احمد ایاز
سلطان محمود غزنوی کا محبوب غلام اور مشیر۔ پورا نام ابوالنجم ایاز۔ باوجود قرب سلطانی کے اس کی زندگی بڑی سادہ اور کفایت شعارانہ تھی۔ وہ زمانہ قرب سلطانی سے پیشتر کا مفلسانہ لباس بطور یادگار اپنے پاس صندوق میں محفوظ رکھتے رہتا اور جب کبھی اس یادگار کو ملاحظہ کرتا تو یاز قدر خود بشناس کہتا یعنی ایاز تو اپنی ماضی کی حیثیت کو بھول نہ جانا۔ مورخین کا خیال ہے کہ وزیرآباد کے قریب (سوہدرہ) کا قصبہ اسی ایاز نے آباد کیا تھا۔ 1036ء کے لگ بھگ لاہور کا صوبیدار مقرر ہوا۔ اور یہیں وفات پائی۔ اس کا مزار چوک رنگ محل میں ہے۔
محمود غزنوی کے معروف غلام کا مقبرہ ان سے منسوب ہے، یہ مقبرہ رنگ محل مشن ہائی اسکول لاہور کے سامنے چوک میں موجود ہے۔
ایاز کو ایاس اور الیاس بھی لکھا گیا ہے۔ اس کے ابتدائی حالات کے متعلق مستند معلومات نہیں ملتیں. ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی نے ایاز کا سنہ پیدائش اندازہً 373ھ تحریر کیا ہے۔ ایاز سلطان کے دربار میں کیسے پہنچا اس کے متعلق بہت سی کہانیاں موجود ہیں۔ مجالس العشاق(بحوالہ نقوش) کے مطابق 397ھ میں غلام فروشوں کی ایک جماعت نے سلطان کے لیے 120 غلام پیش کیے اب بعض کہتے ہیں کہ ایاز کو اس کی خوبصورتی کے باعث سب سے پہلے منتخب کیا گیا جبکہ بعض کے نزدیک اس کو کمزوری و بیماری کے باعث چھوڑ دیا گیا اور پھر ایاز کے زار و قطار رونے پر اس کو بھی لے لیا گیا۔ زلالی نے اپنی مثنوی (بحوالہ مآثر لاہور) محمود و ایاز میں ایاز کو کسی کشمیری بادشاہ کا بیٹا بتایا ہے جو لڑکپن میں گم جاتا ہے اور غلام بنا کر بیچا جاتا ہے, لیکن اس زمانے تک کشمیر میں کوئی مسلمان بادشاہ نہ تھا۔ اسی طرح ایاز کے آبائی علاقے کے متعلق اختلاف ہے۔ ایاز کو مختلف لوگوں نے ترک, روسی, منگول, افریقی,ترکمانی, ختنی, کشمیری وغیرہ لکھا ہے۔
ایاز کی کنیت ابو النجم بتائی جاتی ہے۔ اس کے باقی خاندان کا تاریخ میں کوئی خاص ذکر نہیں بعض نے اس کی ایک بہن کو محمود کی بیوی بتایا ہے مگر مستند روایات میں ایسا کوئی تذکرہ موجود نہیں. بعض نے ایماق یا اوئماق ایاز کے باپ کا نام اور بعض نے ایاز کے قبیلے کا نام بتایا ہے۔ دائر معارف اسلامیہ میں اس ضمن میں کہا گیا ہے" ابن اثیر نے "ابن اوئماق" لکھ کر بظاہر بعد کے فارسی تاریخ نویسوں کو غلط راستے پر ڈالا اور ان کے بعض کاتبوں نے اسے ابن اسحاق بنا دیا."
