اسکندر مرزا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اسکندر مرزا
تفصیل=
تفصیل=

پہلے صدر پاکستان
مدت منصب
23 مارچ 1956ء – 27 اکتوبر 1958ء
وزیر اعظم چوہدری محمد علی
حسین شہید سہروردی
ابراہیم اسماعیل چندریگر
فیروز خان نون
ایوب خان
نیا عہدہ متعارف ہوا
ایوب خان
چوتھے گورنر جنرل پاکستان
مدت منصب
6 اکتوبر 1955ء – 23 مارچ 1956ء
حکمران ایلزبتھ دوم
وزیر اعظم چوہدری محمد علی
ملک غلام محمد
عہدہ ختم کر دیا گیا
معلومات شخصیت
پیدائش 13 نومبر 1899ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مرشد آباد  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 13 نومبر 1969ء (70 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لندن  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات بندش قلب  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن تہران  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب شیعہ مذہب
جماعت ریپبلکن پارٹی (پاکستان)  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد
عملی زندگی
مادر علمی الفنسٹن کالج
ممبئی یونیورسٹی
رائل ملٹری کالج، سینڈہرسٹ  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
عہدہ جرنیل  ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 افیسر آف دی آرڈر آف دی برٹش ایمپائر (1939)[2]
 ملکہ الزبیتھ دوم تاجپوشی تمغا
 کمپینین آف دی آرڈر آف دی انڈین ایمپائر
 شاہ جارج ششم تاجپوشی تمغا  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اسکند مرزا بدنامِ زمانہ غدار میر جعفر کا پڑپوتا تھا۔ اُس کے پردادا میر جعفر نے جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے ہندوستان میں انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا (اس لیے جب ایوب خان کے ہاتھوں اقتدار لٹا کر برطانیہ میں جلا وطن ہوا تو برطانیہ میں جس ہوٹل میں قیام کیا اس ہوٹل کا کرایہ ملکہ برطانیہ نے ادا کیا)۔ پاکستانی فوجی افسر اور سیاست دان تھا۔

ولادت[ترمیم]

اس کی پیدائش 13 نومبر 1899ء کو مغربی بنگال کے شہر مرشد آباد میں ہوئی.

تعلیم[ترمیم]

الفنسٹن کالج بمبئی میں تعلیم پائی۔ کالج کی تعلیمی زندگی میں ہی رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ میں داخلہ مل گیا۔

عملی زندگی[ترمیم]

تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1919ء میں واپس ہندوستان آیا۔ 1921ء میں کوہاٹ کے مقام پر دوسری سکاٹش رائفل رجمنٹ میں شریک ہوا اور خداداد خیل میں لڑائی میں حصہ لیا۔ 1924ء میں وزیرستان کی لڑائی میں شریک ہوا۔ 1922ء سے 1924ء تک پونا ہارس رجمنٹ میں رہا، جس کا صدر مقام جھانسی تھا۔ 1926ء میں انڈین پولیٹکل سروس کے لیے منتخب ہوا اور ایبٹ آباد، بنوں، نوشہرہ اور ٹانک میں بطور اسسٹنٹ کمشنر کام کیا۔ 1931ء سے 1936ء تک ہزارہ اور مردان میں ڈپٹی کمشنر رہا۔ 1938ء میں خیبر میں پولیٹکل ایجنٹ مامور ہوا۔ انتظامی قابلیت اور قبائلی امور میں تجربے کے باعٹ 1940ء میں پشاور کا ڈپٹی کمشنر مقرر ہوا، جہاں 1945ء تک رہا۔ پھر اس کا تبادلہ اڑیسہ کر دیا گیا۔ 1942ء میں حکومت ہند کی وزارت دفاع میں جائنٹ سیکرٹری مقرر ہوا۔

