ماجد خان (کرکٹ کھلاڑی)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ماجدجہانگيرخان ٹیسٹ کیپ نمبر 44
ذاتی معلومات
مکمل نامماجدجہانگيرخان
پیدائش (1946-09-28) 28 ستمبر 1946 (age 77)
لدھیانہ, پنجاب, برطانوی ہندوستان (اب ہندوستان)
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیدائیں ہاتھ کا میڈیم پیس گیند باز
تعلقاتجہانگیر خان (باپ)
اسد جہانگیر (بھائی)
جاوید برکی (کزن)
عمران خان (کزن)
بازید خان (بیٹا)
احمد رضا (چچا)
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 44)24 اکتوبر 1964  بمقابلہ  آسٹریلیا
آخری ٹیسٹ23 جنوری 1983  بمقابلہ  بھارت
پہلا ایک روزہ (کیپ 4)11 فروری 1973  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
آخری ایک روزہ19 جولائی 1982  بمقابلہ  انگلینڈ
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ فرسٹ کلاس لسٹ اے
میچ 63 23 410 168
رنز بنائے 3931 786 27,444 4,441
بیٹنگ اوسط 38.92 37.42 43.01 28.28
100s/50s 8/19 1/7 73/128 2/31
ٹاپ اسکور 167 109 241 115
گیندیں کرائیں 3584 658 7,168 2,817
وکٹ 27 13 223 71
بالنگ اوسط 53.92 28.76 32.14 22.67
اننگز میں 5 وکٹ 4 1
میچ میں 10 وکٹ n/a 0 n/a
بہترین بولنگ 4/45 3/27 6/67 5/24
کیچ/سٹمپ 70/- 3/- 410/- 43/-
ماخذ: ای ایس پی این کرک انفو، 4 فروری 2006

ماجدجہانگيرخان انگریزی:Majid Jahangir Khan (پیدائش: 28 ستمبر 1946ء لدھیانہ، پنجاب، انڈیا) مشہور پاکستانی کرکٹ کھلاڑی ہیں[1] جنھوں نے پاکستان کی طرف سے 63 ٹیسٹ میچوں اور 23 ون ڈے انٹرنیشل میچ کھیلے انھوں نے 1975ء اور 1979ء کے دو عالمی کپ ٹورنامنٹس میں شرکت کی تھی اپنے دور میں ماجد خان جنہیں مائیٹی خان کہا جاتا ہے کو دنیا کے بہترین بلے بازوں میں شمار کیا جاتا تھا ماجد خان کا فرسٹ کلاس کیریئر 1961ء سے 1985ء تک پھیلا ہوا تھا جس میں 8 سنچریوں کی مدد سے 3,931 رنز بنائے، 27,000 سے زیادہ فرسٹ کلاس رنز بنائے اور 128 نصف سنچریوں کے ساتھ 73 فرسٹ کلاس سنچریاں بنائیں۔ ماجدخان نے پاکستان کے لیے اپنا آخری ٹیسٹ جنوری 1983ء میں ہندوستان کے خلاف قذافی اسٹیڈیم، لاہور میں کھیلا اور ان کا آخری ایک روزہ بین الاقوامی جولائی 1982ء میں اولڈ ٹریفورڈ، مانچسٹر میں انگلینڈ کے خلاف تھا۔

ابتدائی دور[ترمیم]

ماجد خان 28 ستمبر 1946ء کو لدھیانہ، پنجاب، برطانوی ہندوستان میں ایک برکی پشتون خاندان میں پیدا ہوئے، لاہور میں پلے بڑھے۔ ان کے والد، جہانگیر خان نے 1947ء میں تقسیم ہند سے قبل ہندوستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی تھی۔ ماجد خان نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک تیز گیند باز کے طور پر کیا، لیکن کمر کی چوٹ اور ان کی تکنیک پر شکوک نے انھیں ایک آف اسپن باؤلر اور بلے باز بنا دیا۔ انھوں نے برطانیہ میں گلیمورگن اور کیمبرج یونیورسٹی، آسٹریلیا میں کوئنز لینڈ کے لیے اور پاکستان میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز، راولپنڈی، لاہور اور صوبہ پنجاب کے لیے بھی کرکٹ میں اپنے جوہر دکھائے۔ ماجد خان کے والد ڈاکٹر جہانگیر خان 1936ء میں ایم سی سی بمقابلہ کیمبرج یونیورسٹی میچ کے دوران باؤلنگ کرتے ہوئے اس مشہور واقعہ کا موجب بنے تھے جس میں ان کی گیند کی زد میں آ کر ایک پرندہ ہلاک ہو گیا تھا یہ پرندہ اب لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں ایم سی سی میوزیم کی مستقل نمائش کا حصہ ہے۔ڈاکٹر جہانگیر خان اس وقت کے بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان پاکستان (BCCP) کے چیف سلیکٹر تھے جب ماجد خان قومی انتخاب کے قریب تھے۔ ڈاکٹر جہانگیر خان نے سلیکشن کے دوران کرکٹ بورڈ کی غیر جانبداری برقرار رکھنے کے لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

انٹرنیشنل کیرئیر[ترمیم]

