درہم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

درہم خالص چاندی کا بنا ہوا سکّہ ہوتا ہے جو 70 جو کے برابر ہوتا ہے[1] جس کا وزن 2.975 گرام ہوتا ہے۔ وزن کے اعتبار سے سات دینار کا وزن دس درہم کے برابر ہوتا ہے۔ درہم کا وزن چودہ قیراط کے برابر ہوتا ہے۔[2]1400 سال پہلے قیمت کے لحاظ سے سونا چاندی سے سات گنا مہنگا ہوا کرتا تھا جیسا کہ زکاۃ کے نصاب سے ظاہر ہے۔ اب سونا چاندی سے لگ بھگ 70 گنا مہنگا ہو گیا ہے۔

ترکی کی سلطنت عثمانیہ میں درہم 3.207 گرام کا تھا۔
1895 میں مصر میں درہم 3.088 گرام کا تھا۔

حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلّم کے دور کا ساسانی نقرئی درہم، جس پر خسرو پرویزثانی (628-570) کا مہ رہے۔
چاندی کا درہم جس پرحضرت عثمان رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دور میں بسم اللہ لکھا گیا۔ اس کا وزن تقریباً 3 گرام ہے۔ اس کو عمر فاروق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے 3.5 گرام سے کم کرکے3 گرام کیا تھا۔
بنو امیہ کے زمانے (730 عیسوی) کا بلخ میں بنایا ہوا ایک چاندی کا درہم

تاریخ[ترمیم]

روایت ہے کہ لگ بھگ 3800 سال قبل حضرت یوسف کو محض چند درہم کے عوض بیچ دیا گیا تھا۔ حضرت عیسیٰ ابن مریم کو اُن کے ایک حواری نے چاندی کے 30 سکوں کے عوض گرفتار کروا دیا تھا۔
اسلام کے ابتدائی زمانے میں ایک بکری کی قیمت دس درہم (یعنی ایک دینار) ہوتی تھی۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں چاندی کے ساسانی (ایرانی) اور یونانی سکّے استعمال ہوا کرتے تھے، جس کا وزن 3 گرام سے لے کر 5۔3 گرام ہوا کرتا تھا۔ اہل عرب اس کاتبادلہ وزن کے حساب سے کیاکرتے تھے لیکن محمد نے ایک دینار کا وزن ایک مثقال قرار دیا، جو 72 جو (barley) کے دانوں کے وزن کے برابر ہوتاہے۔ اور جدید معیار وزن کے مطابق اس کا وزن تقریباً 4.25 گرام ہوتاہے۔ عمر فاروق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دور میں ان سکّوں کو کاٹھا گیا اور اس کے وزن کوایک مثقال تک لایاگیا۔ اور آپ نے ایک معیار قائم کیا کہ سات دینار کا وزن دس دراہم کے برابر ہو۔ لہذا ایک درہم کا وزن تقریباً 2.975 گرام (تقریباً 3 گرام) ہوتاہے۔ عثمان غنی کے دور میں اس پر بسم اللہ لکھا گیا۔ علی المرتضیٰ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اور عبد اللہ بن زبیر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اور امیر معاویہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے پہلی مرتبہ اپنے سکّے جاری کیے۔ بعد میں عبدالملک بن مروان نے مسلمانوں میں باقائدہ طورسے اپنے سکّے ڈھالنے شروع کیے۔ جس کاوزن نہایت احتیاط کے ساتھ 2.975 گرام (تقریباً 3 گرام) رکھا گیا۔[3]

معیارِ وزن[ترمیم]

درہم کا وزن بھی ایک مثقال سے اخذ کیا گیا ہے۔ جس کا وزن 72 جو(barley) کے دانوں کے وزن کے برابر ہوتاہے، جو 25۔4 گرام کے برابر ہوتاہے۔ عمر فاروق کے قائم کردہ معیارکے مطابق سات دینار کا وزن دس دراہم کے برابر ہو، تو ایک درہم کا وزن تقریباً 2.975 گرام (تقریباً 3 گرام) ہوتاہے۔ اور اس کی خالصیت کم ازکم 22 قیرات (یعنی 7۔91 فیصد) ہونی چاہئیے۔ اس لیے جدید اسلامی درہم بنانے والی اکثرکمپنیاں مثلاً عالمی اسلامی ٹکسال، وکالہ انڈیوک نوسنتارہ، ضراب خانہ اسعار سنّت وغیرہ اسی معیار کو استعمال کرتی ہیں۔[4]

استعمال[ترمیم]

درہم کے بہت سے استعمالات ہیں۔ جن میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔[3]

  • بطورِ زر (زر)
  • بطورِ معیار نصابِ زکوٰۃ
  • بطورِ ادائیگی زکوٰۃ
  • مہر کا نصابِ معیار
  • اسلامی قوانینِ سزا و جزا (حدود) میں اس کا استعمال

جدید دور میں اجرا[ترمیم]

تفصیل کے لیے دیکھیے:

فوائد[ترمیم]