قیام پاکستان کے بعد حکومت پاکستان کی وزارت دفاع کا پہلا سیکرٹری نامزد ہوا، مئی 1954ء میں مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا گیا۔ پھر وزیر داخلہ بنا۔ ریاستوں اور قبائلی علاقوں کے محکمے بھی اس کے سپرد کیے گئے۔ سربراہ حکومت جنرل ملک غلام محمد نے اپنی صحت کی خرابی کی بنا پر اسے 6 اگست 1955ء کو قائم مقام گورنر نامزد کیا۔ جب وزیر اعظم چودھری محمد علی نے 1956ء میں پاکستان کا پہلا آئین بنا کر نافذ کیا تو صدر کا نیا عہدہ تخلیق ہوا۔ نئے آئین کے تحت حلف اٹھا کر اسکندر مرزا 5 مارچ، 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا صدر منتخب ہوا۔ سات اور آٹھ اکتوبر کی درمیانی شب 1958ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیاسی بحران کے سبب اسکندر مرزا نے پاکستان کا پہلا مارشل لا نافذ کیا، آئین معطل کر دیا، اسمبلیاں توڑ دیں اور اپنے پرانے دوست جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نامزد کیا۔ اس پر ان کے فوجی مشیروں نے انھیں بتایا کہ جب آپ نے آئین معطل کر دیا ہے تو آپ نے خود اپنا عہدہ صدارت بھی ختم کر دیا ہے اور اب آپ حکومت کا نیا سربراہ چیف ایڈمنسٹریڑ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو بنا چکے ہیں۔ اسکندر مرزا نے اپنا صدر کا عہدہ جاری رکھنے کی کوشش تو کی لیکن تین ہفتوں بعد 27 اکتوبر کو مارشل لا کے چیف ایڈمنسٹریڑ فیلڈ مارشل ایوب خان نے انھیں ایوان صدر سے بے دخل کر دیا۔ اور وہ ملک چھوڑ کر اپنی ایرانی بیگم ناہید مرزا کے ہمراہ لندن چلا گیا۔ وہیں وفات پائی اور وصیت کے مطابق ایران میں دفن ہوا۔

اسکندر مرزا افسر شاہی اور فوج کی پروردہ شخصیت تھا، اس لیے ملک کو جمہوریت سے آمریت کی طرف دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی کوشش تھی کہ وہ صدر کے عہدہ پر ہمیشہ فائز رہے، اس لیے اس نے سیاست دانوں کا ایسا گروہ تیار کیا جس نے سازشوں کے تانے بانے تیار کیے، اسکندر مرزا کے اشاروں پر حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں، لیکن پھر ان کے اقتدار کو بھی آگ لگی گھر کے چراغ سے، اپنے یار غار فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھوں ملک سے جلا وطن کر دیا گیا۔

لندن میں قیام[ترمیم]

اسکندر مرزا میر جعفر کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جو نہایت امیر تھا اور جس کے انگریز حکومت سے بڑے اچھے تعلقات تھے۔تبھی تو انگریز نے انھیں پاکستان کے دسیوں عہدوں پر فائز کیا۔ اس لیے اس نے اپنے دور میں اسلامی طرز سیاست ، اسلامی تعلیمات اور نظام اسلامی کے نفاذ میں کافی انقلابوں کے باوجود بہت رکاوٹیں کھڑی کیں۔ جن میں لاہور میں احرار کے دس ہزار نوجوانوں کا قتل بھی شامل ہے۔ پاکستان میں دور اقتدار میں اس نے نہایت عیش و عشرت کی زندگی گزاری۔
پاکستان سے جلا وطنی کے بعد اس نے اپنی بقیہ زندگی لندن میں گزاری۔ لندن میں وہ پاکستانی کھانوں کا ایک ہوٹل چلاتا تھا۔ اسے 3000 پاؤنڈ پنشن ملتی تھی جس میں اس کا گذر بسر ممکن نہ تھا، تاہم ان کے ایرانی اور برطانوی رفقا نے ان کی مالی اور معاشی مدد جاری رکھی جس کے باعث اس کی تنگدستی کچھ کم ہوئی۔

وفات[ترمیم]

