مندرجات کا رخ کریں

"خواجہ قطب دین بن محمد" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
2 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.5
سطر 59: سطر 59:
* [http://www.soofie.org.za/]{{wayback|url=http://www.soofie.org.za/ |date=20090602130206 }} Soofie(Sufi)
* [http://www.soofie.org.za/]{{wayback|url=http://www.soofie.org.za/ |date=20090602130206 }} Soofie(Sufi)
* [//en.wikipedia.org/wiki/Chishtia] Chishti Order
* [//en.wikipedia.org/wiki/Chishtia] Chishti Order
* [http://www.iranibook.com/pdf/63802.pdf] خواجگان چشت سيرالاقطاب: زندگينامه هاي مشايخ چشتيه
* [http://www.iranibook.com/pdf/63802.pdf] {{wayback|url=http://www.iranibook.com/pdf/63802.pdf |date=20110810184514 }} خواجگان چشت سيرالاقطاب: زندگينامه هاي مشايخ چشتيه
*[http://books.google.com.pk/books?sourceid=navclient&rlz=1T4GGLL_enPK304PK304&q=چشتيه&um=1&ie=UTF-8&sa=N&hl=en&tab=wp] طريقۀ چشتيه در هند و پاكستان و خدمات پيرواناين طريقه به فرهنگهاى اسلامى و ايرانى‎
*[http://books.google.com.pk/books?sourceid=navclient&rlz=1T4GGLL_enPK304PK304&q=چشتيه&um=1&ie=UTF-8&sa=N&hl=en&tab=wp] طريقۀ چشتيه در هند و پاكستان و خدمات پيرواناين طريقه به فرهنگهاى اسلامى و ايرانى‎
*( خزینہ الاصفیاء: مفتی غلام سرور لاہوری {{رح مذ}} )
*( خزینہ الاصفیاء: مفتی غلام سرور لاہوری {{رح مذ}} )

نسخہ بمطابق 21:59، 25 دسمبر 2021ء

خواجہ قطب الدین ولادت ( 602 ہجری بمطابق 1205عیسوی ) میں خواجہ محمد کے ہاں پیدا ہوئے، آپ کے والد قدوۃالدین خواجہ محمد کی وفات آپکے دادا خواجہ رکن الدین حسین بن احمد مودود چشتی کے زندگی میں ہوئی اسوقت آپکی عمر 22 سال تھی اور سجادہ نشینی آپ کے دادا کے پاس تھی، آپ کے دادا خواجہ رکن الدین کا وصال 635ھ میں ہوا اسوقت چونکہ سجادگی کے پہلے حقدار آپ کے چچا خواجہ علی دہلی والے تھے اس لیے آپ نے ان سے ہندوستان خط لکھ کر گزارش کی کہ آکر سجادہ سنبھال لیں مگردہلی میں اسوقت خواجہ علی کی مصروفیات زیادہ تھیں اس لیے انہوں نے معذرت کی اورآپکو سجادہ چشت سنبھالنے کی اجازت دے دی ـ [1][2]

