"ولید بن عبد الملک" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م r2.7.2+) (روبالہ: تبدیل ru:Валид I بجانب ru:Аль-Валид I ибн Абдул-Малик
م r2.7.2) (روبالہ: تبدیل hu:I. al-Valíd kalifa بجانب hu:I. al-Valíd omajjád kalifa
سطر 136: سطر 136:
[[he:וליד הראשון]]
[[he:וליד הראשון]]
[[ka:ვალიდ I]]
[[ka:ვალიდ I]]
[[hu:I. al-Valíd kalifa]]
[[hu:I. al-Valíd omajjád kalifa]]
[[ms:Al-Walid bin Abdul Malik]]
[[ms:Al-Walid bin Abdul Malik]]
[[nl:Al-Walid I]]
[[nl:Al-Walid I]]

نسخہ بمطابق 17:54، 18 فروری 2013ء

بنو امیہ
خلفائے بنو امیہ
معاویہ بن ابو سفیان، 661-680
یزید بن معاویہ، 680-683
معاویہ بن یزید، 683-684
مروان بن حکم، 684-685
عبدالملک بن مروان، 685-705
ولید بن عبدالملک، 705-715
سلیمان بن عبدالملک، 715-717
عمر بن عبدالعزیز، 717-720
یزید بن عبدالملک، 720-724
ہشام بن عبدالملک، 724-743
ولید بن یزید، 743-744
یزید بن ولید، 744
ابراہیم بن ولید، 744
مروان بن محمد، 744-750


ولید بن عبدالملک (Al-Walid ibn Abd al-Malik) (715-668) بنو امیہ کا چھٹا نامور خلیفہ جو بڑا فیاض فاتح اور رفاہ عامہ کے کاموں میں بڑی دلچسپی لیتا تھا۔ اندلس، سندھ اور وسط ایشیا کے علاقے فتح کیے۔ حجاج بن یوسف، طارق بن زیاد، قتیبہ بن مسلم اور محمد بن قاسم اس کے نامور سپہ سالار تھے۔


ابتدائی حالات اور تخت نشینی

عبدالملک نے اپنی زندگی ہی میں اپنے دونوں بیٹوں ولید اور سلیمان بن عبدالملک کو علی الترتیب اپنا جانشین نامزد کر دیا تھا۔ چنانچہ باپ کی وفات کے بعد 705ء میں ولید سربراہ سلطنت ہوا۔ عبدالملک علم و فنون کا دلدادہ تھا لیکن ولید کو علم و ادب سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ جس قدر کوششیں تحصیل علم میں اس کے لیے کی گئیں وہ ناکام رہیں۔ لیکن اس کمی کے باوجود ایک حکمران کی حیثیت سے وہ اصول جہانبانی اور کشور کشائی میں اپنے پیشرو سے کم نہ تھا۔ اس کا دور امن و امان کا زمانہ تھا۔ اسے باپ سے عظیم سلطنت ورثہ میں ملی تھی۔ خوش قسمتی سے اپنے زمانے کے بہترین سپہ سالار اس کے ساتھ تھے۔ جن کی بدولت فتوحات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس سے عہد فاروقی کی یاد تازہ ہوگئی۔ ان فتوحات کی بدولت اس دور کو تاریخ اسلام میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔

فتوحات

خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں سپین، ترکستان اور پاکستان کے وسیع علاقے فتح ہوۓ۔ خلیفہ ولید کے دور میں عرب اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت قائم کر چکے تھے جس کا دنیا میں کوئی حریف نہ تھا۔

بلخ و طخارستان کی فتح

ترکستان (ماوراء النہر) کا علاقہ جو خراسان سے شمال مشرق کی جانب واقع تھا ، کے حکمران اکثر سرکشی اور بغاوت پر آمادہ رہتے تھے۔ قتیبہ بن مسلم بھی بہادر اور نامور جرنیل تھا اس نے ترکستان کے تمام علاقہ کی مکمل تسخیر کا جامع منصوبہ بنایا۔ 86ھ /705ء میں قتیبہ پہلی بار دریائے جیحوں کو عبور کرکے ماوراء النہر کے علاوہ میں داخل ہوا۔ ترکستان کے حکمران اس کی آمد سے گھبرا گئے اور یکے بعد دیگرے اطاعت قبول کرنے لگے ۔ بلخ اور طخارستان کے حکمرانوں کو مطیع کرنے کے بعد قتیبہ نے اپنے بھائی صالح کو وہاں کا نگران مقرر کرکے واپسی اختیار کی اور مرو میں قیام پذیر ہوا۔ صالح نے کاشان اور فرغانہ کی تسخیر مکمل کر لی ۔