ماجد کے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز 1964ء میں آسٹریلیا کے خلاف نیشنل اسٹیڈیم، کراچی میں ہوا۔ ماجد خان صرف ان چھ بلے بازوں میں سے ایک ہیں (باقی پانچ میں ٹرمپر، میکارتنی، بریڈمین، وارنر اور شیکھر دھون ہیں)، جنھوں نے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن لنچ سے قبل سنچری اسکور کی تھی، انھوں نے 1976-77ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف 112 گیندوں پر ناٹ آؤٹ 108 رنز بنائے تھے۔ ماجد خان نے اپنا بین القوامی ڈیبیو نیوزی لینڈ کے خلاف 1973ء میں لنکاسٹر پارک، نیوزی لینڈ میں کیا۔ انھوں نے 31 اگست 1974ء کو ٹرینٹ برج میں انگلینڈ کے خلاف ایک روزہ میچ میں پاکستان کے لیے پہلی ایک روزہ سنچری بنانے کا منفرد اعزاز حاصل کیا۔ ماجد خان نے 93 گیندوں پر 16 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 109 رنز بنائے اور پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا۔ ماجد خان نے 1961-62ء سے لاہور کے لیے کھیلے اور 1964-65ء میں آسٹریلیا کے خلاف اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کیا اور 1967ء میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ انگلینڈ اور ویلز کا دورہ کیا۔ گلیمورگن کے ساتھ میچ کے دوران، ماجد خان نے 89 منٹ میں تیز رفتار 147 رنز بنائے اس اننگ کے دوران ایک اوور میں راجر ڈیوس کو پانچ چھکے مارے۔ ڈاکٹر جہانگیر خان جب کیمبرج میں تھے تو کلب کے سیکرٹری ولف وولر ماجد کے والد کے قریبی دوست تھے اور گلیمورگن کے بااثر سیکرٹری بھی تھے انھوں نے گلیمورگن کاؤنٹی کو 1968ء سے بیرون ملک کھلاڑی کے طور پر سائن کرنے پر آمادہ کیا۔ 1972ء میں اس نے سیزن کی تیز ترین سنچری کے لیے والٹر لارنس ٹرافی جیتی جو اس نے وارکشائر کے خلاف گلیمورگن کے لیے 70 منٹ میں بنائی۔ انھوں نے 1973ء اور 1976ء کے درمیان ویلش کاؤنٹی کی کپتانی کی، ان کے لیے 21 فرسٹ کلاس سنچریوں کے ساتھ 9000 سے زیادہ رنز بنائے۔ عمران خان، لیجنڈری پاکستانی سابق کپتان اور تیز گیند باز اور جاوید برکی ان کے کزن ہیں بایزید خان، ماجد خان کے بیٹے نے بھی پاکستان کے لیے کرکٹ کھیلی ہے، جس سے یہ خاندان ہیڈلیز کے بعد دوسرے نمبر پر ہے، جس نے مسلسل تین نسلوں کے ٹیسٹ کھلاڑی بنائے ہیں، ابتدائی طور پر، ماجد خان نے پاکستان کے مڈل آرڈر کو فروغ دینا جاری رکھا، یہاں تک کہ انھیں 1974ء میں صادق محمد کے ساتھ اوپنر کی جگہ بھرنے کے لیے ترقی دی گئی۔وہ ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کے لیے پہلے سنچری بنانے والے کھلاڑی تھے، انھوں نے اسی سیزن میں ٹرینٹ برج، ناٹنگھم میں انگلینڈ کے خلاف 109 رنز بنائے۔ماجد خان ایک ماہر سلپ فیلڈر بھی تھے اور زیادہ تر کیچز کو آسان بناتے تھے۔ خان ایک ایسے دور میں کھیل کے معیار کو برقرار رکھتے ہوئے ایک "واکر" کے طور پر بھی جانا جاتا تھا جب پیشہ ورانہ مہارت کھیل کے روایتی آداب پر دباؤ ڈال رہی تھی۔ 1976-77ء کا دورہ ویسٹ انڈیز ماجد خان کے لیے سب سے قابل ذکر دور تھا، جہاں انھوں نے کھیل کی تاریخ کے سب سے طاقتور باؤلنگ اٹیک کے خلاف 530 ٹیسٹ رنز بنائے۔ ان کی بہترین اننگز جارج ٹاؤن میں پاکستان کی دوسری اننگز میں 167 رنز تھی جس نے پاکستان کو ممکنہ شکست سے بچایا۔ پاکستان نے وہ سیریز 2-1 سے ہاری۔

ون ڈے کرکٹ کیرئیر[ترمیم]