ایاز محمود کا وفادار تھا۔ ایاز کوئی عام غلام نہیں تھا, جیسا کہ مورخ بیہقی ایاز کا تذکرہ اخص خواص آٹھ غلاموں میں کرتا ہے۔ ایاز محمود کے شاہی دستے کا سالار بھی تھا۔ ایاز کی محمود کے دربار میں حیثیت سے متعلق پروفیسر مشتاق احمد بھٹی نے اورینٹل کالج میگزین شمارہ نومبر 1943ء میں اپنے مضمون میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ نور احمد چشتی تو کہتے ہیں کہ محمود نے سومنات کا بت ایاز کے مشورے پر ہی توڑا. ایاز و محمود پر بہت سے شعرا نے لکھا ہے۔ ایاز سے متعلق فارسی ادب میں بہت سی حکایت موجود ہیں۔ زلالی, سعدی, عوفی,رومی,عطار, غقاری,عنصری,حافظ, فرخی, نظامی,جامی, وغیرہ نے ایاز پر لکھا ہے۔ شعرا کے قصائد کی بنا پر ہمارے بہت سے مورخین نے محمود و ایاز کو داستان عشق بنا دیا۔ اب اس معاملے میں ہر ایک نے اپنی کہانی تراش لی. شعر العجم میں مولانا شبلی نے لکھا ہے" سلطان محمود کو ایاز سے جو محبت تھی اگرچہ حد سے متجاوز تھی لیکن ہوس کا شائبہ نہ تھا۔ ایک دن بزم عیش میں بادہ و جام کا دور تھا محمود خلاف عادت معمول سے زیادہ پی کر بدمست ہو گیا, اسی حالت میں ایاز پر نظر پڑی اس کی شکن در شکن زلفیں چہرہ پر بکھری ہوئی تھیں محمود نے بے اختیار اس کے گلے میں ہاتھ ڈال دیے, لیکن فوراً سنبھل گیا..." اب مولانا نے محمود کی مے نوشی کے متعلق کوئی حوالہ نہیں لکھا لیکن انکا یہ بیان ایک شاعر کے قصے پر مبنی ہے۔ اس بیان پر بہت سے لوگوں نے جرح کی ہے ابن کثیر ,ابن خلدون و دیگر مورخین نے محمود کا جو کردار لکھا ہے اس میں یہ واقعہ ویسے بھی نہیں جچتا. اسی طرح محمود و فردوسی کے متلعق بھی کہانی بنا لی گئی ہے۔
ایاز کو بانی لاہور اور لاہور کا پہلا حاکم بھی کہا جاتا ہے لیکن غزنوی دور میں لاہور کے اولین صوبہ داروں میں عبد اللہ فراتگین اور حاجب اریاروق کے نام بھی ملتے ہیں۔ ایاز لاہور میں کب آیا اس کے متلعق مورخین کا اختلاف ہے۔ صاحب تاریخ الامت, سجان رائے,سید لطیف,لوسی پیک,محمد ممتاز ارشد, گلاب سنگھ(پنجاب نوٹس اینڈ کویریزفروری 1884ءمیں), لاہور گزیٹیئر(1893ءمیں), محمد اکرام(آب کوثر میں) و دیگر کی رائے ہے کہ ایاز کو لاہور کا صوبہ دار یا منتظم محمود غزنوی نے فتح لاہور کے بعد خود بنایا. کہنیالال کا بیان ہے "محمود غزنی چلا گیا اور یہ شہر چند سال ویران پڑا رہا. من بعد جب ملک ایاز بادشاہ کے حکم سے پنجاب کا حاکم بنا اور شہر بسایا."
ایاز نے محمود کی وفات کے بعد محمد کی بجاے مسعود کی حمایت کی تھی اس کے باعث ایاز مسعود کا بھی منظور نظر بن گیا۔
مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایاز کو امیر مسعود کے عہد میں اس کے فرزند مجدود(کچھ لوگوں نے غلطی سے مسعود کے دوسرے فرزند مودود کا نام بھی لکھا ہے) کا اتالیق بنا کر تقریباً 426ھ یا 427ھ میں لاہور بھیجا گیا۔ اس روایت کو مورخ فرشتہ, محمد دین فوق,سید ہاشمی فرید آبادی, ڈاکڑ خواجہ عابد نظامی, طاہر لاہوری ,پروفیسر مشتاق احمد بھٹی, ڈاکٹر محمد باقر, مفتی غلام سرور لاہوری,ڈاکٹر انجم رحمانی و دیگر نے درج کیا ہے۔ مورخ بیہقی اور مسعودی کے بیانات سے بھی اس روایت کی تائید ہوتی ہے مگر انھوں نے ایاز کا نام درج نہیں کیا. ایک قصے میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ محمود ایاز کو لاہور سپرد کرنا چاہتا تھا مگر ایاز نے قبول نہیں کیا اسی طرح روایات میں موجود ہے کہ ایاز محمود کی وفات کے وقت اس کے پاس تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مجدود کی کم عمری کے باعث اصل طاقت ایاز کے ہی ہاتھ میں تھی مورخ فرشتہ کے بقول قاضی القضاۃ و سپہ سالار بھی ایاز کے ماتحت تھے۔ ایاز نے لاہور کو خوب ترقی دی.
