شیرانوالہ دروازہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شیرانوالہ دروازہ

پاکستان کے شہر لاہور کا تاریخی دروازہ ہے۔ یہ فصیل شہر کے شمال مشرق کی جانب واقع ہے۔

شیرانوالہ دروازہ[ترمیم]

شیرانوالہ دروازہ کے بائیں جانب یکی دروازہ اور دائیں جانب کشمیری دروازہ واقع ہے۔ کشمیری دروازے کی طرح یہاں بھی سرکلر گارڈن بارہ تیرہ فٹ گہرائی میں ہے۔ شیرانوالہ دروازے کے باہر ایک سڑک ہے جو دائیں جانب فصیل شہر کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی شیرانوالہ دروازے کو کشمیری دروازے سے ملاتی ہے۔ اس سڑک کو مولانا عبید انور روڈ کہا جاتا ہے۔ شیرانوالہ دروازے کے اندر داخل ہوں تو آغاز میں ہی دائیں ہاتھ پر خدام الدین بنت پبلک ہائی اسکول ہے اور اس کے ساتھ ہی مولوی احمد علی مسجد ہے جبکہ بائیں طرف گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ دروازہ کی عمارت ہے۔گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول شیرانوالہ 1889ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ اسکول انجمن حمایت اسلام لاہور کا قائم کردہ ہے اور اس کی نئی عمارت 1987ء میں محکمہ تعلیم حکومت پنجاب کے تعاون سے ہیڈ ماسٹر چودھری منظور حسین کی زیر نگرانی تعمیر کی گئی تھی۔ خضری محلہ میں قوت سماعت اور گویائی سے معذور بچوں کا گورنمنٹ ہائی اسکول بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ شیرانوالہ دروازے کے بیرونی جانب مسجد غوثیہ جنیفہ باغ والی بھی ہے۔

وجہ تسمیہ[ترمیم]

اس دروازے کا پرانا نام خضری دروازہ بھی ہے۔ جس کی وجہ تسمیہ یہ روایت بتائی جاتی ہے کہ حضرت خضر اس دروازے سے باہر نکل کر راوی دریا میں اتر گئے تھے تب سے اس دروازے کا نام خضری دروازہ چلا آ رہا ہے۔ حضرت خضر وہی ہیں جنھوں نے آب حیات دریافت کیا جسے پینے کے بعد ابدی عمر پائی اور اب بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق وہ کسی بزرگ کی شکل میں ظاہر ہو کر گم شدہ راہی کو منزل مقصود کی جانب رہنمائی کرتے ہیں۔ اندرون شیرانوالہ دروازے میں آج بھی خضری محلہ موجود ہے۔ کنہیا لال شیرانوالہ دروازے کے بارے میں ٴٴتاریخ لاہورٴٴ میں لکھتے ہیں کہ ٴٴوجہ تسمیہ اس دروازے کی یہ ہے کہ زمانہ سلف میں دریائے راوی شہر کے بہت نزدیک بہتا تھا۔ خصوصاً اس دروازے کے آگے توکشتی پڑتی تھی۔ چونکہ خواجہ خضرکو دریائوں کے ساتھ کمال نسبت ہے اور ٴمیرالبحارٴ ان کا خطاب ہے، یہ سبب ہے کہ قرب دریا کے اس دروازے کا نام خضری دروازہ رکھا گیا۔ مگر اب لوگ اس کو شیراں والا دروازہ کہتے ہیں۔ باعث یہ ہے مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں ہمیشہ دو شیروں کے پنجرے اس دروازے کے اندر رکھتے تھے اور خبر گیری شیروں کی محافظانِ دروازہ کے متعلق تھی۔ انگریزی عہد میں وہ پنجرے اُٹھوائے گئے مگر دروازے کا نام شیراں والہ دروازہ بحال رہا۔ٴٴ

دروازے کی موجودہ حالت[ترمیم]