چاندی کے درہم کے بہت سے فوائدہیں۔

  • چاندی کے درہم کے بہت سے فوائد ہیں۔ کیونکہ کرنسی کی قیمت اس کے اندر ہونی چاہیے۔ لہٰذا چاندی کے سکوّں کی اپنی ایک قدر و قیمت ہے جو پوری دنیا میں قابل قبول ہے کیونکہ یہ ایک حقیقی دولت ہے کوئی ردّی کاغذ نہیں۔[5]
  • جدید معاشی نظام سے پہلے جب لوگ آپس میں تجارت کرتے تھے تو وہ جفرافیائی حدود سے آزاد تھے۔ وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے تھے سونے اور چاندی کے سکے ّ وہاں وزن کے حساب سے قبول کیے جاتے تھے۔ لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوا کرتی تھیں۔ ایسا ممکن نہ تھا کہ امریکا میں بیٹھا کوئی بینکر یا شخص ہندوستان کی پوری قوم کو غلام بناسکے۔ اور اس کے علاوہ یہ بھی ممکن نہ تھا کہ افغانستان میں بیٹھا ہوا کوئی شخص اگر تجارت کرے تو یورپ میں بیٹھا ہوا کوئی بینکر اس میں سے اپنا حصّہ نکال لے۔ یعنی تجارت حقیقی دولت میں ہوا کرتی تھیں اسی لیے انسان آزاد تھے۔[6]
  • اس کے ساتھ ساتھ لوگ حکومت کے دھوکوں سے بھی آزاد تھے۔ اگر کوئی حکومت یا بادشاہ منڈی میں دولت لانا چاہتا تھا تو اسے سونا یا چاندی کہیں سے ڈھونڈ کر لانا پڑتا تھا۔ ایسا نہ تھا کہ بے دریغ دولت(کاغذی کرنسی)کے روپ میں یکدم منڈی میں ڈال دی جاتی، روپے،ڈالر وغیرہ کی قیمت میں کمی ہوجاتی۔ جس کی سزا عام عوام کو بگتنی پڑتی۔

یعنی اس دور میں جب کوئی حکومت یا بادشاہ ملکی خزانہ لوٹ لیتے ہیں تو پھر ان کے پاس سرکاری ملازمین وغیرہ کو تنخواہ دینے کے پیسے(کاغذی کرنسی)کم پڑجاتی ہے تو وہ زیادہ کاغذی کرنسی چھاپ دیتے ہیں تاکہ ملازمین کو تنخواہیں دی جاسکے تو کاغذی کرنسی کی قدر میں کمی ہوجاتی ہے، لہٰذا اگر کسی مزدور نے پچھلے دس سالوں میں ایک لاکھ روپے جمع کیے ہیں۔ تو حکومت کی کاغذی کرنسی کی زیادہ چھپوانی سے اب اس کے ایک لاکھ روپے کی قدر پچاس، ساٹھ ہزار روپے ہوگی۔ لہٰذا اس مزدور کی آدھی دولت حکومت نے ہڑپ کرلی اور اس بیچارے کو پتہ ہی نہیں کہ اصل میں کیا ہوا اس کے ساتھ۔۔[7] لہٰذا کاغذی کرنسی کے زیادہ چھپوائی کے ذریعے دنیا کی ہر حکومت اپنی عوام کی دولت کو لوٹنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اسی لیے اگر کرنسی سونے کی ہو تو حکومت کے لیے ممکن نہیں کہ زیادہ کرنسی کو چھپوا سکے کیونکہ اب کرنسی کاغذ کی نہیں بلکہ سونے کی ہے۔ لہٰذا سونے اور چاندی سے بنے کرنسی سے عوام کی دولت، حکومت اور بین الاقوام ادارہ برائے زر(بین الاقوامی مالیاتی فنڈ)کے دھوکوں سے محفوظ رہتیں ہیں۔[8]

