انتخاب عالم (پاکستانی کرکٹ کھلاڑی)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
انتخاب عالم ٹیسٹ کیپ نمبر 34
ذاتی معلومات
پیدائش (1941-12-28) 28 دسمبر 1941 (age 82)
ہوشیارپور, پنجاب، برطانوی راج
(اب بھارت)
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیلیگ بریک گیند باز
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 34)4 دسمبر 1959  بمقابلہ  آسٹریلیا
آخری ٹیسٹ4 مارچ 1977  بمقابلہ  ویسٹ انڈیز
پہلا ایک روزہ (کیپ 3)11 فروری 1973  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
آخری ایک روزہ16 اکتوبر 1976  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ فرسٹ کلاس
میچ 47 4 489
رنز بنائے 1493 17 14331
بیٹنگ اوسط 22.28 8.50 22.14
سنچریاں/ففٹیاں 1/8 -/- 9/67
ٹاپ اسکور 138 10 182
گیندیں کرائیں 10474 158 91735
وکٹیں 125 4 1571
بولنگ اوسط 35.95 29.50 27.67
اننگز میں 5 وکٹ 5 85
میچ میں 10 وکٹ 2 n/a 13
بہترین بولنگ 7/52 2/36 8/54
کیچ/سٹمپ 20/- -/- 228/-
ماخذ: کرک انفو، 11 جون 2013

انتخاب عالم خان انگریزی:Intikhab Alam Khan(پیدائش: 28 دسمبر 1941ء ہوشیار پور، پنجاب، انڈیا) پاکستان کے ایک کرکٹ کھلاڑی ہیں جنھوں 1959ء سے 1977ء تک 47 ٹیسٹ اور 4 ایک روزہ میچوں میں اپنے جوہر دکھائے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی طرف سے 17 ٹیسٹ میچوں کی کپتانی بھی کی۔ وہ انگلش کاؤنٹی سرے کی طرف سے بھی کھیلتے تھے انھوں نے پاکستان کے علاوہ کراچی ،پاکستان انٹر نیشنل ائیر لائنز ،پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ ،پنجاب اور سندھ کی طرف سے بھی کرکٹ کھیلی ان کے ایک بھائی آفتاب عالم خان نے بھی کراچی کے علاوہ نیشنل ٹائر اینڈ ربر کمپنی کی طرف سے46 فرسٹ کلاس میچوں میں اپنے جوہر آزمائے مگر وہ اس سے اگے نہ بڑھ سکے[1]

ابتدائی دور[ترمیم]

