حدیث ثقلین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حدیث ثقلین
رسول اللہ نے فرمایا:
إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِكُوا وَلَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ۔
ترجمہ: بے شک میں دو امانتیں تمھارے درمیان میں چھوڑے جارہا ہوں، اگر انھیں قبول کرو تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ 1۔ خدائے عز و جل کی کتاب (قرآن) اور 2۔ میرے اہل بیت اور میری عترت، اے لوگو! سنو! میں تمھیں یہ حقیقت پہنچا چکا کہ تمھیں میرے پاس حوض کے کنارے لوٹا دیا جائے گا اور میں ان دو بھاری اور گران بہا امانتوں کے ساتھ تمھارے برتاؤ کے بارے میں تم سے بازخواست کروں گا اور یہ دو بھاری امانتیں کتاب خدا اور میرے اہل بیت ہیں۔ پس ان سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کرو اور انھیں کچھ سکھانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ وہ تم سے زیادہ عالم و دانا ہیں۔

اصول كافى ج2 ص54 ح3۔


حدیث ثقلین رسول اللہ کی ایک مشہور اور متواتر حدیث ہے جو فرماتے ہیں: "میں تمھارے درمیان میں اللہ کی کتاب (یعنی قرآن) اور عترت یا اہل بیت چھوڑے جا رہا ہوں۔ قرآن اور اہل بیت قیام قیامت تک ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں گے"۔

یہ حدیث تمام مسلمانوں کے ہاں متفق علیہ ہے اور شیعہ اور سنی کتب حدیث میں نقل ہوئی ہے۔

شیعہ اس حدیث کے سہارے لزوم امامت اور ائمہ کی عصمت اور تمام زمانوں میں امامت کے دوام اور تسلسل کا ثبوت دیتے ہیں۔

متن حدیث[ترمیم]

یہ حدیث مختلف روایات میں گوناگوں عبارتوں کے ساتھ وارد ہوئی ہے گوکہ اس کا مضمون ایک ہی ہے۔

اہل تشیع کی بنیادی چار کتابوں میں شامل اصول کافی میں یہ حدیث اس صورت میں وارد ہوئی ہے:

"۔۔۔إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى۔۔۔"۔[1]

ترجمہ: میں تمھارے درمیان میں دو امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: کتاب خدا اور میری عترت جو اہل بیت علیہم السلام اور میرے خاندان والے ہیں۔ اے لوگو! سنو، میں نے تمھیں یہ پیغام پہنچا دیا کہ تمھیں حوض کے کنارے میرے سامنے لایا جائے گا؛ چنانچہ میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دو امانتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؛ یعنی کتاب خدا اور میرے اہل بیت۔


( اس کی سند ضعیف ہے علامہ مجلسی نے "الکافی" کی شرح "مراۃ العقول" میں اسے ضعیف قرار دیا ہے) [2] علامہ مجلسی نے ان الفاظ میں ضعیف کہا ہے " ضعیف علی المشہور" ۔


احمد بن شعیب نسائی نے اپنی کتاب سنن نسائی ـ جو اہل سنت کی صحاح ستہ میں سے ایک ہے ـ میں اس حدیث کو اس صورت میں نقل کرتے ہیں:

"۔۔۔كَأَنِّي قَدْ دُعِيتُ فَأَجَبْتُ، إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الآخَرِ، كِتَابُ اللَّهِ تَعَالَى، وَعِتْرَتِي، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ۔۔۔"
ترجمہ: گویا مجھے خالق یکتا نے بلایا ہے اور میں نے بھی یہ دعوت قبول کرلی ہے (اور میرا وقت وصال آن پہنچا ہے) میں تمھارے درمیان میں دو گراں بہا امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں جن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: کتاب خدا اور میری عترت ـ جو میرے اہل بیت ہی ہیں ـ پس دیکھو کہ ان کے ساتھ کیا رویہ روا رکھتے ہو کیونکہ وہ کبھی جدا جدا نہیں ہوتیں حتی کہ حوض کے کنارے مجھ سے آ ملیں۔[3]

حدیث کے مآخذ اور سند[ترمیم]