بیکند کی فتح

706ء قتیبہ نے بخارا کے ایک اہم شہر بیکند پر لشکر کشی کی ۔ شعدی اور بخاری قبائل نے مل کر مزاحمت کی مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور قلعہ بند ہوگئے مسلمانوں نے یلغار جاری رکھی۔ اہل بیکند نے گھبرا کر صلح کر لی۔ قتیبہ صلح کے بعد ابھی واپس پلٹا ہی تھا کہ اہل بیکند نے بدعہدی کے مرتکب ہو کر مسلمان حاکم اور اس کے عملہ کو قتل کر دیا۔ چنانچہ قتیبہ فوراً پلٹا اور بیکند کو فتح کرنے کے بعد مجرمین کو قرار واقعی سزا دی ۔

فتح بخارا

بیکند کی تسخیر کے بعد دوسرے سال 89ھ /708ء میں قیتبہ دوبارہ ترکستان پر حملہ آور ہوا۔ خاقان چین کے بھتیجے نے قتیبہ کی آمد کی خبر پاکر 2 لاکھ ترک اور سغد قبائلیوں کے ہمراہ اس کی راہ روکنے کی کوشش کی ۔ مسلمانوں کی تعداد اگرچہ مقابلتاً بے حد کم تھی لین ان کے حوصلہ اور عزم کے سامنے دشمن کی ایک نہ چلی اور اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پرا۔ قتیبہ نے پیش قدمی جاری رکھی اور خاص بخارا کا نقشہ منگوایا اور نئی ہدایات روانہ کیں۔ ان ہدایات کے مطابق قتیبہ نے 90ھ / 710ء میں دوبارہ بخارا پر حملہ کیا۔ فریقین کے درمیان خونریز جنگ ہوئی اہل سغد اور ترک بڑی بے جگری سے لڑے ۔ قریب تھا نا مسلمان فوج کے پاؤں اکھڑ جاتے کہ خیموں میں مقیم عورتیں باہر نکل آئیں اور مجاہدین کے گھوڑوں کو مار مار کر واپس میدان جنگ میں دھکیل دیا۔ مسلمان سپاہی دوبارہ میدان جنگ میں پلٹ کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور انھیں شکست دے کر بخارا پر قبضہ کر لیا۔ قیتبہ نے وہاں ایک مسجد کی تعمیر کی اور مسلمانوں کے لیے مکانات بنوائے جہاں بنو تمیم اور دیگر عرب قبائل آباد ہوئے۔

تسخیر سمرقند

اہل سمرقند نے ترکستانی مہمات کے دوران مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ دوستی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیگر ترکستانی ریاستوں کی مدد کی تھی۔ قتیبہ سمرقندیوں کو ان کی بدعہدی کا مزا چکھانا چاہتا تھا۔ اس لیے اب قیتبہ نے سمرقند کا محاصرہ کر لیا۔ اہل سمر قند نے اردگرد کے حکمرانوں کو مدد کے لیے پکارا ۔ اور خود قلعہ بند ہو گئے۔ قیتبہ کو ترک ریاستوں کے ارادہ کا علم ہوگیا تو اس نے اپنے بھائی صالح کو مامور کیا کہ وہ ترکستانی فوج کو راہ ہی میں روک دے۔ صالح نے ان پر اچانک حملہ کرکے ان کو تتر بتر کر دیا اور مال غنیمت لے کر سمرقند واپس لوٹ آیا۔ اس شکست نے سغدیوں کی کمر ہمت توڑ دی چنانچہ انھوں نے مجبور ہو کر صلح کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی ۔ سغدیوں نے 12 لاکھ درہم سالانہ خراج کی ادائیگی منظور کر لی۔ قتیبہ نے وہاں بھی مسجد کی تعمیر کی اہل سغد کا عقیدہ تھا کہ جو کوئی ان بتوں کو توڑے گا وہ تباہ و برباد ہوگا ۔ لٰہذا قتیبہ نے خدائے واحد کی برتری، توحید کے درس اور باطل عقائد کی بیخ کنی کے لیے تمام بتوں کو توڑنے کا حکم دیا۔ جب اہل اسلام کو کوئی گزند نہ پہنچا تو بہت سے سغدی متاثر ہو کر مسلمان ہوئے ۔ سمرقند کی تسخیر 93ھ /711ء میں مکمل ہوئی ۔