انتخاب عالم بھارتی ریاست پنجاب کے ہوشیارپور تب بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔[2] انھیں پاکستان کرکٹ کی اہم شخصیات میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے انتخاب عالم کرکٹ کے کھیل سے محبت کرنے والے فرد اور اس کھیل میں قوم کو عروج پر لے جانے کے لیے اہم تھے۔ وہ باؤلنگ آل راؤنڈر تھے ایک مستحکم لیگ اسپنر کی طرح وہ ہمیشہ توقعات پر پورے اترے جو ہاتھ میں ولو کے ساتھ گیند کو سختی سے نشانہ بنا سکتا تھا۔ اگرچہ ہوشیار پور میں پیدا ہونے والے افراد کے لیے مستقل مزاجی ہمیشہ نہیں آتی تھی، لیکن ان کی موجودگی نے ایک تبدیلی کے مرحلے کو یقینی بنایا کیونکہ پاکستان ایک ڈرپوک ٹیم سے ایک غالب قوت بن چکا تھا ۔ ان کی شخصیت میں جوش و خروش کا مطلب یہ تھا کہ ٹیم کا کپتان مقرر ہونے سے پہلے یہ صرف وقت کی بات ہے۔ حکمت عملی کے لحاظ سے، عالم ایک بہترین رہنما تھے لیکن زیادہ تر انھیں ایک سفارتی شخص کے طور پر جانا جاتا تھے جس کے اپنے فوائد اور نقصانات تھے۔ کھیل کے تیز رفتار سیکھنے والے، عالم ان پہلے پاکستانیوں میں شامل تھے جنھوں نے اپنی مہارت کے سیٹ کو بہتر بنانے کے لیے انگلینڈ کاؤنٹی کے ساحلوں کا رخ کیا۔ سرے میں ان کا تجربہ انمول ثابت ہوا کیونکہ پاکستان کا 1974ء کا دورہ ایک پریوں کی کہانی بن گیا، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ اس سیریر میں ناقابل شکست رہے۔ انتخاب عالم خاص طور پر اپنی لیگ سپن کے ساتھ اہم معماروں میں سے تھے۔ اگرچہ ایک کپتان کے طور پر ان کو کڑی تنقید کا سامنا رہا مگر جب انھوں نے کوچنگ شروع کی تو وہ کام آئے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت وہ لاجواب سمجھ بوجھ ہے جب عمران خان نے قیادت کی۔ یہ جوڑی اپنی کرکٹ کی تاریخ میں پاکستان کے لیے سب سے بڑے لمحے کو تراشنے کے لیے ایک پیج پر تھے جب پاکستان نے 1992ء میں ورلڈ کپ کی شاندار جیت کو پاکستان کا مقدر بنا دیا انتخاب عالم کو ٹیم کے کوچ اور مینیجر کی حیثیت سے یکساں ذمہ داری ادا ککرنے کی عادت تھی۔ عمران اور جاوید میانداد میں پاکستان کے دو سینئر کھلاڑی تھے جو ایک دوسرے کے بالکل برعکس تھے۔ ڈریسنگ روم انا کا میدان ہو سکتا تھا لیکن عالم کی ہم آہنگی اور سفارت کاری کا مطلب یہ تھا کہ ان ممکنہ مسائل کو پس پشت ڈال دیا گیا تھا۔ کوچ مینیجر کا کردار دو بار مزید انتخاب عالم کے پاس واپس آیا، پاکستان کرکٹ کے بحران میں ان کی خدمات کو ایک واحد حل کے طور پر جانچا جاتا رہا ہے پہلی بار 2000ء میں اور آخری 2008ی میں انھیں چیلنجز سے نمٹنے کا مسیحا سمجھا گیا مؤخر الذکر اس لحاظ سے سراہے جانے کے لائق تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کیونکہ اگلے سال پاکستان نے اپنا پہلا ورلڈ T20 ٹائٹل جیتا تھا۔

ٹیسٹ کرکٹ کیرئیر[ترمیم]