یہ حدیث ان روایات میں سے ہے جو شیعہ اور اہل سنت کے علما کے نزدیک مقبول ہے اور سند کے لحاظ سے اس کے صدور میں پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔[4]

سنی مآخذ[ترمیم]

کتاب حدیث الثقلین ومقامات اہل البیت کتاب حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت[5] کے مطابق اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے 25 افراد نے یہ حدیث نقل کی ہے۔ ان میں سے بعض صحابیوں کے نام کچھ یوں ہیں:

  1. زید بن ارقم یہ حدیث نسائی کی سنن الکبری،[6] طبرانی کی المعجم الکبیر،[7] ترمذي کی سنن،[8] حاکم نیشابوری کی مستندرک علی الصحیحین،[9] احمد بن حنبل کی مسند [10] اور دیگر کتب میں چھ واسطوں سے، زید بن ارقم کے حوالے سے نقل ہوئی ہے۔
  2. زید بن ثابت سے مسند احمد[11] اور طبرانی کی المعجم الکبیر میں۔[12]
  3. جابر بن عبدالله سے سنن (الجامع الصحيح) ترمذی،[13] اور طبرانی کی المعجم الکبیر[14] اور المعجم الاوسط’[15] میں۔
  4. حذیفہ بن اسید سے طبرانی کی المعجم الکبیر میں۔[16]
  5. ابو سعید خدری سے مسند احمد میں چار مقامات پر[17] اور العقیلی کی ضعفاء الکبیر[18] میں۔
  6. علی بن ابی طالب کے حوالے سے دو واسطوں سے البحر الزخار (یا مسند البزاز[19] اور متقی ہندی کی کنز العمال[20] میں۔
  7. ابوذر غفاری سے دارقطنی کی المؤتلف والمختلف[21] میں۔
  8. ابوہریرہ سے کشف الاستار عن زوائد البزار[22] میں۔
  9. عبد اللہ بن حنطب سے ابن اثیر کی اسد الغابہ[23] میں۔
  10. جبیر بن مطعم سے ظلال الجنہ[24] میں۔
  11. بعض صحابہ اور انصار۔ منجملہ: خزیمہ بن ثابت، سہل بن سعد، عدی بن حاتم، عقبہ بن عامر، ابو ایوب انصاری، ابو سعید الخدری، ابو شریح الخزاعی، ابو قدامہ انصاری، ابو لیلی، ابوالہیثم بن التیہان اور بعض قریشی جنھوں نے علی بن ابی طالب کی درخواست پر اٹھ کر اس حدیث کو نقل کیا۔ یہ حدیث متعدد کتب میں نقل ہوئی ہے۔[25][26][27]

کتاب غایة المرام و حجة الخصام جناب بحرانی نے یہ حدیث 39 واسطوں سے کتب اہل سنت سے نقل کی ہے۔

مذکورہ کتاب کے مطابق یہ حدیث اہل سنت کی مشہور اور معتبر کتب ـ مسند احمد، صحیح مسلم، مناقب ابن المغازلی، سنن ترمذی"، ثعلبی کی کتاب "العمدہ" "مسند ابی یعلی"، طبرانی کی المعجم الاوسط ابن البطریق کی العمدہ، قندوزی کی کتاب ینابیع المودہ، ابن المعازلی کی کتباب الطرائف حموینی جوینی کی فرائد السمطين في سيرة المرتضي والبتول والسبطين اور ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ ـ میں نقل ہوئی ہے۔[28]

شیعہ مآخذ[ترمیم]

غایة المرام و حجة الخصام کے مطابق شیعہ مآخذ میں منقولہ 82 احادیث "حدیث ثقلین کے مضمون و مفہوم کی حامل ہیں جو کلینی کی الکافی، شیخ صدوق کی کمال الدین، ان ہی کی الامالی اور عیون اخبار الرضا، شیخ مفید کی الامالی، شیخ طوسی کی الامالی، نعمانی کی الغیبۃ نعمانی، محمد بن حسن صفار کی بصائر الدرجات اور متعدد دیگر علما کی کتب میں نقل ہوئی ہیں۔[29]

یک موضوعی کاوشیں[ترمیم]

علمائے شیعہ نے اپنی کتب اور مکتوبات میں حدیث ثقلین نقل کرنے کے علاوہ اس موضوع پر مستقل کتب بھی تالیف کی ہیں جن میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