ماجد خاں نے 1973-82ء کے کیریئر میں 23 میچ کھیلے۔ 1973ء میں نیوزی لینڈ کے دورے میں کرائسٹ چرچ کے مقام پر ون ڈے ڈیبیو کرنے کا موقع ملا۔ انھوں نے 8 رنز بنائے اور ایک وکٹ لی۔ 1974ء میں انگلستان کے خلاف ناٹنگھم کے مقام پر انھوں نے پاکستان کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ انگلستان نے 50 اوورز میں 4 وکٹوں کے نقصان پر 244 رنز بنائے۔ ماجد خان کے 93 گیندوں پر 109 رنز کی اولین سنچری نے پاکستان کی 7 وکٹوں سے فتح کو یقینی بنایا۔ 1975ء کے عالمی کپ میں بھی وہ ٹیم کا حصہ تھے۔ آسٹریلیا کے خلاف 65' ویسٹ انڈیز کے خلاف 60 اور سری لنکا کے خلاف 84 رنز بنا کر انھوں نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ 1976ء میں وہ سیالکوٹ میں نیوزی لینڈ کے خلاف 20 رنز بنا سکے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف 1977ء میں 23' بھارت کے خلاف 1978ء میں 50 اور 37 رنز کی باریاں بھی قابل دید تھیں۔ 1979ء کے دوسرے عالمی کپ مقابلوں میں اس نے آسٹریلیا کے خلاف یہ میچ 89 رنز سے جیت لیا۔ اس میں ماجد خان نے 100 گیندوں پر 61 رنز سکور کیے جس میں 7 چوکے اور ایک چھکا شامل تھا تاہم اس میچ میں آصف اقبال 61' جاوید میانداد 46 نے بھی ٹیم کی فتح میں اہم رول ادا کیا۔ ماجد خان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف 81 رنز کی عمدہ باری کھیلی لیکن بدقسمتی سے پاکستان یہ میچ ہار گیا تھا۔ ویسے بھی اس وقت عالمی کرکٹ پر ویسٹ انڈیز کی ٹیم کا طوطی بولتا تھا' خصوصاً 1975ء اور 1979ء کے عالمی کپ میں ویسٹ انڈیز نے دونوں دفعہ عالمی چمپئین بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا ظہیر عباس کے 93 اور ماجد خان کے 124 گیندوں پر 81 رنز بھی ٹیم کے کام نہ آسکے۔ 1980ء میں ویسٹ انڈیز کے دورہ پاکستان میں ماجد خان نے 16،34،16 کی ملی جلی کارکردگی دکھائی۔ 1981ء میں آسٹریلیا میں منعقدہ بینسن اینڈ ہیجز سیریز کلب ویسٹ انڈیز کے خلاف 69 گیندوں پر 76 رنز جبکہ اگلے تین میچوں میں بھی بھی کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے۔

ماجد خان کا بیٹا بازید خان[ترمیم]

ماجد خان کے صاحب زادے بزید خان (پیدائش:25 مارچ 1981ء لاہور) نے بھی پاکستان کی طرف سے ایک ٹیسٹ اور 3 ون ڈے میچ کھیلے ان کی ٹیسٹ کیپ کا نمبر 185ہے جبکہ ون ڈے میں ان کی کیپ 151 تھی واحد ٹیسٹ جس میں بازید خان نے شرکت کی اس نے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی اور ٹیسٹ میں 32 جبکہ ون ڈے میں 78 رنز بنانے والے بازید 40 سال سے زائد عمر کے ساتھ اب کرکٹ کمنٹری سے وابستہ ہیں انھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں 15 سنچریاں سکور کر رکھی ہیں جس میں 300 ناٹ آوٹ ان کا سب سے زیادہ سکور ہے۔

سست بیٹنگ کے دور میں تیز ترین سنچری[ترمیم]

31 اگست 1974ء کو پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے خلاف ٹرینٹ برج ناٹنگھم میں پہلا ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے اتری تو اسے اوپنر ڈیوڈ لائیڈ کے ناقابل شکست 116 اور اس اننگز کی بدولت بننے والے انگلینڈ کے 244 رنز کا جواب دینے کے لیے ایک ایسی ہی بڑی اننگز کی ضرورت تھی۔ ماجد خان نے صادق محمد کے ساتھ اننگز شروع کی۔ ان دونوں نے ٹیم کو 113 رنز کا ٹھوس آغاز فراہم کر دیا۔ ماجد خان جب تک کریز پر رہے ان کے ہر سٹروک پر کمنٹیٹرز گلوریئس آف ڈرائیو، بیوٹی فل شاٹ اورگریٹ شاٹ جیسے الفاظ کے ساتھ ان کی تعریف کرتے رہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ آج جو لوگ یہ اننگز دیکھ رہے ہیں انھیں یہ مدتوں یاد رہے گی اور واقعی گرائونڈ کے مختلف سٹینڈز میں بیٹھے شائقین بیٹنگ کے سحر میں کھو چکے تھے۔ ماجد خان نے صرف 88 گیندوں پر 16 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے سنچری مکمل کرلی اور جب وہ 99 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 109 رنز بناکر آئوٹ ہوئے تو میچ پاکستان کی گرفت میں آچکا تھا۔ اس اننگز کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ یہ ون ڈے انٹرنیشنل میں پاکستان کی پہلی سنچری تھی۔ اس وقت تک ون ڈے انٹرنیشنل میں بننے والی یہ محض چوتھی سنچری تھی۔ ان سے پہلے انگلینڈ کے ڈینس ایمس نیوزی لینڈ کے کین ورڈزورتھ اور انگلینڈ کے ڈیوڈ لائیڈ تین ہندسوں کی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہو سکے تھے۔ ماجد خان کہتے ہیں: میں نے اس اننگز کے سلسلے میں کوئی خاص حکمت عملی نہیں بنائی تھی۔ دن اچھا تھا اور گیند بلے پر آرہی تھی۔' ماجد خان نے جس بولنگ اٹیک کے سامنے یہ سنچری بنائی وہ باب ولس، پیٹر لیور، کرس اولڈ، ٹونی گریگ اور ڈیرک انڈرووڈ جیسے تجربہ کار بولرز پر مشتمل تھا[2]

