا ہے اور انارکلی کو چھڑانے کے لیے اپنے باپ سے مقابلہ کرنے کے لیے فوج کشی کر دیتا ہے۔ جنگ میں شہزادہ سلیم کو شکست ہوجاتی ہے اور اس کا باپ اسے سزائے موت سنا دیتا ہے۔ اس وقت انارکلی خفیہ مقام پر موجود ہوتی ہے۔ شہنشاہ اکبر پیش کش کرتا ہے کہ اگر انارکلی چاہے تو شہزادہ سلیم کے بدلے خود سزائے موت پا سکتی ہے۔ انارکلی شہزادہ سلیم کی جان بچانے کے لیے خود کو بادشاہ کے حوالے کر دیتی ہے تاکہ اسے زندہ دیوار میں چنوا دیا جائے۔ سزا پر عمل درآمد ہونے سے پہلے انارکلی درخواست کرتی ہے کہ اسے شہزادے کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے دیے جائے تاکہ وہ خود کو کچھ دیر کے لیے اس کی بیوی سمجھ سکے۔ اس کی درخواست قبول کر لی جاتی ہے۔ انارکلی اس بات پر بھی راضی ہو جاتی ہے کہ وہ شہزادے کو بے ہوش کر دے گی تاکہ وہ اس کی سزا میں عمل درآمد کرنے میں رکاؤٹ نہ بنے۔ جب انارکلی کو دیوار میں چنا جا رہا تھا تو اکبر بادشاہ کو یاد کرایا جاتا ہے کہ وہ انارکلی کی ماں کو دیے گئے ایک قول کا آج بھی پابند ہے، جس نے اسے شہزادے کی پیدائش کی خبر دی تھی۔ انارکلی کی ماں اکبر بادشاہ سے اپنی بیٹی کی زندگی کی بھیک مانگتی ہے۔شہنشاہ کا من بدل جاتا ہے وہ انارکلی کو چھوڑنا چاہتا ہے لیکن چھوڑ نہیں سکتا کیونکہ یہ اس کے ملک کے لیے اس کا فرض ہوتا ہے۔ اکبربادشاہ انارکلی کے خفیہ فرار اور اس کی ماں کے ساتھ جلا وطن کرنے کا بندوبست کرتا ہے لیکن مطالبہ کرتا ہے کہ وہ گمنام رہے گی اور شہزادہ سلیم کو کبھی معلوم نہیں ہو گا کہ وہ انارکلی ابھی تک زندہ ہے۔

کاسٹ[ترمیم]

پروڈکشن[ترمیم]

ڈویلپمنٹ[ترمیم]

1928ء کی خاموش فلم انار کلی کا منظر
”انارکلی“ 1928ء کی خاموش فلم، جسے سلیم اور انار کلی پر بنایا گیا، کا منظر

اردو ڈراما نگار امتیاز علی تاج نے 1922ء میں 16ویں صدی کی شہزادہ سلیم اور انارکلی کی محبت پر ایک ڈراما لکھا تھا[12][13]۔یہ ڈراما حقیقت سے زیادہ سولہویں صدی کے افسانوں پر مبنی تھا۔جلد ہی اس ڈرامے کا ایک اسٹیج ورژن بنایا گیا، جس کے بعد اس کے کئی سکرین ورژن سامنے آئے۔ [14] [14] ا [15] جلد ہی اس ڈرامے کا ایک سٹیج ورژن اور پھر سکرین ورژنز پیش کیے گئے۔[14] اردشیر ایرانی نے 1928ء میں ”انارکلی“ کے نام سے ایک خاموش فلم بنائی۔ 1935ء میں اس فلم کو آواز کے ساتھ دوبارہ بنایا گیا۔[14] 1940ء کی دہائی کی ابتدا میں انارکلی کی کہانی نے پروڈیوسر شیراز علی حکیم اور نوجوان ڈائریکٹر کے آصف (کریم الدین آصف) کو متاثر کیا۔ انھوں نے اس کہانی پر ”مغل اعظم“ کے نام سے فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔[16] انھوں نے چار اردو مصنفوں کو بھرتی کیا تاکہ مغل اعظم کے سکرین پلے اور ڈائیلاگ پر کام کیا جا سکے۔ان مصنفوں میں امان (زینت امان کے والد جنہیں امان اللہ خان کے نام سے جانا جاتا ہے)، وجاہت مرزا، کمال امروہی اور احسان رضوی شامل تھے۔[16] یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ چاروں مصنفین نے ایک ساتھ مل کر اور ایک دوسرے سے شراکت میں کس طرح کام کیا لیکن 2010ء میں ”ٹائمز آف انڈیا“ نے بتایا کہ ان چاروں کی محنت فلم کے ہر ہر شاعرانہ جملے اور ہر ہر لائن سے ہوتا ہے۔چاروں مصنفوں کے کام نے اس فلم کے پلاٹ کو شیکسپئر کے کسی ڈرامے سے بھی زیادہ بہتر بنادیا۔[17] جب فلم کااسکرپٹ مکمل ہونے کے قریب تھا تو کے آصف نے چندر موہن، ڈی کے سپرو اور نرگس دت کو اکبر، سلیم اور انارکلی کے رول میں کاسٹ کر لیا۔ [18][19] فلم کی شوٹنگ 1946ء میں بامبے ٹاکیز کے سٹوڈیو میں شروع ہوئی۔[20] اس پراجیکٹ کی راہ میں کئی رکاؤٹیں آئیں، جن کی وجہ سے اس پراجیکٹ کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔تقسیم ہند کے دوران میں سیاسی تناؤ اور مذہبی فسادات نے اس فلم کے کام کو بالکل روک دیا۔ تقسیم ہند کے بعد شیراز علی حکیم پاکستان ہجرت کر گئے اور کے آصف بغیر فنانسر کے رہ گئے۔[19][20] 1949ء میں اداکار چندراموہن بھی دل کے دورے میں وفات پا گئے۔[21]

شیراز علی اس سے پہلے تجویز دے چکے تھے کہ اس فلم کو کاروباری شخصیت شاہ پور جی پلونجی فنانس کر سکتے ہیں۔ اگرچہ پلونجی فلم پروڈکشن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے لیکن 1950ء میں وہ اس فلم کو پروڈیوس کرنے پر راضی ہو گئے، کیونکہ انھیں اکبر کی تاریخ میں دلچسپی تھی۔ [22][23]اس کے بعد اس فلم کی پروڈکشن نئی کاسٹ کے ساتھ شروع کر دی گئی۔[22] اس فلم کے ایکاسکرپٹ رائٹر کمال امروہوی، جو خود بھی فلم ڈائریکٹر تھے، نے سمجھا کہ اس فلم کا منصوبہ منسوخ ہو چکا ہے، اس لیے انھوں نے اس موضوع پر خود سے فلم بنانے کا اعلان کیا۔جب کے آصف نے مخالفت کی تو وہ اپنا منصوبہ ترک کرنے پر راضی ہو گئے۔[24]امتیاز علی تاج کے اسی ڈرامے پر ایک اور فلم ڈائریکٹر نندلال جسونت لال نے بھی 1953ء میں انارکلی کے نام سے فلم بنائی۔ اس فلم میں بینا رائے اور پردیپ کمار نے نمایاں کردار ادا کیے۔یہ 1953ء میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی بالی وڈ کی فلم تھی۔[25]

کاسٹنگ[ترمیم]

اداکار دلیپ کمار، جس کی تصویر اوپر 1944ء میں دی گئی ہے، شہزادہ سلیم کا کردار ادا کیا

آصف نے ابتدائی طور پر دلیپ کمار کو شہزادہ سلیم کے کردار کے لیے مسترد کر دیا تھا۔[18]۔ دلیپ کمار بھی تاریخی فلم میں کام کرنے سے ہچکچا رہے تھے لیکن انھوں نے پروڈیوسر کے اصرار پر ہاں کر دی۔[26] دلیپ کمار کے مطابق”آصف کو مجھ پر اتنا اعتماد تھا کہ انھوں نے شہزادہ سلیم کی کردار نگاری مکمل طور پر مجھ پر چھوڑ دی“۔[27] دلیپ کمار کو راجستھان میں فلم بندی کے دوران میں بھی کئی مشکلات پیش آئیں، جن کی وجہ گرمی اور جسم پر پہنی ہوئی زرہ تھیں۔[27] انارکلی کا کردار سب سے پہلے نوتن کو پیش کیا گیا تھا، جنھوں نے اسے ٹھکرا دیا۔ [28] اس کے بعد ثریا کو انارکلی کے لیے مناسب سمجھا گیا لیکن بعد میں یہ کردار مدھو بالا کو دیا گیا، جو کافی عرصہ سے ایسے اہم کردار کے لیے کوشش کر رہی تھی۔فلم سائن کرنے پر، مدھوبالا کو پیشگی 1 لاکھ روپے کی رقم ادا کی گئی، جو اس وقت کسی بھی اداکار/اداکارہ کے لیے سب سے زیادہ تھی [29]۔[30][31] مدھو بالا کو دل کا پیدائشی نقص بھی تھا[32]، اسی وجہ سے وہ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران میں کئی بار سیٹ پر بے ہوش ہوئٰیں۔قید خانے کے حصے کی فلم بندی کے دوران مدھو بالا کی جلدپر سوزش بھی ہو گئی تھی لیکن انھوں نے فلم کو مکمل کرایا۔[33] رپورٹس کے مطابق شہنشاہ اکبر کے کردار کو ادا کرنے کے لیے پرتھوی راج کپور کو مکمل طور پراسکرپٹ اور ڈائریکٹر پر انحصار کرنا پڑا۔[19]۔ پرتھوی راج کپور جب میک اپ کے لیے جاتے تو کہا جاتا ”پرتھوی راج کپور جا رہا ہے“۔ میک اپ کے بعد اعلان کیا جاتا ”اکبر اب آ رہا ہے “۔ اپنے کردار کو ادا کرنے کے لیے پرتھوی راج کپور کو بھی بہت مشکلات اٹھانا پڑی۔بھاری بھر کم کاسٹیوم نے اُن کی مشکلات کو بڑھایا ہی تھا لیکن ایک سیکوئنس میں انھیں صحرا میں ننگے پاؤں چلنا پڑا، جس سے اُن کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے۔[19] لینس ڈین، ایک فوٹو گرافر جو شوٹنگ کے دوران میں سیٹ پرموجود تھے، نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ پرتھوی راج کپور کو اپنے کچھ سین کرتے ہوئے کافی مشکلات اٹھانی پڑی، انھیں لائنیں مشکل سے یاد ہوتی تھیں، ایک بار ایک سین کے لیے انھوں نے 19 ٹیک کیے۔[34] اس فلم کی شوٹنگ کے دوران میں پرتھوی راج کپور ڈائیٹ (diet) پر تھے، انھوں نے کے آصف کی بتائی ہی خوراک کھا کر دوبارہ وزن بڑھایا تاکہ اکبر کے کردار کے مطابق نظر آئیں[34]۔درگا کھوٹے نے اکبر کی بیوی جودھا بائی کا کردار ادا کیا[35] اور نگار سلطانہ نے رقاصہ بہار کا کردار نبھایا۔[36] ذاکر حسین جو بعد میں طبلہ کے استاد بنے، پر ابتدا میں شہزادہ سلیم کے بچپن کے کردار کے لیے غور کیا گیا لیکن پھر یہ کردار جلال آغا کے کیرئیر کا آغاز بن گیا۔جلال آغا نے 1975 میں فلم شعلے میں ”محبوبہ محبوبہ“ گانے پر بھی پرفارم کیا[12]۔