  • حدیث الثقلین مؤلف: قوام الدین محمد وشنوی قمی؛ (زبان: عربی)؛
  • سعادة الدارین فی شرح حدیث الثقلین مؤلف: عبد العزیز دہلوی (زبان: فارسی)؛
  • حدیث الثقلین مؤلف: نجم الدین عسکری (زبان: عربی)؛
  • حديث الثقلين تواتره وفقهه مؤلف: سید علی میلانی (زبان: عربی)؛
  • حدیث الثقلین و مقامات اهل البیت مؤلف: احمد الماحوزی، (زبان: عربی) وغیرہ ۔

[30]



کب اور کہاں؟[ترمیم]

پیغمبر اسلام نے حدیث ثقلین کب اور کہاں بیان کی ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ابن حجر ہیتمی کہتے ہیں:[31] رسول اکرم نے یہ حدیث فتح مکہ سے واپسی کے وقت طائف کے راستے میں بیان فرمائی ہے؛ جبکہ دوسروں نے کہا ہے:

  • ترمذی کے مطابق پیغمبر اسلام نے روز عرفہ اونٹ کی پیٹ پر بیٹھ کر یہ حدیث بیان فرمائی؛[32] جبکہ امین الاسلام طبرسی کا کہنا ہے کہ آپ نے یہ حدیث حجۃ الوداع[33] کے موقع پر بیان کی ہے۔
  • احمد بن حنبل اور مسلم بن حجاج نیشابوری کا کہنا ہے کہ رسول اکرم نے اس حدیث کو (تالاب خم کے کنارے، حجاج کے منتشر ہونے سے پہلے بیان فرمایا ہے۔۔۔[34][35] اور حدیث غدیر اس کے تسلسل میں بیان ہوئی ہے۔[36][37][38]
  • عیاشی کا کہنا ہے کہ آپ نے مذکورہ حدیث جمعہ کے روز حدیث غدیر کے ساتھ ہی بیان فرمائی۔[39]
  • صفار قمی نے لکھا ہے کہ رسول اللہ نے ایام تشریق (اور قیام مِنٰی) کے دوران میں مسجد خَیف میں نماز جماعت کے موقع پر یہ حدیث بیان کی۔[40]
  • شیخ صدوق اور جوینی خراسانی کا کہنا ہے کہ آپ نے یہ حدیث منبر کے اوپر سے بیان فرمائی۔۔[41][42]
  • عیاشی نے دوسری روایت میں نیز طبرسی نے کہا ہے کہ آپ نے یہ حدیث مسلمانوں سے اپنے آخری خطبے میں بیان فرمائی۔۔[43][44]
  • دیلمی کی روایت کے مطابق آپ نے اس حدیث کو اپنی آخری نماز جماعت کے بعد لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے بیان فرمایا۔[45]
  • ہیتمی کا کہنا ہے کہ رسول اللہ نے بیماری کے بستر پر اس حدیث کو اس وقت بیان کیا جب اصحاب آپ کی بالین پر حاضر تھے۔[46]

ان روایات کے متن میں غور کرکے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض روایات کا تعلق ایک ہی واقعے سے ہے لیکن تمام کا تعلق ایک واقعے سے قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ان سے صراحت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول خدا نے اس حدیث کو مختلف مواقع اور مختلف مقامات پر متعدد بار یہ حدیث بیان فرمائی ہے؛ اور بطور خاص اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں ان دو الہی امانتوں (یعنی قرآن اور اہل بیت) کو خاص طور پر توجہ دی ہے۔۔[46][47]۔[48]

مجموعہ حدیث میں سب سے بڑا دھوکا حدیث ثقلین ہے۔

اس حدیث ثقلین کا تعلق زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ہے، وہ ہجرت سے 10 سال پہلے مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور 67 ہجری میں کوفہ میں وفات پائی، آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تقریباً 7 غزوات میں شرکت کی۔  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً 21 سال تھی، آپ کے آبا و اجداد کا گھر وہ مقام تھا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں پہلی نماز ادا کی۔

