ظہیرعباس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ظہیر عباس سے رجوع مکرر)
ظہیر عباس ٹیسٹ کیپ نمبر63
ذاتی معلومات
مکمل نامسید ظہیر عباس کرمانی
پیدائش (1947-07-24) 24 جولائی 1947 (age 76)
سیالکوٹ, پنجاب, برطانوی ہند (اب پاکستان)
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیدائیں ہاتھ کا آف بریک گیند باز
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 63)24 اکتوبر 1969  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
آخری ٹیسٹ27 اکتوبر 1985  بمقابلہ  سری لنکا
پہلا ایک روزہ (کیپ 13)31 اگست 1974  بمقابلہ  انگلینڈ
آخری ایک روزہ3 نومبر 1985  بمقابلہ  سری لنکا
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ فرسٹ کلاس
میچ 78 62 459
رنز بنائے 5062 2572 34843
بیٹنگ اوسط 44.79 47.62 51.54
سنچریاں/ففٹیاں 12/20 7/13 108/158
ٹاپ اسکور 274 123 274
گیندیں کرائیں 370 280 2582
وکٹیں 3 7 30
بولنگ اوسط 44.00 31.85 38.20
اننگز میں 5 وکٹ 1
میچ میں 10 وکٹ
بہترین بولنگ 2/21 2/26 5/15
کیچ/سٹمپ 34/- 16/- 278/-
ماخذ: کرکٹ آرکائیو، 6 نومبر 2005

سید ظہیر عباس کرمانی انگریزی:Syed Zaheer Abbas Kirmani(پیدائش: 24 جولائی 1947ءسیالکوٹ، پنجاب)جنہیں عام طور پر ظہیر عباس کے طور پر جانا جاتا ہے، ایک سابق پاکستانی کرکٹ کھلاڑی ہیں جن کا شمار ملک کے بہترین بیٹسمینوں میں کیا جاتا ہے۔ وہ چند پیشہ ور کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جو چشمہ پہنتے تھے ۔ 1982/1983ء میں وہ ایک روزہ میچوں میں مسلسل تین سنچری اسکور کرنے والے پہلے بلے باز بنے۔ [1] انھوں نے 78 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ 62 ایک روزہ بین الاقوامی ایک روزہ میچز میں بھی شرکت کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں سابق ہندوستانی ٹیسٹ کپتان سنیل گواسکر نے ایک بار تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستانی کھلاڑی اکثر ظہیر کو کہتے تھے، "ظہیر اب بس کرو"، جس کا مطلب ہے "ظہیر، اب ختم بھی کرو" اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایشین بریڈ مین کے نام سے معروف یہ کھلاڑی اپنے وقت میں کتنی زبردست کرکٹ کھیلتے تھے[2]ظہیر عباس نے پاکستان کے ساتھ ساتھ دائود کلب' گلوسٹر شائر' کراچی' پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن' پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ اور سندھ کی طرف سے بھی فرسٹ کلاس میچوں میں حصہ لیا۔

ابتدائی کیریئر[ترمیم]

کراچی کے اسلامیہ کالج میں ظہیرعباس کو سائنس میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ انھیں لیب میں جا کر پریکٹیکل کرنا بھی پسند نہ تھا لہذا انھوں نے سائنس چھوڑ کر آرٹس کے مضامین رکھ لیے اور گریجویشن مکمل کی کیونکہ وہ اپنا مستقبل کرکٹ میں تلاش کر چکے تھے۔ وہ باقاعدگی سے عبدل ڈائر کے نیٹ پر جایا کرتے تھے جہاں ٹیسٹ اور فرسٹ کلاس کرکٹرز بھی کھیلنے آتے تھے۔ ایک دن انتخاب عالم نے انھیں بولنگ کی اور اُن کی بیٹنگ سے متاثر ہوئے اور پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے؟ ظہیر عباس کے والد سید غلام شبیر ایک سرکاری افسر تھے جو چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر اپنا مستقبل بنائے لیکن ظہیر عباس کے دل و دماغ پر کرکٹ چھائی ہوئی تھی۔ آخرکار والد نے بھی بیٹے کے شوق کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔پاک کریسنٹ کلب کے نیٹس پر ظہیرعباس سے میری ملاقات ہوا کرتی تھی۔ ان کی بیٹنگ خداداد صلاحیتوں کی حامل تھی جس نے انھیں عروج پر پہنچایا۔ʹیہ وہ دور تھا جب ظہیرعباس ایک جانب اپنے کالج کی کپتانی کرتے ہوئے ایک کے بعد ایک سنچری بنا رہے تھے تو دوسری طرف پاک کریسنٹ کلب کی طرف سے بننے والے ان کے بڑے سکور اخبارات کی شہہ سرخیوں میں تھے۔ ایک ایسی ہی اننگز پر جب ان کی تصویر بھی اخبار میں شائع ہوئی تو اُن کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ظہیرعباس اس دور کو قہقہہ لگاتے ہوئے یاد کرتے ہیں۔ ’فرسٹ کلاس اور ٹیسٹ کرکٹ میں میری سنچریاں تو ریکارڈ بُک میں محفوظ ہو گئیں لیکن زمانہ طالب علمی میں بنائی گئی سنچریوں کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں ہے۔ نہ جانے کتنی سنچریاں میں نے بنا ڈالی تھیں۔ صحیح تعداد تو مجھے بھی یاد نہیں[3]