شیرانوالہ گیٹ میں داخل ہوں تو مرکزی راستے کی چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ اس دروازے کا دریا کے کنارے ہونا تھا۔ یہ راستہ سیدھا پاکستان کلاتھ مارکیٹ میں آتا ہے جہاں اگلی طرف پرانی کوتوالی ہے جس کے قریب مسجد وزیر خان ہے۔ شیرانوالہ دروازے کے اندرون آبادی کو اکبر کے عہد میں گذر اسحاق کے نام سے یاد کیا گیا ہے جو ایک طرف رڑہ گذر سے اور دوسری طرف گذر جہجہ دیوانی کے ساتھ متصل ہے۔ شیرانوالہ دروازے کے اندر آبادی کئی کٹڑیوں میں آباد ہے۔ جن میں کٹڑی خیر دین، کٹڑی بابو ممتاز، کٹڑی ہری داس، کٹڑی سدھیر زیادہ اہم ہیں جبکہ دیگر محلوں میں نواں محلہ، خضری محلہ، حویلی شاہ زمان اور کوچہ کنج لال زیادہ اہم ہیں۔ سطحی نقشے اور روکار کے اعتبار سے شیرانوالہ اور کشمیری دونوں دروازے بے حد مماثلت رکھتے ہیں۔ ماہر تعمیرات غافر شہزاد شیرانوالہ گیٹ کے نقشے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ٴٴیک سطحی نقشہ میں شیرانوالہ دروازہ ایک درمیانی ڈیوڑھی جس کے ہر دو اطراف دو دو کمرے بنے ہوئے ہیں، پر مشتمل ہے۔ ان میں ایک کمرہ چھوٹا ہے جس کا دروازہ ڈیوڑھی میں کھلتا ہے اور پھر اسی کمرہ کے ساتھ بڑا کمرہ متصل ہے جس کی ایک کھڑکی اندرونی جانب کھلتی ہے۔ دروازہ کی عمارت اس لحاظ سے قدرے مختلف ہے کہ یہاں دہلی یا لوہاری دروازے کے برعکس کوئی کھڑکی بیرونی جانب نہ کھلتی ہے، عمارت بھی یک منزلہ ہے اور اندرونی اور بیرونی روکا باہم کوئی مشابہت نہ رکھتے ہیں۔ گوتھک انداز تعمیر کی دوہری ڈاٹ جو ڈیوڈھی کی اندرونی و بیرونی جانب واقع ہے، کے علاوہ تمام عمارت ٹھوس ہے۔ بیرونی اطراف دو بڑے بڑے ستون ہیں جو مرکزی گوتھک انداز کی ڈاٹ کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔ چھت بھی اس ڈیوڑھی کی اسی کے انداز میں قدر اونچی بنائی گئی۔ آج یہ دروازہ تجاوزات کا کا شکار ہے اور اپنی اصل شباہت کھو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں اگر توجہ نہ دی گئی تو اس کی شناخت ختم ہو جائے گی۔ٴٴ

تاریخی اہمیت[ترمیم]