اپنی بیماری کے ایام میں اس نے اپنی بیوی ناہید مرزا سے مخاظب ہو کر کہا: "ہم بیماری کے علاج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، اس لیے مجھے مر جانے دو"۔ 3 نومبر 1969ء کو اس نے دل کے عارضہ میں مبتلا ہو کر وفات پائی۔

تدفین[ترمیم]

صدر پاکستان محمد یحیٰی خان نے ان کی میت پاکستان لانے اور یہاں دفن کرنے سے صاف انکار کر دیا اور ان کے رشتہ داروں کو بھی جنازہ میں شرکت سے سختی سے روک دیا گیا۔ ایرانی بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے خصوصی طیارے کے ذریعے اسکندر مرزا کی میت تہران لانے کا حکم دیا یہاں سرکاری اعزاز کے ساتھ اس کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ اس کے جنازہ میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ 1979ء کے ایرانی انقلاب کے بعد یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ کچھ شرپسندوں نے سابق صدر پاکستان سکندر مرزا کی قبر کو مسمار کر دیا۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔

شہاب نامہ سے اقتباس[ترمیم]

قدرت اللہ شہاب پہلے دن سے آخری دن تک اسکندر مرزا کے پرسنل سیکریٹری رہے تھے۔ اپنی کتاب شہاب نامہ میں وہ اسکندر مرزا کے بارے میں لکھتے ہیں:

  • "جون 1958ء کا اوائل تھا۔ میں اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا۔ صدر اسکندر مرزا حسب دستور پورے ایک بجے اپنے کمرے سے اٹھ کر میرے دفتر کی کھڑکی کے پاس آئے اور پوچھا،
” کوئی ضروری کام باقی تو نہیں؟" میں نے نفی میں جواب دیا تو وہ خدا حافظ کہہ کر ایوان صدارت میں اپنے رہائشی حصے کی طرف روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دور چل کر وہ اچانک رکے اور مٹر کر تیز تیز قدم میرے کمرے میں واپس آ گئے۔ میرے کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ بولے "میں ایک ضروری بات تو بھول ہی گیا۔" یہ کہہ کر انھوں نے میری میز سے پریزیڈنٹ ہاؤس کی سٹیشنری کا ایک ورق اٹھایا اور وہیں کھڑے کھڑے وزیر اعظم فیروز خان نون کو ایک دو سطری نوٹ لکھا کہ ہماری باہمی متفقہ رائے کے مطابق بری افواج کے کمانڈر انچیف کے طور پر جنرل محمد ایوب خان کی ملازمت میں دو سال کی توسیع کے احکامات فوراً جاری کر دیے جائیں۔ اس پر انھوں نے ”Immediate Most" کا لیبل اپنے ہاتھ سے پن کیا اور مجھے حکم دیا کہ میں ابھی خود جا کر یہ نوٹ پرائم منسٹر کو دوں، ان کے عملے کے حوالے نہ کروں۔
یہ مختصر سا پروانہ بڑی عجلت اور کسی قدر لاپروائی کے عالم میں لکھا گیا تھا۔ صدر اسکندر مرزا کے ہونٹوں میں لٹکے ہوئے سگریٹ کی راکھ بھی اس پر دو بار گر چکی تھی، لیکن کاغذ کے اس چھوٹے سے پرزے نے ہمارے ملک کی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ اگر جون 1958ء میں جنرل محمد ایوب خان کی میعاد ملازمت میں دو سال کی توسیع نہ ہوتی تو پاکستان کی تقدیر کا ستارہ جس انداز سے چمکتا ، اس کا زائچہ تیار کرنے کے لیے کسی خاص علم نجوم کی ضرورت نہیں ہے۔
1958ء کا سال چڑھتے ہی اسکندر مرزا صاحب کی کرسی صدارت پر عام انتخابات کا خوف شمشیر برہنہ کی طرح لٹک گیا۔ انتخابات نومبر 1957ء میں منعقد ہونے تھے۔ لیکن کسی قدر ہیرا پھیری کے بعد 1958ء تک ملتوی ہو گئے۔ بعد ازاں مزید ہیرا پھیری کے بعد 1959ء تک کھسک گئے۔ نئے آئین کے تحت کوئی صدر مسلسل دو میعادوں تک اس عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا تھا۔ اگر انتخابات ہوتے، تو میجر جنرل اسکندر مرزا کو صدارت سے دستبردار ہونا پڑتا یا اگر وہ دوبارہ صدر بننا چاہتے تو اپنے منصب سے استعفیٰ دے کر از سر نو صدارتی انتخابات لڑ سکتے تھے۔ یہ دونوں صورتیں ان کے لیے سوہان روح تھیں۔ اس لیے انھوں نے اپنی تمام صلاحتیں بروئے کار لا کر انتخابات ہی سے پیچھا چھٹرانے کی ٹھان لی۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے کئی حربے استعمال کیے۔ اپنے دیرینہ دوست ڈاکٹر خان صاحب سے انھوں نے ایک شوشہ چھٹروایا کہ صدر مملکت کی سرکردگی میں ایک انقلابی کونسل قائم ہونی چاہیے جو مملکت کا سارا کاروبار خود چلائے۔ اس احمقانہ تجویز پر کسی نے کوئی دھیان نہ دیا اور سب نے ہی سمجھا کہ ایک پرانا کانگریسی لیڈر سٹھیا کر ایسے ہی دور از کار بڑ ہانک رہا ہے۔ ڈاکٹر خان صاحب تو لاہور میں ناگہانی طور پر قتل ہو گئے لیکن صدر اسکندر مرزا کے کچھ نادان دوست اس بے تکی اور فضول سکیم پر بدستور جمے رہے۔ چنانچہ ملک کے کئی شہروں میں انھوں نے اس مضمون کے پوسٹر چھپوا کر دیواروں پر چسپاں بھی کیے، جس کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ صدر مرزا کے خلاف سیاسی حلقوں میں بد ظنی اور بھی بڑھ گئی۔