ڈیزائن[ترمیم]

اس فلم کا پروڈکشن ڈیزائن آرٹ ڈائریکٹر ایم کے سید نے بنایا۔یہ ڈیزائن بہت زبردست تھا۔ کچھ سیٹ کو مکمل ہونے پر 6 ہفتے لگے۔اس فلم کی زیادہ تر فلم بندی سٹوڈیوز کے اندر مغلیہ محلات کی طرز پر بنے سیٹ پر کی گئی۔ ان سیٹ پر بہترین فرنیچر، پانی کے فوارے اور تالاب کو بنایا گیا تھا[37] جسے دیکھ کر ہالی وڈ کی تاریخی دور کے سیٹ کا گمان ہوتا تھا۔اس فلم کا گانا پیار کیا تو ڈرنا کیا موہن سٹوڈیو میں فلمایا گیا جہاں قلعہ لاہور کے شیش محل کا سیٹ لگایا گیا تھا۔اس سیٹ کا سائز قابل ذکر تھا۔ اس سیٹ کی لمبائی 150 فٹ (46 میٹر)، چوڑائی 80 فٹ (24 میٹر) اور اونچائی35 فٹ (11 میٹر) تھی[19]۔ اس سیٹ کی سب سے قابل ذکر بات اس میں لگے بیلجین گلاس کے بے شمار چھوٹے چھوٹے شیشے کے ٹکڑے تھے، جنہیں فیروز آباد کے کاریگروں نے تراشا اور لگایا تھا۔[38] اس سیٹ کی تیاری میں دو سال کا عرصہ لگا اوراُس وقت اس کی لاگت 1.5 ملین تھی(1960 میں یہ 3 لاکھ 14 ہزار امریکی ڈالر کے برابر تھی)[ا][39]۔ 1960ء میں اس سیٹ پر اس دور کی کسی فلم کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ کی لاگت آئی تھی۔اس فلم کی بہت زیادہ لاگت کی وجہ سے فلم کے فنانسرز کا دیوالیہ نکلنے کا بھی خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔[26]اس سیٹ کی تعمیر کے لیے پورے بھارت سے کاریگر بھرتی کیے گئے۔فلم کے کاسٹیوم مکھن لال اینڈ کمپنی نے ڈیزائن کیے۔[40] اور انھیں دہلی کے درزیوں نے جو زردوزی کشیدہ کاری میں ماہر تھے، ان مغل کاسٹیومز کو سیا[40]۔اس فلم کے لیے جوتے آگرہ کے کاریگروں نے بنائے۔فلم کے لیے زیورات حیدر آباد، دکن کے سناروں نے بنائے، تاج کولہاپور میں ڈیزائن کیے گئے جبکہ ہتھیار راجھستان کے لوہاروں نے بنائے۔ ان ہتھیاروں میں ڈھالیں، تلواریں، نیزے، خنجر اور زرہ بکتر شامل ہیں۔کاسٹیوم پر زردوزی بھی سورت، گجرات کے ڈیزائنروں کی ہی ٹانکی گئی۔[26][40][41] فلم میں جودھا بائی کرشن کے جس مجسمے کی پوجا کرتی دکھائی دی وہ بھی سونے سے بنا تھا۔ انار کلی کو زنجیروں سے جکڑنے کے مناظر میں مدھو بالا کو اصل زنجیریں پہنائی گئیں[19]۔اکبر اور سلیم کی جنگ کے مناظر میں 2000 اونٹوں، 400 گھوڑوں اور 8000 سپاہیوں نے حصہ لیا۔ یہ سب بھارتی فوج کی جے پور گھوڑ سوار فوج 56 ویں رجمنٹ کا حصہ تھے[42]۔فلم بندی کے دوران میں دلیپ کمار کو راجستھان کے صحرا میں شدید گرمی میں مکمل زرہ بکتر پہن کر بولنا پڑا[27]۔

پرنسپل فوٹو گرافی[ترمیم]

مغل اعظم کی پرنسپل فوٹو گرافی 1950 کی دہائی کے آغاز میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ اس کا ہر سیکوئل تین بار فلم بند کیا گیا کیونکہ فلم ہندی/اردو، تامل اور انگریزی میں پروڈیوس کی گئی تھی۔ فلم کو بتدریج تامل میں ڈب کر کے 1961 میں اکبر کے نام سے جاری کیا گیا[43]۔ لیکن وہ ورژن تجارتی طور پر ناکام ہو گیا کیونکہ انگریزی ورژن پر زیادہ توجہ دی گئی جس کے لیے برطانوی اداکار زیر غور تھے۔[26]فلم بندی کے دوران میں آصف کے ساتھ کافی بڑا کریو تھا۔ اس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز میں ایس ٹی زیدی، خالد اختر، سریندر کپور(جو پہلے انگریزی ورژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے) اور دیگر پانچ اور تھے[44]۔ دیگر کریو میں سیناماٹوگرافر آر ڈی ماتھر، کوریوگرافرلالچھو مہاراج [45]، پروڈکشن منیجر اسلم نوری، کیمرا مین ایم ڈی ایوب، ایڈیٹر دھرماویر، میک اپ آرٹسٹ پی جی جوشی اور عبد الحمید اور ساؤنڈ ڈائریکٹر اکرم شیخ تھے۔ [44] اس فلم کے چند سیکونس 14 کیمروں سے شوٹ کیے گئے تھے جو اس وقت روایات سے بہت زیادہ تھے۔فلم کی لائٹنگ کے حوالے سے بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق سینماٹوگرافر ماتھر نے ایک شوٹ کی لائٹنگ کے لیے آٹھ گھنٹے بھی صرف کیے۔ان دنوں ایک فلم کی شوٹنگ میں 60 سے 125 دن لگتے تھے لیکن مغل اعظم کی شوٹنگ کے لیے 500 دن سے زیادہ لگے۔ فلم میں شیش محل کا استعمال بھی کیا گیا جس کی لائٹنگ کے لیے 500 ٹرکوں کی ہیڈلائٹس اور 100 کے قریب ریفلیکٹرز استعمال کیے گئے [46]۔شیشوں کی وجہ سے بھی شوٹنگ میں کافی مشکلات پیدا ہوئیں جو روشنی میں جھلماتے تھے۔غیر ملکی مشیروں، جن میں برطانوی ڈائریکٹر ڈیوڈ لین شامل تھے نے آصف کو کہا کہ اتنی زیادہ چمک میں شوٹنگ ناممکن ہے۔ آصف نے لائٹنگ کریو کے ساتھ کام کیا اور اس مسئلے کو شیشوں پر ویکس کی پتلی تہ لگا کر قابو پایا [19]۔ ماتھر کپڑے کی پٹیاں استعمال کر کے بھی روشنی کی چمک کو کم کیا۔ [43] فلم بندی کے دوران میں پروڈکشن کی تاخیر جیسی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ایک مقام پر تو آصف نے اس پراجیکٹ کو ختم کرنے کا سوچا [47]۔کمار نے فلم کی طوالت کا دفاع کیا انھوں نے فلم کی بھاری بھر کم لاجسٹک کو ذمہ دار ٹھہرایا اور انھوں نے بتایا کہ ساری کاسٹ اور کریو سخت محنت کرتے ہوئے ساتھ کھڑی تھی۔ پروڈکشن کے دوران میں کئی بار مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی دفعہ اخراجات بجٹ سے بڑھ گئے۔اس کے بجٹ پر کئی دفعہ بات ہوئی۔ اس فلم پر کل 10.5 ملین بھارتی روپے خرچ ہوئے اس وقت یہ 2.25 ملین ڈالر کے برابر تھے۔ کچھ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ فلم کی لاگت 15 ملین بھارتی روپے تھے جو 3 ملین ڈالر کے برابر تھے۔اس سے یہ فلم اپنے دور کی مہنگی ترین فلم بن گئی۔ افراط زر کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو آج کے اعتبار سے فلم کا بجٹ 50 کروڑ بھارتی روپے سے 2 ارب بھارتی روپے بنتا ہے۔بجٹ کی وجہ سے آصف اور فلم کے پروڈیوسر کے درمیان میں تعلقات بھی خراب ہوئے۔ آصف اور کمار کے تعلقات بھی خراب ہوئے، جب آصف نے کمار کی بہن سے شادی کی۔ اس دوران میں کمار اور مدھو بالا کے تعلقات بھی ختم ہوئے، جو نو سال سے تعلق میں تھے۔

پوسٹ پروڈکشن[ترمیم]

