عبرانی ادب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
یہودی ثقافت
بصری فنون
بصری فنون فہرست
ادب
ییدش لادینی
عبرانی اسرائیلی
امریکی انگریزی
فلسفہ فہرست
فنون ادا
موسیقی رقص
اسرائیلی ایوان عکس ییدش جلوہ گاہ
طرز طباخی
یہودی اسرائیلی
سفرڈی اشکینازی
شامی
دیگر
مزاح زبانیں
علامات لباس

عبرانی ادب (عبرانی: ספרות עברית) میں وہ تمام شعری و نثری تخلیقات و تصانیف شامل ہیں جو کسی بھی دور میں عبرانی زبان میں اِرقام کیے گئے۔ عبرانی ادب تاریخ کے مختلف ادوار میں متعارف ہوتا رہا۔ تاہم معاصر عبرانی ادب پر واضح طور پر اسرائیلی ادب کی چھاپ موجود ہے۔ عبرانی ادب کی سب سے اہم کتاب عبرانی و آرامی میں اِرقام کیا گیا وہ مجموعہ ہے جسے تنک کہتے ہیں اور یہود نے جسے تقدس کا درجہ دے دیا ہے۔ یہودیت کی بیشتر مذہبی ادبیات عبرانی زبان میں ہیں۔ جیسے تلمود اور بالخصوص اس کا جزو مشنی جو تورات کی شروحات میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے عبرانی زبان میں ہے اور عبرانی ادب کا قابل ذکر حصہ ہے۔

عہد قدیم[ترمیم]

عبرانی ادب کی ابتدا عہد قدیم کے لسان القدس (לֶשׁוֹן הֲקוֹדֶשׁ)، ابراہیم کی تعلیمات اور اسرائیل کے بزرگوں کے شفوی ادب سے ہوئی۔ اس کی تاریخ 2000 سال قبل مسیح بتائی جاتی ہے۔[1] اگر تقابل نہ کریں تو قدیم عبرانی ادب کا سب سے اہم حصہ تنک ہے۔ مشنی جس کی تدوین سنہ 200ء میں عمل میں آئی، تورات سے ماخوذ بنیادی قوانین کا مجموعہ ہے۔ یہودیوں نے شریعت موسوی کے متعلق ہونے والے ان اجتہادات کو ایک جگہ جمع کر کے ایک فقہی مجموعہ مرتب کیا۔ اسے بنیادی طور پر مشنائی عبرانی زبان میں اِرقام کیا گیا لیکن اس کی سب سے بڑی شرح جمارا آرامی زبان میں اِرقام کی گئی۔ نیز کلاسیکی مدراش کے کئی متون عبرانی زبان میں اِرقام کیے گئے۔

عہد وسطی[ترمیم]

عہد وسطی کے عبرانی ادب اور یہودی ادب کا زیادہ تر حصہ اسلامی دور حکومت (شمالی افریقا، ہسپانیہ، فلسطین اور مشرق وسطی) میں مرتب ہوا۔ اس دور میں فلسفہ کی اہم کتابیں جیسے دلالۃ الحائرین (عبرانی: מורה נבוכים‬)، کتاب کزاری (عبرانی: ספר הכוזרי‬) اور دیگر ادبی کتب یہود عربی زبانوں میں اِرقام کی گئیں۔ ربیائی ادب زیادہ تر عبرانی زبان میں اِرقام کیا گیا۔ مثال کے طور پر ابراہیم بن عزرا، راشی) اور دیگر قلم کاروں کے توراتی تشریحات، ہلاخاہ جیسے موسی بن میمون کی منشائی تورات، ارباح توریم اور شولحان آروخ اور موسار ادب کی کتابیں، جیسے بہیہ بن باقودا کی کتاب الہدایہ الی فرائض القلوب وغیرہ۔ زیادہ تر یہودی شاعری عبرانی زبان میں اِرقام کی گئی۔ یوسے بن یوسے، یانائی اور الیعزر کالیر نے ساتویں اور آٹھویں صدی میں فلسطین میں پیوطیم (نظمیں) لکھیں۔[2] ان نظموں کو عبرانی لطوریا میں شامل کیا گیا۔ پھر ان لطوریا کو عمرام گاؤن اور سعادیا گاؤن کے ساتھ دوسرے ربیوں نے “سدور“ کے نام سے ایک کتاب میں جمع کیا۔ بعد میں ہسپانوی پروونکل اور اطالوی شاعروں نے مذہبی اور غیر مذہبی نظمیں لکھیں، خصوصی طور مشہور شاعر سلیمان بن جبریل، یہودا لاوی اور یہودا الحریزی قابل ذکر ہیں۔ بہت سارے مترجمین نے اس دور میں یہودی ربائی متون کا عربی سے عبرانی میں ترجمہ کیا ہے۔ یہودا الحزیری کی اہلیہ نے ایک نظم عبرانی زبان میں اِرقام کی گئی۔ وہ واحد خاتون ہیں جنھوں نے اس دور میں عبرانی زبان میں کوئی نظم اِرقام ہوئی ہے۔[3]

