اللہ بخش یوسفی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اللہ بخش یوسفی

معلومات شخصیت
پیدائش 25 دسمبر 1900ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پشاور ،  شمال مغربی سرحدی صوبہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 13 مارچ 1968ء (68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن لیاقت آباد ،  کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت آل انڈیا مسلم لیگ   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مورخ ،  صحافی ،  سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک تحریک خلافت ،  تحریک آزادی ہند ،  تحریک ہجرت   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

اللہ بخش یوسفی (پیدائش: 25 دسمبر، 1900ء - وفات: 13 مارچ، 1968ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے نامور مورخ، صحافی، تحریک خلافت اور تحریک آزادی ہند کے کارکن تھے۔ انھیں صوبہ خیبر پختونخوا کا بابائے صحافت بھی کہا جاتا ہے۔

خاندانی پس منظر و تعلیم[ترمیم]

اللہ بخش یوسفی 25 دسمبر، 1900ء[1] میں پشاور، شمال مغربی سرحدی صوبہ کے گنجان آباد محلہ کریم پورہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد شریف خان ایک تاجر تھے اور ان کا تعلق پشتونوں کے مشہور قبیلہ غلزئی سے تھا، آبا و اجداد غزنی افغانستان سے آکر پشاور میں آباد ہو گئے تھے۔ اس وجہ سے خاندان کے لوگ اپنے نام کے ساتھ غزنوی بھی لکھتے ہیں۔[2]

تعلیم[ترمیم]

اللہ بخش یوسفی نے گورنمنٹ ہائی اسکول پشاور سے 1914ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1915ء میں مزید تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے، 1917ءء میں سخت بیمار ہو کر واپس پشاور آگئے۔ 1918ءء میں لندن چیمبر آف کامرس کا امتحان پاس کیا۔

سیاسی و صحافتی خدمات[ترمیم]