زید بن ارقم نے تقریباً 68 احادیث روایت کی ہیں۔

       زید بن ارقم نے تقریباً 9 سے 11 سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزارے۔

اہل بیت سے دل میں بغض رکھنے والے منافقین کو حدیث ِ ثقلین کے صحیح السند ہونے کے باوجود ، یہ مسئلہ درپیش رہتا ہے کہ اگر اہل بیت کے قرآن سے کبھی جدا نہ ہونے کو لوگوں کے سامنے بیان کیا جائے تو ابوبکر و عمر کی خلافت کی کوئی دلیل نہیں رہ جاتی کیونکہ اگر اہل بیت کبھی قرآن سے جدا نہیں ہو سکتے تو صحابہ پر واجب تھا کہ وہ اہل بیت کی بیعت کرکے خود کی ہدایت کرتے، ابوبکر و عمر کے بارے میں ایسی کوئی حدیث بھی موجود نہیں جن سے ان کو عالم اور اہل بیت سے زیادہ دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والا سمجھا جاسکے، دوسری طرف حدیث ثقلین میں نہ صرف اہل بیت کو قرآن کا ساتھ نہ چھوڑنے والا قرار دیا گیا، یہ بھی فرمادیا کہ قرآن بھی ان سے کبھی جدا نہیں ہوگا گویا ان کے قرآن کے خلاف کوئی اقدام ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ ابوبکر و عمر کا بنت رسول ﷺ کے فدک سے متعلق موقف کے خلاف بات کرنا بھی گویا قرآن سے متصادم ہوجاتا ہے ۔

سنت یا عترت؟[ترمیم]

اہل سنت کے بعض مصادر حدیث میں حدیث ثقلین میں "عترتی" کی بجائے لفظ "سنتی" بیان ہوا ہے[49] تاہم اس طرح کی حدیثیں بہت شاذ و نادر ہیں اور اہل سنت کے علما نے بھی ان کو لائق اعتنا نہیں سمجھا ہے؛ کیونکہ یہ حدیث اس عبارت کے ساتھ مصادر اولیہ میں نقل نہیں ہوئی ہے اور اہل سنت کے متکلمین نے مذاہب کے درمیان میں کلامی تنازعے کے حوالے سے اس کو توجہ نہیں دی ہے۔ اور پھر اس عبارت کے ساتھ منقولہ چار واسطے ضعیف اور ناقابل اعتناء اور ان کی سند میں آنے والے افراد اہل سنت کے علمائے رجال کے نزدیک، ضعیف، جھوٹے اور ناقابل اعتماد ہیں۔[50]

عترت کا تعارف[ترمیم]

حدیث کی عبارت میں لفظ "اہل بیت" "عترت" کی تشریح کے عنوان سے آیا ہے لیکن بعض روایات میں صرف لفظ "عترت" آیا ہے۔۔۔۔[37][51] اور بعض روایات میں صرف لفظ "اہل بیت"۔[52][53] آیا ہے اور بعض عبارتوں میں اہل بیت کی سفارش دہرائی گئی ہے۔[54][55][56][57]

حدیث ثقلین کے سلسلے میں بعض شیعہ شیعہ روایات میں لفظ اہل بیت کی وضاحت کرتے ہوئے ائمۂ اثنا عشر کو مصداق اہل بیتقرار دیا گیا ہے۔۔۔[58][59][60]

حدیث ثقلین کی اہمیت و دلالت[ترمیم]

علمائے شیعہ نے حدیث ثقلین کو اپنی بہت سی کتب میں نقل کیا ہے اور اس سے استفادہ کرتے ہوئے شیعہ عقائد کی تقویت کا اہتمام کیا ہے۔ میر حامد حسین موسوی (ہندی متوفٰی 1306ہجری) نے اپنی مشہور زمانہ کاوش عبقات الانوار میں ایک جامع فصل کو اس حدیث اور اس کی نقل کے واسطوں کے لیے مختص کررکھی ہے جو پہلے جلد سے تیسری جلد تک کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اہل سنت کے مآخذ و مصادر سے استناد کرتے ہوئے اس حدیث کی اہمیت بیان کی ہے۔ انھوں نے امامت کی بحث میں حدیث ثقلین کو دوسری احادیث پر مقدم رکھا ہے۔