شیرانوالہ دروازہ اور اس کے اندر واقع چونا منڈی کا علاقہ ابتدائی سے ہی سرکاری اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ 1822ء میں سکھ دور حکومت میں دریائے راوی اس دروازے کے ساتھ بہتا تھا اور سکھ حکمران مہاراجا رنجیت سنگھ کے وزیر اعظم فقیر خاندان کے بانی فقیر عبد الرحیم تھے۔ ان کے والد اور والدہ کا قیام شیرانوالہ دروازے کے علاقے میں تھا اور وہ خود تحصیل بازار اندرون بھاٹی گیٹ میں رہائش پزیر تھے جہاں آج بھی فقیر خانہ موجود ہے۔ مہارجہ رنجیت سنگھ نے بڑے اور عادی مجرموں کو سزا دینے کے لیے 444شیر پال رکھے تھے جن کے رہنے کے لیے 77ایکڑ زمین موضع گلی رام بیرون شیرانوالہ گیٹ میں دریائے راوی کے کنارے مختص کی گئی تھی۔ مہاراجا رنجیت سنگھ مجرموں کو سزائے موت دینے کے غرض سے ان کو بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دینے کا حکم دیتا تھا جو پلک جھپکتے میں شیروں کی خوراک بن جاتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق اسی نسبت سے اس دروازے کو شیرانوالہ دروازہ پکارا جانے لگا تھا۔ 1830ئ کی دہائی میں ارضی تبدیلیوں کے باعث دریا کا رخ تبدیل ہو گیا۔ دریا کا رخ تبدیل ہونے سے بہت سارا علاقہ خشک ہو گیا جہاں عمارات تعمیر کی جانے لگی۔ 1840ئ میں یہاں ڈسٹرکٹ پولیس لائنز قائم کی گئی جس کا بانی حوالدارسبحان خان تھا اس کی ہی نسبت سے شیرانوالہ گیٹ تین حصوں میں خضری محلہ، لائن سبحان خان اور نواں محلہ کی تقسیم کی گئی۔ نواں محلہ کے ساتھ ہی یکی دروازے کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جو حضرت پیر ذکیۯ کے نام سے منسوب ہے۔ شہر لاہور کی روایت رہی ہے کہ اولیائ کرام نے شہر کے دروازوں کے قریب مساجد قائم کیں اور قیام کیا۔ اس کے علاوہ شیرانوالہ دروازے کے علاقہ علمائے کرام، فلمی اداکاروں اور سیاست دانوں کا بھی مرکز رہا ہے۔ اداکار سدھیر کی حویلی بھی شیرانوالہ گیٹ کے مرکزی بازار میں واقع تھی جسے بعد ازاں گرا دیا گیا تھا۔ شیرانوالہ دروازے کی مسجد خدام الدین بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ 1912ئ میں پنجاب کے ساتویں انگریز گورنر لارڈ مائونٹ منٹگمری تھے، وہ گورنر پنجاب بننے سے پہلے دہلی کے چیف کمشنر تھے اور ان کے بڑے بیٹے کرنل جانسن منٹگمری برطانوی خفیہ ایجنسی MI5کے سربراہ تھے۔ کرنل جانسن منٹگمری دہلی کے امن و امان کے بھی ذمہ دار تھے۔ اس دور میں دہلی کی جامع مسجد فتح پوری جنگ آزادی کے نامور علمائ شیخ الدین مولانا محمود حسن، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر احمد حسن اور مولانا عبید اللّہ سندھی کا مرکزی تھا۔ مولانا عبید اللّہ سندھی کومارچ 1914ئ میں مولانا محمود حسن نے افغانستان کی جانب جنگ آزادی کا مورچہ سنبھالنے کے لیے قبائلی علاقے بھیجا۔ جس کے بعد مولانا احمد علی ان کے جانشین اور جامع مسجد فتح پوری کے خطیب مقرر ہوئے۔ دہلی کے کمشنر لارڈ منٹگمری کے صاحبزادے کرنل جانسن منٹگمری نے اپنے والد سے کہا کہ اگر آپ گورنر بن کے پنجاب جا رہے ہیں تو مولانا احمد علی کو بھی ساتھ لیتے جائیں ان سے دہلی میں انگریز سرکار کو بے حد خطرہ ہے۔ چنانچہ انگریزوں نے مولانا احمدعلی کو 14 جولائی 1914ئ میں ہتھکڑیاں لگا کر دہلی سے لاہور تھانہ نولکھا منتقل کر دیا۔ ادھر برطانیہ میں فرانس کے حملے کے بعد جنگ عظیم اول شروع ہو گئی تو مولانا احمد علی کو 17دسمبر 1915میں تھانہ نولکھا حوالات سے ڈسٹرکٹ پولیس لائنز منتقل کر دیا گیا۔ شیرانوالہ دروازے کے اندر داخل ہوں تو دائیں جانب ایک سفید تاریخی مسجد ہے۔ اس کے اندر ایک تالاب موجود ہے۔ پرانے وقتوں میں اس تالاب سے پولیس لائنز کے تین سو اونٹ پانی پیا کرتے تھے اور موجودہ مسجد کی جگہ اونٹوں کا اصطبل تھا۔ جہاں اونٹوں کی نگہبانی کرنے والے مسلمان پولیس ملازمین کے لیے نماز پڑھنے کے لیے ایک مسجد بھی قائم تھی۔ مسجد کے قریب ہی ایک کنواں بھی تھا۔ گورنر منٹگمری نے عہدہ سنبھالنے کے بعد مولانا احمد علی لاہور کو حوالات سے نکل کر پولیس لائنز کی حدود میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دے دی۔ انھوں نے اونٹوں کے اصطبل کے قریب قائم مسجد میں درس قرآن کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔ بعد ازاں یہاں ایک مدرسہ قاسم العلوم قائم کیا اور 1933ئ میں موجودہ جامع مسجد کی بنیاد رکھی گئی۔ اس مسجد کی بنیاد کی 19اینٹیں مولانا احمد علی لاہور نے بیسویں اینٹ علامہ اقبال نے اپنے دست مبارک سے رکھی۔ کچھ عرصہ قبل مولانا احمد علی لاہوری کے جانشین مولانا اجمل قادری نے مدرسہ دارلعلوم کو خدام الدین ہونیورسٹی کا درجہ دیے دیا۔