مضامین بسلسلہ

تصوف

تاریخ

شیخ الاسلام حضرت خواجہ رکن الدین ابن احمد رحمۃ اللہ علیہ کے  رحلت فرمانے کے  بعد ان کے  پوتے حضرت خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے چچا حضرت خواجہ محی الدین علی رحمۃ اللہ علیہ کو دہلی خط لکھا (جو ہندوستان میں تھے) کہ اب وقت ہے آپ آئیں اور اپنے آباؤ اجداد کی مسند رشد و خلافت  سنبھال لیں،حضرت خواجہ محی الدین علی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا  یہاں دہلی میں خدمت دین کی بڑی گنجا ئش ہے اور یہاں کے  لوگوں کو مجھ سے  اتنی محبت ہے کہ میں انکو چھوڑ کر اب چشت نہیں آ سکتا، لہذا چشت کی مسند سجادہ آپ کو مبارک ہو، یہ دہلی میں غیاث الدین بلبن کادورحکومت’’1266ء تا 1286ء تھا۔ حضرت خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمدرحمۃ اللہ علیہ سلسلہ چشتیہ کے  بہت بڑے  صاحب کشف و کرامت بزرگ گزرے ہیں، ملک الاسلام حاجی غازی  رحمۃ اللہ علیہ آپ کے  بارے میں فرماتے ہیں میں نے  خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمدرحمۃ اللہ علیہ کو عرفات کے  میدان میں دیکھا  تمام لوگوں کے  مقابلے آپ کے  چہرے کا نور چمک رہا تھا اور انکی طرح کا کوئی دوسرا وہاں موجود نہ تھا، حاکم وقت ملک شمس الدین خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمدرحمۃ اللہ علیہ کے  ساتھ بہت ارادت رکھتے تھے۔ اور اسی خلوص کے  پیش نظر انہوں نے اپنے جگر گوشے  کو آپ کی غلامی میں دیا اور آپ کے  بیٹے خواجہ ابو احمد سے  انکا نکاح پڑھایا اور کہا کہ میں اپنی اولاد اس لیے آپ کے  گھر بھیج رہا ہوں تاکہ یہ آپکے گھر کی گرد صاف کریں اور اللہ تعالٰی اس کے  بدلے میر ےگناہ معاف فرمائیں،چنگیز خان( پیدائش1162ء   وفات1227ء)  کے  بعد اس کے  لڑکوں اور حواریوں میں سے بہت ساروں نے اسلام  قبول کیا اور  خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمد  رحمۃاللہ علیہ کے  ارادت مندوں میں شامل ہو گئے اور خواجہ صاحب کے  پند و نصائح نے ان کے  عقیدوں کو پختہ کیا،  حضرت خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمد  رحمۃ اللہ علیہ کے  ہمعصر چنگیز خان کے  پوتے ہلاکو خان (پیدائش 1217ء: وفات1265ء)  تھے، 1221ء میں تاتاری یلغار کے  وقت خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمدرحمۃ اللہ علیہ کے  عزیز اور مریدین چشت کے علاقہ سے  ہجرت کر کے  دوسرے علاقوں غور غزنی اور خراسان  چلے گئے تھے[3] حاکم وقت نے ایک حکمنامہ جاری کیا کہ جو شخص خواجہ صاحب کے  علاقہ میں واپس آ جائے اور ان کی حمایت کرے تو اس کی مزاحمت نہ کی جائے، چنانچہ غور غزنی اورخراسان کی طرف سے  بہت سارے لوگ واپس آ گئے آپ نے خطوط لکھ کر سب کو واپس بلایا سب کو تسلی دی اس طرح سب امن و خوشی سے  رہنے لگے، خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمدرحمۃ اللہ علیہ کے  دو فرزند تھے جن کے  نام نامی خواجہ نظام الدین علی رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ اود الدین الدین ابو احمد  رحمۃ اللہ علیہ تھے، آپ نے ان دونوں کو ساتھ لے کر ہندوستان کی طرف سفر کیا اور موضع سرنائی پہنچ گئے موضع سرنائی پانی پت سے  پانچ میل شمال کی طرف واقع ہے، آپ نے چند ماہ وہاں اقامت فرمائی اور واپسی پر آپ نے خواجہ نظام الدین رحمۃاللہ علیہ سے  فرمایا کہ وہ یہاں سکونت اختیار کر لیں اورخواجہ اود الدین الدین ابو احمدرحمۃ اللہ علیہ کو ساتھ چلنے حکم دیا چونکہ خواجہ اود الدین الدین ابو احمد رحمۃ اللہ علیہ کو وہاں کی آب و ہوا بہت پسند آئی تھی اس لیے انھوں نے التجا کی کہ آپ مجھے بھی یہیں رہنے کی اجازت دے دیں، خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمدرحمۃ اللہ علیہ  نے یہ پیشینگوئی کی کہ اگر تم میرے ساتھ نہیں آئے تو میرے پیچھے تمہارا تابوت آئے گا۔ اور خواجہ اود الدین الدین ابو احمدرحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ حضور آپ بھی تو چشت نہیں پہنچ رہے اور راستے میں انتقال فرمائیں گے چنانچہ دونوں بزرگوں کی پیشینگوئی سچ ثابت ہوئی۔