فرسٹ کلاس کیریئر[ترمیم]

ظہیر عباس کو فرسٹ کلاس کرکٹ میں شاندار کامیابی ملی اور وہ واحد ایشیائی بلے باز ہیں جنھوں نے ایک سو فرسٹ کلاس سنچریاں بنائیں۔ اس نے گلوسٹر شائر کے ساتھ طویل عرصہ گزارا جس کے اس کی شراکت کا آغاز 1972ء میں ہوا تھا وہ تیرہ سال تک وہاں رہے۔ اس دوران انھوں نے اپنے 13 سیزن میں زیادہ تر میں ایک ہزار سے زیادہ رنز بنائے اس دوران اس نے دو مواقع (1976ء اور 1981ء) میں ایک ہی سیزن میں دو ہزار سے زیادہ رنز بھی بنائے۔ گلوسٹر شائر میں ان تیرہ سالوں کے دوران، اس نے 206 فرسٹ کلاس کھیل کھیلے، جس میں 16,000 سے زیادہ رنز 49.79 کی اوسط سے 49 سنچریوں اور 76 نصف سنچریوں کی مدد سے اس کی موثر کارکردگی کا پیش خیمہ تھے۔ ظہیر عباس واحد کھلاڑی ہیں جنھوں نے ایک فرسٹ کلاس میچ میں چار بار سنچری اور ڈبل سنچری اسکور کی، یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس نے ہر آٹھویں اننگ کو ناٹ آؤٹ مکمل کیا۔ اس کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے والے ظہیرعباس کو پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی نیوزی لینڈ کی ٹیم کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں اپنے ٹیسٹ کریئر کے آغاز کا موقع ملا۔ ان کے پہلے ٹیسٹ کپتان بھی انتخاب عالم تھے لیکن ظہیر عباس میچ کی دونوں اننگز میں متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکے اور سیریز کے اگلے دونوں ٹیسٹ سے باہر ہو گئے[4]

ٹیسٹ کیریئر[ترمیم]