کامیاب اوپننگ جوڑی[ترمیم]

ماجد خان کے اوپننگ پارٹنر صادق محمد کہتے ہیں: ماجد خان 1974ء میں انگلینڈ کے دورے میں میرے اوپننگ پارٹنر بنے تھے۔ اس سے قبل تقریباً 16ٹیسٹ میچوں میں سات آٹھ اوپنرز میرے ساتھ کھیل چکے تھے لیکن ماجد خان کے ساتھ میری ذہنی ہم آہنگی قائم ہوئی اور ہم نے طویل عرصے تک ساتھ اوپننگ کی۔ اننگز کا آغاز کرتے ہوئے میرا انداز دفاعی ہوتا تھا جبکہ دوسرے اینڈ سے ماجد خان بولرز پر حاوی ہو جاتے تھے۔' ماجد خان اور صادق محمد نے ٹیسٹ کرکٹ میں 26 اننگز میں ایک ساتھ اوپننگ کی اور مجموعی طور پر 1391 رنز بنائے جن میں 4سنچر یاں اور 9 نصف سنچریاں شامل تھیں۔

آج تیز ترین سنچری بنائوں گا[ترمیم]

1967ء میں پاکستانی ٹیم کے دور انگلینڈ میں ماجد خان تین ٹیسٹ میچوں میں بری طرح ناکام رہے تھے لیکن دورے کے فرسٹ کلاس میچوں میں ان کے بیٹ سے رنز رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس دورے میں انھوں نے کینٹ، مڈل سسیکس، سسیکس اور گلیمورگن کے خلاف سنچریاں سکور کی تھیں۔ گلیمورگن کائونٹی کے خلاف ان کی 147 رنز ناٹ آئوٹ کی اننگز فرسٹ کلاس کرکٹ کی چند یادگار اننگز میں شمار ہوتی ہے۔ ماجد خان کا اس اننگز کے بارے میں کہنا ہے کہ میں نے ڈریسنگ روم میں اپنے ساتھی کھلاڑیوں کو یہ کہہ دیا تھا کہ آج میں تیز ترین سنچری سکور کروں گا۔' پاکستان کی دوسری اننگز میں تیسری وکٹ گرنے پر ماجد خان بیٹنگ کے لیے آئے تھے جس کے بعد سینٹ ہیلنز گرائونڈ سوانسی میں چوکوں اور چھکوں کی برسات شروع ہو گئی تھی۔ اس اننگز میں ماجد خان نے صرف 89 منٹ کریز پر قیام کیا تھا اور سنچری محض 61 منٹ میں ہی مکمل کرڈالی تھی۔جب اس میچ میں کپتانی کرنے والے سعید احمد نے جو خود ماجد خان کے ساتھ بیٹنگ کر رہے تھے پاکستان کی اننگز 324 رنز تین کھلاڑی آٹ پر ڈکلیئر کی تو ماجد خان اپنی اس جارحانہ اننگز میں 10چوکے اور 13 چھکے لگا چکے تھے۔ نیوزی لینڈ کے جان ریڈ کے 15 چھکوں کے بعد یہ کسی فرسٹ کلاس اننگز میں اس وقت تک چھکوں کی دوسری بڑی تعداد تھی۔ ماجد خان کی جارحیت کا سب سے زیادہ نشانہ آف سپنر راجر ڈیوس بنے تھے جن کے ایک اوور میں ماجد خان نے پانچ چھکے لگائے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماجد خان کی اس اننگز کے ٹھیک ایک سال بعد اگست 1968ء میں اسی سینٹ ہیلنز گرائونڈ میں سرگیری سوبرز نے ناٹنگھم شائر کی طرف سے کھیلتے ہوئے گلیمورگن کے میلکم ناش کے ایک ہی اوور میں چھ چھکے لگائے تھے۔ ماجد خان اس میچ میں گلیمورگن کی ٹیم میں شامل تھے۔ ماجد خان کی 147 رنز کی شاندار اننگز نے گلیمورگن کائونٹی کو مجبور کر دیا کہ وہ انھیں اپنی ٹیم میں شامل کرنے میں تاخیر نہ کرے۔ ماجد خان گلیمورگن میں کیا آئے کائونٹی کی قسمت ہی بدل گئی اور وہ ٹیم جو کبھی پوائنٹس ٹیبل پر نچلے حصے میں دکھائی دیتی تھی 1969ء میں کائونٹی چیمپئن بھی بن گئی جس میں ماجد خان کے 1500سے زائد رنز کا نمایاں حصہ تھا۔ اسی کارکردگی پر وہ وزڈن کے سال کے پانچ بہترین کرکٹرز میں شامل کیے گئے تھے۔ ماجد خان جتنا عرصہ گلیمورگن کائونٹی سے وابستہ رہے وہاں کے شائقین میں بے حد مقبول رہے ۔ وہ جب بھی کھیل رہے ہوتے گرائونڈ میں ماجد ماجد کے نعرے گونج رہے ہوتے تھے۔ کرکٹ کمنٹیٹر ایلن ولکنز نے جب کرکٹ کھلاڑی کی حیثیت سے گلیمورگن میں شمولیت اختیار کی تو ماجد خان ان کے پہلے کپتان تھے۔ وہ کہتے ہیں: ماجد خان خاموش طبع اور باوقار شخصیت کے مالک تھے، یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی ان کا احترام کرتا تھا۔ فیلڈ میں بھی وہ کم بات کرتے تھے اور فیلڈرز کو عموما ہاتھ کے اشارے سے ہدایات دیا کرتے تھے۔ ان کی بیٹنگ میں ان کی شخصیت جیسا وقار جھلکتا تھا جس نے شائقین کو بہت جلد اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا وہ شاہانہ انداز سے سٹروکس کھیلا کرتے تھے۔