اس حدیث سے چند اہم نکات ثابت کیے جا سکتے ہیں جو درحقیقت شیعہ اعتقادت میں شمار ہوتے ہیں:

اہل بیت کی پیروی کا لازم ہونا[ترمیم]

اس حدیث میں اہل بیت کو قرآن کے برابر اور عِدل و معادل قرار دیا گیا ہے چنانچہ جس طرح کہ مسلمانوں پر قرآن کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے، اہل بیت کی پیروی بھی لازمی اور ضروری قرار دی گئی ہے۔

عصمت اہل بیت[ترمیم]

حدیث میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ قرآن اور اہل بیت ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور ان میں سے ایک چھوڑ کر دوسرے کی پیروی کرنا نجات و فلاح و سعالت کی ضمانت فراہم نہیں کرتا۔ چنانچہ اس میں دو نکتے اہل بیت کی عصمت کی دلیل ہیں:

  1. حدیث میں اس بات پر حدیث کی تاکید فرمائی گئی ہے کہ قرآن اور اہل بیت کی پیروی کروگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے؛ اور یہ اس نکتے کا ثبوت ہے جس طرح کہ قرآن میں کوئی خطا نہیں ہے اہل بیت کی تعلیمات میں بھی کسی خطا کا احتمال نہیں دیا جا سکتا۔
  2. حدیث میں اہل بیت کو قرآن کے ہمراہ اور معادل قرار دیا گیا ہے؛ اور مسلمانوں کا اجماع عام ہے کہ قرآن میں کسی اشتباہ کی گنجایش نہیں ہے چنانچہ ثقل ثانی (یعنیاہل بیت) میں بھی کسی قسم کے اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے۔

بعض سنی محققین نے بھی اس حقیقت کی تصدیق کی ہے کہ حدیث ثقلین اہل بیت کی پاکیزگی اور طہارت پر دلالت کرتی ہے۔۔۔[61][62][63]

سلسلہ امامت کا دوام اور ضرورت[ترمیم]

حدیث کے متن میں بعض نکات پائے جاتے ہیں جن کی رو سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ سلسلۂ امامت کا جاری اور دائم ہونا ضروری ہے:

  • پہلا نکتہ اہل بیت کی قرآن کے ساتھ معیت و ہمراہی ہے اور امر مسلم ہے کہ قرآن اسلام میں دائمی اور ابدی منبع ہدایت ہے اور قرآن و اہل بیت کو روز قیامت تک ساتھ رہنا ہے، چنانچہ قیامت تک اہل بیت کا ایک فرد قرآن کی معیت میں ہوگا جس کی طرف رجوع کیا جاتا رہے گا۔
  • دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ دونوں حوض کوثر تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔
  • تیسرا نکتہ یہ کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ ان دو بھاری ورثوں کو سہارا قرار دو گے تو ابد تک گمراہی سے محفوظ رہو گے۔

علمائے اہل سنت میں سے امام زرقانی المالکی اپنی کتاب شرح المواہب میں،[64] علامہ سمہودی سے نقل کرتے ہیں کہ "اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عترت میں سے کوئی ایک فرد ـ جو تمسک اور رجوع کا اہل ہوگا ـ قیام قیامت تک موجود ہوگا، تا کہ اس حدیث میں موجودہ ترغیب اس پر دلالت کرے، جیسا کہ کتاب (یعنی قرآن کا حال بھی یہی ہے؛ چنانچہ یہ (یعنی عترت و اہل بیت) زمین والوں کی امان ہیں اور جب یہ چلے جائیں گے زمین والوں کو بھی جانا پڑے گا۔[65]

اہل بیت کی دینی مرجعیت[ترمیم]

چونکہ قرآن تمام مسلمانوں کے عقائد اور عملی احکام کا اصل اور بنیادی ماخذ ہے اور یہ حدیث بھی تاکید کرتی ہے کہ اہل بیت قرآن کے دائمی اور جداناپزیر ہم نشین ہیں لہذا بآسانی نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ اہل بیت بھی تمام اسلامی علوم میں خطا ناپزیر علمی مرجع و منبع ہیں۔