سہراب مودی کی فلم جھانسی کی رانی 1953ء میں بنی۔ یہ پہلی ہندوستانی فلم تھی جسے رنگین فلمایا گیا تھا، [48] اور 1957 تک رنگین فلموں پروڈکشن بہت تیزی سے عام ہو گئی تھی۔ آصف نے مغل اعظم کی ایک ریل کو رنگین فلمایا۔ انھوں نے اس ریل کو ٹیکنی کلر میں فلمایا۔ فلم کا گانا "پیار کیا تو ڈرنا کیا" بھی ٹیکنی کلر میں فلمایاگیا تھا۔فلم بندی کے رنگین رزلٹ سے ے متاثر ہو کر، آصف نے اس نے کہانی کے کلائمیکس کے قریب کی تین مزید ریلیں ٹیکنی کلر میں فلمائی۔رنگین رزلٹ سے متاثر ہو کر انھوں نے فلم کو مکمل طور پر ٹیکنی کلر میں دوبارہ فلم بند کرنے کا پروگرام بنایا لیکن اس سے مزید تاخیر کا سوچ کر بے صبرے تقسیم کار ناراض ہو گئے۔ تقسیم کار مزید تاخیر کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اس کے بعد آصف نے مغل اعظم کو جزوی طور پر رنگین ریلیز کیا، حالانکہ وہ پوری فلم کو رنگین شوٹ کرنا چاہتے تھے۔ فلم بندی کے اختتام تک، ایک ملین فٹ سے زیادہ نیگیٹورِیل استعمال ہو چکی تھی، جس میں کافی زیادہ تدوین کی ضرورت تھی۔فلم کا دورانیہ بہت زیادہ ہونے سے کئی گانے فلم سے نکال دیے گئے۔ آخر میں فلم کا دورانیہ 197 منٹ تک رہ گیا۔ [49]۔ اس فلم کے لیے ریکارڈ کیے گئے نصف گانے فلم کے حتمی ورژن سے باہر کر دیے گئے تھے۔

تھیمز[ترمیم]

مغل اعظم'ایک خاندانی تاریخ پر بنی فلم ہے۔ اس فلم میں باپ اور بیٹے کے درمیان میں اختلافات، عوام کے لیے خاندان کے فرائض اور عورتوں کی آزمائشوں اور مصائب خصوصاً درباریوں کے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ریچل ڈیوائر کے مطابق، جو کتاب ”فلمنگ دی گاڈز: ریلیجن اینڈ انڈین سنیما“ کی مصنفہ ہیں، یہ فلم ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی رواداری کو اجاگر کرتی ہے۔مثال کے طور پر فلم میں مسلمان اکبر کے دربار میں ہندو ملکہ جودھا بائی کو دکھایا گیا ہے، انارکلی کا بھجن یا ہندو عقیدت پر مشتمل گیت گانا اوراکبر کا جنم اشٹمی کی تقریبات میں شرکت کرنا، جس کے دوران میں اکبر کوکرشنا کے بت کے ساتھ جھولے کو جھولنے کے لیے تار کھینچتے ہوئے دکھایا گیا ہے وغیرہ۔[50]ایک فلمی نقاد مکل کیسوان نے تبصرہ کیا ہے کہ وہ ہندو مسلم محبت کے بارے میں بنائی گئی ایک بھی ایسی دوسری فلم یاد کرنے سے قاصر ہیں جس میں عورت (جودھا بائی) ہندو ہو۔ محققین بھاسکر اور ایلن نے اس فلم کو "اسلامی ثقافت" کی ایک شبیہ یا ہو بہونظارہ ' کے طور پر بیان کیا ہے، جس کا ثبوت اس فلم کے آرائشی سیٹوں، موسیقی کے سیکونس جیسے'قوالی کے منظر اور شستہ اردو مکالموں سے ملتا ہے۔ [51] پوری فلم کے دوران میں حکمران طبقے کے طور پر مسلمانوں کی ایک الگ تصویر کشی کی گئی ہے جو نہ صرف مختلف لباس پہنتے ہیں بلکہ پیچیدہ فارسی مکالمے بھی بولتے ہیں۔ انھیں عام عوام سے مختلف ظاہر کیا گہا ہے۔[52] فلمی اسکالر اسٹیفن ٹیو کا موقف ہے کہ مغل اعظم ایک قومی تمثیلی قصہ ہے، جو قومی شناخت پر زور دینے کے لیے تاریخ اور ورثے کو استعمال کرنے کا طریقہ ہے۔ [53] ان کا خیال ہے کہ بہار کا تکبر ریاست کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے جبکہ انارکلی کے جذبات جو انتہائی ذاتی ہے ذاتی فرد کی نمائندگی کرتا ہے۔[54] تیو کا مزید کہنا ہے کہ رومانوی محبت کا یہ تھیم سماجی طبقاتی فرق اوراختیارات کی درجہ بندی کو شکست دینے کے ساتھ ساتھ فلم بندی کی شان و شوکت فلم کی کشش بڑھانے میں بھی معاون ہے۔ [51] مصنف آشیس نندی نے فلم کے شاعرانہ معیار کے مکالموں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ " مغل اعظم کے کردار صرف بات نہیں کرتے۔ -گفتگو کو آلایش سے پاک کرتے ہیں، وہ اسے مقطر(کشید کرنا، جوہر نکالنا) کرتے ہیں، وہ اسے قلموں کی طرح جماتے ہیں اور پھر اسے کئی پہلوؤں سے چمکتے ہوئے جواہرات میں ڈھالتے ہیں، وہ عام زبان کی شاعری کرتے ہیں۔" [55] 'دی ہندو اخبار کے گووری رام نارائن نے بھی فلم کے مکالموں کی تعریف کی ہے۔

آئیووا یونیورسٹی کے ایک محقق فلپ لوٹگینڈورف نے کہا ہے کہ اگرچہ ہندی فلم سازی میں پرجوش انفرادی محبت اور خاندانی فرض کے درمیان میں تصادم کا تھیم بہت عام ہو سکتا ہے، نہ ختم ہونے والے سنیما کی تبدیلیوں کے ساتھ، کے۔ آصف کی "موضوع کی ضرورت سے زیادہ وضاحت۔ بذات خود ایک ایک درجہ یا کلاس ہے۔" [56] مزید یہ کہ شہنشاہ اکبر اپنی ذاتی خواہشات اور قوم کے لیے اپنے فرائض کے درمیان میں جدوجہد کرتا ہے۔ [56] آشیس نندی نے مزید کہا کہ اکبر اور اس کے بیٹے کے درمیان میں تنازعات کے علاوہ، اکبر اور بہار کے درمیان میں ایک "غیر تحریری اتحاد" بھی ہے جو انارکلی کے مسائل کو پیچیدہ بناتا ہے۔آشیس مزید کہتا ہے کہ یہ فلم روایت کو برقرار رکھنے کے لیے "انصاف کے خیال اور غیر مشروط محبت کے تصور" کو اجاگرکرتی ہے ا۔ [57] انارکلی کا گایا ہوا گانا پیار کیا تو ڈرنا کیا ان کے معاشرتی اصولوں کی خلاف ورزی کا اشارہ تھا۔ [58]متیاز علی تاج کے اصل ڈرامے اور اس فلم کی کہانی میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ امتیاز علی تاج کی کہانی پر مبنی اس سے پہلے کی بنی ہوئی انارکلی فلمیں سانحات کے طور پر ختم ہوئیں، کے آصف نے نسبتاً خوش کن انجام پیدا کیا کہ اکبر نے انارکلی کو ایک چپکے سے فرار ہونے کی اجازت دے کر اسے معافی دے دی۔اس فلم میں اکبر نے انارکلی کودیوار میں بنے ایک چھوٹے سوراخ سے فرار کرایا حالانکہ اس کے بیٹے کو یہ یقین کرنے میں تکلیف اٹھانا پڑتی ہے کہ انار کلی ہلاک ہو گئی ہے۔ [59]

تاریخی غلطیاں[ترمیم]

painting of Jahangir (Salim) holding a painting of Akbar
اکبر کے پورٹریٹ کے ساتھ جہانگیر، 1614 عیسوی۔ فلم میں جہانگیر (سلیم) اور اکبرکو مرکزی کردار میں دکھایا گیا ہے۔

یہ فلم ایک افسانوی کہانی پر مبنی ہے، لیکن اس کہانی کی تصدیق کم از کم دو تحریروں سے ہوتی ہے جو شہنشاہ اکبر کے تاریخی دور (1556–1605) کے دوران میں انارکلی کے وجود پر زور دیتی ہیں۔ان دو ماخذوں جو کتب ہیں میں سے ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ 1615ء میں سلیم نے لاہور میں انارکلی کی قبر پر سنگ مرمر کا مقبرہ بنایا تھا، جب وہ شہنشاہ جہانگیر بن چکا تھا۔ [60] مقبرے پر ایک فارسی تحریر ہے جس پر لکھا ہے: 'تا قیامت شکر گوئم کردگار خویش را آہ گر من بازنیئم، روئے یار خویش را(اے کاش کہ اگر میں اپنے دوست کا چہرہ دوبارہ دیکھ پاؤں، تو قیامت تک اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا رہوں۔)" اس اسٹیج ڈرامے کے مصنف جس پر فلم کی بنیاد رکھی گئی ہے، امتیاز علی تاج کا خیال تھا کہ اس افسانے کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے، [61] لیکن مورخین کا خیال ہے کہ انارکلی شاید ایک مصورہ، رقاصہ یا ایک درباری ہو سکتی ہے یا پھراکبر کی بیویوں میں ایک اورشہزادہ سلیم کے سوتیلے بھائی شہزادہ دانیال مرزا کی والدہ بھی ہو سکتی ہے۔ [62]۔ انارکلی پر بننے والی پرانی فلموں جیسے 1952ء میں بنی فلم انار کلی کے شروع میں فلم ساز باقاعدہ واضح کرتے ہیں کہ اس کہانی کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں لیکن کے آصف کی مغل اعظم فلم کے حوالے سے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ [60]