خوارزم کی فتح

713ء میں خوارزم شاہ کے بھائی خرزاد نے ملکی نظم و نسق پر زبردستی قبضہ کر لیا تھا۔ لٰہذا خوارزم شاہ کی درخواست پر قتیبہ نے خوارزم پر فوج کشی کی اور خرزاد کو شکست دے کر خوارزم شاہ کو تخت نشین کر دیا مگر خوارزم شاہ اپنی کمزوری کی بنا پر اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ چنانچہ قتیبہ نے خوارزم کو باقاعدہ سلطنت اسلامیہ میں شامل کرکے اپنے بھائی عبداللہ کو وہاں کا حاکم مقرر کر دیا۔


شاش اور فرغانہ پر قبضہ

شاش اور فرغانہ کے حکمران سابقہ جنگوں میں اپنے ترکستانی ہمسایوں کے حلیف رہ چکے تھے لہذا قتیبہ نے 715ء میں شاش اور فرغانہ پر قبضہ کرکے اموی سلطنت کی حدیں چین تک پھیلا دیں علاوہ ازیں خجستان بھی لشکر اسلامی کے آگے نہ ٹھہر سکا اور اموی سلطنت کا جز بنا۔


چین پر حملہ

715ء میں ترکستان کی باقاعدہ تسخیر کے بعد قیتبہ نے چین پر حملہ کا منصوبہ بنایا۔ کاشغر فتح کرنے کے بعد قیتبہ چینی حددود میں داخل ہو گیا۔ فریقین کے درمیاں صلح کی گفتگو کا آغاز ہوا مسلمان سفیر خاقان چین کے پاس گئے خاقان نے مسلمانوں کے وفد کو متاثر کرنے کی کوشش کی مگر وفد کی طرف سے خاقان کو بتا دیا گیا کہ قیتبہ نے قسم کھائی ہے کہ وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے کا جب تک وہ چین سے خراج وصول نہ کر لے۔ خاقان چین کو مسلمانوں کے عزم و استقلال کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے لہذا جزیہ کی ادائیگی پر معاہدہ صلح ہوا۔ خاقان نے بیش قیمت تحائف بھی قیتبہ کے پاس روانہ کیے اس طرح لشکر اسلام فتح مندانہ واپس لوٹا۔

ولید بن عبدالملک اور پاکستان

ولید بن عبدالملک کے دور میں سندھ، بلوچستان اور پنجاب کا کچھ حصہ بنو امیہ کی خلافت کا حصہ بن گیا اس طرح سے ولید بن عبدالملک قدیم پاکستان کا پہلا خلیفہ تھا اور یہ علاقہ اک ایسی ریاست کا حصہ بن گیا جس کی سرحدیں دریائے سندھ سے فرانس تک تھیں، جس کا دارالخلافہ دمشق تھا اور جس کی زبان عربی تھی۔ پاکستان کا تعلق ہمیشہ کے لیے مذہبی طور پر اسلام سے اور ثقافتی طور پر عرب سے جڑ گیا اس طرح سے پاکستان کی قریبا 4000 سالہ تاریخ میں یہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک ان چند گنے چنے لوگوں میں شامل ہے۔ جنھوں نے پاکستان پر ہر لحاظ سے گہرے اثرات ڈالے۔

بد قسمتی سے بنو امیہ کی روشن خیالی اور علم پروری میں سیاسی وجوہات کی بنا پر پاکستان کو حصہ کم مل سکا جتنا کہ دوسرے علاقوں کو خاص طور پر سپین کو ملا۔

یہ کریڈٹ اس شخص کو جاتا ہے کہ سندھ کے قید خانے سے ایک عورت مدد کو پکارتی ہے اور ولید کی انتظامیہ لبیک کہتی ہے اور فوری طور پر ایک دور افتادہ مشکل اور دشمن ملک میں اس عورت کی مدد اور رہائی کیلیۓ کمر بستہ ہو جاتی ہے۔ حالانکہ اموی ریاست اس وقت کئی اور محاذوں پر بھی برسر پیکار تھی۔

پاکستان میں ولید کے کردار کو کم کیا جاتا ہے اور محمد بن قاسم کے کردار کو زیادہ حالانکہ فیصلہ کرنے، سپہ سالار کا انتحاب، فوج اور وسائل کی فراہمی اور پھر مسلسل رہنمائی اور رابطہ یہ ولید اور اسکی انتظامیہ کا ہی کام تھا۔