قلات کے ”خان اعظم" میر احمد یار خاں بلوچ نے اپنی کتاب Inside Baluchistan میں صدر اسکندر مرزا کی ایک عجیب سازباز کا حوالہ دیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ صدر نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ قلات کو ون یونٹ“ سے الگ کرنے میں ان کی پوری پوری مدد کریں گے۔ اس کے عوض انھوں نے اپنے صدارتی انتخاب کے لیے ان سے پچاس لاکھ روپے کی رقم طلب کی تھی اور بہاولپور سے چالیس لاکھ اور خیرپور سے دس لاکھ روپے حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ میر احمد یار خاں کے بیان کے مطابق صدر اسکندر مرزا نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ وہ پاکستان میں مارشل لا نافذ کر کے نواب بھوپال کو وزیر اعظم بنا دیں گے اور خود صدارت کی کرسی پر بیٹھ کر آمرانہ طریقے سے حکومت کریں گے۔ اس مقصد سے انھوں نے نواب بھوپال کو کراچی بلا بھی لیا تھا۔ لیکن خان آف قلات کا مشورہ سن کر نواب صاحب نے یہ پیش کش قبول نہ کی۔
ایک بار راجا صاحب محمود آباد نے مجھے خود بتایا تھا کہ صدر اسکندر مرزا نے انھیں بھی کچھ ایسا ہی سبز باغ دکھانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن راجا صاحب بڑے صاحب فراست و بصیرت انسان تھے۔ اس لیے ان کے چکر میں نہ آئے۔
ادھر ایوان صدارت میں میجر جنرل اسکندر مرزا اپنی محلاتی سازشوں میں مصروف تھے، ادھر باہر ملک کے طول و عرض میں سیاسی سرگرمیاں روز بہ روز تیزی سے بڑھتی جا رہی تھیں۔ جمہوریت کا خاصہ ہے جس رفتار سے انتخابات کا وقت قریب آتا ہے اس رفتار سے سیاست کے رگ و ریشے میں خون کا دباؤ اور درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ ہمارے وطن میں پہلے عام انتخابات آزادی کے گیارہ برس بعد ہونے والے تھے، اس لیے انتخابی بخار میں غیر معمولی جوش و خروش اور حدت و شدت بالکل قدرتی اور لازمی امر تھا۔ سیاسی جماعتیں، اپنی اپنی انتخابی مہم میں سرگرم عمل ہو گئیں۔ خاص طور پر مغربی پاکستان میں مسلم لیگ نے ایک نئے ولولے سے سر اٹھایا اور خان عبد القیوم خان کی قیادت میں عوام الناس کے ساتھ اپنی وابستگی کے بڑے شاندار مظاہرے کیے۔ خان قیوم کی تقریروں میں صدر اسکندر مرزا کی سیاسی ریشہ دوانیوں کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ یہ ساری کارروائی ایک خالص سیاسی عمل تھا، جسے نوکر شاہی کی آغوش میں پلے ہوئے حکمران طبقے جمہوریت کی عینک سے دیکھنے سے قطعی طور پر قاصر تھے۔ سیاست میں اس طرح کی ارتقائی ترقی اور فروغ ان کی عقل و فہم سے سراسر بالا تھے۔ خاص طور پر صدر اسکندر مرزا کو اس میں شرپسندی اور ملک دشمنی کے علاوہ کچھ نظر نہ آتا تھا کیونکہ انتخابات کے نتیجہ میں ان کو خود اپنا سنگھاسن ڈولتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔
مشرقی پاکستان میں بھی سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ وہاں پر ایک افسوسناک واقعہ یہ پیش آیا کہ صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر، اسمبلی کے اندر ایک ہنگامے میں زخمی ہو کر وفات پا گئے۔ یہ حادثہ اپنی جگہ بڑا المناک بلکہ شرمناک تھا لیکن جمہوریت کی تاریخ میں کوئی ایسا عجوبہ روزگار بھی نہ تھا۔ بڑے بڑے شائستہ، ترقی یافتہ، نستعلیق ممالک کی پارلیمانی نظام کے ارتقا کی تاریخ اشتعال انگیزی، ہنگامہ آرائی، لپاڈگی اور تشدد کے واقعات سے پٹی پڑی ہے۔ صدر اسکندر مرزا جمہوریت سے اس وجہ سے خائف تھے کہ ان کے اپنے ذاتی مفاد پر زد پڑتی تھی لیکن ملک کے مفاد کی آڑ لے کر ان کی حکومت نے اس ایک واقعہ پر سراسر غیر متناسب رنگ و روغن چڑھا کر اسے جمہوریت کے تابوت میں ایک موثر کیل کے طور پر گاڑنا شروع کر دیا۔