ظہیر عباس نے 1969ء میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا اور اپنے دوسرے ہی ٹیسٹ میں انھوں نے انگلینڈ کے خلاف 274 رنز بنائے جو اب بھی کسی پاکستانی بلے باز کا چھٹا سب سے بڑا اسکور ہے۔ یہ ان کی چار ٹیسٹ ڈبل سنچریوں میں سے پہلی تھی۔ ظہیر عباس کی 274 رنز کی اننگز کے چند ہفتوں بعد پلے فیئر کرکٹ منتھلی نامی جریدے میں گورڈن روز نے اپنے مضمون میں بڑے کھلاڑی اور عظیم کھلاڑی کے فرق کے بارے میں تجزیہ کیا تھا اور لکھا کہ صرف ایک لفظ یہ فرق ظاہر کرتا ہے اور وہ ہے بیٹسمین کی کلاس۔انھوں نے کہا تھا کہ ظہیر عباس کی یہ اننگز انھیں عظیم کھلاڑیوں میں شامل کرتی ہے۔کرکٹ کھلاڑی انٹرنیشنل میگزین میں ارون روز واٹر نے لکھا تھا کہ ٹیسٹ میچ میں ڈبل سنچری بنانا ٹیمپرامنٹ اور مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔انھوں نے اپنے مضمون میں متعدد ایسے بڑے بیٹسمینوں کا ذکر کیا تھا جو ٹیسٹ میچ میں ڈبل سنچری بنانے میں ناکام رہے تھے جن میں ڈبلیو جی گریس، فرینک وولی، ہربرٹ سٹکلف، کالن کاؤڈرے اور رنجیت سنجھی قابل ذکر تھے۔ ظہیر عباس کے۔مقابلے میں پاکستان کی طرف سے صرف یونس خان اور جاوید میانداد نے زیادہ رنز بنائے ہیں۔ آخری 1983 میں بھارت کے خلاف 215 رنز کی اننگز تھی، جو مسلسل ٹیسٹ میں تین سنچریوں میں سے پہلی اور فرسٹ کلاس میں ان کی سوویں سنچری تھی۔ عباس اور جیفری بائیکاٹ وہ دو بلے باز ہیں جنھوں نے ٹیسٹ میچ میں سو بار 100 یا اس سے زائد تنز سکور کیے ہیں جو ظاہر ہے کہ ایک۔منفرد اعزاز ہے اور ان کی بیٹنگ گرپ کا منہ بولتا ثبوت ہے [5]سنہ 1971 میں جب پاکستانی ٹیم کے دورۂ انگلینڈ کا وقت آیا تو کپتان انتخاب عالم کا ووٹ ظہیرعباس کے حق میں گیا جو ڈومیسٹک سیزن میں پانچ سنچریاں بنا چکے تھے تین جون کو پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ایجبسٹن میں پہلا ٹیسٹ شروع ہوا لیکن ابھی پہلا اوور ہی جاری تھا کہ فاسٹ بولر ایلن وارڈ کی تیسری گیند اوپنر آفتاب گل کے سر پر لگی اور انھیں میدان چھوڑنا پڑا۔ اُن کی جگہ ڈریسنگ روم سے نمودار ہونے والے بیٹسمین کو دیکھ کر گراؤنڈ میں موجود ہر شخص حیران رہ گیا۔ یہ ظہیر عباس تھے جو اس وقت دبلے پتلے 23 سالہ نوجوان تھے۔ انھوں نے عینک لگا رکھی تھی اور ڈھیلی ڈھالی چال کے ساتھ کریز پر پہنچے لیکن اس کے بعد ایجبسٹن گراؤنڈ میں دو روز کے دوران جس طرح کی بیٹنگ دیکھنے میں آئی اس نے ہر ایک کو اُن کا دیوانہ بنا دیا۔ جب ظہیر عباس اپنی کلائی کا استعمال کرتے ہوئے خوبصورت ٹائمنگ سٹروکس کھیل رہے تھے تو ایک انگریز مبصر نے کہا ’یہ بیٹسمین تو بالکل اسکول ٹیچر معلوم ہو رہا ہے!‘ جس پر اس کے برابر میں بیٹھے ایک پاکستانی مبصر نے جواب دیا ʹجی نہیں یہ بیٹسمین یونیورسٹی کا پروفیسر لگ رہا ہے۔ʹیہ جواب دینے والے صحافی قمر احمد تھے جنھوں نے یہ اننگز عام مداح کی حیثیت سے دیکھی تھی[6] ظہیر عباس دوسروں کی طرح قمر احمد کے لیے بھی بالکل نئے تھے۔ چار جون کو ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن ظہیرعباس کے خوبصورت سٹروکس نے انگلینڈ کی بولنگ کو اپنے اشاروں پر نچانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ کوئی عام بولنگ اٹیک نہیں تھا۔ اس میں ایلن وارڈ، پیٹر لیور، کین شٹل ورتھ، باسل ڈی الیورا، ڈیرک انڈر ووڈ اور رے النگورتھ جیسے بولرز شامل تھے جو ایشیز میں آسٹریلیا کو ہرا چکے تھے۔ ظہیر عباس کے ہر خوبصورت سٹروک پر سلپ میں کھڑے کالن کاؤڈرے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تالی بجا کر انھیں داد دے رہے تھے۔ ظہیر عباس کو پہلا خراج تحسین فوراً ہی مل گیا تھا۔انگلینڈ کے اس دورے میں ظہیر عباس نے مجموعی طور پر 1508 رنز بنائے تھے جن میں چار سنچریاں اور سات نصف سنچریاں شامل تھیں۔ وزڈن نے انھیں سال کے پانچ بہترین کرکٹرز میں شامل کیا تھا۔