1919ء میں اللہ بخش یوسفی کا مشہور مجاہدِ آزادی حاجی صاحب ترنگزئی سے تعلق قائم ہوا اور ان کی جماعت انجمن اصلاح الافاغنہ میں شمولیت اختیار کی۔ 1920ء-1921ء میں عدم تعاون اور خلافت کی تحریکوں میں حصہ لیا۔ 1921ء میں آپ کی پہلی کتاب احرار افاغنہ شائع ہوئی۔ اسی سال خلافت کمیٹی پشاور کے معتمد مقرر ہوئے اور مولانا محمد علی جوہر کا قرب حاصل ہوا۔ 1922ء میں پرنس آف ویلز کی پشاور آمد پر ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنے اور پشاور شہر میں مکمل ہڑتال کرانے پر گرفتار کر لیا گیا اور اس جرم میں دو سال قید کائی۔ اسی سال حالات سرحد پر ایک کتابچہ بھی شائع کیا تھا۔ رہائی کے بعد ہفتہ وار اخبار سرحد جاری کیا جس میں حکومت کے ظلم کے کے خلاف کھلی تنقید ہوتی تھی۔[3] 1926ء-1925ء میں دوبارہ ایک سال قید کی سزادی گئی۔ 1925ء ہی میں یوسفی صاحب نے انگریزی میں ایک پمفلٹ Gives us our dues شائع کیا اور اس طرح ان کے احباب کا حلقہ پورے ملک میں وسیع ہوا اور قائد اعظم محمد علی جناح، مولانا محمد علی جوہر، صاحبزادہ عبد القیوم ، سردار اورنگزیب اور میاں جعفر شاہ کاکا خیل اور دیگر نامی گرامی شخصیتوں سے قریبی تعلق قائم ہوا۔ 1927ء میں شملہ اور دہلی میں مسلم لیڈرز کانفرنس میں انھوں نے شرکت کی۔ 1929ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس میں شریک ہوئے اور اپنے اخبار سرحد میں جناح کے چودہ نکات کی بھر پور حمایت کی، اسی سال جمعیت خلافت کے کھلے اجلاس میں جب انھوں نے ملکی آزادی کی تجویز پیش کی تو مولانا شوکت علی نے آپ کو گلے لگا لیا۔ 1930ء میں قلعہ بالا حصار میں حاجی صاحب ترنگزئی کے ساتھی ہونے پر چار ماہ محبوس رہے۔ 23 اپریل 1930ء کو پشاور میں سول نافرمانی کرنے والوں پر برطانوی حکومت نے جو مظالم ڈھائے اور گولیوں سے ان کے سینے چھلنی کئے اس کے خلاف انھوں نے ایک کتاب انگریزی زبان میں The Frontier Tragedy لکھی جو ہندوستان اور انگلستان سے بیک وقت شائع ہوئی جسے مولانا محمد علی جوہر نے اپنے تعارفی خط کے ساتھ پارلیمنٹ کے تمام اراکین میں تقسیم کروایا۔ اس کتاب کی اشاعت پر مئی 1930ء میں انھیں گرفتار کر لیا گیا، کچھ عرصہ بعد مولانا محمد علی جوہر کی مداخلت اور عوامی احتجاج پر انھیں رہا کیا گیا۔ 1930ء کے اواخر میں مولانا محمد علی جو ہر جب گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن جانے لگے تو یوسفی نے پشاور سے بمبئی جا کر انہیں الوداع کہا۔ مولانا محمد علی جوہر 4 جنوری 1931ء کو لندن ہی میں انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال نے انھیں ہلا کر رکھ دیا۔ مولانا محمد علی جوہر کے انتقال کے بعد انھوں نے محمد علی جناح کی آواز پر لبیک کہا اور مسلم لیگ سے وابستہ ہو گئے۔ مسلم لیگ کی تنظیم نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 18 اکتوبر 1931ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے ممبر بنے۔ 1932ء میں مولانا شوکت علی اور مولانا ظفر علی خان کے درمیان اپنے ایک دوست میاں جعفر شاہ کاکا خیل کی معیت میں مصالحت کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔[4] 1933ء میں انھوں نے محمد علی کلب پشاور کی بنیاد رکھی اور کلب میں ایک عمدہ لائبریری بھی قائم کی۔ 1935ء میں جب وہ آل انڈیا خلافت کمیٹی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے بمبئی میں مقیم تھے تو مولانا شوکت علی کے ہمراہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے ساتھ کئی بار ملاقاتیں ہوتی رہیں جس کے نتیجے میں مسلم لیگ کے ساتھ ان کی وابستگی میں مزید پختگی آتی چلی گئی۔ 1936ء میں انھیں سرحد میں مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کا رکن بنایا گیا۔ اس طرح انھوں نے سرحد میں مسلم لیگ کو مزید مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی نظر میں آپ کا بڑا مقام تھا اور وہ سرحد کے معاملات میں ان کے مشورے کو ضروری سمجھتے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ بمبئی 12 اپریل 1936ء میں انھوں نے سرحد کی نمائندگی کی۔ مئی 1936ء کو علامہ محمد اقبال سے ملاقات کر کے انھیں سرحد کے حالات سے آگاہ کیا۔ جون 1936ء کو انھوں نے قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی۔ محمد علی جناح ایک موثر مسلم پریس کے آرزومند تھے۔ یوسفی نے ان کی خواہش کے احترام میں اپنی تمام تر توجہ صحافت پر مرکوز کی تاکہ کانگریس کے اخبارات کا مؤثر جواب دیا جاسکے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کئی رسائل اور اخبارات نکالے جو ایک عرصہ تک کامیابی کے ساتھ نکلتے رہے۔ 1937ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے جب صوبہ سرحد کا دورہ کیا تو ان کے شاندار تاریخی استقبال کے لئے بڑا کام کیا۔ اسی سال انھوں نے قائد اعظم محمد علی جناح ایجوکیشنل سوسائٹی قائم کی۔ اسی سال قائد اعظم نے انھیں کو دہلی طلب کیا۔ 1938ء میں مولانا شوکت علی کے انتقال پر بیگم محمد علی جوہر کی خواہش پر مرکزی مجلس خلافت نے یہ فیصلہ کیا کہ یوسفی کو مولانا شوکت علی کی جگہ خلافت ہاؤس بمبئی میں رکھا جائے چنانچہ وہ 1938ء میں بمبئی میں مقیم ہو گئے۔ 1939ء میں بمبئی سے ایک انگریزی اخبار The Progress جاری کیا جو 1946ء تک جاری رہا۔ 18 اکتوبر 1939ء کو بمبئی پراونشل مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں انھیں بمبئی مسلم لیگ کا صدر منتخب کیا گیا۔ اس سال ایک اور انگریزی اخبار What's on Bombay نکالا جو 1943ء تک جاری رہا۔[5]