اسی دور میں افغان بادشاہ ایوب شاہ درانی کو انگریزوں نے چونا منڈی اندرون شیرانوالہ میں قید کر کیا۔ اسی وجہ سے آج بھی یہ علاقہ بنگلہ ایوب شاہ کہلاتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں قدیم شہروں کے دیگر خدوخال میں حمام بہت اہم رہے ہیں۔ بصرہ اور فسطاط میں کھدائی کے دوران حماموں کی تعمیر کے شواہد بھی ملے ہیں۔ جہاں تک قدیم لاہور کا تعلق ہے تو اس حوالے سے مغل عہد میں تعمیر ہونے والے اندرون دہلی دروازے میں شاہی حمام وزیر خان کا تذکرہ ملتا ہے انیسویں صدی کے وسط کی دہائیوں میں بنائی جانے والی تصاویر کو دیکھا جائے تو یہ امر واضح ہوتا ہے کہ شہر قدیم کی بیرونی فصیل جہاں سے دریائے راوی گرزتا تھا، نہانے اور کپڑے دھونے کی عام روایت موجود تھی۔ اس ضمن میں ایک تصویر شیرانوالہ دروازے کی بھی ہے۔ گذشتہ صدی کی ایک مصور کی بنائی ہوئی تصویر میں خضری دروازے کے باہر زینے دکھائے ہیں جو نیچے پانی میں اترتے ہیں اورلوگوں کو وہاں کپڑے دھوتے اور نہاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ محلوں اور بازاروں میں بھی حمام موجود تھے جہاں آج بھی روایتی طور پر تولیے دھوپ میں سکھانے کے لیے لٹکا دیے جاتے ہیں۔ پانی کی دستیابی کے لیے ہر محلے اور کٹڑی میں میں الگ چرخی کنواں بھی موجود ہوا کرتا تھا۔

تاریخی حویلیاں[ترمیم]