ایشیئن بریڈمین سب سے پہلے کس نے کہا؟[ترمیم]

274 رنز کی اننگز کے بعد دنیا کو ظہیر عباس کی شکل میں دوسرا سر ڈان بریڈمین نظر آنے لگا تھا۔یہ سوال خاصا دلچسپ ہے کہ ظہیر عباس کو سب سے پہلے ایشیئن بریڈمین کس نے کہا اور کب؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مشہور کمنٹیٹر جان آرلٹ نے ظہیر عباس کو ایشیئن بریڈمین کہہ کر پکارا۔ چند ایک کا کہنا ہے کہ ای ڈبلیو سوانٹن نے یہ خطاب دیا۔چھ یہ بھی کہتے ہیں کہ انھیں 1971 کے دورے میں نہیں بلکہ 1974 کے دورے میں ایشیئن بریڈمین کہا گیا جب انھوں نے اوول ٹیسٹ میں 240 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔خود ظہیر عباس کا اس بارے میں کہنا ہے ’274 رنزکی اننگز کے بعد انگلینڈ کے اخبار ٹائمز نے سرخی لگائی تھی۔ میٹ دا ایشیئن بریڈمین۔‘ ’مجھے مضمون نگار کا نام ابھی یاد نہیں۔ یہ اخبار کسی سوٹ کیس میں دیگر اخباری تراشوں کے ساتھ موجود ہے۔ʹانتخاب عالم بھی ظہیر عباس کی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ انھیں ایشیئن بریڈمین کا خطاب 1971 کے دورے میں ہی مل گیا تھا۔ ایشیئن بریڈمین کے اسی تذکرے میں سنیل گاوسکر کی یہ گفتگو بھی کم دلچسپ نہیں جس میں انھوں نے بتایا ʹجب میں اور ظہیر عباس 1971 کے اواخر میں ورلڈ الیون کے ساتھ ایڈیلیڈ پہنچے تھے تو ہمارے استقبال کے لیے سر ڈان بریڈمین بھی ایئرپورٹ پر موجود تھے اور جب ہم تینوں بات کر رہے تھے تو اس دوران روہن کنہائی یا سر گیری سوبرز میں سے کسی نے یہ کہا کہ ممبئی کے بریڈمین اور کراچی کے بریڈمین اصل سر ڈان بریڈمین کے ساتھ ہیں۔[7]

کاؤنٹی کے سکورر کو گھڑی کا تحفہ[ترمیم]

انگلش کاؤنٹی گلوسٹر شائر سے تیرہ سالہ تعلق کے دوران ظہیر عباس کی کاؤنٹی کے سرکاری سکورر برٹ ایوری سے دوستی ہو گئی تھی۔کرکٹرز کی بڑی تعداد اعداد و شمار میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی لیکن ظہیر عباس کے ساتھ یہ معاملہ نہیں تھا۔ وہ باقاعدگی سے برسٹل گراؤنڈ کے سکور باکس میں جا کر برٹ ایوری سے اپنے سکور اور اعداد و شمار کے بارے میں بات کرتے تھے اور پوچھتے رہتے تھے کہ والی ہیمنڈ کی سنچریوں تک پہنچنے کے لیے انھیں کتنی سنچریاں درکار ہیں اور برٹ ایوری کا جواب ہوتا تھا ’زیڈ آپ اتنی دور نہیں جا سکیں گے۔‘ برٹ ایوری کے پاس آج بھی کلائی کی گھڑی موجود ہے جو ظہیر عباس نے انھیں تحفے میں دی تھی[8] برٹ ایوری کے پاس ظہیر عباس کے تمام ریکارڈز بھی محفوظ ہیں۔ ظہیرعباس نے جب سنہ 1976 میں سرے کے خلاف اوول میں ایک ہی میچ میں ڈبل سنچری اور سنچری سکور کی تو برٹ ایوری نے انھیں ایک خوبصورت چارٹ تیار کر کے پیش کیا جس میں ان کے ہر سکورنگ شاٹ کی ڈائریکشن دکھائی گئی تھی۔ظہیر عباس اتنے خوش ہوئے کہ اس کی کاپی کرائی تاکہ وطن واپس جا کر اسے اپنے والد کو دکھا سکیں[9]

اعداد و شمار[ترمیم]