اندلس، یورپاور دنیا پر اثرات

عربوں کی سب سے بڑی سلطنت

ولید کے دور میں اندلس کی فتح تاریخ کا اہم واقع ہے۔ جس نے مستقبل کی ہسپانوی، یورپی اور دنیا کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیۓ بدل کر رکھ دیا۔ بنو امیہ کی علم دوست انصاف پسند اور روادار طبیعت نے ایسے ماحول کو جنم دیا جو ایک شاندار تہذیب کی تخلیق کا باعث بنا۔ سائنس، فلسفہ، ادب اور دوسرے فنون نے ایک نیا جنم اندلس میں لیا جس نے یورپ اور پھر پوری دنیا کو گہرے طور سے متاثر کیا۔

بازنطینی روم کے خلاف مہمات

خلیفہ عبدالملک بن مروان کی جنگ سباستوپولیس 692ء میں فتح کے بعد بازنطینی روم میں 20 سال کا انتشار رہا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے خلیفہ ولید بن عبدالملک نے بازنطینی روم (ایشیائے کوچک کے علاقے یعنی موجودہ ترکی کے علاقے) کے خلاف مہمات شروع کیں- اس جوف کے سالار، اس کے بھائی مسلمہ بن عبدالملک اور اس کا بیٹا عباس بن ولید تھے۔ انہوں نے اسی سال حصن بونق ، حصین اخرام اور حصین بوسن فتح کئے۔ اگلے سال عباس کے رومیوں پر مسلسل دباؤ سے وہ پیچھے ہٹ کر طوانہ کے قلعہ میں محصور ہونے پر مجبور ہوگئے ۔ بالاخر محاصرہ طوانہ 707ء تا 708ء کے نتیجے میں عباس نے قلعہ فتح کرکے انہیں پیچھے دھکیل دیا۔ مسلمہ نے عموریہ کا قلعہ بھی فتح کیا اور عباس آرمینیا میں گھس گیا ۔ ولید کے عہد حکومت کے خاتمے تک یہ فاتحین طرسوس اور انطاکیہ تک علاقے فتح کر چکے تھے۔

ولید کا سنہری زمانہ

بقول سر ولیم میور ولید اول کا زمانہ تاریخ اسلام کا شاندار ترین دور ہے ۔ فتوحات ، وسعت سلطنت ۔ ملکی استحکام ، امن و امان ، خوشحالی اور تہذیبی و ثقافتی ترقی کے لحاظ سے یہ دور انتہائی بلند اور ممتاز مقام رکھتا ہے اس دور میں ہونے والی فتوحات کا دائرہ اس قدر وسیع تھا کہ عہد فاروقی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اگر محض فتوحات ہی کی عظمت و معراج کی کسوٹی قرار دیا جائے تو بھی یہ بنوامیہ کا شاندار ترین دور کہلانے کا یقیناً مستحق ہے اس دور کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔


وسعت و سلطنت اور فتوحات

اس دور کی سب سے بڑی خصوصیت وہ عظیم الشان فتوحات ہیں جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ سندھ میں محمد بن قاسم، ترکستان اور چین میں قیتبہ بن مسلم ، سپین اور پرتگال میں موسی بن نصیر اور طارق بن زیاد ، ایشیائے کوچک میں مسلمہ بن عبدالملک اپنی شجاعت ، بہادری اور سرفروشانہ یلغاروں کی بدولت دشمنان اسلام کو شکستوں پر شکستیں دے کر اسلامی عظمت کا علم بلند کر رہے تھے بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر ولید دو چار برس ہی اور زندہ رہ جاتا تو چین اور ہندوستان بھی مملکت اسلامیہ کا جزو ہوتے ۔


امن و امان کا قیام

بیرون ملک فتوحات کے علاوہ اندرون ملک امن و امان کا قیام اعلی نظم و نسق اور خوشحال عوام اس دور کی دوسری نمایاں خصوصیات ہیں۔ حجاج بن یوسف کی زیر سرکردگی خوارج کا مکمل استیصال کیا جا چکا تھا اور کسی بھی ملک دشمن تحریک کو سر اٹھانے کی جرات نہ تھی اگر ملک کے اندر مکمل امن امان نہ ہوتا تو اس دور کی دیگر تعمیری خصوصیات کبھی بھی اجاگر نہ ہوتیں۔