اندرون شیرانوالہ دروازے میں مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں کئی عظیم الشان حویلیاں بھی تعمیر کی گئیں۔ ان میں چونا منڈی میں تعمیر کی جانے والی خوش حال سنگھ اور راجا دھیان سنگھ کی حویلیاں قابل ذکر ہیں۔ آج ان حویلیوں میں گورنمنٹ فاطمہ جناح کالج برائے خواتین قائم ہے۔ خوش حال سنگھ مہاراجا رنجیت سنگھ کا امیر و کبیر درباری تھا جس نے اس علاقے کے باسیوں سے مکان چھین کر اپنے لیے حویلی تعمیر کروائی تھی۔ کنہیا لال خوش حال سنگھ کی اس حویلی کے بارے میں ٴٴتاریخ لاہورٴٴ میں بیان کرتے ہیں کہ ٴٴاس حویلی کی وسعت اور عمارت کا کچھ حساب کتاب نہیں ہے، یہ حویلی مہاراجا رنجیت سنگھ کے ایک امیر کبیر دربار سلطنت جمعدار خوش حال سنگھ نے تعمیر کروائی تھی۔ تعمیر کے وقت غریب رعایا کے مکانات مفت چھین لیے۔ جنوبی اور غربی دیواریں اس حویلی کی بہت بلند ہیں۔ گویا قلعہ لاہور کے سامنے دوسرا قلعہ بنا ہوا نظر آتا ہے۔ ٴٴ حویلی خوش حال سنگھ کے ساتھ حویلی راجا دھیان سنگھ واقع ہے جس کے بارے میں کنہیا لال لکھتے ہیں کہ ٴٴاس حویلی کی وسعت جمعدار خوش حال سنگھ کی حویلی سے زیادہ ہے۔ راجا دھیان سنگھ وزیر سلطنت مہاراجا رنجیت سنگھ نے اس کو تعمیر کیا۔ جس قدر مکانات رعایا کے اس موقع پر تھے، سب حکماً گرا دیے گئے۔ کئی سال تک یہ عمارت بنتی رہی۔ٴٴ ان حویلیوں کے ساتھ ہی خوش حال سنگھ کے بیٹے تیجا سنگھ کی حویلی کی عمارت بھی موجود ہیں جنہیں اب ملا کر ایک عمارت کی شکل دے دی گئی ہے۔ موجودہ کالج کی عمارت سکھ دور حکومت کی عظیم فن تعمیر کی یاد دلاتا ہے۔ انگریزوں کی آمد کے بعد 1850ئ کی دہائی میں ان عمارتوں کو گورنمنٹ ڈسٹرکٹ اسکول کی شکل دے دی گئی۔ یکم جنوری 1864ئ میں ڈاکٹر جی لیٹنر کی زیر سرپرستی گورنمنٹ کالج لاہور کی ابتدائی کچھ کلاسیں بھی اس عمارت میں ہوتی تھیں۔ اور یہ سلسلہ 1877ئ میں گورنمنٹ کالج کی نئی عمارت کی تعمیر تک جاری رہا۔ کالج کی منتقلی کے بعد یہ عمارت طویل عرصہ تک ویران رہی۔ بعد ازاں یہ عمارت سی آئی اے کے زیر استعمال رہی۔1986ئ انیسویں صدی کی اس تاریخی یادگار کو محکمہ تعلیم کے حوالے کر دیا گیا اور لڑکیوں کے کالج کی بنیاد رکھی گئی۔

اندرون شیرانوالہ گیٹ خضری گلی ہے یہاں اس گلی کے آخر میں شاہ افغانستان احمد شاہ ابدالی کے بیٹے شہزادہ سلمان شاہ کی اولاد میں سے ایک شہزادہ سلطان محمد جمال درانی نے تقریبا 1875ء میں حویلی تعمیر کرواِئی جو حویلی آغا گل کے نام سے مشہور ہوئی-آپ خود بھی عالم دین تھے اور آپ کے بیٹے شہزادہ سلطان علی درانی بھی عالم دین تھے۔جو شہزادہ ایوب شاہ کے رشتہ دار بھی تھے اسی حویلی میں شہزادہ سلطان احمد (عالم دین) اورغلام حسین قریشی نے زندگی گزاری جو پاکستان کے نامور عالم دین علامہ علاء الدین صدیقی کے استاد اور میرے دادا جان تھے اسی حویلی میں میں (قیصر علی آغا رائٹر ،کالم نگار )نے پرورش پائی (بحوالہ عظیم مجاہد احمد شاہ ابدالی ،صفحہ نمبر158 ,مصنف قیصر علی آغا ،علم و عرفان پبلشرز اردو بازار لاہور) اس وقت اس حویلی کا مین گیٹ کچھ حد تک محفوظ ہے باقی حصے پر مارکیٹ بن چکی ہے زیادہ اندر گلی میں واقع ہونے کی وجہ سے یہ تاریخی حویلی لوگوں کی نظرو ں سے اوجھل رہی

تاریخی ورثہکھاتہ بنالیتے ہیں[ترمیم]

شیرانوالہ دروازہ تاریخی ورثے سے مالامال ہے۔ یہاں کی گلیاں، کٹڑیاں اور قدیم عمارات ماضی میں اس علاقے کے باسیوں کی کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ لیکن حکومتی اداروں کی نااہلی کے باعث یہ تاریخی ورثہ اپنے نشانات کھو رہا ہے۔ مرکزی دروازے سے لے کر اندرون شہر کے قدیم گھروں اور گلیوں کی خستہ حالی اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تاریخی عمارات کی خستہ حالی، جا بجا تجاویز اور غیر قانونی تعمیرات سے اس تاریخی ورثے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر اس جانب سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو آئندہ آنے والے برسوں میں اس تاریخی ورثے کا نشان تک باقی نہ رہنے کا اندیشہ ہے۔

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]