سید عبد الحسین شرف الدین نے اپنی کتاب المراجعات میں شیخ سلیم بُشری کے ساتھ بحث و مناظرہ کرتے ہوئے اہل بیت کی علمی مرجعیت کو بخوبی ثابت کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ ان کا اتباع واجب و لازم ہے۔[66]

حدیث ثقلین اور اتحاد مسلمین[ترمیم]

جیسا کہ اوپر کہا گیا حدیث ثقلین شیعہ اور سنی کے ہاں متفق علیہ ہے۔ آج تک اس حدیث کے موضوع پر ایسے مذاکرے اور مباحثے ہوئے ہیں جو اتحاد مسلمین اور تقریب مذاہب اسلامیہ کا باعث ہوئے ہیں۔ المراجعات میں سید عبد الحسین شرف الدین اور اہل سنت کے عالم دین شیخ سلیم بُشری کے درمیان میں ہونے والی گفتگو اس اتحاد اور مفاہمت کا نمونہ ہے۔ اس حدیث شریف کی طرف آیت اللہ بروجردی کی خاص توجہ بھی درحقیقت اسی سلسلے کا تسلسل تھی جس کا آغاز شرف الدین نے کیا تھا۔[67]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. کلینی، الکافی، ج1، ص294۔
  2. مجلسی، مراۃ العقول ، جلد 3 صفحہ 275
  3. نسائی، السنن الكبری، ح8148۔
  4. حدیث ثقلین کی سندحدیث ثقلین اہل سنت کی کتابوں میں[مردہ ربط]اھل بیت کی محبت کا تقاضا: حدیث ثقلینحدیث ثقلین پر ایک نظر-
  5. تالیف احمد ماحوزی۔
  6. نسائی، السنن الکبری، ح8148۔
  7. طبرانی، المعجم الکبیر، ج5، ص186۔
  8. ترمذی، سنن الترمذی، ح3876۔
  9. حاکم نیشابوری، المستدرک، ج3، ص110۔
  10. احمد بن‌حنبل، مسند احمد، ج4، ص371۔
  11. احمد بن‌حنبل، مسند احمد، ج5، صص183 و 189۔
  12. طبرانی، المعجم الکبیر، ج5، ص166۔
  13. ترمذی، صحیح ترمذی، ج5، ص328۔
  14. طبرانی، المعجم الکبیر، ج3، ص66۔
  15. طبرانی، المعجم الاوسط’، ج5، ص89۔
  16. طبرانی، المعجم الکبیر، ج3، ص180۔
  17. احمد بن‌حنبل، مسند احمد، ج3، صص13، 17، 26 و 59۔
  18. العقیلی، ضعفاء الکبیر، ج4، ص362۔
  19. البزاز، البحر الزخار، ص88، ح864۔
  20. متقی هندی، کنز العمال، ج14، ص77، ح37981۔
  21. دارقطنی، المؤتلف و المختلف، ج2، ص1046۔
  22. الهیثمی، کشف الاستار، ج3، ص223، ح2617۔
  23. ابن‌اثیر، اسد الغابة، ج3، ص219، ش2907۔
  24. البانی، ظلال الجنة، ح1465۔
  25. شمس الدین السخاوی "استجلاب ارتقا الغرف"، ص23۔
  26. قندوزی حنفی، ینابیع الموده، ج1، صص106-107۔
  27. ابن حجر عسقلانی، الاصابه، ج7، صص274-245۔
  28. بحرانی، غایة المرام و حجة الخصام، ج2، ص304-320۔
