کورش اعظم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کورش اعظم
(قدیم فارسی میں: 𐎤𐎢𐎽𐎢𐏁 ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 600 ق مء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
انشان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 530 ق مء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دریائے سیحوں  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات لڑائی میں مارا گیا  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مقبرہ کورش اعظم[1]  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ہخامنشی سلطنت
انشان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد بردیا  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد کمبوجیہ اول  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان ہخامنشی خاندان  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
شاہ شاہان   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
559 ق.م  – 530 ق.م 
کمبوجیہ اول 
 
دیگر معلومات
پیشہ مقتدر اعلیٰ،  عسکری قائد،  بانئ تنظیم،  شاہی حکمران  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان قدیم فارسی،  عیلامی زبان  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

کوروش اعظم جو سائرس اعظم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، قدیم ایران کا ایک عظیم بادشاہ تھا۔ اس نے ایران میں ہخامنشی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس کی قیادت میں ایران نے جنوب مغربی ایشیا، وسطی ایشیا، یورپ کے کچھ علاقے اور کوہ قاف فتح کیا۔ مغرب میں بحیرہ روم اور در دانیال سے لے کر مشرق میں ہندوکش تک کا علاقہ فتح کرکے سائرس نے اس وقت تک کی تاریخ کی عظیم ترین سلطنت قائم کی۔ سائرس کو یہودیت میں بھی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ اس نے بابل فتح کرکے یہودیوں کو آزاد کر دیا تھا جو اس وقت سلطنت بابل کے غلام تھے۔

نامی ارتقا[ترمیم]

شاہان فارس کے ناموں نے مختلف زبانوں میں مختلف صورتیں اختیار کرلی ہیں۔ سائرس کا اصلی نام گورد یا کورش تھا جیسا کہ دارا کے کتبہ بے ستون سے معلوم ہوتا ہے لیکن یونانی اسے سائرس کہنے لگے اور یہودیوں نے اس کا تلفظ خورس کی شکل میں کیا۔ چنانچہ یسیار ارمیا اور دانیال کے صحائف میں جا بجا یہ نام آیا ہے اور یہی کوروش ہے جس نے عربی میں خسرو کی شکل اختیار کرلی۔ چنانچہ عرب مورخ اسے خیسرو کے نام سے پکارتے ہیں- سائرس کا بیٹا کیمبیسیز جو یونانی تلفظ ہے اس کا پارسی نام کوچیہ تھا۔ جس نے یہودیوں اور عربوں کی زبان پر یہ کیقیاد کے بعد واریودش ہوا۔ جسے عام طور پر دارا کے نام سے پکارا جاتا ہے اور تورات میں بھی نام آیا ہے دارا کے بعد اس کا بیٹاآرٹازرکیسز ہے اسے تورات میں ارتخششت کے نام سے یاد کیا ہے اور عربوں میں اردشیر مشہور ہو گیا[2]

ابتدائی زندگی[ترمیم]

دنیا کے غیر معمولی شخصیتوں کی طرح کورش کے ابتدائی حآلات نے بھی ایک پر اسرار افسانوی نوعیت میں لپٹی ہے جس کی جھلک ہمیں شاہنامہ میں نظر آتی ہے- پیدا ہونے سے قبل اس کے نانا استاغیث نے خواب دیکھا کہ اس کی بیٹی منڈانے کے پیڑوسے  سیلاب نکلا پھر پھلداربیلیں  نکلیں جو اس کے تمام ملک پر پھیل گئیں-اس کے مشیروں نے تعبیر بتائی کہ اس کا نواسہ ایک دن بغاوت کریگا اور اس کا تخت الٹ دیگا، استاغیث اپنی بیٹی منڈانے کو ایکباتانہ بھیج دیتا جس کے رحم میں کورش تھا تاکہ اس کی موت کا سامان کر دیا جائے- اس کے وزیر  ہارپاگث نے یہ کا م میتھراڈیٹث  جو  ایک چرواہا تھا کو سونپا  ، جس کے خود کے یہاں انہی دنوں میں  مرا ہوا بچہ پیدا ہوا تھا - اسنے کورش کو لے کر اپنا مرا ہوا بچہ کورش ظاہر کرکے وزیر کو دے دیا اور یوں وہ دس سال تک گمنامی میں جیتا رہا یہاں تک کہ ایک دن بچوں کیساتھ کھیل میں اسنے ایک امیر آدمی کے بچے کو مارا، اس معاملے کی بھنک اس کے نانا استاغیث تک پہنچی اسنے چرواہے اور کورش دونوں کو بلایا- چرواہے نے اقرار کر لیا اور کورش کو میڈیا (مدین) کے دربار میں ایک غلام بنا کر بھیج دیا تاہم وزیر کے بیٹے کو بلوا کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے اور پکوا دیا اور چال میں اپنے وزیر کو ایک دعوت میں کھلاتا رہا یہاں تک کہ آخر میں وزیر کو اس کے بیٹے کے سراور ہاتھ پاؤں تشتری میں پیش کیے گئے[3]