مغل اعظم تاریخی حقیقت سے بہت حد تک الگ ہے۔ مورخ الیکس وون ٹنزلمن کا کہنا ہے کہ حقیقی سلیم 18 سال کی عمر سے شراب اور افیون کا بہت زیادہ استعمال کرتا تھا، ضروری نہیں کہ وہ ویسا ہی شرارتی ہو جیسا فلم میں دکھایا گیا ہے۔فلم میں دکھایا گیاہے کہ جب شہزادہ سلیم فوج میں کافی وقت گزار کر واپس آتا ہے تو اسے حقیقی سلیم کے برعکس نرم مزاج اور رومانوی ہیرو کے طور پر دکھایا گیاہے جبکہ حقیقی سلیم کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ایک سفاک شرابی تھا اور لوگوں کو مار مار کر قتل بھی کر دیتا تھا۔ حقیقی سلیم نے اپنے والد کے خلاف بغاوت کی قیادت کی اور خود کو شہنشاہ بنانا چاہا۔اس نے اکبر کے دوست ابو الفضل کو 1602ء میں قتل کر دیا، لیکن فلم میں ان کارروائیوں کی وجہ انارکلی سے شادی کرنے کی خواہش بتایا گیا ہے، جو تاریخی طور پر غلط ہے۔[62] مزید یہ کہ فلم کے سیٹ، ملبوسات اور موسیقی میں بھی تضادات تھے۔ شیش محل، جو دراصل ملکہ کا شاہی حمام تھا، کو فلم میں ایک ڈانسنگ ہال کے طور پر دکھایا گیا تھا اور اس سے کہیں زیادہ بڑا دکھایا گیا۔فلم میں انیسویں صدی کی موسیقی اور رقص کے انداز کو دکھایا گیا ہے جبکہ فلم کی کہانی 16 ویں صدی کی ہے۔ مثال کے طور پر ٹھمری، ایک نیم کلاسیکی موسیقی کی شکل ہے جو انیسویں صدی میں تیار ہوئی۔ اس ٹھمری کو کتھک رقص میں اپنایا گیا ہے۔ یہ رقص 16ویں صدی کا رقص ہے۔[62]

موسیقی[ترمیم]

اس فلم کا ساؤنڈ ٹریک میوزک ڈائریکٹر نوشاد نے ترتیب دیا تھا اور اس کے گانوں کے بول شکیل بدایونی نے لکھے تھے۔جب آصف کو اس فلم کا خیال آیا تو وہ نوشاد سے ملنے گئے اور انھیں رقم سے بھرا ایک بریف کیس دیا۔ آصف نے نوشاد کو کہا کہ وہ مغل اعظم کے لیے یادگار موسیقی ترتیب دیں۔نوشاد اس بات پر غصہ ہو گئے کہ آصف نے پیسے کو موسیقی کا معیار کس طرح مان لیا۔ انھوں نے رقم کے نوٹ کھڑکی سے باہر پھینک دیے۔ اس پر نوشاد کی بیوی بھی حیران رہ گئیں۔ آخر نوشاد کی بیوی نے ہی نوشاد اور آصف کی صلح کرائی۔جس کے بعد آصف نے نوشاد سے معافی بھی مانگی۔ اس کے ساتھ ہی نوشاد نے فلم کے ساؤنڈ ٹریک ڈائریکٹر کی ذمہ داریاں بھی قبول کر لیں۔نوشاد کے دیگر ساؤنڈ ٹریکس کی طرح مغل اعظم کے گیت بھی ہندوستانی کلاسیکی موسیقی اور لوک موسیقی سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ خاص طور پر راگ جیسے درباری اور درگا (راگ) کو ”پیار کیا تو ڈرنا کیا“ میں استعمال کیا گیاہے۔اسی طرح کیداراراگ کو ”بے کس پر کرم کیجیے“ میں استعمال کیا گیاہے۔ نوشاد نے اس فلم کی موسیقی میں شان و شوکت کو بڑھانے کے لیے سمفنی آرکسٹرا اور کورسز کا بھی وسیع استعمال کیا گیا ہے [63] اس فلم کے ساؤنڈ ٹریک میں کل 12 گانے تھے، جنہیں پلے بیک گلوکاروں اور کلاسیکی موسیقی کے فنکاروں نے پیش کیا تھا۔ یہ گانے فلم کے چلنے والے وقت کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہیں۔ [64]۔ اس فلم کے گانے کچھ اس طرح سے ہیں۔

تمام بول شکیل بدایونی نے لکھے; تمام موسیقی نوشاد نے کمپوز کی۔

نمبر.عنوانگلوکارطوالت
1."موہے پنگھٹ پے"لتا منگیشکر اور سنگت04:02
2."پیار کیا تو ڈرنا کیا"لتا منگیشکر اور سنگت06:21
3."محبت کی جھوٹی"لتا منگیشکر02:40
4."ہمیں کاش تم سے محبت"لتا منگیشکر03:08
5."بے کس پے کرم کیجئے"لتا منگیشکر03:52
6."تری محفل میں"لتا منگیشکر، شمشاد بیگم اور سنگت05:05
7."یہ دل کی لگی کم"لتا منگیشکر03:50
8."اے عشق یہ سب دنیا والے"لتا منگیشکر04:17
9."خدا نگہبان"لتا منگیشکر02:52
10."اے محبت زندہ باد"محمد رفیع اور سنگت05:03
11."پریم جوگن پن کے"بڑے غلام علی خان05:03
12."شبھ دن آیو راج دلارا"بڑے غلام علی خان02:49
کل طوالت:49:02

مارکیٹینگ[ترمیم]

ایک پینٹر جی کمبلے کو وی شانتا رام کے راج کمال کلماندر نے اس فلم کے پوسٹر پینٹ کرنے کا لالچ دیا۔ کمبلے نے مراٹھا مندر تھیٹر کے سینما ڈسپلے بھی بنائے۔ [65]اس فلم کے پوسٹر کی تیاری کے لیے آصف کو ہندوستان بھر میں دستیاب ونسر اینڈ نیوٹن پینٹ کا تمام سٹاک چھ لاکھ بھارتی روپے میں خریدنا پڑا تاکہ کمبلے اعلیٰ معیار کے ہورڈنگز بنا سکے۔کمبلے کو مغل اعظم کے مجسموں کی تیاری کے لیے 8 لاکھ کی بڑی رقم کی پیشکش کی گئی تھی لیکن ان کی دھوکا دہی کی وجہ سے آخر میں انھیں کوئی معاوضہ نہیں ملا۔ [66]

ریلیز[ترمیم]

جب مغل اعظم ریلیز ہوئی اس وقت بالی وڈ کی ایک عام فلم کے لیے ڈسٹری بیوشن فیس تین سے چار لاکھ فی علاقہ ہوتی تھی۔ جو 1960ء میں تقریباً US$63,000–84,000 1960 بنتے ہیں۔ آصف کا اصرار تھا کہ وہ اس فلم کو تقسیم کاروں کو 700,000 فی علاقہ سے کم میں فروخت نہیں کریں گے۔تاہم یہ فلم 17 لاکھ بھارتی روپے یا 3 لاکھ 56 ہزار ڈالر فی علاقہ میں فروخت ہوئی۔اس قیمت سے تو آصف اور پروڈیوسر بھی حیران رہ گئے۔مغل اعظم نے اپنے وقت میں سب سے زیادہ قیمت میں فروخت ہو کر ایک ریکارڈ قائم کیا تھا۔ [67] مغل اعظم کا پریمیئر ممبئی میں اس وقت کے بالکل نئے بننے والے سینما مراٹھا مندر میں ہوا۔ اس سینما میں 1,100 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ [68]مراٹھا مندر سینما کو فلم کی نوعیت کے مطابق مغلوں کے محل کی طرح سجایا گیا۔ سینما کے باہر راج کپور کا 40-فٹ (12 میٹر) کٹ آؤٹ لگایا گیا۔۔ [69] فلم کی شوٹنگ کے لیے بنائے گئے شیش محل کے سیٹ کو سٹوڈیو سے سنیما تک پہنچایا گیا، جہاں ٹکٹ ہولڈر اندر جا کر اس کی شان و شوکت دیکھ سکتے تھے۔[70] فلم کے پریمیئر کے دعوت نامے "شاہی دعوت نامے" کی طرز پر بھیجے گئے تھے جو طوماروں کی شکل میں تھے اوراردو میں لکھے گئے تھے اور اکبر نامہ کی طرح بنائے گئے تھے، جو اکبر کے دور حکومت کی سرکاری تاریخ ہے۔ [71] پریمیئر بڑے دھوم دھام سے منعقد ہوا۔ دلیپ کمار آصف کے ساتھ اپنے تنازع کی وجہ سے تقریب میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ فلم کی ریلز سجے ہوئے ہاتھی کے اوپر مراٹھا مندر سنیما میں پہنچی، جس کے ساتھ بگل اور شہنائی کی بجائی جا رہی تھی۔ [32]

پزیرائی[ترمیم]

باکس آفس[ترمیم]