  29. بحرانی، غایة المرام و حجة الخصام، ج2، ص320-367۔
  30. عالمی اہل بیت اسمبلی کی نظامت عامۂ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا درایۃ الثقلین سمارٹ سافٹ ویئر، جس میں حدیث ثقلین پر تحقیق کی گئی ہے۔
  31. الهیتمی، الصواعق المحرقة، ص150۔
  32. ترمذی، سنن الترمذی، ج5، ص662، ح3786۔
  33. احمد بن‌علی طَبْرِسی، الاحتجاج، ج1، ص391۔
  34. احمد ابن‌حنبل، مسند احمد، ج4، ص371۔
  35. نیشابوری (قشیری)، صحیح مسلم، ج2، ص1873۔
  36. صدوق، کمال الدین وتمام النعمة، ج1، ص234، ح45 و ص238، ح55۔
  37. ^ ا ب حاکم نیشابوری، المستدرک، ج3، ص109۔
  38. سَمْهودی، جواهر العقدین، ص236۔
  39. عیاشی، کتاب التفسیر، ج1، ص4، ح3۔
  40. صفارقمی، بصائرالدرجات، ص412ـ414۔
  41. صدوق، الامالی، ص62۔
  42. جوینی خراسانی، فرائد السمطین، ج2، ص268۔
  43. عیاشی، کتاب التفسیر، ج1، ص5، ح9۔
  44. احمد بن‌علی طبرسی، الاحتجاج، ج1، ص216۔
  45. دیلمی، ارشاد القلوب، ج2، ص340
  46. ^ ا ب هیتمی، الصواعق المحرقه، ص150۔
  47. مفید، الارشاد، ج1، ص180۔
  48. شرف الدین، المراجعات، ص74۔
  49. رجوع کریں: متقی هندی، کنز العمال، ج1، ص187، ح948۔
  50. حدیث ثقلین میں "عترتی" صحیح ہے یا "سنتی" -
  51. رجوع کریں: صدوق، عیون اخبار الرضا، ج2، ص62، ح259۔
  52. رجوع کریں: جوینی خراسانی، فرائد السمطین، ج2، ص268۔
  53. مجلسی، بحار الانوار، ج23، ص131، ح64۔
  54. رجوع کریں: احمد ابن‌حنبل، مسند احمد، ج4، ص367۔
  55. دارمی، سنن الدارمی، ص828۔
  56. نیسابوری، صحیح مسلم، ج2، ص1873، ح36۔
  57. جوینی خراسانی، فرائد السمطین، ج2، ص250، 268۔
  58. ر۔ ک: صدوق، کمال الدین، ج1، ص278، ح25۔
  59. مجلسی، بحار الانوار، ج36، ص317۔
  60. [1]اہل بیت کتاب وسنت کی روشنی میں ۔۔ مفہوم اہل البیت ۔
  61. مناوی، فیض القدیر، ج3، ص18ـ19۔
  62. زرقانی، شرح المواهب اللدنیة، ج8، ص2۔
  63. سندی، دراسات اللبیب، ص233، بحوالۂ حسینی میلانی، نفحات الأزهار، ج2، ص266ـ269۔
  64. ج8، ص7
  65. به نقل: امینی، الغدیر، ج3، ص118۔
  66. رجوع کریں:شرف الدین، المراجعات، ص71ـ76۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ "مذہب اہل بیت" کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔
  67. رجوع کریں: واعظ زاده خراسانی، حدیث الثقلین، ص39ـ40؛ وہی طبع 1370 ہجری شمسی، ص222ـ223۔