ظہیر عباس نے 78 ٹیسٹ میچوں کی 124 اننگز میں 11 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 5062 رنز بنائے۔ ایک وقت میں وہ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ ٹیسٹ میچ رنزوں کا ریکارڈ رکھتے تھے تاہم بعد میں جاوید میانداد' یونس خان ان سے آگے نکل گئے۔ ظہیر عباس کے ریکارڈ میں 274 رنز کی اننگ ان کی کسی ایک اننگ میں سب سے بڑی باری تھی جس کی مدد سے ظہیر عباس کو بیٹنگ اوسط 44.79 حاصل ہوئی۔ 12 سنچریاں' 20 نصف سنچریاں اور 34 کیچز بھی ٹیسٹ میچوں میں ان کو بڑا ثابت کرنے کے لیے کافی تھے۔ ایشین بریڈ مین نے 62 ایک روزہ میچوں کی 60 اننگز میں 6 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 2672 رنز اپنے کھاتے میں جمع کیے۔ 7 سنچریوں کی مدد سے بنائے گئے اس سکور میں 123 ان کی کسی ایک اننگ کا سب سے بڑا سکور تھا۔ 47.62 کی اوسط سے بننے والے اس کیریئر ریکارڈ میں 7 سنچریوں اور 13 نصف سنچریوں کی مدد بھی انھیں حاصل تھی۔ ایک روزہ میچوں میں فیلڈنگ کے شعبے میں 16 کیچز بھی انھوں نے پکڑ رکھے تھے۔ ظہیر عباس کے فرسٹ کلاس ریکارڈ کو پاکستاذن کے چند بہترین فرسٹ کلاس ریکارڈز میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے 459 فرسٹ کلاس میچز کی 768 اننگز میں 92 دفعہ بغیر آئوٹ ہوئے 34843 رنز بنائے تھے۔ 51.54 کی اوسط سے بننے والے اس مجموعہ میں 108 سنچریاں اور 158 نصف سنچریاں بھی ہمیں دیکھنے کو ملیں جبکہ 278 کیچز بھی ان کے مضبوط ہاتھوں میں سما گئے تھے۔ ظہیر عباس نے بولنگ کے شعبے میں بھی قسمت آزمائی۔ ٹیسٹ میں 3' ون ڈے میں 7 اور فرسٹ کلاس کرکٹ میں 30 وکٹیں دیکھی جا سکتی ہیں[10] ظہیر عباس نے کرکٹ کے بعد امپائرنگ میں بھی اپنے جوہر آزمائے اور ایک ٹیسٹ اور 3 ایک روزہ میچوں کو بطور امپائر سپروائز کیا۔ ظہیر عباس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے 3 مسلسل ٹیسٹوں میں سنچری سکور کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہوا ہے۔ انھوں نے 1982-83ء کی سیریز میں بھارت کے خلاف لاہور میں 215' کراچی میں 186 اور فیصل آباد میں 168 رنز کی قابل ذکر اننگز ٹیم کے لیے ترتیب دیں۔ دلسچپ امر یہ ہے کہ تینوں اننگز انھوں نے روایتی حریف بھارت کے خلاف سکور کیں۔ ظہیر عباس کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا تھا جنھوں نے ایک اننگ میں سنچری اور نروس نائنٹیز کا ریکارڈ بھی بنایا۔ اگرچہ ان سے قبل یہ ریکارڈ حنیف محمد نے آسٹریلیا کے خلاف 104' 193 بنا چکے تھے تاہم ظہیر عباس نے 1978ء میں بھارت کے خلاف فیصل آباد ٹیسٹ میں 176' 96 سکور کیے۔ بعد ازاں سعید انور' یونس خان' محمد حفیظ اور عابد علی بھی ان کھلاڑیوں میں شامل ہو گئے جنھوں نے کسی ٹیسٹ کی ایک اننگ میں سنچری اور دوسری میں نروس نائنٹیز کے اعداد و شمار حاصل کیے ہوں۔ ظہیر عباس کو ایک یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے مسلسل 6 اننگز میں 50 یا اس سے زائد رنز حاصل کیے۔ انھوں نے 1982-83ء کے سیزن میں آسٹریلیا کے خلاف کراچی میں 91' فیصل آباد میں 126' لاہور میں 52 رنز کی مسلسل 3 اننگز کھیلیں اور اس کے بعد بھارت کے خلاف 3 مسلسل سنچریاں بنا کر وہ اس اعزاز کے حق دار ٹھہرے[11]