میڈیا (مدین) کے دربار میں کورش کی غیر معمولی قابلیتیں، اعلی اخلاق ،خصائل  اور خاندانی شخصیت پہچان لی جاتی گئیں اور یوں وہ آہستہ آہستہ مسند اقتدارکے قریب ہوتے ہوتے  اس  پر برا جمان ہوتا گیا- اسے پورا  موقع حاصل ہوا ہے کہ اپنے دشمنوں سے انتقام لے لیکن  خود اس کے نانا استاغیث کی زندگی بھی اس کے  ہاتھوں محفوظ رہی

فتوحات[ترمیم]

خورس یا کورش یا قورش یا سائرس دوم کا شمار دنیا کے بڑے فاتحین میں شمار ہوتا ہے۔ اس نے غیر معمولی شجاعت، قوت اور تدبر کے باعث ایک امیر سے ترقی کرکے اپنے لیے شہنشاہوں کی صف میں جگہ پیدا کرلی۔ اس نے تین بڑی سلطنتوں میڈیا (مدین)، لیڈیا اور بابل کو زیر کرکے فارس کی چھوٹی سی ریاست کو ایک عظیم انشان سلطنت میں بدل دیا۔

ابتدا[ترمیم]

کورش نے باپ کے مرنے سے قبل ہی  اپنی چھوٹی سی ریاست  آنثان  پر تخت نشین ہوا جو میڈیا (مدین) کہ بادشاہ استاغیث یعنی اس کے نانا  کے زیرحکومت تھی- کورش نے بابل کے بادشاہ بنویدس کے ساتھ ساز باز کرکے میڈیا (مدین) کے خلاف بغاوت کردی۔ چنانچہ سرگزشتِ نابونایڈث کے مطابق اس کے نانا استاغیث نے اپنے وزیر ہارپاگث کی زیر قیادت میڈیا (مدین) کی فوج سے آنثان پر حملہ کر دیا -اس واقع سے پہلے بابل اور میڈیا (مدین) کی ریاستیں ہمیشہ ایک دوسرے کی حلیف رہی تھیں۔ آشوریوں کے زوال کے بعد صورت حال بدل گئی اور دونوں کے درمیان میں کشمکش شروع ہو گئی کورش نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بنویدس کی حمایت حاصل کی اور استاغیث کے سالاروں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ ہارپاگث نے اس سے قبل کہ وہ کئی جاگیرداروں، سرداروں اور فوجی جرنیلوں سمیت منحرف ہوتا کورش سے رابطہ کیا اور اپنی بادشاہ استاغیث جو اس کے بیٹے کا قاتل تھا کیخلاف بغاوت میں اس کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا-اور اپنے بادشاہ استاغیث کیخلاف کورش کی فوج کا ساتھ دیا لڑائی تین سال چلتی رہی اور فیصلہ کن معرکہ میں ایکباتانہ کورش کو ملا۔ چنانچہ استاغیث کی فوج نے استاغیث کو گرفتار کرکے کورش کے حوالے کر دیا۔ استاغیث کی گرفتاری کے بعد میڈیا (مدین) فارس کی ریاست میں ضم کردی گئی۔ اس فتح کے بعد اس نے ایک متحدہ ایرانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے نانا استاغیث کے زیر اثر کئی اور جاگیریں کا  الحاق اس کی  ریاست آثنان کے ساتھ ہونے لگا وہ پرانے جاگیرداروں سے  جو اس کے خلاف استاغیث   کی جنگ میں لڑ رہے تھے وفاداری کا عہد لے کر انہی کی  جاگیریں ان کے حوالے کرتا گیا اور یوں اسنے فارس  اور آثنان کی ریاستوں کو  متحد کرکے متحدہ فارس  قائم کی جس کی سرحد مغرب میں لیڈیا اور بابل تک وسیع ہو گئی ۔- اتحاد کرنے والے  فارس کے  حکمران ارسامیث نے کورش کے دونوں بیٹوں کی موت کے بعد  اپنے پوتے دارا کو اپنی ہی زندگی میں  شہنشاہ فارس دارا  اعظم بنتے دیکھا- فتح میڈیا (مدین)  کورش کی فتوحات  کی ابتدا تھی