مآخذ[ترمیم]

  • ابن‌اثیر، علی بن‌ابی‌الکرم، اسد الغابة فی معرفة الصحابة، بیروت: دار الکتب العلمیة، 1415ق۔
  • احمد بن‌حنبل، مسند الامام احمد بن‌حنبل، قاهره [ 1313، چاپ افست بیروت ] بی‌تا۔
  • امینی (علامه)، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، قم: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، 1416ق۔
  • البانی، ناصرالدین، ظلال الجنة، حدیث 1465.
  • بحرانی، سید هاشم بن سلیمان، غایة المرام و حجة الخصام، ج2 ص320-367
  • البزاز، احمد بن عمرو، البحر الزخار(معروف به مسند بزاز)۔ مکتبه العلوم و الحکم۔
  • ترمذی، محمدبن عیسی، سنن الترمذی، استانبول 1401/1981؛
  • جوینی خراسانی، ابراهیم بن محمد، فرائدالسمطین فی فضائل المرتضی و البتول و السبطین و الائمة من ذریتهم علیهم السلام، چاپ محمدباقر محمودی، بیروت 1398ـ1400/ 1978ـ1980؛
  • حاکم نیشابوری، محمدبن عبد اللّه، المستدرک علی الصحیحین، بیروت: دارالمعرفه، ] بی‌تا۔ [؛
  • حسینی میلانی، سیدعلی، نفحات الأزهار فی خلاصة عبقات الأنوار، تهران 1405؛
  • دارقطنی، علی بن عمر، المؤتلف و المختلف، دار المغرب الاسلامی، بیروت۔
  • دارمی، عبد اللّه بن عبد الرحمان، سنن الدارمی، استانبول 1401/ 1981؛
  • دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب، قم 1368ش؛
  • الزرقانی، محمد بن عبد الباقی، شرح المواهب اللدنیه، دار الکتب العلمیه، بیروت۔
  • سخاوی، شمس الدین، استجلاب ارتقا الغرف، قم، بنیاد معارف اسلامی، 1421ق۔
  • سمهودی، علی بن عبد اللّه، جواهرالعقدین فی فضل الشرفین، چاپ مصطفی عبد القادر عطا، بیروت 1415/1995؛
  • شرف الدین، سید عبد الحسین، المراجعات، چاپ حسین راضی، بیروت 1402/1982؛
  • صدوق، محمد بن علی، الامالی، بیروت، 1400.
  • صدوق، محمد بن علی، عیون اخبارالرضا، قم: چاپ مهدی لاجوردی، 1363ش۔
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمة، قم: چاپ علی اکبر غفاری، 1363ش۔
  • صفار قمی، محمدبن حسن، بصائرالدرجات فی فضائل آل محمد «ص»، چاپ محسن کوچه باغی تبریزی، قم 1404؛
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، چاپ حمدی عبد المجید سلفی، چاپ افست بیروت 1404.
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الاوسط’، دار الحرمین، 1415 ه‍۔ ش۔
  • طبرسی، احمدبن علی، الاحتجاج، چاپ محمدباقر موسوی خرسان، نجف 1386/1966؛
  • عسقلانی، ابن حجر، الاصابه، ج7، ص274-245 نیز به آن اشاره شده است
  • العقیلی، محمد بن عمرو، الضعفاء الکبیر۔ دار الکتب العلمیه، بیروت، لبنان، 1418 ه‍۔ ق۔
  • عیاشی، محمدبن مسعود، کتاب التفسیر، چاپ هاشم رسولی محلاتی، قم 1380ـ1381، چاپ افست تهران ] بی‌تا۔ [؛
  • قندوزی، سلیمان بن ابراهیم، ینابیع الموَدَّةِ لِذَوی القُربی، چاپ علی جمال اشرف حسینی، قم 1416؛
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، دار الکتب الاسلامیه، تهران۔
  • متقی هندی، علی بن حسام الدین، کنزالعمال فی سنن الاقوال و الافعال، چاپ بکری حیانی و صفوة السقّا، بیروت 1409/1989؛
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار۔ موسسه الوفاء، بیروت۔
  • معین، محمد بن محمد، دراسات اللبیب، بجنه احیاء الادب السندی، کراچی، 1957 م۔
  • مفید، محمدبن محمد، الارشاد فی معرفة حجج اللّه علی العباد، قم 1413؛
  • مناوی، محمد عبد الرووف بن تاج العارفین، فیض القدیر: شرح الجامع الصغیر، ] بیروت [ 1391/1972؛
  • نسائی، أحمد بن شعيب بن على بن بحر النسائي، السنن الکبری، دار الکتب العلمیه، بیروت، 1411 ه‍۔ ق۔
  • النیسابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، استانبول 1401/1981؛
  • واعظ زاده خراسانی، محمد، حدیث الثقلین، در قوام الدین محمد وشنوی، حدیث الثقلین، ] تهران [ 1416/1995؛
  • الهیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقة فی الرد علی اهل البدع و الزندقة، چاپ عبد الوهاب عبد اللطیف، قاهره 1385/1965؛
  • الهیثمی، علی بن ابی بکر، کشف الاستار عن زوائد البزار، موسسه الرسالة، بیروت، 1979 م۔
  • حدیث الثقلین و مقامات اهل البیت، ط مدینة العلم بستانی (14 بهمن، 1385هجری شمسی۔

بیرونی روابط[ترمیم]

حدیث ثقلین جعلی اور من گھڑت ہے۔ الامام الحدیث ڈاکٹر ابو حیان عادل سعید https://imamalhadith.blogspot.com/2020/08/hadith-e-thaqalayn_2.html?m=1