انتخاب عالم کو ان کی آل رائونڈ کارکردگی کے سبب 1959-60ء میں پاکستان کا دورہ کرنے والی آسٹریلیوی ٹیم کے خلاف ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اس ڈرا ٹیسٹ میں ان کے ساتھ منیر ملک نے بھی اپنا ٹیسٹ کیریئر شروع کیا تھا۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 287 رنز بورڈ پر سجائے۔ اس میں سعید احمد 91' اعجاز بٹ 58 اور حنیف محمد 51 کے ساتھ ساتھ والز میتھائس کے 43 رنز نمایاں تھے۔ رچی بینوں 93/5 کی کارکردگی نہ دکھاتے تو اننگ اور بھی طوالت اختیار کرسکتی تھی۔ جواب میں آسٹریلوی ٹیم 257 رنز تک محدود رہی۔ نیل ہاروے 54 اور کین میکے 40 کے ساتھ اپنی ٹیم کے مددگار ثابت ہوئے تھے۔ انتخاب عالم بیٹنگ میں تو رنز بنائے بغیر ہی کریز سے بے دخل ہوئے تاہم بولنگ میں انھوں نے 49/2 کے ساتھ 19 اوورز میں 4 میڈن کیے تھے۔ آسٹریلوی اوپنر کولن میکڈونلڈ 15 رنز پر ان کی پہلی ٹیسٹ وکٹ بنے۔ اسی اننگز میں بلی گرائوٹ ان کی دوسری وکٹ بنے۔ پاکستان کے کپتان امتیاز احمد نے 8 وکٹوں پر ہی اننگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ حنیف محمد کی دلکش سنچری 101 اس اننگ کا نمایاں پہلو تھا۔ انتخاب عالم نے 6 رنز کا حصہ ڈالا۔ آسٹریلیا نے سنبھل کر کھیلتے ہوئے 83/2 بنائے تھے کہ میچ کی برابری پر ختم ہونے کا اعلان ہو گیا۔ اسی سیزن میں دورئہ بھارت وہ پہلے ٹیسٹ میں ہی سب کی نظروں میں آگئے جب انھوں نے 67/4 وکٹوں کے ساتھ پہلی اننگ میں 56 رنز بھی بنائے۔ مشتاق محمد 61 کے ساتھ' حنیف محمد اور انتخاب عالم 56,56 نے پاکستان کا سکور 301 تک پہنچا دیا تھا۔ سریندر ناتھ اور چندو بوڈے نے 4,4 پاکستانی کھلاڑیوں کی اننگز کے خاتمے کا فریضہ انجام دیا تھا۔ بھارت کی ٹیم اپنے بولرز کی اس محنت کو باآور نہ لاسکی اور پوری ٹیم 180 رنز پر ہی اپنی شائقین کے سامنے بے بس نظر آئی۔ بھارت کو اس مقام تک لانے میں 26/5 فضل محمود کا ہاتھ تھا۔ جبکہ انتخاب عالم نے بھی 2 وکٹ لیے۔ دوسری اننگ میں انتخاب عالم نے 13 رنز سکور کیے۔ پاکستان نے ایک بار پھر 148 رنز 3 کھلاڑی آئوٹ ہونے پر اننگ کو ڈکلیئر کرنے کا اعلان کر دیا اور بھارت کو 267 رنز کا ہدف ملا جو میچ کے اختتام تک بھارت 127/4 ہی بنا سکا۔ انتخاب عالم اور حسیب احسن کی 2,2 وکٹوں کے ساتھ کوششوں کے باوجود یہ ٹیسٹ فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکا۔ چنائی کے دوسرے ٹیسٹ میں 13 اور دہلی کے ٹیسٹ میں 10 رنز کے ساتھ 76 رنز کے عوض ہی انتخاب عالم کی کارکردگی رہی۔ اسی سیزن میں انگلستان کے خلاف پاکستان اور انگلش سرزمین پر 5 ٹیسٹ میچ میں قدرے مایوس کے ساتھ انتخاب عالم نے صرف 6 کھلاڑیوں کو ہی اپنی گیندوں پر پویلین بھجوایا جبکہ بیٹنگ میں انھوں نے 109 رنز جوڑے۔ اس سریز کے بعد انتخاب عالم پاکستانی ٹیم کا حصہ نہ بنے۔ تاوقتیکہ 1964-65ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف انھوں نے کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں 13 اور 61 کی باریاں کھیل کر خود سے منسوب توقعات کی لاج رکھنے کا اہتمام کیا۔ ان کی گیندیں البتہ انھیں کسی وکٹ کا مالک نہ بنا سکیں[3] انتخاب عالم کو 2 سال کے بعد انھیں انگلستان کے خلاف 6 ٹیسٹوں میں ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔ انگلستان کے دورے میں انھوں نے لارڈز کے میدان پر 156/3 کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ نوٹنگھم میں وہ کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے جبکہ اوول کے ٹیسٹ میں انھوں نے 51 شاندار رنز بنانے کے علاوہ 93 رنز کے عوض ایک کھلاڑی کو آئوٹ کیا۔ اس کے بعد ملک کے اندر انھوں نے لاہور ٹیسٹ میں 146/4، ڈھاکہ میں 84/1 اور کراچی کے ٹیسٹ میں 129 رنز کے عوض 3 کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا۔ اسی سیزن میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی اور لاہور کے 2 ٹیسٹوں میں وہ 47 رنز کی ایک اننگ کے علاوہ متاثر نہ کرسکے لیکن ڈھاکہ کے تیسرے ٹیسٹ میں ان کا دائو چل گیا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم پہلی اننگ میں 273 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی۔ گیلن ٹرنر 110 اور مارک برجس 59 رنز نمایاں اننگز کے حامل تھے۔ انتخاب عالم نے 91/5 کے ساتھ کیوی بلے بازوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ گراہم ڈولنگ 15، گیون کانگڈن 6، برائن ہیسٹنگ 22، وک پولارڈ 2 اور ڈائل ہاڈلی 16 کی وکٹیں اڑا کر وہ بہت خوش تھے۔ پاکستان نے اننگز 290 رنز 7 کھلاڑیوں کے آئوٹ ہونے پر ڈکلیئر کی تو کپتان انتخاب عالم کے 20 رنز بھی اس میں شامل تھے۔ دوسری اننگ میں نیوزی لینڈ مارک برجس کی ناقابل شکست 119 رنز کی اننگ کے باوجود 200 رنز تک ہی محدود رہی۔ انتخاب عالم نے ایک بار پھر 39.4 اوورز میں 13 میڈن کے ساتھ 91 رنز دے کر 5 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا تھا۔ میچ ڈرا ہو گیا مگر انتخاب عالم کی 182 رنز کے عوض 10 وکٹوں کی کارکردگی متاثر کن تھی۔ 2 سال کے وقفے کے بعد 1971ء میں انگلینڈ کے دورے میں انتخاب عالم نے لیڈز کے ٹیسٹ میں 142 رنز کے عوض 6 وکٹیں حاصل کیں۔ اس طرح 1972-73ء میں آسٹریلیا کے خلاف میلبورن میں 171/3، سڈنی میں 22/1 نے بھی انھیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف اگلی سیریز میں ڈونیڈن کے مقام پر انھوں نے میچ میں 130 رنز کے عوض 11 کھلاڑیوں کو اپنے چنگل میں پھنسایا۔ یہ ٹیسٹ پاکستان نے ایک اننگ اور 166 رنز سے جیتا تھا۔ انتخاب عالم بطور کپتان اس کامیابی کے حقدار تھے۔ مشتاق محمد 201 اور آصف اقبال 175 کی مدد سے 507 رنز بنا کر اننگ ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ کر گذرا جبکہ ابھی اس کے 6 کھلاڑی ہی آئوٹ ہوئے تھے۔ جواب میں کیوی ٹیم صرف 156 رنز بنا کر ہی ڈھیر ہو گئی جس کا ایک سبب انتخاب عالم تھے جنھوں نے 52 رنز دے کر 7 کھلاڑی پویلین بھجوائے تھے۔ فالو آن کے بعد نیوزی لینڈ کی دوسری باری بھی پہلے سے مختلف نہ تھی۔ یہ پوری ٹیم 185 تک مسدود ہو گئی۔ وک پولارڈ کے 61 رنز شامل نہ ہوتے تو سکور یہاں تک بھی نہ پہنچتا۔ انتخاب عالم نے صرف 18 اوورز میں 78 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ آکلینڈ کے اگلے ٹیسٹ میں 127/6 کے ساتھ انھوں نے اس سیریز کا شاندار اختتام کیا۔ مارچ 73ء میں انگلستان کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورہ پر آئی جس کے 3 ٹیسٹ میچوں میں انتخاب عالم نے 15 وکٹ حاصل کیے تھے۔ لاہور ٹیسٹ میں 142/4، حیدرآباد میں 181/7 اور کراچی کے ٹیسٹ میں 105/4 کی کارکردگی کسی بھی طور سراہے جانے کے قابل تھی۔ اسی طرح جب 1974ء میں پاکستان کی ٹیم نے انگلستان کا جوابی دورہ کیا تو انتخاب عالم ایک بار پھر انگلش کھلاڑیوں پر ٹوٹ پڑے۔ لیڈز میں 1/39، لارڈز میں 2/80 جبکہ اوول کے ٹیسٹ میں انھوں نے ایک مرتبہ پھر ایک اننگ میں 5 وکٹیں حاصل کیں جس کے لیے انھیں 116 رنز دینے پڑے۔ 1975ء میں ویسٹ انڈیز نے پاکستان کا دورہ کیا۔ لاہور ٹیسٹ میں 78/3 اور کراچی ٹیسٹ میں 122/3 بھی متاثر کن کارکردگی کا ثبوت تھے لیکن اس کے بعد 1976ء میں انگلستان کا دورہ پاکستان ان کی کامیابیوں میں ایک نمایاں باب کے طور پر شامل ہوا۔ لاہور میں انھوں نے 120 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ حیدرآباد کے ٹیسٹ میں ان کا فگر 6/95 رہا۔ اس اعلیٰ کارکردگی کے تسلسل کو انھوں نے کراچی کے ٹیسٹ میں بھی برقرار رکھا جہاں 118/4 سے انھوں نے ٹیم کی مدد کی۔ 1977ء میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا تو انھوں نے پورٹ آف سپین کا واحد ٹیسٹ کھیلا جو ان کے ٹیسٹ کیریئر کا آخری ٹیسٹ تھا۔ انھوں نے 96 رنز دے کر 2 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا اور اپنا ٹیسٹ کیریئر کا سفر مکمل کیا۔