سید محمد بن مبارک (میرخورد)

میرئے والد محترم کی عمرعزیز سلطان المشائخ کی نظر مرحمت و شفقت میں گزری ـ اس بنا پر کہ وہ خانوادہ چشت میں خواجہ قطب الدین چشتی بن خواجہ محمد سے عقیدت رکھتے تھے وہ دو مرتبہ چشت بھی گئےـ دوسری مرتبہ جب وہ چشت گئے اور خواجہ قطب الدین چشتی کی خدمت میں پہنچے تو کچھ دن وہاں ٹھہر کر اس مبارک خانوادے کی خدمت بجا لائے،خواجہ قطب الدین کو یہ معلوم ہو گیا کہ یہ سید محض خواجگان چشت کی زیارت کے لیے آتا ہے، تو آپ نے ان کو اپنی خلافت سے سر فراز کیا اور خرقہ خلافت اور اجازت نامے سے اپنے نشان مبارک سے نوازا اور ایک قیمتی مغل گھوڑا، جو آپ کی سواری کے لیے خاص تھا ان کو عطا فرمایااور نصیحت فرمائی کہ ہمیشہ باوضو رہو اور کھانا تنہا مت کھاؤ۔ پھر آپ کو نہایت اعزاز کے ساتھ رخصت کیا سیراولیاء میں میر خورد مزید لکھتے ہیں کہ میرے والد محترم فرماتے تھے کہ میں اس سال جب چشت سے لوٹا اس گھوڑے پر سوار تھا جو خواجہ قطب الدین نے مجھے دیا تھا، اس گھوڑے پر خواجہ قطب الدین کے پائے مبارک کے ایڑیوں کے نشان پڑے ہوۓتھے، اس سال کافر تاتاریوں کا لشکر سلطان علاء الدین خلجی کے فاتح لشکر سے شکست کھا کر دہلی سے تتر بتر ہوکر ہزار اور دو ہزار کی ٹولیوں میں واپس ہو رہا تھا، اس لشکر کے کچھ لوگ خراسان کے راستے میں کئی مرتبہ مجھے ملے، انھوں نے چاہا کہ میرا گھوڑا اور کپڑوں کا بقچہ کی جس میں خواجہ بزرگوار کا عطا کیا ہوا خرقہ تھا مجھ سے چھین لیں لیکن جب وہ خواجہ بزرگوار کے ایڑیوں کے داغوں کو دیکھتے تو گھوڑے کے سم چومنے لگتے اور کہتے تم خواجہ قطب الدینؒ کی برکت سے خیریت سے گھر پہنچوگے اور اپنے والد کی خدمت کروگے۔[4]

شجرہ جات

شجرہ

اولاد

حوالہ کتب

  1. بحوالہ کتاب خواجہ ابراہیم یک پاسی تحریر پروفیسر سید احمد سعید ہمدانی،
  2. سیرالاولیاء صفیہ نمبر 356
  3. (بحوالہ کتاب خواجہ محمد ابراہیم یک پاسی مصنف ڈاکٹر طاہر تونسوی)
  4. سیرالاولیاء:صفحہ نمبر 355

حوالہ جات

Referenced from Book Khwaajah Maudood Chisti
  • [1] Chishti Tariqa
  • [2]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ soofie.org.za (Error: unknown archive URL) Soofie(Sufi)
  • [3] Chishti Order
  • [4] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ iranibook.com (Error: unknown archive URL) خواجگان چشت سيرالاقطاب: زندگينامه هاي مشايخ چشتيه
  • [5] طريقۀ چشتيه در هند و پاكستان و خدمات پيرواناين طريقه به فرهنگهاى اسلامى و ايرانى‎
  • ( خزینہ الاصفیاء: مفتی غلام سرور لاہوری )
  • تذکرہ سید مودودی ادارہ معارف اسلامی لاہور
  • سیر ال اولیاء
  • مرا تہ الاسرار
  • تاریخ مشائخ چشت
  • سفینہ ال عارفین
  • تذکرہ غوث و قطب
  • شجرہ موروثی سادات کرانی