کورش نے تخت نشین ہونے کے بعد سب سے پہلے میڈیا (مدین) اور پاسادگار کی متوازی حکومت کو ختم کیا اور پورے عیلام اور فارس پر اپنی دھاک بیٹھائی ۔

مغربی معرکے[ترمیم]

اس کے ساتھ ہی لیڈیا اور میڈیا (مدین) سیاسی تعلقات میں تبدیلی واقع ہو گئی۔ لیڈیا، بابل اور مصر نے ساز باز کر کے کورش کی بڑھتی ہوئی طاقت کو توڑنے کی کوشش کی۔ لیڈیا کی فوج معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے ہیلس کے دوسرے کنارے تک بڑھ آئی تھی اور سرحدی شہر پیٹریا پر قابض ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے یہ اتحاد مستحکم ہوتا کورش کو اس اتحاد پر حملہ کرنا تھا۔ اب کورش مجبور ہو گیا کہ وہ میڈیا (مدین) کے دار الحکومت  ایکبتانہ(موجودہ ہمدان) سے  نکلے۔ وہ تیزی سے بڑھا کہ صرف دو جنگوں  کے بعد پیڑیا اور سارڈیس کے شہروں سے ہوتا ہوا تمام تر لیڈیا کی حکومت پر قابض ہو گیا۔ اس کا حکمران کروٹث گرفتار ہو گیا۔ تمام یونانی مورخ بلا اتفاق شہادت دیتے ہیں کہ کورش نے فتح لیڈیا کے بعد باشندگان لیڈیا کے ساتھ جو سلوک کیا وہ صرف منصفانہ ہی نہ تھا بلکہ فیاضانہ تھا، ہیروڈوٹث لکھتا ہے کہ کورش نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ جو کوئی دشمن کی فوج میں سے اپنا نیزہ جھکا دے اسے ہر گز قتل نہ کیا جائے، کروٹث شاہ لیڈیا کی نسبت حکم تھا کہ کسی قسم کی بھی اسے گزند نہ پہنچائی جائے –باشندگان لیڈیا کو جنگ کی مصیبت ذرا بھر بھی محسوس نہ ہوئی - کورش محض فرمانروا خاندان کا ایک انقلابی شخص تھا کہ کروٹث کی جگہ کورش نے لے لی اور عوام کو محسوس ہی نہیں ہوا[4]

اس کامیابی کے بعد ایران کی سرحدیں بحیرہ ایجین تک پھیل گئیں۔ لیڈیا کی سلطنت کے ساتھ ایشائے کوچک اور یونانی مقبوضات کورش کے قبضہ میں آ گئے۔ چند سال کے بعد اس نے ( 539ق م ) بابل پر حملہ کر کے بابل کو فتح کرکے نابونئیڈث گرفتار کر لیا اور اس کی مغرب کی فتوحات نے ایرانی سرحدوں کو مصر سے ملا دیا ۔[5]

بابل کا معرکہ[ترمیم]