بطور کپتان[ترمیم]

ظہیر عباس نے 1981ء اور 1984ء میں قومی ٹیم کے کپتان کے طور پر دو ادوار گزارے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد[ترمیم]

وہ 1985ء میں بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہوئے اور ایک ٹیسٹ اور تین ون ڈے میچوں میں بطور میچ ریفری فرائض انجام دے چکے ہیں۔ وہ قومی ٹیم کے منیجر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ 2015ء میں وہ آئی سی سی کے صدر بنے، کولن کاؤڈری اور کلائیڈ والکاٹ کے بعد اس عہدے پر فائز ہونے والے تیسرے کرکٹ کھلاڑی تھے۔

ون ڈے کرکٹ کیرئیر[ترمیم]

ظہیر عباس نے 1982ء میں 4 میچوں کی دو طرفہ ون ڈے سیریز میں 346 رنز بنائے جو کسی بھی بلے باز کی طرف سے سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔ یہ ریکارڈ 2015ء میں جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ نے توڑا تھا۔[12]

ظہیر عباس کے کیریئر کا کارکردگی گراف

ذاتی زندگی[ترمیم]

ظہیر عباس نے 1988ء میں ہندوستانی نژاد ریٹا لوتھرا (اب ثمینہ عباس کے نام سے جانا جاتا ہے) سے شادی کی۔ ان کی پہلی شادی نجمہ بخاری سے ہوئی جن سے ان کی تین بیٹیاں، رودابہ، روشن اور حبا ہیں۔

خود نوشت[ترمیم]

1983ء میں انھوں نے برطانوی کرکٹ صحافی ڈیوڈ فوٹ کے ساتھ مل کر اپنی سوانح عمری زیڈ لکھی۔

ایوارڈز اور پہچان[ترمیم]

حکومت پاکستان کی طرف سے 1971ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ، 2020ء میں آئی سی سی کرکٹ ہال آف فیم میں شامل کیا گیا۔

ٹیسٹ سنچریاں[ترمیم]

ظہیر عباس کی ٹیسٹ سنچریاں
شمار رنز میچ مخالف شہر / ملک مقام سال
1. 274 2  انگلستان برمنگھم, انگلستان ایجبیسٹن کرکٹ گراؤنڈ 1971
2. 240 15  انگلستان لندن، انگلستان اوول 1974
3. 101 21  آسٹریلیا ایڈیلیڈ, آسٹریلیا ایڈیلیڈ اوول 1976
4. 176 27  بھارت فیصل آباد, پاکستان اقبال اسٹیڈیم 1978
5. 235* 28  بھارت لاہور, پاکستان قذافی اسٹیڈیم 1978
6. 135 31  نیوزی لینڈ آکلینڈ, نیوزی لینڈ ایڈن پارک 1979
7. 134 46  سری لنکا لاہور, پاکستان قذافی اسٹیڈیم 1982
8. 126 51  آسٹریلیا فیصل آباد, پاکستان اقبال اسٹیڈیم 1982
9. 215 53  بھارت لاہور, پاکستان قذافی اسٹیڈیم 1982
10. 186 54  بھارت کراچی, پاکستان نیشنل اسٹیڈیم، کراچی 1982
11. 168 55  بھارت فیصل آباد, پاکستان اقبال اسٹیڈیم 1983
12. 168* 70  بھارت لاہور, پاکستان قذافی اسٹیڈیم 1984

ایک روزہ بین الاقوامی سنچریاں[ترمیم]

ظہیر عباس کی ایک روزہ بین الاقوامی سنچریاں
شمار رنز میچ مخالف شہر / ملک مقام سال
1. 108 20  آسٹریلیا سڈنی، آسٹریلیا سڈنی کرکٹ گراؤنڈ 1981
2. 123 26  سری لنکا لاہور, پاکستان قذافی اسٹیڈیم 1982
3. 109 31  آسٹریلیا لاہور, پاکستان قذافی اسٹیڈیم 1982
4. 118 34  بھارت ملتان, پاکستان ملتان کرکٹ اسٹیڈیم 1982
5. 105 35  بھارت لاہور, پاکستان قذافی اسٹیڈیم 1982
6. 113 36  بھارت کراچی, پاکستان نیشنل اسٹیڈیم 1983
7. 103* 42  نیوزی لینڈ نوٹنگھم، انگلستان ٹرینٹ برج 1983

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]