لنچ سے پہلے سنچری کی ریکارڈنگ غائب[ترمیم]

30 اکتوبر 1976ء میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان کراچی میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ کے پہلے دن ماجد خان نے کھانے کے وقفے سے قبل ہی سنچری مکمل کرڈالی۔ وہ اس وقت تک دنیا کے چوتھے بیٹسمین تھے جنھوں نے یہ اعزاز حاصل کیا۔ان سے قبل یہ کارنامہ تین آسٹریلوی بیٹسمینوں وکٹر ٹرمپر، چارلس میکارٹنی اور سر ڈان بریڈمین نے انجام دیا تھا۔ ماجد خان کہتے ہیں کہ میں اس ارادے سے بیٹنگ کرنے نہیں گیا تھا کہ لنچ سے قبل سنچری بناں گا لیکن ان دنوں میری فارم بہت اچھی تھی اور میں جو بھی شاٹ کھیلتا وہ صحیح لگ رہا تھا۔ اس اننگز کے دوران ایک موقع ایسا آیا جب صادق محمد نے کہا کہ کھانے کے وقفے سے پہلے سنچری ہو سکتی ہے اور وہ ہو گئی۔' ماجد خان کی یہ اننگز جس نے بھی ایک بار دیکھ لی وہ خود کو خوش قسمت انسان تصور کرتا ہے کیونکہ اسے یہ اننگز دوبارہ دیکھنے کا موقع اس لیے نہیں مل سکا کہ اس اننگز کی ریکارڈنگ پاکستان ٹیلی ویژن کے ریکارڈ تک میں محفوظ نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ماجد خان جب پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر سپورٹس بنے تو انھیں بھی اپنی اس تاریخی اننگز کی جستجو ہوئی اور انھوں نے اس کی ریکارڈنگ تلاش کرنے کی ہرممکن کوشش کرڈالی لیکن انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈینس للی بانسر سے ہیٹ نہ گراسکے[ترمیم]

1976ء میں پاکستانی ٹیم کے دور آسٹریلیا میں ماجد خان اور فاسٹ بولر ڈینس للی کے درمیان دلچسپ مقابلہ دیکھنے میں آیا۔ ڈینس للی نے ماجد خان کو چیلنج کیا کہ وہ اپنے بانسر سے ان کا مشہور فلوپی ہیٹ گرا دیں گے۔ لیکن تین ٹیسٹ میچوں کی اس سیریز میں وہ ایک بار بھی ایسا نہ کرسکے۔ سڈنی کے آخری ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں جب پاکستانی ٹیم جیت کے قریب بڑھ رہی تھی تو ڈینس للی نے آخری کوشش کے طور پر ایک بانسر کیا جس پر ماجد خان نے ہک کر کے چھکا لگا دیا۔ ٹیسٹ سیریز کے اختتام پر ہونے والی تقریب میں ماجد خان نے اپنا وہ مشہور فلوپی ہیٹ ڈینس للی کو تحفے میں دے دیا۔ ڈیوڈ فرتھ کی مرتب کردہ کتاب کرکٹ گیلری میں پچاس کرکٹرز کے بارے میں مضامین ہیں۔ مائیک سٹیونسن نے اپنے مضمون میں ماجد خان کی خوش خوراکی کا ذکر کرتے ہوئے سابق ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی پرویز سجاد سے منسوب ایک دلچسپ واقعہ تحریرکیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: پاکستان ایگلٹس ٹیم انگلینڈ کے دورے میں جب لیسٹرشائر کے ایک علاقے میں پہنچی تو دیر ہو چکی تھی اور کسی ریستوراں میں کھانا ملنا ممکن نہ تھا لہٰذا چھ سات کھلاڑیوں نے ہوٹل میں ہی 36 سینڈوچز کا آرڈر دے دیا۔ 'ان کھلاڑیوں میں شامل پرویز سجاد کا خیال تھا کہ 36 کا مطلب 36 ہی ہو گا لیکن جب ویٹر ڈیڑھ گھنٹے بعد دو بھری ہوئی ٹرے کے ساتھ آیا تو انھیں اندازہ ہوا کہ ڈبل سینڈوچز کا مطلب 72 ہے۔' یہ کھلاڑی آخر کتنے سینڈوچز کھاتے؟ اس موقع پر پرویز سجاد نے کہا کہ بو کو کو کمرے سے بلا لو۔ یہ سب ماجد خان کو پنجابی میں بو کو کہتے تھے۔ ماجد خان آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے کئی سینڈوچز صاف کر دیے۔ ماجد خان کے بیٹے سابق ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی بازید خان سے میں نے پوچھا کہ بو کو کا کیا مطلب ہوتا ہے اور آپ کے والد سے اس کا کیا تعلق؟ بازید خان کہنے لگے بوکا دراصل چمڑے کے مشکیزے کی طرح ہوتا ہے جسے کنویں میں ڈال کر پانی نکالا کرتے ہیں۔ میرے والد چونکہ سلپ میں کیچ اچھے پکڑتے تھے تو ان کے ایک ساتھی کرکٹ کھلاڑی فقیراعزاز الدین نے ان سے مذاقا ًکہا تھا کہ آپ کے ہاتھ بہت بڑے ہیں جن سے کیچ نکل کر نہیں جا سکتے۔ یہ ہاتھ بوکے جیسے ہیں بعد میں یہ لفظ بوکے سے بو کو بن گیا۔