عہد جدید[ترمیم]

عہد جدید میں یہودی شاعروں اور مصنفوں نے کلاسیکی ادب کے ساتھ ساتھ جدید شاعری، نظم، نثر اور فکشن پر توجہ دی اور ‘‘جدید عبرانی ادب‘‘ نے خوب ترقی کی۔

اٹھارہویں صدی[ترمیم]

18ویں صدی کے اوائل میں یہودی ادب کو سفاردی مصنفین نے زیادہ تر یہود-عربی زبان میں اِرقام کیا۔ موسی حییم لوزاطو کا ایک ذرامہ ‘‘لا-یشاریم تیہیلان‘‘ (1743) جدید عبرانی ادب کا پہلا نمونہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ نظم بائبل کے بعد کلاسیکی انداز کا سب سے مکمل ادب مانا جاتا ہے۔[4] 18ویں صدی کے اواخر میں تحریک حثکالا کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ تحریک یورپ میں یہودیوں کو سیاسی طاقت دلانے کے لیے اٹھی تھی۔ اور اسی موقع پر یورپی یہودیوں نے کافی تعداد میں ادب پر کام کیا۔ موسی مندلسون نے عبرانی بائیبل کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا اور ان کے اس کام نے مزید لوگوں کو عبرانی کی طرف متوجہ کیا جس سے عبرانی زبان میں ایک سہ ماہی تبصرہ کا آغاز ہوا۔[4]

انیسویں صدی[ترمیم]

19ویں صدی شاعر، مصنفین اور مشہور کتاب نے عبرانی زبان کی تقسیم اور آزادی میں حصہ لیا۔ غالیشیا میں درج ذیل شامل ہیں:

ایمسٹرڈیم میں 19ویں صدی میں عبرانی زبان کے آرٹسٹوں کا ایک گروہ ابھرا جس میں شاعر سیمویل موڈلر بھی شامل تھے۔ اسی صدی میں پراگ حثکالا کا ایک اہم مرکز بن کر ابھرا۔ یہوداہ لیوب جیٹیلیس (1773–1838) ایک حثکالا مصنف ہیں جنھوں نے “بینے حا نیوریم‘‘ اِرقام کی اور حسدی یہودیت اور ما فوق الفطرت کے خلاف اِرقام کیا۔ مجارستان میں سلیمان لیوسن (1789–1822) اور جبریل سدفیلد (ایک شاعر جو میکس نورادو کا باپ تھا) اور شاعر سائمن بشیر سمیت کئی سارے شعرا اور ادبا ابھرے۔[6] رومانیہ میں 19ویں صدی میں جولیس بشارہ نامی ایک ماہر طبیعیات تھا جو شاعر بھی تھا۔[7]

19ویں صدی کے اطالوی شاعروں میں جنھوں نے عبرانی زبان میں اِرقام کیا:

  • آئی ایس ریگو (1784–1854)
  • جوژف المزنی
  • حییم سلیمان
  • سیمویل وطا لولی (1788–1843)
  • راشیل موپورغو (1790–1860)، حثکالا تحریک کی چند خاتون ادیباؤں میں سے ایک۔ اسرائیل کے مستقبل کے لیے اہم کاوشیں۔[6]

سلطنت روس میں 19 ویں صدی میں اہم مصنفین اور شعرا کے نام درج ذیل ہیں:

  • یعقوب ایخن بون (1796–1861) ایک شاعر اور ماہر ریاضیات
  • اسحاق بائر لیونسوہن- حثکالا رہنما
  • کلمان شلمان (1826–1900) انھوں نے عبرانی زبان میں رومانیت کو متعارف کروایا
  • موردیکائی آرون زنجبرگ - ان کو بابائے نثر کہا جاتا ہے
  • میکاہ جوژف لوبونساہن (1828-1852- ایک رومانی شاعر
  • اب رہام بائر لوبونسن، بابائے شاعری کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔
  • اب رہام ماپو (1808–1867)- ایک ناول نگار
  • یہوداہ لیب گوردون (1831–1892) ایک مشہور شاعر[6]

بیسویں صدی[ترمیم]