ایک رپورٹ کے مطابق جس دن فلم کے ٹکٹوں کی بکنگ شروع ہونی تھی، اس سے ایک دن پہلے مراٹھا مندر سینما کے باہر ایک لاکھ لوگوں کی بھیڑ جمع تھی جو ٹکٹ خریدنا چاہتی تھی۔اپنے وقت میں یہ کسی بھی بالی وڈ فلم کی مہنگی ترین ٹکٹ تھی۔ اس ٹکٹ پر فلم سے متعلق ٹیکسٹ، تصاویر اور چند اور باتیں درج تھیں۔ آج ان ٹکٹوں کو نایاب سمجھا جاتا ہے اور لوگ اپنی کلیکشن میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس فلم کے ٹکٹ کی مالیت 100 (1960 میں تقریباً 21 امریکی ڈالر کی قیمت تھی)۔ ٹکٹ کے مہنگا ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1960 میں بھارت میں 10 گرام سونے کی قیمت 112 بھارتی روپے تھی۔ ان دنوں ایک عام بھارتی فلم کی ٹکٹ ڈیڑھ یا (US$0.31) ہوتی تھی۔ بکنگ کے دوران میں کافی افراتفری ہوئی۔ انتظامیہ کو معاملات سنبھالنے کے لیے پولیس کی مدد لینا پڑی۔کہا جاتا ہے کہ اس فلم کے ٹکٹ لینے کے لیے لوگوں نے چار سے پانچ دن قطاروں میں انتظار کیا اور انھیں اُن کے گھروالوں نے گھروں سے کھانا فراہم کیا گیا۔ [72] اس کے بعد، مراٹھا مندر کی انتظامیہ نے تین ہفتوں کے لیے بکنگ بند کر دی۔ [19] مغل اعظم 5 اگست 1960 کو ملک بھر کے 150 سینماؤں میں ریلیز ہوئی۔اتنے زیادہ سینماؤں میں ایک ساتھ ریلیز ہو کر بھی بھی مغل اعظم نے ایک ریکارڈ قائم کیا۔اس فلم نے ریلیز کے ابتدائی ہفتے میں 40 لاکھ (US$839,000)کما کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔ [lower-alpha 1]، [73][74] مغل اعظم نے 55 ملین (US$11,530,000)، [lower-alpha 1] کا کاروبار کیا اور پروڈیوسروں کو 30 ملین کا منافع دیا۔یہ فلم طویل عرصہ تک سینماؤں میں لگی رہی۔ مراٹھا مندر سینما میں یہ تین سال تک چلتی رہی۔ [69] سب سے زیادہ کمائی کرنے میں بھی مغل اعظم مدر انڈیا (1957) کو پیچھے چھوڑ گئی۔اس فلم کے سب سے زیادہ کمائی کے ریکارڈ کو شعلے (1975) نے توڑا تھا۔ [26] مجموعی آمدنی کے لحاظ سے، مغل اعظم نے 110 ملین ) کمائے۔ [5][75]

2009 میں دی ہندو کے ضیاء سلام نے بتایا کہ اگر افراط زر کو ملحوظ رکھا جائے تو 'مغل اعظم اب تک کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی بالی ووڈ فلم تھی۔ آن لائن باکس آفس ویب گاہ باکس آفس انڈیا کے مطابق جنوری 2008 میں، فلم کی ایڈجسٹ شدہ خالص آمدنی ₹1,327 ملین تھی، اسے "آل ٹائم بلاک بسٹر" کے طور پر درج کیا گیا۔ [76] باکس آفس انڈیا کے مطابق جون 2017 میں، مغل اعظم کے دیکھنے والوں کی تعداد 10 کروڑ سے زیادہ ہو سکتی ہے، یعنی اس فلم کو بلحاظ ناظرین ہم آپ کے ہیں کون (1994) اور باہوبلی 2 (2017) سے زیادہ لوگوں نے دیکھا۔ مالیاتی اخبار منٹ کے مطابق، مغل اعظم کی ایڈجسٹ شدہ خالص آمدنی 2017 میں ₹13 بلین جو 2021ء میں (امریکی ڈالر176 ملین) کے برابر بنتی ہے۔

تنقید[ترمیم]

مدھوبالا نے اپنی اداکاری کے ساتھ ساتھ بہترین اداکارہ کے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نامزد ہو کر بڑے پیمانے پر تعریفیں حاصل کیں۔

مغل اعظم کو ہندوستانی ناقدین کی طرف سے عالمی سطح پر کافی پزیرائی ملی۔ فلم کے ہر پہلو کو سراہا گیا۔ [77] فلم فیئر جریدے میں 26 اگست 1960 [78] کوشائع ہونے والے ایک جائزے میں مغل اعظم کو ایک "تاریخ سازفلم اور فن کی دنیا کے مختلف شعبوں کے تخلیقی فنکاروں کی ٹیم کا کام قرار دیا۔انھوں نے اس فلم کے بنانے والے جناب آصف کے تخیل، محنت اور شاہانہ پن کو بھی خراج تحسین پیش کیاانہوں نے لکھا کہ اس فلم کو اس کی شان و شوکت، اس کی خوبصورتی اور پھر فنکاروں کی پرفارمنس کے لیے اسے ہندوستانی فلموں میں ایک سنگ میل ہونا چاہیے۔" [79] ایک اور معاصر جریدے دی انڈین ایکسپریس نے مدھوبالا کی اداکاری اور رقص کو تحفہ قرار دیا۔2000ء سے، جائزہ نگار اس فلم کو ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں ایک "کلاسک"، "بینچ مارک" یا "سنگ میل" قرار دیا رہے ہیں۔ [12] 2011 میں، انوپما چوپڑا نے خاص طور پر پرفارمنس، باپ بیٹے کے ڈرامے اور گانوں کی ترتیب کو نوٹ کرتے ہوئے اسے "اب تک کی سب سے بہترین ہندی فلم" اور "ہندی فلم کی شکل کا دیوتا قرار دیا۔ [80] ریڈف کے دنیش راہیجا نے فلم کو لازمی طور پر دیکھنے والی کلاسک قراردیا۔ [12] پلینیٹ بالی ووڈ کی سجاتا گپتا نے فلم کو دس میں سے نوسٹار اور اسے لازمی دیکھنے والی فلم قرار دیا جس نے نسلوں سے لوگوں کی دلچسپی کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ [81] کے کے رائے نے سٹارڈسٹ کے لیے اپنے جائزے میں کہا، "یہ کہا جا سکتا ہے کہ مغل اعظم کے شاندار اور پرانے کردار کو دہرایا نہیں جا سکتا اور اسے اس ملک میں بننے والی سب سے اہم فلموں میں سے ایک کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔" [67] دی ہندو کے ضیاء سلام نے مغل اعظم کو ایک ایسی فلم کے طور پر بیان کیا جو لوگ بار بار دیکھنا چاہیں گے۔ ریڈیف کے راجا سین نے اس فلم کا موازنہ سپارٹیکس (1960) سے کیا ۔۔۔ کا ۔۔۔!" [82] بی بی سی کی لورا بشیل نے فلم کو پانچ میں سے چار ستاروں کی درجہ بندی کی، اسے "ہندوستانی سنیما اور عام طور پر سنیما کی عظمت دونوں کے لیے ایک معیار کی فلم" قرار دیا اور کہا کہ مغل اعظم ہر لحاظ سے ایک بینچ مارک فلم تھی۔ [83] برٹش فلم انسٹی ٹیوٹ کے لیے فلم کا جائزہ لیتے ہوئے نمن رام چندرن نے اس فلم میں مذہبی رواداری کی عکاسی کو نوٹ کیا [84]

کے آصف کے مغل اعظم کے لافانی ڈائیلاگ کی مصنفہ نسرین مُنّی کبیر نے فلم کا موازنہ کوہ نور ہیرے سے کیا کیونکہ اس کی ہندوستانی سنیما میں پائیدار قیمت ہے۔ آؤٹ لک، 2008 میں اور ہندوستان ٹائمز، 2011 میں، دونوں نے سلیم کے انارکلی کو شتر مرغ کے پنکھ سے چھیڑنے کے منطر کو، ہندوستانی سنیما کی تاریخ کا سب سے شہوانی، شہوت انگیز اور حساس منظرقرار دیا

تعریفیں[ترمیم]

1961 کے نیشنل فلم ایوارڈز میں مغل اعظم نے ہندی میں بہترین فیچر فلم کا نیشنل فلم ایوارڈ جیتا۔ [85] 1961 کے فلم فیئر ایوارڈز میں، مغل اعظم کو سات زمروں میں نامزد کیا گیا: بہترین فلم، بہترین ہدایت کار (آصف)، بہترین اداکارہ (مدھوبالا)، بہترین پلے بیک گلوکار (منگیشکر)، بہترین موسیقی (نوشاد)، [86]۔ [87] بہترین سنیماٹوگرافی (ماتھر) اور بہترین مکالمہ (امان، وجاہت مرزا، کمال امروہی اور احسان رضوی)۔ فلم نے بہترین فلم، بہترین سنیماٹوگرافی اور بہترین مکالمے کے ایوارڈز جیتے۔ [88][89]

ایوارڈ کیٹیگری نامزدگی نتیجہ
آٹھویں نیشنل فلم ایوارڈز ہندی میں بہترین فیچر فلم کے آصف فاتح
آٹھویں نیشنل فلم ایوارڈز فلم فیئر اعزاز برائے بہترین فلم
فلم فیئر اعزاز برائے بہترین ہدایت کار نامزد
فلم فیئر اعزاز برائے بہترین اداکارہ مدھوبالا
بہترین میوزک ڈائریکٹر نوشاد
بہترین نغمہ نگار شکیل بدایونی پیار کیا تو ڈرنا کیا کے لیے
فلم فیئر اعزاز برائے بہترین پس پردہ گلوکارہ لتا منگیشکر پیار کیا تو ڈرنا کیا کے لیے
بہترین مکالمہ امان، وجاہت مرزا، کمال امروہی، احسان رضوی فاتح
بہترین سنیماٹوگرافی بلیک اینڈ وائٹ آر ڈی ماتھر

رنگ کاری[ترمیم]

black-and-white film scene above a colourised version of the same scene
اصل ( اوپر ) اور رنگین ورژن کے درمیان موازنہ