خراب وکٹوں پر لاجواب بیٹنگ[ترمیم]

انڈیا کے سابق سپنر بشن سنگھ بیدی کہتے ہیں: ماجدخان صرف اچھی وکٹ پر ہی رنز نہیں سکور نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی خوبی یہ تھی کہ مشکل اور خراب وکٹ پر بھی وہ کمال کی بیٹنگ کرتے تھے۔' ماجد خان کی ایسی ہی ایک اننگز 1980ء میں آسٹریلیا کے خلاف کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں دیکھنے میں آئی تھی جہاں رے برائٹ، اقبال قاسم اور اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے توصیف احمد کسی بھی بیٹسمین کو کھل کر کھیلنے نہیں دے رہے تھے ایسے میں جہاں جاوید میانداد اور گریگ چیپل کے لیے بڑی اننگز کھیلنا ممکن نہ ہو سکا ماجد خان نے 89 رنز کی غیر معمولی اننگز کھیلی تھی۔

آخری اننگز میں غلط آئوٹ[ترمیم]

ماجد خان کی سب سے بڑی خوبی جس کا ہر کوئی اعتراف کرتا ہے وہ ان کی سپورٹسمین شپ تھی۔ وکٹ کے پیچھے کیچ ہونے کے بعد وہ کریز چھوڑنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے تھے لیکن جنوری 1983ء میں انڈیا کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں دنیا نے انھیں مختلف روپ میں دیکھا جب امپائر جاوید اختر نے انھیں صفر پر کپل دیو کی گیند پر وکٹ کیپر کرمانی کے ہاتھوں کیچ آٹ دے دیا۔ ماجد خان کو پتہ تھا کہ گیند نے بلے کو نہیں چھوا تھا لہذا وہ پہلی بار غصے میں بڑبڑاتے ہوئے پویلین جاتے ہوئے نظر آئے تھے۔ یہ ایک شاندار کریئر کا افسوسناک اختتام تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور ٹیسٹ شروع ہوتے وقت ماجد خان سب سے زیادہ 3931 رنز بنانے والے پاکستانی ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی تھے لیکن اسی اننگز میں جاوید میانداد 85 رنز بنا کر ان سے آگے نکل گئے تھے۔

بولرز نے فل پچ شارٹ پچ بانسرز بیمرز سب آزمالیں[ترمیم]

1976ء اکتوبر کے آخری ایام کی بات ہے کراچی میں ان دنوں سردی تو نہیں ہوتی لیکن صبح کے اوقات میں ہوا میں ہلکی سی خنکی ہوتی ہے اور دھوپ میں سنہرا پن ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک صبح نیشنل اسٹیڈیم میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کے خلاف سیریز کا تیسرا اور آخری ٹیسٹ شروع ہوا ۔ پاکستانی کپتان مشتاق محمد نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا ۔ صادق محمد اور ماجد خان جب اوپننگ کرنے کے لیے آئیے تو سب کچھ عام سا تھا ہلکی ہلکی ہوا اور شدت پکڑتی ہوئی دھوپ منڈیروں چڑھنے لگی تھی ۔ نیوزی لینڈ کی طرف سے ڈک کولنج نے پہلا اوور شروع کیا تو ماجد خان سامنے تھے ۔ ڈھیلے ڈھالے انداز میں کھڑے ہوئے ماجد خان نے اپنے عزائم کا پتہ پہلے اوور میں ہی فائن لیگ پر چھکا لگا کر دے دیا ۔ آہستہ سے بیٹ اٹھانے والے ماجد خان جن کا شاٹ کھیلنے کا انداز ایک عجیب بے نیازی کا روپ ہوتا تھا۔ لیکن جب ان کا بیٹ ٹائیمنگ کے ساتھ گیند کو ضرب لگاتا تھا تو گیند بولر کے ہاتھ سے چھوٹنے کے بعد بانڈری لائین پر ہی نظر آتی تھی۔ کراچی ٹیسٹ میں کیویز کا بولنگ سکواڈ رچرڈ ہیڈلی لانس کیرنز اور ڈک کولنج پر مشتمل تھا جو سیریز میں پہلے ہی مار کھا کھا کر در بدر تھا اس کا آج مائیٹی ماجد خان نے مزید قیمہ بنادیا۔ تینوں بولرز نے فل پچ شارٹ پچ بانسرز بیمرز سب آزمالیں لیکن ماجد کا بیٹ رک نہیں تھا۔ دو گھنٹے کی بیٹنگ میں ماجد نے 20 دفعہ گیند کو بانڈری کی راہ دکھا دی۔ ماجد خان نے 46 سال کے بعد وہ کارنامہ انجام دے دیا جو 1930ء میں سر ڈان بریڈمین نے آخری دفعہ انجام دیا تھا۔ ٹیسٹ میچ کے پہلے دن لنچ سے پہلے سنچری بناکر وہ تاریخ کرکٹ کے چوتھے کھلاڑی بن گئے۔ اب تک کرکٹ کی تاریخ میں صرف 6 ایسی سنچریاں بنائی گئی ہیں اور ماجد خان واحد پاکستانی ہیں۔ کرکٹ کی سفید کٹ میں ملبوس نظر آنے والے ماجد خان کو پاکستان کرکٹ میں سب سے زیادہ کاپی کیا گیا ۔ سلیم ملک رمیز راجا باسط علی اور کئی کھلاڑی ماجد خان کی نقل کرتے تھے ۔ وہ جس خوبصورتی سے بہت آہستگی سے بیٹ کو حرکت دیتے تھے اسے دیکھنے کا الگ ہی مزہ تھا ۔ کور ڈرائیو ہو یا ہک شاٹ ، وہ ہر شاٹ کمال مہارت سے کھیلتے تھے۔ ماجد خان کئی دوسرے ٹیسٹ کرکٹرز کی طرح بولر بننے آئے اور بہترین بلے باز بن گئے ۔ 1964ء میں آسٹریلیا کے خلاف انھوں نے بحیثیت فاسٹ بولر کیرئیر کا آغاز کیا لیکن جلد ہی وہ بلے باز کا روپ دھار گئے حالانکہ پہلے ہی ٹیسٹ میں تین وکٹ لیے تھے لیکن ان کی بااعتماد بلے بازی دن بدن ان کو ٹیل اینڈرز سے نکال کر اوپر لاتی رہی اورچند ہی سال میں وہ اوپنر بن گئے ۔ خیال رہے اس زمانے میں سال بھر میں دو سے تین ٹیسٹ ہی کھیلے جاتے تھے[3]