فلسطین میں صہیونی آبادکاری 20ویں صدی کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ دور دور سے یہودی فلسطین میں آبسے اور عبرانی زبان بہت سے مخلتف یہودی گروہوں میں ایک مشترک زبان بن گئی۔ ان میں مقامی فلسطینی یہودی اور قدیم ییشو بھی شامل ہیں۔ ان دونوں گروہوں نے قدیم عرب-یہودی مصنفین اور سفاردی کی ادبی روایات کو باقی رکھا۔ ان شاعروں میں موسی بن میمون اور الحزیری ہیں۔ ایلیزار بن یہودا نے خصوصی طور پر عبرانی کو جدید دنیا کے قریب تر کیا۔ انھوں نے عبرانی زبان میں تمام زمانوں کے ذخائر کو جمع کیا اور عبرانی زبان کے شاعری کے علاوہ دوسرے موضوعات میں جگہ دلوائی۔ یورپ میں صہیونی تحریک کا عبرانی زبان کو یہ فائدہ ہوا کہ اشکنازی یہود نے عبرانی ادب کو اپنا لیا اور پہلی دفعہ یہ ادب بڑھ چڑھ کر بولنے لگا۔ جدید اسرائیل کی تحریروں کی بنیاد عالیہ ثانیہ کے چند اہم راقمین کے ایک گروہ نے رکھی جن میں سیمویل یوسف اگنون، موشے سمیلانسکی، یوسف بن برینیر، داود سیمونی]] اور یعقوب فیشمین]] جیسے مایہ ناز ادبا شامل ہیں۔ حایم نحمان بیالک (1873–1934) جدید عبرانی زبان کے مایہ ناز شاعر ہیں اور اسرائیل کے قومی شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ بیالیک نے خاص طور عبرانی زبان کے احیا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان سے قبل یہ زبان صرف ایک قدیم، مذہبی اور شاعری کی زبان تھی۔ بیالیک اور ان جیسے دوسرے ادبا جیسے احد حام اور شاؤول تشرنحوفسکی نے اپنے آخری ایام تل ابیب میں گزارے اور نوجوان عبرانی راقمین کو خوب متاثر کیا۔ جدید عبرانی ادب پر ان کا اچھا خاصا دیکھنے کو ملتا ہے۔[8] دوسری طرف ان کے ہی رو برو فلسطینی اور شامی یہودی کو بھی جدید عبرانی ادب نے اپنی طرف متوجہ کیا اور انھوں عبرانی پر طبع آزمائی شروع کی۔ 1966 میں سیمویل یوسف اگنون کو نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ ان کو یہ اعزاع بائبل، تلمود اور جدید عبرانی ادب کے ایم منفرد مجوعے پر ملا ہے۔ ادبی مترجیمین نے جدید عبرانی ادب مین ترجمہ کر کے اسرائیلی عبرانی ادب کو دنیا کے مختلف زبانوں کے ادب سے مالا مال کیا۔

عبوری دور[ترمیم]

1948 میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی عبرانی ادب کو نئی نسل نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس نوجوان ناول نگاروں میں احارون موغید، ناثام شاحام اور موشے شامیر اور شاعروں میں یہوداح امیکائی، امیر گلبوا اور حائم گوری شامل ہیں۔ اموس اوز کی ناول مائی مائکل (1968)، بلیک باکس (1987) اور اے۔بی یشودا کی دی لور(1977) اور مسٹر مانی (1990) جیسی ناول نئی ریاست میں زندگی کا تعارف کرواتی ہیں اور نئی ریاست کا تجربہ بیان کرتی ہیں۔ ان نوالوں میں والدین اور بچوں کے درمیانا تنازع، یہودیت اور صہیونیت کے کچھ خیالوں کی تردید وغیرہ کو جگہ دی گئی ہے۔ 20ویں صدی کے اواخر میں متعدد عبرانی ناول نگاروں نے مرگ انبوہ، خواتین کے مسائل اور اسرائیل عرب تعلقات پر موضوع بنایا ہے۔ دوسری موضوعات میں یورپی یہودیوں کی پریشیانیاں، اشکنازی یہود، مشرق وسطی کے یہود، مزراحی یہود، سفاردی یہود کے مسائل ہیں۔ 1988 میں فلسطینی اسرائیلی مصنف انطون شماس عبرانی زبان میں ایک ناول ‘‘ عربسیقق‘‘ (عربی سجاوٹ) اِرقام کی اور یہ ناول عبرانی ادب کا وہ شاہکار ہے جسے ایک غیر یہودی اسرائیلی نے اِرقام کیا ہے۔ یہ اپنے آپ میں پہلا نمونہ ہے اور اور ایک سنگ میل بھی۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Shea 2000, p. 248.
  2. Encyclopedia Judaica
  3. The Dream of the Poem: Hebrew Poetry from Muslim and Christian Spain, 950-1492، ed. and trans. by Peter Cole (Princeton: Princeton University Press, 2007)، p. 27.
  4. ^ ا ب "Literature, Modern Hebrew"۔ JewishEncyclopedia.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مئی 2014 
  5. Hillel Halkin (11 مئی 2015)۔ "Sex, Magic, Bigotry, Corruption—and the First Hebrew Novel"۔ mosaicmagazine.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2015 
  6. ^ ا ب پ "Literature, Modern Hebrew"۔ JewishEncyclopedia.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مئی 2014 
  7. "Barasch, Julius"۔ JewishEncyclopedia.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مئی 2014 
  8. Plenn, Matt. "Hayim Nahman Bialik: Jewish National Poet"، section: "Lasting Legacy"۔ My Jewish Learning. www.myjewishlearning.com. اخذکردہ بتاریخ 2016-07-16.

کتابیات[ترمیم]