مغل اعظم پہلی بلیک اینڈ وائٹ ہندی فلم تھی جسے ڈیجیٹل رنگین کر کے دوبارہ تھیٹر پر ریلیز کیا گیا۔ [90] سٹرلنگ انویسٹمنٹ کارپوریشن، جس کے پاس اس فلم کی ریل یعنی نیگیٹیو کے حقوق تھے، [91] اور شاپور جی پالونجی گروپ کے ایک حصے نے مغل اعظم کی بحالی اور رنگ کاری(Colourisation) کے کام کا بیڑا اٹھایااس منصوبے کے لیے دیپیش سالگیا کو پروجیکٹ ڈیزائنر اور ڈائریکٹر کے فرائض سوپنے گئے۔ انھوں نے ابتدائی طور پر ہالی ووڈ کے ماہرین سے مدد لینے کا فیصلہ کیا لیکن ہالی وڈ کے ماہرین نے اس کام کا تخمینہ 12 سے 15 ملین ڈالر بتایا جو بہت زیادہ تھا۔ 2002ء میں [90] 2002 انڈین اکیڈمی آف آرٹس اینڈ اینی میشن (IAAA) کے منیجنگ ڈائریکٹر عمر صدیقی نے اسے ڈیجیٹل طور پر رنگین کرنے کی تجویز پیش کی، جس سے لاگت پر میں بہت کمی آ سکتی تھی۔ [90] شاپور جی پالونجی گروپ کو، جو بھارت کی سب سے امیر کمپنیوں میں سے ایک ہے، کو اس پراجیکٹ کے قابل عمل ہونے کے لیے آئی اے اے اے نے چار منٹ کے کلپ کو رنگین کیا اور شاپور جی پالونجی گروپ کو دکھایا، جنھوں نے اس کی منظوری دے دی۔جس کے بعد اس منصوبے کو آگے بڑھایا گیا۔ مغل اعظم کے پروڈیوسر شاپور جی پالون جی مستری کے پوتے شاپور جی مستری اس پوری فلم کو رنگین کر کے اپنے دادا کے ادھورے خواب کو پورا کر کے انھیں خراج تحسین پیش کرنا چاہتے تھے۔ان کے دادا ہی اصل میں اس فلم کو رنگین بنانا چاہتے تھے۔ اس فلم کو رنگین کرنے کے لیے پہلا قدم اصل نیگیٹیوز کی بحالی تھی، جو اصل تھیٹر میں ریلیز کے دوران میں نیگیٹیوز کی وسیع پرنٹنگ کی وجہ سے خراب حالت میں تھے۔اس فلم کو رنگین بنانے سے پہلے ان نیگیٹیو پر بہت زیادہ خرچ اور محنت کرنے کی ضرورت تھی۔فلم کو رنگین بنانے کے لیے پہلے نیگیٹیوز پر سے پھپھوندی کو صاف کیا گیااور پھر خراب حصوں کو بحال کیا گیا۔اس کے بعد فریم کے گمشدہ حصوں کو دوبارہ سیٹ کیا گیا۔ [92]صفائی کے بعد نیگیٹیوز کے 300,000 فریموں میں سے ہر ایک کو 10 میگا بائٹ سائز کی فائل میں سکین کیا گیا اور پھر انھیں ڈیجیٹل طور پر بحال کیا گیا۔ بحالی کا پورا کام ایکریس لیب، چنئی نے کیا تھا۔ [93] اصل ساؤنڈ ٹریک کے مکالمے بھی خراب حالت میں تھے، ریاستہائے متحدہ میں واقع چیس اسٹوڈیو میں آواز کو صاف کیا گیا۔ بیک گراؤنڈ اسکور اور پورے میوزیکل ٹریک کو نوشاد اور اتم سنگھ نے دوبارہ بنایا تھا۔ گانوں کے لیے، لتا منگیشکر، بڑے غلام علی خان اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کی اصل آوازیں اصل مکس ٹریک سے نکالی گئیں اور انھیں 6.1 سراؤنڈ ساؤنڈ میں دوبارہ ریکارڈ شدہ اسکور کے ساتھ دوبارہ بنایا گیا۔ [94] اس فلم کو رنگین بنانے کا کام کافی تحقیق کے بعد شروع کیا گیا۔ فلم کی آرٹ ٹیم نے مختلف عجائب گھروں کا دورہ کیا اور اس وقت پہنے جانے والے لباس کے مخصوص رنگوں کے پس منظر کا خصوصی معائنہ کیا۔ صدیقی نے بلیک اینڈ وائٹ ہالی ووڈ کلاسیکی فلموں کو رنگین بنانے والی ٹیکنالوجی کا مطالعہ کیا۔ ٹیم نے رہنمائی اور تجاویز کے لیے متعدد ماہرین سے بھی رابطہ کیا، جن میں دلیپ کمار، پروڈکشن ڈیزائنر نتن چندرکانت دیسائی اور دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ایک مورخ شامل ہیں۔ رنگ سازی کو شروع کرنے کے لیے، صدیقی نے تقریباً 100 افراد کی ایک ٹیم کو جمع کیا، جن میں کمپیوٹر انجینئرز اور سافٹ ویئر پروفیشنلز شامل تھے اور آرٹ کے متعدد شعبوں کو منظم کیا۔ اس پورے پروجیکٹ کو دیپیش سالگیا نے مربوط کیا، جس نے رنگ سازی کو انجام دینے کے لیے آئرس انٹرایکٹیو اور راج تارو سٹوڈیو کے ساتھ بھی شراکت داری کی۔ پروڈیوسر خود اس کام کی نگرانی کر رہے تھے، جنہیں روزانہ کام کے حوالے سے رپورٹ دی جاتی تھی۔ [95] فلم کو رنگین کرنے کے لیے جو سافٹ وئیر استعمال کیا گیا اسے "ایفیکٹس پلس" کا نام دیا گیا۔ اس کی تیاری میں 18 ماہ صرف ہوئے۔ یہ سافٹ وئیر یا پروگرام صرف اصل فلم میں موجود سرمئی رنگ سے ملتے جلتے شیڈز کو ہی قبول کرتا تھا۔ ٹیم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ فلم کے رنگ حقیقت سے قریب تر ہوں۔ رنگ کاری [92] کے اصل رنگوں کی تصدیق اس وقت ہوئی جب فلم میں استعمال شدہ لباس ایک گودام سے ملے۔ ان کا رنگ وہی تھا، جنہیں فلم کو رنگین کرتے ہوئے استعمال کیا گیا تھا۔ریل کے ہر شاٹ کو آخر کار ہاتھ سے درست کیا گیا تاکہ بہترین نظر آئے۔ [96] رنگ کاری کے اصل عمل کو مکمل ہونے میں مزید 10 ماہ لگے۔ [92] صدیقی کے مطابق یہ دن رات مسلسل کرنے والا کافی محنت طلب کام تھا [97] اس فلم کو رنگین بنانے میں جو رقم خرچ ہوئی اس کی صحیح لاگت منتازعہ ہے، 20 million (امریکی $280,000) [97] اس فلم کو رنگین بنانے کی لاگت 2 کروڑ یا ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر سے یا 5 کروڑ یا 10 کروڑ بتائی جاتی ہے۔ [98]

دوبارہ اجرا[ترمیم]

مغل اعظم کا رنگین 12 نومبر 2004ء کو تھیٹر میں ریلیز کیا گیا تھا، ہندوستان بھر میں اس کے150 پرنٹس جاری کیے گئے۔ ان میں سے 65 پرنٹس صرف مہاراشٹر میں جاری کیے گئے۔رنگین مغل اعظم کا پریمیئر ممبئی کے ایروس سنیما میں ہوا۔ دلیپ کمار، جو 1960ء میں بلیک اینڈ وائٹ مغل اعظم کے پریمیر میں شریک نہیں ہوئے تھے، اب حاضرین میں شامل تھے۔مغل اعظم کا بلیک اینڈ وائٹ ورژن 197 منٹ کا تھا اس کے مقابلے میں رنگین ورژن کو 177 منٹ تک محدود کر دیا گیا۔ [92][99]۔ [49] نئی رنگین ریلیز میں وہ ساؤنڈ ٹریک بھی شامل کیا گیا ہے جس پر ڈیجیٹلی دوبارہ کام کیا گیا تھا۔اس ساؤنڈ ٹریک کو اصل موسیقار نوشاد کی مدد سے تیار کیا گیا۔مغل اعظم کو دیوالی کے تہوار پر ریلیز کیا گیا۔ اس ویک اینڈ پر تین دیگر بڑی فلمیں ویر زارا، اعتراض اور ناچ بھی ریلیز ہوئی۔ رنگین مغل اعظم کمائی میں اعتراض اور ویر زارا سے تو پیچھے رہی لیکن ناچ سے زیادہ کمائی کی۔ اس سال وہ سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلموں کی فہرست میں 19ویں نمبر پرتھی۔ [100]

مغل اعظم وہ پہلی فلم بھی بن گئے جسے رنگین کرنے کے بعد تھیٹر میں ریلیز کیا گیا یا جسے تھیٹر میں ریلیز کرنے کے لیے رنگین کیا گیا۔ اگرچہ اس سے پہلے کچھ ہالی ووڈ فلموں کو پہلے رنگین کیا گیا تھا لیکن وہ صرف گھریلو میڈیا کے لیے دستیاب تھیں۔ اس کے بعد مغل اعظم کو سات بین الاقوامی فلمی میلوں کے لیے منتخب کیا گیا، جس میں 55واں برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول بھی شامل ہے۔ ریلیز ہونے پر، فلم نے سنیما گھروں میں فلمی شائقین کو اپنی طرف راغب کیاسینماؤں میں شائقین کا مغل اعظم کی طرف رجحان تقریباً 90 فیصد تھا۔ [97] یہ فلم 25 ہفتوں تک سینماؤں پر لگی رہی۔ [101]کچھ نقادوں رنگین فلم کے رنگوں کو غیر فطری قرار دیا جبکہ دیگر نے اس کوشش کو تکنیکی کامیابی قرار دیا۔ [97] لاس اینجلس ٹائمز کے فلمی نقاد کیون تھامس نے تبصرہ کیا کہ اگرچہ زیادہ تر بلیک اینڈ وائٹ کلاسک فلموں کے لیے رنگ کاری اچھا خیال نہیں تھا، لیکن اس خاص موقع یا فلم مثال میں یہ بالکل مکمل اور درست تھا۔ انھوں نے اس کا موازنہ سیسل بی ڈی مل کی گون ود دی ونڈ (1939) سے کیا۔ دی گارڈین نے کہا کہ اگرچہ نیا ورژن ایک بہتری ہے، "جعلی رنگ چپٹے اور چمکدار نظر آتے ہیں، جو سنیماٹوگرافر آر ڈی ماتھر کے خوبصورت انداز میں بنائے گئے شاٹس سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔" بی بی سی کے جسپریت پنڈوہر نے فلم میں دلکش کینڈی رنگوں اور اعلیٰ معیار کی آواز کو "گون ود دی ونڈ اور بین حر کے درمیان میں کراس کی طرح قرار دیا۔ [102] کئی ناقدین نے کہا کہ وہ رنگین پر بلیک اینڈ وائٹ فلم کو ترجیح دیتے ہیں۔ 2006 میں، مغل اعظم 1965 میں ہندوستانی سنیما پر پابندی کے بعد سے پاکستان میں نمائش کے لیے چوتھی ہندوستانی فلم بن گئی۔ مغل اعظم کو لاہور میں ایک پریمیئر کے ساتھ ریلیز کیا گیا۔ [103] اسے ندیم مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ نے آصف کے بیٹے اکبر آصف کی درخواست پر ڈسٹری بیوٹ کیا تھا۔ [104]