ماجد خان کی بیٹنگ کا سنہری دور[ترمیم]

ان کی بیٹنگ کا سنہری دور 1972ء سے 1979ء کے درمیان تھا جب انھوں نے انگلینڈ ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے خطرناک بولرز کیخلاف جم کر بیٹنگ کی۔ میلبورن میں 158رنز کی اننگز اور جارج ٹائون میں ویسٹ انڈیز کی کالی آندھی کے خلاف ان کی سنچریاں ان کی دلیرانہ بیٹنگ کا نمونہ تھیں ۔ ان کے ٹیسٹ کیرئیر میں 8سنچریاں شامل ہیں جو اوپنر کی حیثیت سے قابل ذکر کارکردگی ہے۔

ٹیسٹ کپتانی[ترمیم]

1972-73ء میں انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں کپتانی کا اعزاز حاصل کیا اگرچہ تینوں ٹیسٹ ڈرا ہو گئے تھے لیکن ٹیم میں گروپ بندی کے باعث انھوں نے مزید کپتانی سے معزرت کرلی اور اگلے دورے کے لیے انتخاب عالم کپتان مقرر ہوئے۔

کائونٹی کرکٹ[ترمیم]

کیمبرج لہجے میں انگریزی بولنے والے ماجد خان نے جس شان اور دبدبے سے انگلینڈ میں کائونٹی کرکٹ کھیلی اس سے لگتا تھا وہ کوئی انگریز ہیں۔ گلیمورگن کائونٹی کی طرف سے برسوں کھیلتے رہے اور کپتانی بھی کرتے رہے۔ ان کی شاندار بیٹنگ نے پہلے سال ہی کائونٹی کو 13ویں سے چوتھے نمبر پر پہنچادیا تھا وہ 1973ء سے 1976ء تک کپتان رہے ۔ مشہور کمنٹیٹر ایلن ولکنس جو ماجد خان کی قیادت میں کائونٹی کھیل چکے ہیں وہ ماجد کو ایک متاثر کن شخصیت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ماجد بہت کم بولتے ہیں، لیکن جب بھی بولتے ہیں سامنے والے کو متاثر کردیتے ہیں ان کی شخصیت نے انگریزوں کو بھی اپنا دلدادہ بنادیا تھا۔

اصولوں کے پابند[ترمیم]