24 مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور کی منظوری کے موقع پر بمبئی سے لاہور آکر اجلاس میں شریک ہوئے۔ قرارداد لاہور کی منظوری کے بعد انھوں نے مسلم لیگ کے منشور اور موقف کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی۔ 1940ء میں وہ پشاور آئے تو قائد اعظم کے ایماء پر پشاور سے ہلال پاکستان کے نام سے روزنامہ جاری کیا جو تقسیم ہند تک جاری رہا۔ 1941ء کو آپ دوبارہ بمبئی چلے گئے۔ 1943ء میں صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کی وزارت کے دوران انھیں پشاور بلا کر سینئر پبلسٹی آفیسر بنا دیا گیا اس دوران وہ اطلاعات اور انفارمیشن کے مدیر رہے۔ 1945ء مین قائد اعظم محمد علی جناح کے دورہ سرحد کے موقع پر انھوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ جولائی 1947ء میں صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں بھی اپنا رول ادا کیا۔ تقسیم ہند کے بعد پناہ گزینوں کے لئے مسلم لیگ نے جو پناہ گزین کمیٹی قائم کی اس کی صدارت ان کے حصے میں آئی اور انھوں نے ان کی بحالی میں بہت مفید کام کیا۔ 11 ستمبر 1948ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد وہ کراچی میں مستقل طور پر مقیم ہو گئے اور اس دوران میں تصنیف و تالیف میں مشغول رہے اور کئی مفید کتا بیں منظر عام پر آئیں۔ اتحاد (1955ء-1958ء)، ہفت روزہ آواز پختون ہفت روزہ (1965ء-97ء)، مشعل راہ (1958ء) اور سہ روزہ اتحاد کراچی کے مدیر رہے۔ ہفت روزہ الاخبار کراچی (1967ء) کے بھی مدیر رہے۔ انتقال سے ایک ماہ قبل تک اس کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔[6]

ادبی خدمات[ترمیم]

ان کی تصانیف میں تاریخ کشمیر مطبوعہ 1948ء تاریخ کشمیر پر پہلی کتاب ہے۔ الا مین سیرت النبی پر انگریزی میں لکھی گئی اور جو 1949ء میں شائع ہوئی۔ سلسلہ تاریخ آزاد پٹھان تین جلدوں میں، تاریخ آفریدی ، تاریخ یوسف زئی، سرحدی گاندھی سے ملاقات، عدالت سے خطاب 1931ء، مطالبہ تقسیم حقوق اور کانگریس، صوبہ سرحد میں کانگریس راج ، کشمیر میں ڈوگرہ راج ، حقیقت پختونستان اور ڈیورنڈ لائن ، تاریخ پشاور، تاریخ آفریدی، سانحہ سرحد، تاریخ ریاست سوات، فرینٹیئر ٹریجڈی (انگریزی)، دی خلافت موومنٹ (انگریزی) اور لائف آف مولانا محمد علی جوہر (انگریزی) قابلِ ذکر ہیں۔ انھوں نے غیر مطبوعہ مسودات بھی کافی تعداد میں چھوڑے ہیں۔

وفات[ترمیم]

اللہ بخش یوسفی 13 مارچ، 1968ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں لالوکھیت لیاقت آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔[7][8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. پروفیسر محمد اسلم، خفتگانِ کراچی، ادارہ تحقیقات پاکستان، دانشگاہ پنجاب لاہور، نومبر 1991، ص 120
  2. Naz, Dr. Fouzia (2016). Allah Bukhsh Yousufi: A Legend of Journalism & Pakistan Movement. Allah Bukhsh Yousufi Research Council, Karachi. p. 34.
  3. بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر قاری فیوض الرحمٰن، مضمون: قائد اعظم کے دستِ راست، مشمولہ: اللہ بخش یوسفی تحریک پاکستان کے نامور رہنما، ترتیب: خواجہ رضی حیدر، اللہ بخش یوسفی ریسرچ کونسل کراچی، 2006ء، ص 188
  4. اللہ بخش یوسفی تحریک پاکستان کے نامور رہنما، ص 189
  5. اللہ بخش یوسفی تحریک پاکستان کے نامور رہنما، ص 190
  6. اللہ بخش یوسفی تحریک پاکستان کے نامور رہنما، ص 191
  7. ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ، قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور، 2018ء، ص 101
  8. اللہ بخش یوسفی تحریک پاکستان کے نامور رہنما، ص 192