ورثہ[ترمیم]

مغل اعظم کے ہدایت کار کے آصف نے مغل اعظم سمیت دو فلمیں ہی ڈائریکٹ کی تھیں۔ ان کی دوسری نامکمل فلم کو ان کی وفات کے بعد خراج تحسین کے طور پر ریلیز کیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغل اعظم بالی وڈ میں ایک استعارہ بن گیا، جو ایسے پراجیکٹ کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جسے مکمل ہونے میں بہت وقت لگتا ہو۔آرٹ ڈائریکٹر اومنگ کمار، جنھوں نے بڑی ہندوستانی فلموں جیسے کہ بلیک (2005) اور ساوریا (2007) کے سیٹ ڈیزائن کیے ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے شعبے میں دیگر لوگ مغل اعظم کو آرٹ ڈائریکشن کے لیے ایک تحریک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسے کامل محبت کی کہانی کے ماڈل کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے، جس کے لیے ہدایت کاروں کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ محبت کرنے والوں کی رکاوٹوں کو دور کریں۔ [105] فلم میں اپنی کامیابی کے بعد، مدھوبالا مزید اہم کرداروں میں کام کر سکتی تھیں، لیکن انھیں دل کی حالت کی وجہ سے زیادہ کام نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا اور انھیں کچھ پروڈکشنز سے دستبردار ہونا پڑا جو پہلے سے جاری تھیں۔ [12][106]

دی گارڈین نے 2013 میں مغل اعظم کو اس کی تاریخی غلطیوں کے باوجود "سینما کا سنگ میل" قرار دیا اور بی بی سی نے 2005 میں کہا کہ اسے "بڑے پیمانے پر بالی ووڈ کی سب سے مشہور فلموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے"۔ [102] 2010 میں ٹائمز آف انڈیا کے امتیاز علی نے اسے آنے والی فلموں کے لیے معیار قرار دیا۔ ناقدین مغل اعظم کو ہندوستان میں گون ود دی ونڈ کے مساوی سمجھتے ہیں۔ [107] فلم ساز سبھاش گھئی نے 2010 میں کہا کہ اس طرح کی فلم کو دوہرایا نہیں جا سکتا۔ مغل اعظم ایک ہمہ وقتی کلاسک ہے اور ہندی سنیما میں ہر سطح پر آخری محبت کی کہانی رہی ہے۔ اس لیے یہ آنے والی نسلوں تک ہمیشہ زندہ رہے گا۔" فلم کی سالگرہ کی یاد میں، اداکار اور پروڈیوسر شاہ رخ خان نے اپنی کمپنی ریڈ چلیز انٹرٹینمنٹ کے تحت ایک دستاویزی فلم تیار کیا، جس کا عنوان ”مغل اعظم: - بیٹے کی طرف سے اپنے باپ کو خراج تحسین”۔ اس دستاویزی فلم میں خان نے ہی میزبانی کی۔ انھوں نے اس میں آصف کے خاندان اور بالی ووڈ ستاروں کے انٹرویوز شامل ہیں۔ آرٹسٹ ایم ایف حسین نے ویڈیو کے لیے پینٹنگز کا ایک سلسلہ بنایا، جس میں انھوں نے کچھ یادگار مناظر کی دوبارہ تصویر کشی کی۔ فلم کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوئے، خان نے بتایا کہ ان کے والد کو اصل میں فلم میں کاسٹ کیا گیا تھا لیکن انھوں نے اسے مکمل نہیں کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا مغل اعظم کو دوبارہ بنایا جائے تو انھوں نے جواب دیا: "یہ تمام فلموں کی ماں ہے، ماؤں کو دوبارہ نہیں بنایا جا سکتا"۔ [108] مغل اعظم کے کوئی سیکوئل تو نہیں بنائے گئے، لیکن مان گئے مغل اعظم (2008) نے اپنے ٹائٹل اور کہانی میں پلاٹ کا کچھ حصہ شامل کر کے اسے خراج تحسین پیش کیا ہے تاہم اسے ناقدین کی طرف سے انتہائی ناقص ریٹنگ ملی۔ اکتوبر 2016 میں، پروڈیوسر فیروز عباس خان نے ممبئی کے این سی پی اے تھیٹر میں 70 سے زیادہ اداکاروں اور رقاصوں کی کاسٹ کے ساتھ فلم پر مبنی ایک اسٹیج ڈرامے کا پریمیئر کیا۔ [109]

مغل اعظم سرفہرست ہندوستانی فلموں کی فہرست میں شامل ہے، 2002 کے برٹش فلم انسٹی ٹیوٹ کے سروے میں بھی مغل اعظم سرفہرست 10 ہندوستانی فلموں میں شامل ہے۔ [110] یہ انوپما چوپڑا کی 2009 کی بہترین بالی ووڈ فلموں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ [111] یہ آئی بی این لائیو کی 2013 کی "اب تک کی 100 عظیم ترین ہندوستانی فلموں" کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ [112] روٹن ٹماٹوز نے 10 جائزہ لینے والوں کا نمونہ لیا، ان میں سے 91% نے فلم کے لیے مثبت تجزیہ پیش کیا، جس کی اوسط درجہ بندی 10 میں سے 7.9 ہے [113] یہ باکس آفس انڈیا کی ہندی سنیما میں اب تک کی سب سے بڑی بلاک بسٹرز کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے، [114] اور جولائی 2013 میں برطانوی ایشیائی ہفتہ وار اخبار ایسٹرن آئی کی طرف سے ہندوستانی سنیما کے 100 سال منانے والے پول کے ذریعے اسے اب تک کی سب سے بڑی بالی ووڈ فلم قرار دیا گیا تھا۔ یہ فلموں کے ایک چھوٹے سے مجموعے سے تعلق رکھتی ہے جس میں قسمت (1943)، مدر انڈیا (1957)، شعلے (1975) اور ہم آپ کے ہیں کون۔۔! (1994)، جسے ہندوستان بھر میں بار بار دیکھا جاتا ہے اور ثقافتی اہمیت کی حتمی ہندی فلموں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ [143] فلم کے بارے میں کتابیں لکھی گئی اور دستاویزی فلمیں بنائی گئی، جن میں شکیل وارثی کی مغل اعظم: ایک لافانی محبت کی کہانی شامل ہیں۔اسے 2009 میں روپا نے شائع کیا۔ [115]

حواشی[ترمیم]