علمی ترقی و سرپرستی

اگرچہ ولید خود تو علم حاصل نہ کر سکا۔ لیکن علوم کی سرپرستی بدستور پہلے خلفا کی طرح کی۔ قرآن و حدیث کی تعلیم اور ترقی کے لیے اس نے ذاتی توجہ اور دلچسپی سے کام لیا قرآن پاک سے اسے بڑی محبت تھی۔ اس کا شوق اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی حاجت روا اس کے در پر روپیہ مانگنے آتا تو وہ قرآن پڑھوا کر سنتا اور اگر قرآن پڑھنا آتا تو اس کی خوب مدد کرتا۔ عربی گرائمر میں بھی کافی سرگرمی سے کام کیا گیا۔ بصرہ کا شہر بالخصوص قواعد گرائمر کے سلسلے میں مشہور ہوا۔ نئے شعراء کی حوصلہ افزائی اور قدردانی کی جاتی تھی۔ علماء و فقہا کے وظائف مقررتھے۔


مسجد نبوی کی تعمیر

مسجد نبوی کی تعمیر ولید کا سنہری کارنامہ ہے۔ ولید نے عمر بن عبدالعزیز کو مسجد نبوی کی تعمیر کاحکم دیا۔ چنانچہ اس کی نگرانی میں جب کہ وہ عامل مدینہ تھے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ فن تعمیرات کے نقطہ نظر سے یہ اس دور کا عظیم کارنامہ ہے عمر بن عبدالعزیز نے اردگرد کی زمین خرید کر اسے وسعت دی ۔ باہر کے ملکوں سے کاریگر بلوائے گئے۔ شاہ روم نے ایک لاکھ مشقال سونا اور پچی کاری کا کام کرنے والے کاریگر فراہم کیے۔ پوری مسجد پتھر سے بنوائی گئی اور اس کی دیواروں پر طلائی مینا کاری کی گئی اور ایک فوارہ بھی بنایا گیا مسجد کی بنیادیں صحابہ کرام کے بیٹوں سے ہاتھ لگوا کر اٹھائی گئیں۔ اس کی تعمیر 3 سال صرف ہوئے۔ اس کے صحن میں 20 ہزار آدمی اکھٹے بیٹھ سکتے تھے۔ اس مسجد کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور دور دور سے سیاح دیکھنے کے آئے۔ جب تعمیر کا کام پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تو ولید 91ھ میں خود اسے دیکھنے کے لیے آیا اور اس نے اسے بہت پسند کیا۔


جامع مسجد دمشق

امیہ مسجد دمشق

دمشق کی جامع مسجد حسن جمال کا ایک مرقع تھی۔ اس کی تعمیر پر بھی کاریگر ہندوستان ، ایران اور افریقہ سے لائے گئے ۔ 8 سال کے عرصہ میں اس کی تکمیل ہوئی اور 12 ہزار مزدوروں نے اس پر کام کیا۔ مختلف رنگوں کے پتھر کے استعمال کے علاوہ سونے اور چاندی کا بھی بہت زیادہ استعمال ہوا۔ 18 جہازوں پرسونا چاندی لاد کر جزیرہ قبرص سے دمشق لایا گیا۔ اس کی تزئین و آرائش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 56 لاکھ اشرفیاں اس پر لاگت ہوئی۔ بعض مورخین کے اقوال کے مطابق ملک شام کا سات برس کا خراج اس پر صرف ہوا۔ اس کی چھتوں اور دیواروں پرطلائی مینا کاری اور طرح طرح کے نقش و نگار سے کام لے کر اسے دلکش بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ چھت کے ساتھ چھ سو مرصع قندیلیں طلائی زنجیروں کے ساتھ لٹکائی گئیں۔ وسیع اتنی تھی کہ 20 ہزار آدمی بیک وقت اس میں بیٹھ سکتے تھے۔ اپنے حسن و جمال کی وجہ سے یہ مسجد زیارت گاہ خواص و عوام تھی۔ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے تھے۔ اک بار عمر بن عبدالعزیز نے اپنے زمانہ میں جب اس کے سونے چاندی اور دیگر اشیا کو اتروا کر بیت المال میں داخل کرنے کا ارادہ کیا تو اتفاقاً قیصر روم اسے دیکھنے کے لیے آنکلا۔ دس ہمرایوں کے ساتھ مسجد کو بھی دیکھنے گیا اس پر اس کی ساخت اور تعمیراتی حسن کا اس قدر اثر ہوا کہ رنگ فق ہو گیا اور اپنے ہمرایوں سے یونانی زبان میں کہا کہ ہمارا تو خیال تھا کہ عربوں کی اقامت شام میں چند روزہ ہے لیکن یہاں تو انہوں نے اپنے استقلال کے سامان جمع کر رکھے ہیں۔ خلیفہ کو اپنے آدمیوں نے جو وہاں موجود تھے اس گفتگو کے مطالب سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ مسجد تو کفار کو غیظ دلاتی ہے لہذا اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ اس واقعہ ہی سے جامعہ مسجد دمشق کی لافانی حیثیت واضح ہو جاتی ہے۔