  • اس کے علاوہ چاندی کے دراہم اپنی قیمت ہر دور میں برقرار رکھتی ہے۔ اگر آپ کے پاس سونے اور چاندی کے سکے ّ ہو تو آپ خواہ کسی بھی ملک میں چلے جائے تو اس کی قیمت برقرار رہتی ہیں۔ چاہے وہ کوئی بھی دور ہو یا جیسے بھی حالات ہو، جنگ کا زمانہ ہو یا امن کا دور، ملک کی معاشی حالت خراب ہو یا اچھی ہو، ہر حالت میں سونا اپنی قیمت کو برقرار رکھتی ہے۔ کیوں کہ سونے سے بنے کرنسی کی وجہ سے، کرنسی کی قیمت و قدر اس کے اندر ہوتی ہے جب کہ کاغذ سے بنی کرنسی کی قدر اس کے اندر نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک کاغذ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے اگر ایک انسان سونے اور چاندی کے سکوّں کو زمین میں دبادے اور چھار، پانچ سو سال بعد کوئی شخص اس کو نکالے، تب بھی اس کی قیمت برقرار رہے گی اور اس کے لیے یہ سکے ّ ایک قیمتی خزانے کی شکل اختیار کریں گے۔ اس لیے اگر کسی کو آج سے چھار پانچ سو سال پہلے کے دور کے سکے ّ مل جائے تو ہم کہتے ہے کہ اس کو خزانہ مل گیا ہے۔ یہ خزانہ دراصل اس دور کی کرنسی(روپیہ،پیسہ)ہی ہے، جو خزانے کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ اب آپ ذرا سوچئے کہ اگر اس دور میں بھی کرنسی کاغذ کی ہوتی تو پھر اس کی قدر ردّی کاغذ کے سوا کچھ بھی نا ہوتی۔ اس لیے اگر انسان سونا لے کر زمین میں دبا دے اور سو سال بعد اس کو نکالا جائے تو اس کی قیمت برقرار رہتی ہے۔ لہٰذا سونے چاندی کی وجہ سے وہ پرانا معاشی نظام پائیدار تھا۔[9]
  • اس کے علاوہ سونے چاندی کے سکوّں کا یہ فائدہ بھی پہلے حکومتوں اور عوام کو ہوا کرتا تھا کہ اگر کوئی دشمن ملک آپ کی کرنسی بنانا چاہتا تھا، تو اسے بھی سونے اور چاندی کے سکے ّ ہی بنانے پڑتے تھے۔ اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ کوئی بھی ردّی کاغذ چھپوالیتا اور کرنسی کاپی کرلیتا۔

یعنی اس دور میں کرنسی کو دشمن ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دشمن ملک آپ کی کرنسی کو چھاپ کر آپ کے ملک کے منڈی میں لاتا ہے، تو آپ کے ملک میں کرنسی زیادہ ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی قدر میں کمی ہوجاتی ہے اور ملک کا پیسہ تباء ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے معیشت خراب ہوجاتی ہے۔ لیکن اس نظام میں یہ ممکن نہیں جہاں کرنسی سونے اور چاندی سے بنی ہو۔ چنانچہ دنیا کا سب سے پائیدار معاشی نظام ایک ایسا نظام ہو سکتا ہے جس میں کرنسی کی قدر میں کمی نہ ہو، یعنی کرنسی کی اصل قدر اس کے اندر ہو۔[9]

  • اس کے علاوہ اگر دشمن ملک آپ کی کرنسی چھاپ لے تو وہ صرف کاغذ کے چند نوٹوں کے بدلے آپ کے ملک کے مارکیٹ سے کوئی بھی چیز خرید سکتے ہیں۔ مثلاً وہ آپ کے مارکیٹ سے سونا، چاندی،گندم، وغیرہ، غرض ہر چیز خرید سکتے ہیں۔ لیکن سونے کی صورت میں یہ ممکن نہیں۔[5]
  • کاغذی نوٹ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں، پھٹ جاتے ہیں، پانی لگنے سے خراب ہو جا تے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ خراب ہو جاتے ہیں لیکن سونا اور چاندی نا جل کر راکھ ہو تی ہیں اور نا ہی پانی لگنے سے خراب ہوتی ہیں اور 22 قیراط سونے کا سکّہ جس کی ساتھ تھوڑا سا تانبا ملا ہوا ہو، کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہوتی ہیں۔ یعنی ساٹھ سال مسلسل استعمال کے بعد شاہد اس کے وزن میں ایک فیصد کمی آ جائے، جس کو واپس ٹکسال لے جا کر اس میں ایک فیصد سونا ڈالنا ہو گا۔ جب کہ کاغذی کرنسی کی عمر دو سے تین سال ہوتی ہیں۔[6]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. جواہر الفقہ، جلد سوم ،صفحہ391، مفتی محمد شفیع ،مکتبہ دار العلوم کراچی
  2. مفتاح الاوزان - مؤلف : مفتی عبد الرحمن القاسمی عظیم آبادی - ناشر : الامۃ ایجوکیشنل اینڈ چیریٹیبل ٹرسٹ، حیدرآباد، انڈیا
  3. ^ ا ب Ibn Khaldun, The Muqaddimah، ch. 3 pt. 34۔
  4. Vadillo, Umar Ibrahim. The Return of the Islamic Gold Dinar: A Study of Money in Islamic Law & the Architecture of the Gold Economy. Madinah Press, 2004.
  5. ^ ا ب Vadillo, Umar Ibrahim. "The Return of the Islamic Gold Dinar." Kuala Lumpur: The Murabitun Institute (2002)۔
  6. ^ ا ب Meera, Ahamed Kameel Mydin. The Islamic Gold Dinar. Pelanduk Publications, 2002.
  7. Evans, Abdalhamid. "The Gold Dinar-A Platform For Unity." Proc. of the International Convention on Gold Dinar as An Alternative International Currency. 2003.
  8. "Introduction of Islamic dirham, dinar urged to get rid of usury"۔ Pakistan Today News, Date: Saturday, 14 جولائی، 2014,۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2014 
  9. ^ ا ب Rab, Hifzur. "Problems created by fiat money gold Dinar and other alternatives." 2002)، International Conference on Stable and Just Global Monetary System.، IIUM, Kuala Lumpur. 2002.