  1. 1960ء میں ایکسچینج ریٹ 4.77 بھارتی روپیہ () فی 1 امریکی ڈالر (US$) تھا۔[116]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. http://www.imdb.com/title/tt0054098/fullcredits — اخذ شدہ بتاریخ: 8 اپریل 2016
  2. http://www.bbfc.co.uk/releases/mughal-e-azam-1970 — اخذ شدہ بتاریخ: 8 اپریل 2016
  3. عنوان : मुग़ल-ए-आज़म
  4.   ویکی ڈیٹا پر (P480) کی خاصیت میں تبدیلی کریں "فلم کا صفحہ FilmAffinity identifier پر"— اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2024ء۔
  5. ^ ا ب "Box Office 1960"۔ Box Office India۔ 22 ستمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  6. https://dff.gov.in/images/Documents/106_8thNfacatalogue.pdf#page=5
  7. Roshmila Bhattacharya (9 مارچ 2018)۔ "This Week, That Year: Living a Mughal dream"۔ Mumbai Mirror۔ 2 مئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2018 
  8. ^ ا ب "Mughal E Azam Cast & Crew"۔ Bollywood Hungama۔ 2 مئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2018 
  9. Meghnad Desai (2004)۔ Nehru's Hero: Dilip Kumar, in the Life of India۔ Lotus Collection, Roli Books۔ صفحہ: 117۔ ISBN 9788174363114 
  10. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
  11. Raju Bharatan (25 دسمبر 2007)۔ "Composer without peer"۔ ہندوستان ٹائمز۔ 2 مئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2018 
  12. ^ ا ب پ ت ٹ Raheja, Dinesh (15 فروری 2003)۔ "Mughal-e-Azam: A work of art"۔ ریڈف ڈاٹ کوم۔ 17 اکتوبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جون 2012 
  13. Pauwels 2007, pp. 123, 125, 130.
  14. ^ ا ب پ ت Warsi 2009, p. 38.
  15. Ganti 2004, p. 152.
  16. ^ ا ب Warsi 2009, p. 39.
  17. Kabir, Nasreen Munni (31 جولائی 2010)۔ "Where every line was a piece of poetry.۔۔"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 14 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 جولائی 2012 
  18. ^ ا ب Warsi 2009, p. 50.
  19. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ Vijayakar, Rajiv (6 اگست 2010)۔ "Celluloid Monument"۔ دی انڈین ایکسپریس۔ 3 جولائی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2012 
  20. ^ ا ب Warsi 2009, p. 52.
  21. "How well do you know Mughal-e-Azam?"۔ Rediff۔ 5 اگست 2010۔ 1 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2012 
  22. ^ ا ب Warsi 2009, p. 53.
  23. Us Salam, Zia (31 جولائی 2009)۔ "Saga of all sagas"۔ دی ہندو۔ 21 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2012 
  24. Warsi 2009, pp. 39–40.
  25. "Box Office 1953"۔ Box Office India۔ 30 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولائی 2012 
  26. ^ ا ب پ ت ٹ Burman, Jivraj (7 اگست 2008)۔ "Mughal-e-Azam: reliving the making of an epic"۔ ہندوستان ٹائمز۔ 25 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جون 2012 
  27. ^ ا ب پ Sinha, Meenakshi (5 اگست 2010)۔ "50 yrs [sic] on, Dilip Kumar remembers magnum opus Mughal-e-Azam"۔ The Times of India۔ 21 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2012 
  28. Bose 2006, p. 202.
  29. Mohan Deep (1996)۔ The Mystery and Mystique of Madhubala (بزبان انگریزی)۔ Magna Books۔ صفحہ: 65 
  30. Sharma, Rohit (13 فروری 2011)۔ "Still our Valentine"۔ Hindustan Times۔ 25 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2012 
  31. ^ ا ب
  32. Kohli, Suresh (25 جون 2012)۔ "Timeless appeal"۔ دکن ہیرالڈ۔ 8 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2012 
  33. ^ ا ب Jain 2009, p. 39.
  34. Rajadhyaksha & Willemen 1998, p. 365.
  35. Irena Akbar (3 جنوری 2012)۔ "Where is the Muslim actress? -"۔ The Indian Express۔ 2 مئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2018 
  36. Rishi 2012, p. 187.
  37. "Is it sunset for Bollywood's magnificent 'sets'?"۔ The Indian Express۔ 17 جولائی 2011۔ 26 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2012 
  38. Warsi 2009, p. 57.
  39. ^ ا ب پ Warsi 2009, p. 62.
  40. Saqaf, Syed Muthahar (1 اگست 2013)۔ "Bollywood's best"۔ The Hindu۔ 4 اگست 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2013 
  41. Warsi 2009, p. 64.
  42. ^ ا ب Roy, Gitanjali (24 اپریل 2013)۔ "Indian cinema@100: 10 facts about Mughal-e-Azam"۔ این ڈی ٹی وی۔ 27 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2013 
  43. ^ ا ب "Credits: Mughal-E-Azam"۔ برٹش فلم انسٹی ٹیوٹ۔ 3 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2013 
  44. Khubchandani 2003, p. 203.
  45. "Archive for the 'Review' Category"۔ Mughal E Azam۔ Devasuram Word Press۔ 6 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اگست 2013 
  46. Raheja, Dinesh (5 اگست 2010)۔ "Mughal-e-Azam revisited"۔ Rediff۔ 1 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2012 
  47. Chakravarty, Riya (3 مئی 2013)۔ "Indian cinema@100: 40 Firsts in Indian cinema"۔ NDTV۔ 4 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2013 
  48. ^ ا ب "Mughal-E-Azam DVD preview"۔ zulm.net۔ 10 اگست 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اگست 2013 
  49. Dwyer 2006, p. 116.
  50. ^ ا ب Teo 2012, p. 57.
  51. Kavoori & Punathambekar 2008, p. 135.
  52. Teo 2012, pp. 56, 59.
  53. Teo 2012, p. 59.
  54. Nandy 1998, p. 26.
  55. ^ ا ب Philip Lutgendorf۔ "Mughal-e-Azam ("The Great Mughal")"۔ South Asian Studies Program, University of Iowa۔ 16 نومبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2013 
  56. Nandy 1998, p. 45.
  57. Pauwels 2008, p. 472.
  58. Pauwels 2007, p. 127.
  59. ^ ا ب Chakravarty 1993, pp. 168–169.
  60. Pauwels 2007, pp. 127–128.
  61. ^ ا ب پ Arif 2003, p. 233.
  62. Morcom 2007, p. 144.
  63. Gokulsing & Dissanayake 2013, p. 273.
  64. "Film Heritage Foundation Profile B" (بزبان انگریزی)۔ Film Heritage Foundation۔ 14 اگست 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولائی 2020 
  65. ^ ا ب Rai, K. K. (4 جنوری 2008)۔ "Mughal-e-Azam (1960)"۔ Stardust۔ 18 جولائی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2012 
  66. Karmalkar, Deepa (11 ستمبر 2010)۔ "Mughal-e-Azam، 50 years later"۔ دی ٹریبیون۔ 29 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2012 
  67. ^ ا ب "Mughal-e-Azam mural at 24 Karat"۔ Sify۔ 2 نومبر 2004۔ 24 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جون 2012 
  68. Roy 2003, p. 221.
  69. Sethia, Shruti (5 نومبر 2004)۔ "Mughal-e-Azam dazzles.۔۔ again"۔ The Hindu۔ 23 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2012 
  70. Patsy N (10 نومبر 2004)۔ "The making of Mughal-e-Azam"۔ Rediff۔ 25 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2012 
  71. Mughal-e-Azam documentary by Sterling Investment Corporation. From 17:11 to 17:41.
  72. "Shapoorji Pallonji to rewrite Mughal-e-Azam"۔ Rediff۔ 6 اگست 2004۔ 21 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اکتوبر 2013 
  73. "Official exchange rate (LCU per US$، period average)"۔ عالمی بنک۔ 1960۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2018 
  74. "Top earners 1960–1969 (Figures in Ind Rs)"۔ Box Office India۔ 18 جنوری 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2011 
  75. Adarsh, Taran (11 نومبر 2004)۔ "Mughal-e-Azam"۔ بالی وڈ ہنگامہ۔ 29 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جنوری 2012 
  76. Akbar 2011, p. 105.
  77. "Yesterday once more: From the Filmfare files.۔۔reviews from the 1960s"۔ Filmfare Print Edition۔ 7 ستمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2013 
  78. Chopra, Anupama (5 مارچ 2011)۔ "The Eternal Five"۔ OPEN Magazine۔ 29 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2013 
  79. Gupta, Sujata (20 اگست 1996)۔ "Film Review – Mughal-E-Azam"۔ Planet Bollywood۔ 29 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولائی 2012 
  80. Sen, Raja (12 نومبر 2004)۔ "Immortal-e-Azam"۔ Rediff۔ 4 نومبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2012 
  81. Bushell, Laura (11 اکتوبر 2002)۔ "Mughal-e-Azam (The Mogul) (1960)"۔ BBC۔ 15 فروری 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2012 
  82. Ramachandran, Naman۔ "Mughal-E-Azam"۔ British Film Institute۔ 3 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 دسمبر 2013 
  83. "8th National Film Awards" (PDF)۔ International Film Festival of India۔ 28 ستمبر 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2011 
  84. "Naushad: Composer of the century"۔ Rediff۔ 8 مئی 2006۔ 21 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولائی 2012 
  85. "Naushad: Composer of the century"۔ Rediff۔ 8 مئی 2006۔ 21 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولائی 2012 
  86. "Filmfare Award Winners 1961 – 8th (Eighth) Filmfare Popular Awards"۔ Awardsandshows.com۔ 30 جولائی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولائی 2012 
  87. "Filmfare Best Cinematography Award – Filmfare Award Winners For Best Cinematography"۔ Awardsandshows.com۔ 21 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولائی 2012 
  88. ^ ا ب پ "The colour of profit"۔ The Hindu۔ 21 اکتوبر 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اکتوبر 2013 
  89. "Mughal-e-Azam beats Taj Mahal to be 1st Indian film in Pak in 41 yrs"۔ OneIndia۔ 22 اپریل 2006۔ 4 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2015 
  90. ^ ا ب پ ت "The colourful re-entry of Mughal-e-Azam"۔ Sify۔ 6 اکتوبر 2004۔ 5 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جون 2012 
  91. "Mughal-e-Azam, 50 years later"۔ The Tribune, Saturday Extra۔ 11 ستمبر 2010۔ 29 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  92. "Mughal-E-Azam Website"۔ Shapoorji Pallonji & Co. Ltd۔ 21 جون 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2015 
  93. K Jha, Subhash (2 نومبر 2004)۔ "Mughal-e-Azam goes colour"۔ Sify۔ 24 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جون 2012 
  94. "Resurrection of Mughal-e-Azam"۔ Rediff۔ اگست 2004۔ 21 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2013 
  95. "Mughal-E-Azam"۔ British Board of Film Classification۔ 29 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اگست 2013 
  96. "Box Office 2004"۔ Box Office India۔ 14 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولائی 2012 
  97. Chanchal, Anu (8 نومبر 2012)۔ "Top 12: Bollywood Diwali Releases"۔ The Times of India۔ 10 جون 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2013 
  98. ^ ا ب Pandohar, Jaspreet (29 مارچ 2005)۔ "Mughal-E-Azam (The Great Mughal) (2005)"۔ BBC Home۔ 6 نومبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2013 
  99. Taran Adarsh (13 فروری 2006)۔ "'Mughal-E-Azam' censored in Pakistan"۔ Sify۔ 3 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جولائی 2012 
  100. UNI (23 اپریل 2006)۔ "Mughal-e-Azam releases in Pakistan: will others follow suit?"۔ OneIndia۔ 3 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جولائی 2012 
  101. Raheja, Dinesh (18 اکتوبر 2002)۔ "Madhubala: a sweet seduction"۔ Rediff۔ 7 جولائی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولائی 2012 
  102. Mahbubani 2009, p. 171.
  103. Ahmed, Afsana (25 فروری 2011)۔ "SRK dons new role with Mughal-E-Azam"۔ The Times of India۔ 19 مئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 جولائی 2012 
  104. Chhabra, Aseem (27 اکتوبر 2017)۔ "Mughal-e-Azam: A world class Indian production at last"۔ ریڈف ڈاٹ کوم۔ 8 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اکتوبر 2017 
  105. "Top 10 Indian Films"۔ British Film Institute۔ 2002۔ 15 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولائی 2012 
  106. Anupama Chopra (24 فروری 2009)۔ "The Best Bollywood Films"۔ The Daily Beast۔ 24 جولائی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولائی 2012 
  107. "100 Years of Indian Cinema: The 100 greatest Indian films of all time"۔ IBN Live۔ 17 اپریل 2013۔ صفحہ: 36۔ 25 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2014 
  108. "Mughal E Azam"۔ روٹن ٹماٹوز۔ 3 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اگست 2013 
  109. "The Biggest Blockbusters Ever in Hindi Cinema"۔ Box Office India۔ 21 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اکتوبر 2012 
  110. Tuteja, Joginder (14 ستمبر 2009)۔ "Book Review: Mughal-E-Azam – An Epic of Eternal Love"۔ Bollywood Hungama۔ 4 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2013 
  111. Statistical Abstract of the United States 1961, p. 937.

بیرونی روابط[ترمیم]