یہی زمانہ ہے جب باشندگان بابل نے اس سے درخوست کی بیلشازار  کے مظالم سے نجات دلائے -  نینوا کی تباہی نے ایک نئی بابلی شہنشاہی کی بنیاد استوار کردی تھیں اور بخت نصر کی قاہرانہ فتوحات نے تمام مغربی ایشیا کو مسخر کر لیا تھا – اس کا حملہ بیت المقدس تاریخ کا ایک انقلاب انگیز واقعہ  ہے وہ صرف بادشاہوں کو مسخر نہیں کرتا تھا بلکہ قوموں  کو غلام بناتا اور ملکوں کو تباہ کر ڈالتا تھا – اس کے مرنے کے بعد کوئی ایسا نہیں تھا جو اس کی جنگجویانہ قوتوں کی جانشین ہوتی – بابل کے معبد و مندروں کے پجاریوں نے (جو اس وقت سب سے زیادہ پر اثر لوگ تھے) نابونئیڈث کو تخت نشیں کیا تھا  اور اس نے حکمت کا تمام کام بیلشازار کے   ہاتھ چھوڑ دیا تھا  جو ظلم اور عیاشی کا مجسمہ تھا  - بابل اس زمانے میں نا قابل تسخیر تھا  540 ق م میں کورش  نے  ایلام اور اس کا دار الحکومت سوسا فتح کر لیا تھا، سرگزشتِ نابونئیڈث بتلاتا ہے  نابونئیڈث  کی جنگ سے قبل  کورش نے حکم دیا بابلکہ تمام مذہبی  تبرکات جو دور کردی گئیں تھیں دار الحکومت میں واپس لے آئی جائیں اور ان کو ان کی جگہ پہنچایا جائے۔ اس  سے قبل 539 ق م  میں  کورش نے بابل کے شمال میں معرکہ اوربیس لڑا بایں ہمہ کورش باشندگان بابل کی فریاد پر لبیک کہا اور دوآبہ کا تمام علاقہ فتح کرتا ہوا شہر کے سامنے نمودار ہو گیا ،باشندگان شہر کورش کے لیے چشم براہ تھے اور ہر طرح کا ساتھ دیا  خود بابل کی حکومت کا گورنر گوبریوث  کورش کی فوج کے ساتھ تھا  - اس لیے  اس  دفعہ  بابل کی فوج سے  سپر بغیر  جنگ کے چھین لیا مقامی آبادی نے تاہم کچھ نہ کچھ مدافعت دکھائی – شائد اس لیے کہ کورش نے بابل کے جرنیلوں کے لیے  مفاہمت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں چھوڑ رکھا تھا تاکہ  خونریزی سے بچا جاسکے -بخت نصر کا پیشرو نابونئیڈث اس وقت شہر میں تھا  تاہم فورا وہ  دار الحکومت گیا جسے اسنے سالوں سے دیکھا تک نہیں تھا- یوں دو دن بعد  گوبریوث کی فوجیں بابل میں داخل ہوئیں دوبارہ بغیر کسی بابلی مدافعت کے - ہیروڈوٹث بیان کرتا ہے کہ یہ کارنامہ اس لیے ممکن ہوا کہ فارسیوں نے اس معرکہ سے قبل ایک نہر جسے بابل کی ملکہ نیٹوکریث نے کھدوایا  تھا  تاکہ میڈیا (مدین) کہ حملوں سے بچا جاسکے، اس میں کورش کی فوجوں نے  فراط کا پانی موڑ دیا تھا اور یوں  فراط کا پانی درمیانی قد کے آدمی کے   ران کی اونچائی جتنا رہ گیا تھا، جس کی وجہ سے حملہ آور فوجیں بآسانی رات میں شہر کی فصیل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں اور قبل اس کے کہ خود کورش شہر میں پہنچتا شہر فتح ہو چکا تھا، کورش خود بابل میں 15 دن بعد داخل ہوا اور نابونئیڈث  پر قابض ہو گیا[6]

تورات کی شہادت   یہ ہے کہ کورش کا  ظہور اور بابل کی فتح نبی اسرائیل کے لیے  زندگی اور خوش حالی کا نیا پیام تھا اور یہ ٹھیک  اسی طرح ہوا جیسے یسعیاہ  نبی نے ایک سو ساٹھ برس قبل وحی الہی سے مطلع ہوکر خبر دے دی تھی اور جب کورش کو کتابوں میں یہ پیشنگوئ دکھلائی گئی تو اس نے دانیال نبی کی نہایت توقیر کی اور یہودیوں کو یروشلم  میں بسنے کی اجازت دی – بلکہ اعلان کیا کہ خدا نے مجھے حکم دیا کہ یروشلم میں اس کے لیے ہیکل (ہیکل سلیمانی کی از سر نو تعمیر)  بناؤں  پس تمام لوگوں کو ہر طرح کا سازوسامان مہیا کرنا چاہیے اس نے تمام ظروف جو بنو کدرزار(بخت نصر) لوٹ لایا تھا  اس میں بددستور رکھ دئے(عزرا-باب اول)[7]

مشرقی معرکے[ترمیم]

ہخامنشی سلطنت کورش کی حکمرانی میں اپنی سب سے بڑی حدود زمانے میں

ہیروڈوٹث اور ٹیسیاث (ctesios) اس کی مشرقی  مہم جوئی کا ذکر کرتے ہیں مشرقی لشکر کشی لیڈیا کی فتح  کے بعد اور بابل کی فتح سے قبل پیش آئی اس کے بعد مشرق کی طرف اس لیے متوجہ ہونا پڑا کیونکہ گیڈروسیا (مکران) اور بکڑیا (بلخ و ہرات) کے قبائل نے سرکشی کی یہ مہم 540 اور545 قبل مسیح میں واقع ہوئی سلطنت کورش اپنے وقت کی سب سے بڑی  سلطنت تھی، کورش کی حکومت کے خاتمے تک یہ سلطنت ایشائے  کوچک آناطولیہ سے لے کر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ پھر دریائے سیحوں (سندھ) اور دریائے جیہوں کے درمیانی علاقہ صغدیہ کو فتح کیا۔ اس طرح اس کی سلطنت ماورالنہر اور ہندو کش تک پھیل گئی-[8]