ون ڈے کیریئر[ترمیم]

انتخاب عالم نے 1973ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف کرائسٹ چرچ کے مقام پر اپنے ایک روزہ کیریئر کو شروع کیا جس میں مارک برجس ان کی پہلی وکٹ بنے۔ بیٹنگ میں انھوں نے 10 رنز بنائے۔ اس کے بعد 1974ء میں انھوں نے دورہ انگلستان میں 2 ایک روزہ مقابلوں میں شرکت کی جس میں وہ صرف ایک وکٹ ہی حاصل کرسکے جبکہ 1976ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیالکوٹ میچ ان کے ون ڈے کیریئر کا آخری میچ تھا۔

بھارتی ریاست پنجاب کی کرکٹ ٹیم کے کوچ[ترمیم]

2004ء میں انتخاب عالم کو بھارتی ریاست پنجاب کی کرکٹ ٹیم کے کوچ کے عہدے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ پنجاب کرکٹ ایسوسی ایشن نے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انتحاب تین سال تک یہ ذمہ داری نبھائیں۔[2]

اعدادوشمار[ترمیم]

انتخاب عالم نے 47 ٹیسٹ میچوں کی 77 اننگز میں 10 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 1493 رنز بنائے جس میں 138 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ 22.28 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں ایک سنچری اور 8 نصف سنچریاں بھی شامل تھیں جبکہ 489 فرسٹ کلاس میچوں کی 125 اننگز میں 78 بار ناٹ آئوٹ رہ کر انھوں نے 14331 رنز بنائے۔ 182 ان کا بہترین سکور تھا۔ 22.14 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں 9 سنچریاں اور 67 نصف سنچریاں بھی شامل تھیں جبکہ انتخاب عالم نے 4 ایک روزہ انٹر نیشنل میچوں میں صرف 17 رنز سکور کیے انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 4494 رنز دے کر 125 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ 52 رنز کے عوض 7 وکٹیں ان کا کسی ایک اننگ میں بہترین ریکارڈ تھا جبکہ 130 رنز کے عوض 11 وکٹوں کا حصول ان کے کسی میچ میں بہترین کارکردگی تھی۔ 35.95 کی اوسط سے لی گئی وکٹوں میں 5 دفعہ کسی ایک اننگ میں 5 یا 5 سے زائد وکٹ اور ایک میچ میں 2 دفعہ 10 وکٹ بھی شامل تھے اسی۔طرح انھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں 43474 رنز کے عوض 1571 وکٹ نکالے 27.67 کی اوسط سے بہترین بولنگ 54/8 تھی 85 دفعہ ایک اننگ میں 5 یا 5 سے زائد وکٹ جبکہ 13 دفعہ ایک میچ میں 10 یا 10 سے زائد وکٹ کے مالک بنے ٹیسٹ میں 20 اور فرسٹ کلاس میں 228 کیچز بھی ان کے کرکٹ ریکارڈ کا حصہ ہیں[4]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

کھیلوں کے عہدے
ماقبل  پاکستان کرکٹ کپتان
1969–1973
مابعد 
ماقبل  پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان
1974–1976
مابعد 
ماقبل  پاکستان قومی کوچ
2008–2010
مابعد 

سانچہ:ابتدائی ترتیب:انتخاب عالم