دیگر تعمیراتی کام

علاوہ ازیں نبی کریم کے روضہ مبارک کے چاروں طرف دوہری مضبوط دیوار کھڑی کی گئی۔ مملکت کے دیگر حصوں میں نئی مساجد کی تعمیر کی گئی اور پرانی کی مرمت کا کام کیا گیا۔ ولید نے تعمیرات پر بہت فراخدلی سے روپیہ صرف کیا۔


رفاہ عامہ

مسافروں کے آرام کے لیے سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کی گئی ۔ ان کے کناروں پر سنگ میل نصب کرائے ۔ سرائیں اور کنوئیں کھدوائے تاکہ آنے جانے میں پیش آنے والی دقتین کم ہوں۔ ملکی پیداوار بڑھانے کے لیے نہریں کھدوائی گئیں۔ مریضوں کے علاج کے لیے سرکاری ہسپتال تعمیر کیے گئے جہاں مریضوں کو مفت دوائیں دی جاتی تھیں۔ سرکاری طعام خانے کھولے گئے جہاں ناکارہ ، بیکار اور مسفار کھانا کھا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ نادار لوگوں کی امداد کے لیے وضائف مقرر کیے گئے۔ ملک سے گداگری کا خاتمہ کیا مختصر یہ کہ لوگوں کو ہر طرح کی رعائتیں اور آسائشیں فراہم کرنے کے پوری پوری کوشش کی گئی۔


بحری بیڑہ کی تنظیم

ولید کے زمانہ میں فوجی نظام کو درست کرنے کے لیے خصوصی توجہ دی گئی ۔ اس ضمن میں بحری بیڑہ کی توسیع بھی ولید کا بہت بڑآ کارنانہ ہے بحری جنگوں میں کامیاب بحری فوج کی تنظیم کی بنا پر تھی۔ اس لیے نئے جہاز بنانے اور پرانے کی مرمت کے لیے ملک میں کارخانے تعمیر کئے گئے۔ سب سے بڑا کارخانہ ٹیونس میں تھا۔ بحیرہ روم کی جنگوں میں کامیابی کا بہت بڑا ہاتھ بحری بیڑہ کی مضبوطی تھا۔

مجموعی جائزہ

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ کہنا درست ہے کہ ولید اول کا دور بنو امیہ کا شاندار ترین اور سنہری زمانہ تھا۔ فتوحات کے میدان میں کامیابیاں ہی کیا کم تھیں لیکن اس کے علاوہ علم و ادب تعمیرات اور رفاہ عامہ کے میدان میں ولید کے زمانہ میں شاندار کارہائے نمایاں انجام دئیے گئے۔ جہاں قیتبہ بن مسلم ۔ محمد بن قاسم ۔ موسٰی بن نصیر ، طارق بن زیاد اور مسلمہ بن عبدالملک کی کامرانیاں اس دور کو ایک خاص عظمت اور شان بخشتی ہیں۔ وہاں اس دور میں ہونے والی دیگر تعمیراتی خصوصیات بھی کم اہم نہیں۔ قصر الخلافت ہو یا شاہی محلات ۔ قصر الزہرا ہو یا قرطبہ ، عالیشان یونیورسٹیاں ہوں یا عمومی درسگاہیں اور اپنی خاص صنعت ، کاریگری اور فنی خوبیاں کے لحاظ سے نوادرات زمانہ میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ سب انمٹ نقوش اسلامی عہد کی ایسی یادگاریں ہیں جو ابنائے زمانہ کی دست درازیوں اور امتداد زمانہ کے باجود مٹائے نہ مٹ سکیں۔ اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور درخشندہ دور کی آئینہ دار ہیں۔