ایاز کب تک لاہور میں بر سر اقتدار رہا اس کی صحیح مدت معلوم نہیں کیونکہ اس کی سنہ وفات میں اختلاف ہے۔ مورخ فرشتہ نے لکھا 433ھ میں مسعود کے قتل کے بعد مودود اور مجدود ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہوگے. مگر عید کے روز مجدود مردہ پایا گیا اور اس کے کچھ عرصہ بعد ایاز کا بھی انتقال ہو گیا۔ مولانا ذکاء اللہ و دیگر نے ایاز کا سنہ وفات یہی لکھا ہے۔ مفتی غلام سرور نے گنج تاریخ (بحوالہ پیر غلام دستگیر نامی) میں سنہ وفات 434ھ جبکہ اپنی دوسری کتاب حدیقتہ الاولیا میں 450ھ لکھا ہے۔ مستند کتب میں سے ابن اثیر نے سنہ وفات 449ھ تحریر کیا ہے اورطبقات ناصری کے انگریز مترجم ریورٹی نے بھی حاشیے پر سنہ وفات 449ھ لکھا ہے۔ محمد دین فوق اور ہاشمی فریدآبادی نے بھی اس کی تائید کی ہے اور پروفیسر مشتاق احمد بھٹی نے اپنے مضمون میں اس تاریخ کو ثابت کیا ہے۔ ایاز کے آخری دنوں کے متعلق مآثر لاہور میں درج ہے "معلوم نہیں زندگی کے آخری سال جو بظاہر لاہور ہی میں گذرے کس طرح اور کن اشغال میں بسر ہوئے." مفتی غلام سرور نے حدیقتہ الاولیاء میں لکھا ہے " مودود نے ایاز کو واپس غزنی لے جانے کی بہت کوشش کی مگر اس نے منظور نہ کیا اور تارک الدنیا ہوکر صحبت فقر اختیار کی اور بزرگان لاہور سے سے فیض کامل حاصل کیا..." کہا جاتا ہے کہ ایاز سلسلہ جنیدیہ میں بیعت ہوگے اور آپ کی کرامت بتائی جاتی ہے کے آپ نے ایک ہی دن میں لاہور کی فصیل اور قلعہ تعمیر کیا ( اولیاء کے تذکروں کے علاوہ یہ روایت سید لطیف اور لاہور گزیٹیئر 1893ء کے مرتبین نے بھی درج کی ہے).
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ مقبرہ ایاز کا نہیں. کچھ ایاز کا مقبرہ صوابی میں بتاتے ہیں(مگر کسی مستند کتاب میں ایسی کوئی روایت نہیں ملی). لاہور کے حوالے سے ایاز نام کے دو اور معروف لوگ بھی گذرے ہیں۔ دائر معارف اسلامیہ میں اس مسئلے کے متلعق کہا گیا ہے "ایک ایاز عزالدین کبیر خانی تھے جو شمسی سلاطین دھلی کے زمانے میں لاہور کا حاکم تھا, لیکن اس کی وفات اُچ سندھ میں ہوئی اور دوسرے خواجہ ایاز شاھجانی مگر وہ گیارھویں/ستھرویں صدی کا آدمی تھا۔ غزنوی ایاز کے ساتھ اس کا التباس بعید از قیاس ہے." ماضی میں ایاز کا مقبرہ کافی وسیع تھا۔ کہنیا لال لکھتے ہیں " اس مزار کے ساتھ بہت بڑا احاطہ و باغیچہ و ملکیت تھی جو بسبب گزرنے عرصہ دراز کے جاتی رہی." سید لطیف کا بیان ہے " اس مزار کے ساتھ ملحقہ ایک بہت بڑا باغ سکھوں کی حکومت کے دوران ختم ہو گیا." ماضی قریب میں نواز شریف نے بطور وزیر اعلی پنجاب مقبرہ ایاز دوبارہ تعمیر کروایا اور ساتھ ایک مسجد بھی. گو کہ یہ مقبرہ کوئی برا نہیں مگر شاید اس محسن لاہور کے شایان شان بھی نہیں. جب یہاں علی الصبح حاضری دی تو حیرت ہوئی کے مسجد کھلی تھی حالات کے باعث زیادہ تر مساجد نماز کے اوقات میں ہی کھلتی ہیں۔ مقبرہ کافی مشکل سے ملا کئی لوگوں سے پوچھا یہاں تک مقبرے و مسجد کے بالکل قریب موجود دکان دار بھی اس کے متعلق نہیں جانتے تھے شاید وجہ ہماری تاریخ سے عدم دلچسپی ہے۔ جس مقبرے کے متعلق ماضی کی کتب میں لکھا ہے کہ اہلیان لاہور بانی لاہور کی اس قبر کی خصوصی تعظیم کرتے ہیں آج کے جدید لاہوریے بانی لاہور کی اس قبر کو فراموش کرچکے ہیں، [1]
ثقافت میں
[ترمیم]آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز
قبلہ رُو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ تحریر : طلحہ شفیق