22 ستمبر 1958ء کو دن کے ایک بجے جب صدر اسکندر مرزا اپنے دفتر سے اٹھے تو حسب معمول میرے کمرے کی کھڑکی کے پاس آ کر نہ رکے بلکہ مجھے باہر برآمدے میں اپنے پاس بلا بھیجا۔ ان کے ہاتھ میں پاکستان کے آئین کی ایک جلد تھی۔ انھوں نے اس کتاب کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے پوچھا۔ ” تم نے اس Trash کو پڑھا ہے ؟" جس آئین کے تحت حلف اٹھا کر وہ کرسی صدارت پر براجمان تھے، اس کے متعلق ان کی زبان سے Trash کا لفظ سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میرے جواب کا انتظار کیے بغیر انھوں نے آئین پر تنقید و تنقیض کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کوئی پہلے سے رٹا ہوا آموختہ دہرا رہے ہوں۔ کچھ دیر بولنے کے بعد وہ بڑی باقاعدگی سے ٹیپ کا یہ فقرہ دہراتے تھے کہ یہ آئین بالکل ناقابل عمل ہے۔ اسی طرح تقریر کرتے کرتے وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کی منزل میں اپنے رہائشی کمروں کے نزدیک پہنچ گئے۔ وہاں پر ان کے چند ذاتی دوست لنچ کے لیے آئے ہوئے تھے۔ صدر مرزا تو اپنی تقریر ادھوری چھوڑ کر ان میں گھل مل گئے اور میں واپس لوٹ آیا۔
آئین کے متعلق ان کے بہت سے فقرے ہتھوڑی کی طرح کھٹ کھٹ میرے کانوں میں بج رہے تھے۔ واپسی پر جب میں سیڑھیاں اتر رہا تھا تو اچانک میری ٹانگیں بے جان سی ہو گئیں اور مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے ایسکیلیٹر کی طرح نیچے والی سیڑھیاں بڑی تیزی سے اوپر کی طرف آ رہی ہیں۔ میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گیا۔ سیکیورٹی کا ایک آدمی بھاگتا ہوا آیا اور مجھے سہارا دے کر نیچے لایا۔ برآمدے میں صدر کے معالج کرنل سرور کھڑے تھے انھوں نے جلدی جلدی میرا معائینہ کیا اور پھر کار میں ڈال کر جناح ہسپتال کے Intensive Care Unit میں داخل کر دیا۔ دو روز کے بعد جب مجھے Intensive Care سے عام کمرے میں منتقل کیا گیا تو بیگم ناہید مرزا مجھے دیکھنے آئیں اور بولیں ” کرنل سرور نے ہمیں بتایا ہے کہ تمھارے ہارٹ کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ امید ہے تم دس بارہ روز میں ہسپتال سے فارغ ہو جاؤ گے۔ بڑا نازک وقت آنے والا ہے۔ جلدی جلدی ٹھیک ہو کر کام پر آنے کی کوشش کرو۔ ایک بار صدر سکندر مرزا بھی آئے اور اسی قسم کی گفتگو کر کے چلے گئے۔ 7 اکتوبر کو مجھے ہسپتال سے چھٹی ملی، لیکن ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ فوراً دفتر جانا شروع نہ کروں بلکہ دو چار روز اور گھر پر آرام کروں۔ 7 اکتوبر کو میں نے اپنے دفتر ٹیلی فون کر کے کام کاج کا حال دریافت کیا تو میرے عملے نے بتایا کہ کئی روز سے دفتری کاروبار بند پڑا ہے۔ صدر مرزا زیادہ وقت جنرل محمد ایوب خاں کے ساتھ ملاقاتوں میں گزارتے ہیں۔ فائلیں جوں کی توں پڑی رہتی ہیں۔ کئی روز سے کسی نے ان کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اس روز رات گئے ایک صاحب نے پریذیڈنٹ ہاؤس سے ٹیلی فون کر کے مجھے اطلاع دی کہ ابھی ابھی ملک بھر میں مارشل لا نافذ ہو گیا ہے۔ آئین منسوخ کر دیا گیا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں اور جنرل محمد ایوب خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر ہو گئے ہیں۔
8 اکتوبر کی صبح کو میں اپنے دفتر گیا تو اسکندر مرزا صاحب ایوان صدر کی فضا میں کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ڈول رہے تھے۔ آئین کو منسوخ کر کے انھوں نے اپنے ہاتھوں وہ درخت ہی کاٹ کر پھینک دیا تھا جس کے سائے میں بیٹھ کر انھیں صدارت کی کرسی نصیب ہوئی تھی۔ فوج کے شعبہ قانون کے ماہرین نے صاف طور پر یہ فیصلہ دے دیا تھا کہ آئین کی منسوخی کے ساتھ ہی صدر کا عہدہ بھی ختم ہو گیا ہے اور اب حکومت کا واحد سربراہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہے۔ میجر جنرل اسکندر مرزا نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے بڑے ہاتھ پاؤں مارے۔ کچھ سول افسروں کو ساتھ ملا کر انھوں نے کراچی کے مزدوروں سے اپنے حق میں ایک پھسپھسا سا مظاہرہ بھی کروایا تا کہ جنرل ایواب خان پر عوام میں اپنی ہر دلعزیزی کا رعب گانٹھ سکیں۔ مسلح افواج میں پھوٹ ڈالنے کے لیے انھوں نے پاک فضائیہ کے ائیر کموڈور مقبول رب کے ذریعہ چند فوجی جرنیلوں کو گرفتار کرنے کی بھونڈی سی ناکام کوشش بھی کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے جنرل ایوب خان کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اپنی روایتی محلاتی سازشوں کے تانے بانے بھی بڑی چالاکی سے بننا شروع کر دیے لیکن جس محلسرا پر آئین کا سایہ قائم نہ رہے، اس کی بنیادیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔ مارشل لا میں حکومت اس کی ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں طاقت ہو۔ یہ فوقیت ایوب خاں کو حاصل تھی۔ چنانچہ عین بیس روز بعد رات کے وقت فوج کے ایک دستے نے ایوان صدر کو گھیرے میں لے لیا۔ تین جرنیل اور ایک مسلح بریگیڈئیر اسکندر مرزا کے پاس گئے اور انھیں کرسی صدارت سے اتار کر پہلے کوئٹہ اور پھر لندن روانہ کر دیا۔
26 اکتوبر 1958ء کی رات کو جب میجر جنرل اسکندر مرزا اپنی بیگم کے ساتھ پریذیڈنٹ ہاؤس سے آخری بار رخصت ہو رہے تھے تو انھوں نے ایک جرنیل کو ایک نیا فاؤنٹین پین دے کر کہا کہ وہ یہ الودائی تحفہ ان کی طرف سے مجھے پہنچا دیں۔ اگلی صبح جب تحفہ مجھے ملا تو مجھے ان کے اعصابی کس بل پر بڑا تعجب ہوا۔ جس وقت میجر جنرل اسکندر مرزا اور بیگم ناہید مرزا پریذیڈنٹ ہاؤس سے نکل رہے تھے تو انھیں وثوق سے یہ علم نہ تھا کہ یہاں سے انھیں جیل میں پہنچایا جائے گا یا کسی فوجی بارک میں نظر بند کیا جائے گا یا کہیں لے جا کر گولی سے اڑا دیا جائے گا یا واقعی کوئٹہ اور لندن بھیجا جائے گا۔ اس بے چینی اور رواروی کے عالم میں اپنے سیکرٹری کو یاد رکھنا اور اس کے الودائی تحفہ چھوڑنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔
جمہوریت کو پامال کرنے کا جو عمل مسٹر غلام محمد نے شروع کیا تھا، میجر جنرل اسکندر مرزا نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ اکتوبر 1958ء میں آئین منسوخ کرنے کا بالکل کوئی جواز نہ تھا۔ اس وقت پاکستان کسی غیر معمولی بیرونی خطرے سے دو چار نہ تھا۔ اندرونی "خطرہ" صرف یہ تھا کہ اگر انتخابات منعقد ہو جاتے تو غالباً اسکندر مرزا صاحب کو کرسی صدارت سے ہاتھ دھونا پڑتا۔ اپنی صدارت کو اس افتاد سے بچانے کے لیے انھوں نے یہ رٹ لگائی کہ 1956ء کا آئین ناقابل عمل ہے۔ یہ بڑا بھونڈا عذر لنگ تھا۔ آئین کو پرکھنے کی کسوٹی انتخابات اور منتخب اداروں کا کردار ہوتا ہے۔ اس آئین کے تحت ایک بھی الیکشن نہ ہوئی تھی۔ اس لیے اس پر ناقابل عمل ہونے کا الزام لگانا سراسر بے معنی اور بے بنیاد تھا۔ اپنے ذاتی اقتدار کی حفاظت کے لیے صدر اسکندر مرزا نے مارشل لا کی راہ ہموار کی۔"


سیاسی عہدے
ماقبل  گورنر مشرقی بنگال
1954–1955
مابعد 
ماقبل  وزیر داخلہ پاکستان
1954–1955
مابعد 
ماقبل  چوتھا گورنر جنرل پاکستان
1955–1956
مابعد 
گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر دیا گیا
ماقبل 
نیا عہدہ تخلیق ہوا
پہلا صدر پاکستان
1956–1958
مابعد 
  1. ^ ا ب Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000006704 — بنام: Iskander Mirza — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.thegazette.co.uk/London/issue/34633/data.pdf — صفحہ: 3868 — شمارہ: 34633