دانیال کا خواب[ترمیم]

دانیال کا خواب جس میں کورش اور سکندر مقدونی کی تعبیر بتلائی گئی

یہودیوں کے بابل کے اسیری کے زمانے میں حضرت دانیال کا ظہور ہوا- جو اپنے علم و حکمت کی بنا پر شاہان بابل کے دربار میں مقرب ہو گئے تھے-جبکہ اگر تورات کی تعلیمات تسلیم کی جائیں تو سائرس سے لے کر آرٹازرکیسز(ارتخششت)اول تک تمام شہنشاہان پارس بنی اسرائیل سے عقیدت رکھتے تھے-شاہ بابل کے تیسرے برس انھوں نے خواب دیکھا جو کتاب دانیال میں ہے

"میں دیکھتا ہوں کہ ندی کے کنارے مینڈھا کھڑا ہے- جس کے دو سینگ اونچے ہیں-لیکن ایک دوسرے سے زیادہ اونچا تھااور بڑا دوسرے کے پیچھے تھا- میں نے دیکھا کہ پچھم اترا اوردکھن کی طرف سینگ مارتا ہے-یہاں تک کہ کوئی جانور اس کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا-اور وہ بہت بڑا ہو گیا- یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ پچھم کی طرف سے ایک بکرا آکر تمام روئے زمین پر پھر گیا-اس بکرے کے آگے عجیب طرح کا سینگ تھا-وہ دو  سینگوں والے مینڈھے پر خوب بھڑکااسکے دونوں سینگ توڑ ڈالے اور اس کی ہمت نہ تھی کہ مقابلہ کرے"

پھر اس کے بعد ہے کہ جبریل آئے اوربتایا کہ دو سینگوں والا مینڈھا فارس کی بادشاہت ہے اور بکرا یونان کی اس کا سینگ اس کا پہلا بادشاہ ہے-

چنانچہ یہ بادشاہ بعد میں سکندر مقدونی ٹھرا-جبکہ دو سینگ   میڈیا (مدین) اور فارس کی سلطنتیں تھیں-چنانچہ یہودیوں کے یہاں فارس کے بادشاہ کے لیے کورش( ذوالقرنین ) کا تصورپیدا ہو گیا تھا-یہ صرف یہودی تخیل نہ تھا  بلکہ خود فارس کے بادشاہ کا مجوزہ اور پسندیدہ نام ذوالقرنین تھا-یہ سائرس کورش کا سنگی تمثال ہے جو پاسارگاد (ایران) کے کھنڈروں میں دستیاب ہوا-[9]

مذہبی رواداری[ترمیم]

خورس کا دوسرا بڑا کارنامہ مذہبی رواداری ہے فتح بابل کے بعد اس نے اس نے اسرائیلیوں کو فلسطین جانے کی اجازت دے دی اور بیت المقدس کی تعمیر ثانی کا حکم صادر کیا اوراس سلسلے میں ہر طرح کی مدد دی۔ نیز وہ تمام طلائی اور نفری ظروف جو مذہبی طور پر مقدس سمجھے جاتے تھے اسرائیلیوں کے حوالے کردئے۔ بابل کے دیوتا مروخ قدر و منزلت کی اور دوسرے وہ تمام بتوں کو جو دوسرے مقامات سے لائے گئے تھے ان کی جگہ پہنچایا۔ یہ اس کے کارنامے ہیں جن کی بدولت اس کو “ نجادت دہندہ “ اور “ قوم کا باپ “ کا خطاب دیا۔ نیز تاریخ میں اس کو اعظم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ خورس اعظم نے پاسارگاد کو اپنا دار الحکومت قرار دیا اور وہاں ایک محل تعمیر کیا۔ اس کی موت اچانک واقع ہوئی۔ 529 ق م میں ایک قبیلہ سک نے بغاوت کردی، وہ وہاں گیا اور ان کے خلاف جنگ کرتے ہوئے مارا گیا ۔

حوالہ جات[ترمیم]

( ڈاکٹر معین الدین۔ قدیم مشرق جلد دوم )