ماجد خان ایک ایسی کرکٹ فیملی سے تعلق رکھتے ہیں جس کا پاکستان کرکٹ پر گہرا اثر ہے۔ والد جہانگیر خان متحدہ ہندوستان کی پہلی ٹیم کے رکن تھے، کزن جاوید برکی اور عمران خان پاکستان کرکٹ کے نامی گرامی ستون رہے ہیں۔ ماجد کے بیٹے بازید خان نے بھی ایک ٹیسٹ کھیلا ہے۔ کرکٹ بورڈ کے سی ای او رہنے کے باوجود ماجد خان نے کبھی بیٹے کے لیے کسی سفارش کا استعمال نہیں کیا ۔ وہ اپنے طور طریقوں میں سخت نظم و ضبط کے پابند تھے اور ساتھی کھلاڑیوں سے بھی یہی امید رکھتے تھے۔ آسٹریلیا کے ایک دورے پر ان کے ساتھ سلیم ملک نے جب جہاز کے سفر کے دوران ان سے اخبار مانگا تو ماجد خان نے انکار کرتے ہوئے کہا 'تمھارے کمرے میں بھی اخبار آیا تھا، ساتھ لے کر کیوں نہیں آئے۔' وہ فیلڈ میں بیحد منظم اور خاموش رہتے تھے۔ سلپ میں فیلڈنگ کرتے ہوئے کبھی انھیں باتیں کرتے نہیں دیکھا گیا کیونکہ وہ اپنی پوری توجہ کھیل پر مرکوز رکھتے تھے۔ اسی لیے 63 ٹیسٹ میچوں میں 70 کیچز ان کے انہماک کی مثال ہیں۔ ماجد خان کو دوسرے کھلاڑیوں کے برعکس کبھی میچ کے بعد شام کو کسی بار یا ریسٹورینٹ میں نہیں دیکھا جاتا تھا وہ میچ کیدوران ساری توجہ میچ پر رکھتے تھے ۔ ماجد خان اپنی بیٹنگ میں اسٹائلش شاٹ کھیلنے کے باعث بہت مقبول تھے وہ فاسٹ بولرز کو فرنٹ فٹ پر ہک اور پل شاٹ کھیلنے کے ماہر تھے۔ وہ ابتدا سے رنز کی رفتار تیز رکھتے تھے اور کور ڈرائیو کلائیوں کے بل پر بہت خوبصورت انداز میں کھیلتے تھے[4] ماجد خان کی خاص بات ان کا پرسکون رہنا اور کھیل پر مکمل توجہ رکھنا ہوتا تھا ۔ 1976-77ء کی ویسٹ انڈیز کی سیریز میں ہیلمٹ کے بغیر برق رفتار بولرز کے خلاف ان کی شاندار اننگز ان کی دلیرانہ بیٹنگ کی مثال ہیں۔ ماجد خان کی جارحانہ بیٹنگ اور پرسکون سٹائل کی وجہ سے گلیمورگن کے مداح جب گرائونڈ میں انھیں بیٹنگ کے لیے آتے دیکھتے تھے تو مائٹی خان ماجد ۔۔ ماجد ۔۔ کے نعرے لگانے لگتے تھے ماجد اپنے مداحوں کو بھی اپنی جارحانہ بیٹنگ سے خوب محظوظ کرتے تھے[5]

اعداد و شمار[ترمیم]

ماجد خان نے 63 ٹیسٹ میچوں کی 106 اننگز میں 5 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 3931 رنز بنائے۔ 38.92 کی اوسط سے بننے والے اس مجموعے میں 167 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ اس کے علاوہ 8 سنچریاں اور 9 نصف سنچریاں بھی سکور کو ترتیب دینے میں معاون ثابت ہوئیں۔ ماجد خان نے 23 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کی 22 اننگز میں ایک مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 786 رنز بورڈ پر سجائے۔ 37.42 کی اوسط سے 109 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ یہ واحد سنچری تھی جو ماجد خان نے ایک روزہ مقابلوں میں سکور کی جبکہ 7 نصف سنچریاں بھی ان کے بلے سے امڈ آئیں۔ ماجد خان نے 410 فرسٹ کلاس میچوں کی 700 اننگز میں 62 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 27444 رنز سکور کیے۔ 43.1 کی اوسط سے بننے والے اس سکور میں 241 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ انھوں نے فرسٹ کلاس میچوں میں 73 سنچریاں اور 128 نصف سنچریاں بھی سکور کیں۔ ٹیسٹ میچوں میں 70' ایک روزہ مقابلوں میں 3 اور فرسٹ کلاس میچوں میں 410 کیچز ان کے شاندار کیریئر کا حصہ تھے۔ ماجد خان نے بولنگ کے شعبے میں ٹیسٹ میچز میں 1456 رنز دے کر 27 وکٹیں 4/45 کی بہترین کارکردگی کے ساتھ انجام دیں جبکہ 374 رنز کے عوض 13 وکٹیں ایک روزہ مقابلوں میں ان کا حصہ تھا۔ 3/27 کی بہترین بولنگ کے ساتھ انھیں 28.76 کی اوسط حاصل ہوئی تھی۔ اسی طرح فرسٹ کلاس میچوں میں 7168 رنز کے عوض 223 وکٹیں ان کی بھرپور دسترس کا باعث تھیں جس کے دوران انھوں نے 67/6 کی بہترین کارکردگی کے ساتھ 32.14 کی اوسط حاصل کی۔ ماجد خان نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد امپائرنگ میں بھی اپنے جوہر آزمائے۔ انھوں نے 4 ٹیسٹ میچوں میں بطور امپائر اپنے فرائض کو ادا کیا۔ ماجد خان نے بطور کپتان 3 ٹیسٹ میچوں میں ٹیم کی قیادت کی جو تمام کے تمام بغیر نتیجے کے اختتام پزیر ہوئے[6]

بین الاقوامی کرکٹ کے بعد[ترمیم]

بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ماجد خان پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ ایڈمنسٹریٹر بن گئے، 1990ء کی دہائی کے وسط میں بورڈ کے سی ای او بن گئے۔اب وہ اسلام آباد میں رہتے ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]