سادات امروہہ
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
اس مضمون میں ویکیپیڈیا کے معیار کے مطابق صفائی کی ضرورت ہے، (جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) |
[سادات امروہہ کا تاریخی ،تہذیبی اورعلمی پس منظر] سادات امر وہہ میں پہلے شخص جو سرزمین امروہہ میں وارد ہو ئے وہ سید شاہ نصیر الد ین تھے جو عابد ی خاندان کے مو رث ہو ئے۔ ان کی حیات ہی میں چو دھویں صدی عیسوی اور ساتویں صدی ہجر ی کے آغا ز میں سید حسین شر ف الد ین شا ولا یت امر وہہ مور ث خاندان نقو ی وار دا امروہہ ہو ئے۔ ان حضر ات کا تعلق اس زمر ہ صفیا ئے کرام سے تھا جو ممالک اسلامیہ خصو صاًایران پر مسلسل منگولو ں کے حملو ں کی وجہ سے واردہند ستان ہو ئے اور جن کی مساعی جمیلہ کی بدولت ہند ہ ستان کی سر زمین پراسلا م پھیلا اور اس طر ح منگولوں کا یہ فتنہ عظیم در پر دہ اسلا م کے لیے مفید ثا بت ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ سید حُسین شر ف الد ین شاہ ولا یت امروہہ کی آمد کے وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی حکو مت کے قیام کو تقر یباًسو سال کا عر صہ گذر چکا تھا اور سلطان غیاث الدین بلبن کے زمانہ میں امرہہ ایک ولایت یعنی ضلع بھی قرار پا چکا تھا مگر دہلی کی حکو مت کو اس نو اح میں پو را تسلّط حاصل نہ ہو سکا جس کی ایک وجہ تویہ تھی کہ منگولو ں کے مسلسل حملے ہندوستان پر بھی ہو تے رہتے تھے اوردوسری یہ کہ ہندووں کی تگا اور راجپوت قو میں برابر سر کشی اور بغاوت پر آمادہ رہتی تھیں یہ تھے علاقہ روہیلکھنڈ کے حالات جس کو اس وقت کٹھہر کہتے تھے جب سید شر ف الد ین شاہ ولا یت۔ ان کے اعزااور اخلا ف نے امر وہہ کو اپنا مر کز بنا کر تبلیغ اسلام اور استحکام حکو مت کی ذمہ داری سنبھا لی تبلیغ اس و سیع پیما نہ پر کی کہ آ پ شاہ ولا یت کہلائے اور حسب مقا صد العارفین وثمر ات القدوس آ پ کی ولا یت”ازگنگ تاسنگ“تھی۔ یعنی دریائے گنگ سے لے کر ہمالیہ پہاڑ تک جس میں وہ سب علاقہ شامل ہے جس کو روہیلکھنڈ کہتے ہیں۔ شاہ صاحب اور ان کے خلاف کی تبلیغ کی بدولت اس کمشنر ی میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ہندوستان کے دیگر علاقوں سے سب سے زیادہ ہے اور امروہہ کے حلقہ میں آج بھی تمام ہندوستان میں سب سے زیادہ مسلم ووٹوں کا تناسب ہے۔ اسی دور میں تبلیغ دین کے ساتھ ہما رے بزر گو ں نے تسخیر ملک کی خدمت بھی انجام دی۔ انھوں نے اپنی بہادری اور شجا عت سے تما م سر کش گر وہوں کے سر کر کے امن وامان قائم کیا ان اسلامی خد ما ت کی بنا ء پر حسب گزیٹر ضلع مر اد آباد 1911ءء شہنشاہ اکبر کے زمانہ سے بہت پہلے سادات امر وہہ کا شمار ہندہ ستان کے ممتازتر ین خاندانوں میں تھا اور وہ ایک اعلیٰ شہر ت کے ما لک بن چکے تھے۔ معاشرتی اعتبار سے اس دور میں ہمارے اسلاف کی زندگی بہت سادہ تھی اور ان کے مکا نا ت معمولی تھے۔ ان کا سامان خانہ داری چند ضروری اشیائے زندگی پر مخصرتھا۔ ان کا طعام دور مغیلہ کی لذّتوں سے خالی تھا۔ ان کی زبان عر بی اور فا رسی دونوں ں تھیں۔ ان کا ہر شخص عر بی اور فارسی لکھ پڑ ھ سکتا تھا اور متعد د حضرات عر بی اور فارسی کے جید عالم تھے۔ اسی علم و فضل کی وجہ سے قاضی سید امیر علی پسربزر گ سید شر ف الدین شا ہ ولایت قاضی مقر ہو ئے اور یہ عہدہ مو صو ف کی اولاد میں نسلاًبعد نسلاًتا انتزاع سلطنت اسلا می جا ری رہا۔ سید شر ف الد ین شاہ ولایت کی اور ان کے پسر بزرگ سید امیر علی کی شخصیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ابن بطوطہ 1340ءء مطابق 739ئھ میں موصوفین کا امروہہ میں مہمان ہوا۔ جس کا ذکر اس نے انپے سفر نامہ میں ان الفاظ میں کیا ہے ۔
ترجمہ۔ پھر ہم امروہہ پہنچے یہ ایک خوبصورت چھوٹا قصبہ ہے پس اس کے عمال قاضی امیر علی اور شیخ زاویہ ( یعنی شاہ ولایت ) میرے استقبال کو آئے اور ا ن دونوں نے مل کر میری اچھی دعوت کی۔ اس دور میں دین کی ضرورت نے ہمارے اسلاف کو مقامی زبان جانتے کے لیے مجبور کیا اور خاندانی روایت کے مطابق سید شرف الدین جہانگیر شاہ صاحب مقامی استعداد رکھتے تھے۔ اس دور کا ہما را ہر بزرگ سپاہی بھی تھا۔ ایک نئے ملک کے اندر جہاں مسلسل بے امنی تھی وہ ایک جنگجو اور بہادرانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ مختصر یہ کہ اس دور کی ہمارے بزرگوں کی معاشرت عربی زمین پر ایرانی تہذیب سے مرتب ہوئی تھی مقامی ہن دوتہذیب کے اثرات ان کے تمدن اور معاشرت پر معدوم تھے۔ دور مغلیہ:- ابتدائی دور سادات امروہہ کا سب سے شاندار دور مغلیہ حکومت کا زمانہ ہے۔ اس دور میں ہمارے ہر شعبہ یات میں یعنی دنیاوی وجاہت ثقافت اور معاشرت میں غیر معمولی تبدیلیاں ہوئیں۔ اس دور کا آغاز سید محمد میر عدل کی اکبر کے دربار سے وابستگی سے شروع ہوا۔ سید صاحب موصوف ایک جیدعالم تھے۔ اور دہلی سے وابستگی سے پہلے امروہہ کی مسجد جامعہ میں درس دیتے تھے جس کی اہمیت اس سے ظاہر ہے کہ بقول ملا عبد اقادر بد ایونی صاحب منتخب التوریخ اس نے بھی سید صاحب کے سامنے زانوئے ادب طے کیا اور اس کو موصوف کے شاگرد ہونے پر فخر ہے۔ سید صاحب ایک عالم دین ہونے کے علاوہ ایک اعلیٰ مدبر اور لائق جنرل تھے۔ انھوں نے اور ان کے برادر سید مبارک اور ان کے پسر ان اور برادر زادگان نے اکبر کے زمانہ میں ملکی اور جنگی خدمات انجام دیں جلالت حیدری اور شجاعت ہاشمی کے جوہر دکھائے اور بعض اہم مہمات سرکیں۔ راجا مادھو کر بندیلہ کی بغاوت کو فرد کرنے والے خود میر عدل تھے۔ چتوڑ گڑہ کی فتح میں سید ابولمعالیٰ اور سید ابو القاسم پسران میر عدل کا خاصہ حصہ تھا اور فاتح اڑیسہ سید عبد الہادی پسر سید مبارک تھے۔ انھی خدمات کی بدولت تو اس کے بعد سے تا انتزاع سلطنت یہ حالت ہو گئی تھی کہ امروہہ کا سید ہونا اس کے لیے کافی تھا کہ حکومت کی جانب سے ایک اعلیٰ عہدہ حاصل ہو جائے اور انھی مسلسل خدمات کا یہ صلہ تھا کہ سات سو موضعات معافی امروہہ کو اور ملحقہ پرگنوں میں سادات امروہہ کو ملے تھے۔ یوں تو تواریخ میں سادات امروہہ کے مناصب کی تعداد سیکڑوں تک پہنچی ہے مگر سید محمد میر عدل گورنر سندھ سید ابوالفضل گورنر سندھ فاتح سبی سید عبد الوارث گورنر قنوج اور اودھ کے نام خاص طور سے قاْبل ذکر ہیں اسی دور میں سید محمد ا شرف دانشمند جدِ سادات تقوی کی تشریف آوری سے امروہہ کی سید برادری میں ایک اور خاندان کا اضافہ ہوا آپ اپنے اعزاّ اور احباب کے ساتھ ہمایوں کے زمانہ ہیں امروہہ آئے۔ آپ کی اولاد میں بھی علما قاضی اور فوجی عید وار ہوئے۔ سید محمد اشرف دانشمند ایک جید عالم تھے۔ سید محمد رضا پہلے اورنگ زیب کی ذاتی تحفظی فوج کے اعلیٰ افسر اور بعد کو بیجاپور کے فوجدار ہوئے۔ سید محمد فیاض قاضی گجرات ہوئے۔ جناب نجم العلما بھی اسی خانوادے کے ایک روشن چراغ تھے۔ معاشرتی اعتبار سے اس دور میں ہر شعبہ میں تبدیل ہوئی۔ مکانات بنِ تعمیر مغلیہ کے نمونہ بنے لباس بجائے ایرانی اور عربی کے مغلیہ پہناوے میں تبدیل ہوا۔ ہمارے بزرگ بجائے عبا اور قبا کے پائجامہ اور انگرکھے میں ملبوس ہوئے۔ کھانوں میں وہ لطافتیں پیدا ہوئیں جس سے ہم آج بھی محفوظ ہوتے ہیں۔ زبان بجائے عربی کے فارسی قرار پائی۔ سواری کے لیے علاوہ ہاتھی گھوڑے اور بیل گاڑی کے پالکی۔ نالکی اور ہوادار بھی مہیا ہوئے۔ پاندان۔ خاندان اور حقہ بھی عالم وجود میں آئے فنون جنگ میں ترقی ہوئی۔ تلوار نیزے برچھے اور تیر کے علاوہ توپ بندوق اور باروُد بھی استعمال ہونا شروع ہوئے اور سب سے اہم واقعہ اس دور کا یہ ہوا کہ اس دور نے ہماری قومی زبان اُردو کو جنم دیا جو آئندہ ہماری ثقافت کی بنیادی بنی اور غیر منقسم ہند میں انگریزی کے دور جب ایک طبقہ کی طرف سے اردو کو مٹانے کی کوشش ہوئی تو اس کے تحفظ کا مسئلہ ثقافتی دور سے نکل کر سیاسی دائرہ میں داخل ہو گیا۔ ہمارے بزرگوں نے دور مغلیہ میں صرف جنگی خدمات ہی انجام نہیں دیں بلکہ عملی اور ادبی اعتبار سے ان کاحصہ بہت نمایاں تھا۔ انھوں ارود زبان کی غیر معمولی خدمت کی۔ کتنے فخر کی بات ہے کہ اب یہ بات محقق ہو گئی ہے کہ اور اورنگ زیب کے آخری دور میں اُردو زبان کی پہلی مثنوی ” تولد و وفات فاطمہ زہرا“ کا مصنف ہمارا ہی ایک بزرگ سید اسمعیل نبیرہ سید محمد میر عدل تھا۔ مثنوی مذکورہ انجمن ترقی اُردو کراچی نے حال میں طبع کرائی ہے اور اس کا ایک قلمی نسخہ فریر ہال کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ یہ مثنو ی 1693ءء مطابق 1105ءء میں لکھی گئی تھی۔ آخری دورِ مغلیہ شہنشاہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کو زوال شروع ہوا۔ مسلمانوں کا اعلیٰ طبقہ جس سے ہمارے بزرگوں کا تعلق تھا خاص طور س ا س زوال کا شکار ہوا۔ خود غرضی ملکی اور قومی مفاد سے بے پروائی اور تعیش نے مسلمانوں کی حکومت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ اس کی وجہ سے ملک میں بے امنی کا دور دورہ شروع ہوا۔ جس سے مر ہٹوں کو شمالی ہند تک آنے کی جرات ہوئی کہ اس دور انحطاط میں کچھ ہسستیاں ایسی تھیں کہ انھوں نے مرہٹوں کے اس خواب کو کہ وہ تخت دہلی پر بیٹھ کر تمام ہندوستان پر حکومت کریں شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا اور احمد شاہ ابدالی کے شریک کار ہوکر 1761ء ء میں پانی پت کے قیام کو ناممکن بنادیا۔ ہمارے بزرگوں کا اس جنگ میں بھی نمایاں حصہ تھا۔ میراسداللہ خان قاہدِ سادات امروہہ مع اپنے خاندان کے چیدہ افراد کی کثیر فوج کے ساتھ شریک جنگ تھے۔ میر صاحب اٹھارویں صدی عیسوی میں سادات امروہہ کے ممتاز ترین فرد تھے۔ وہ روہیلوں کے دور حکومت میں شریک حکومت تھے اور نواب آصف الدولہ سے ان کے ذاتی مراسم تھے 1772ءء میں جب مرہٹوں نے امروہہ پر حملہ کیا تو سادات امروہہ نے اِن کی قیادت میں اُن کا مقابلہ کیا تھا۔
برطانوی عہد ءء میں علاقہ روہیہلکھنڈ پر انگریزوں کا تسلط ہوا اور انگریزوں کی غلامی کی بدولت ہم میں وہ تمام اچھی قدر یں مضمل ہونی شروع ہوئیں جو ہماری سوسائٹی کی بنیاد ہیں اور جو ہمیں ہماری بزرگوں سے ورثہ میں ملی تھیں۔ حسب گزیڑ ہمارے بزرگوں نے کبھی ا انگریز حکومت کو دل سے قبول نہ کیا تھا چنانچہ 1857ئئمیں جنگ آزادی کے موقع پر انھوں نے انگریز کو ملک بدر کر نے کی کو ششں میں حصہ لیا۔ سید گلزار علی نے جو اس نواح میں جنگ آزادی کے ایک قائد تھے جلاوطنی کے عالم میں بمقام لکھیم پور انتقام کیا اور سید شیر علی خان کو جہنیں بہادر شاہ ظفر نے اپنی جانب سے حاکم امروہہ مقرر کیا تھا عبور دریائے شور کی سزاہوئی اور موصوف کا انتقال جزیر ہ انڈمان میں ہوا۔ 1857ءء کے بعد سے تقریباََپچیسسال تک ہندوستان کے مسلمانوں کی داستان ایک پر دور اور المناک داستان ہے ہندو قوم انگریزوں سے مل کر کے ہر جگہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی تھی اور حکومت کی طرف سے ان کے ساتھ سوتیلی ماں کا برتاؤتھا مسلمانوں کے اعلیٰ طبقہ جس سے ہمارے اسلاف کا تعلق تھا بے حد نقصان پہنچایا۔ یا تو و ہ حاکم تھے اوریا اب غیر ملکی حکومت کی رعایا۔ یا تو حکو مت کے تمام اعلیٰ عہدے ان کے پاس تھے اور یا اب چھوٹی چھوٹی سی ملازمت بھی مسدودتھی۔ تجارت کا ان سے کوئی تعلق نہ تھا وہ تو صاحب سیف قلم تھے جس کے استعمال کے ان کے لیے دروازئے بند تھے نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صرف زمینداری نظام سے منسلک ہو کر رہ گئے جس کو انگریز نے بنایا تھا۔ فیوڈل نظام اور اس سے مرتب شدہ ذہنیت نے ہمیں وہ تمام خرابیاں پیدا کر دی جو کسی قوم کی ترقی میں رکاوٹ ہوتی ہیں۔ تعلیم سے بے توجہی بے کا ر زندگی او ر خانہ نشینی کی وجہ سے روز بر روزتنزل ہوتا گیا۔ عدم انتظام کے سبب جائیدادے بھی نکلنی شروع ہو گئیں انگریزی حکومت کی ابتدا کے وقت ہم نوے فیصد پر گنہ امروہہ کے مالک تھے اور بیسویں صدی کی ابتدا میں ہم صرف تیس فیصد کے مالک رہ گئے تھے۔ خانہ نشینی اور عدم زمانہ شناسی نے ہمارے تنزل کی رفتار کو اور تیز کر دیا اور رفتہ رفتہ ہم وہ تمام خوبیاں کھو بیٹھے جس کے ہمارے بزرگ حامل رہے تھے۔ سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ سرسید علینہ الرحمہ کی تحریک سے بھی شروع میں مستفیدنہ ہواگیا جس کو علی گڑہ کی تھریک کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے سرسید نے یہ تحریک مسلمانوں کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بھنور سے نکالنے کے لیے کی تھی اور تحریک کا منشا مسلمانوں کی تعلیمی سیاسی اقتصادی و معاشرتی ہر قسم کی اصلاح تھا۔ باوجود دوری منزل کے فنون لطیفہ اور اُردو ادب کی خدمت اس دور میں بھی جاری رہی۔ چند ممتاز شعرا پیدا ہوئے جن میں سید مومن صفی اسستاد محشر لکھنوی۔ سید ابو الحسن فرقتی۔ سید حیدر حسین یکنا۔ مولوی سید جواد حسین شمیم۔ سید نبی بخش فلسفی قابل ذکر ہیں۔ فنِ خطاطی میں بھی بعض حضرات نے کمال حاصل کیا۔ اب سے پچاس ساٹھ سال پہلے کثیر تعداد میں محفوطات ہمارے بزرگوں کے لکھے ہوئے ہر خاندان میں موجود جن میں سے اکثر دست برو زمانہ سے معدوم ہو گئے اور کچھ اب بھی باقی ہیں۔ اس سلسلے میں سید ولی حسین گذری۔ سید داد علی اور ان کے پسر سید سجاد علی بگلہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں سید یاد علی نے قرآن اور چالیس مذہبی کتابیں لکھیں جن سے اکثر اعلیٰ سنہری کام سے مزین ہیں۔ سید داد علی و سیدیاد علی کے چند محطوطات سید سبطین احمد کے پاس ہیں۔
یہ تھے ہمارے حالات جب بیسویں صدی کا آغاز ہوا۔ خدا کا شکر ہے۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں ہمارے بزرگوں نے ترقی کی کو شش شروع کی اور چند روشن خیال ہستیوں نے قومی ادارے قائم کیے۔ حاجی سیدمقبول احمد نے بامداد دیگراں خاندان 1902ءء میں امام المدارس کی ابتدا کی اس مدرسے کے لیے حاجی سید مقبول احمد اور سید محمد باقر نے موضع سربراہ اور قائم پور وقف کیے اور مولوی سید مجتبے ٰ حسن عرف چاند کی کوششوں سے ہائی اسکول ہوا۔ جو اب انٹر میڈیٹ کالج ہے مولاناسید نجم الحسن کی تحریک پر نور المدارس قائم ہوا اور مولوی سید اعجاز حسن جن کو گزیٹر مراد آبا د 1911ءء میں قائد سادات امروہہ لکھا گیاہے سید المدارس کے بانی ہوئے۔ ان ہر مدارس سے تعلیم کا بہت چرچاہوا خصوصاً امام المدارسسے ترقی تعلیم انگریزی میں بہت مدد ملی سادات امروہہ میں پہلے گریجویٹ 1898ءء میں سید ممتاز حسن خلف مولوی سید اعجاز حسن ہوئے اور 1911ءء میں پہلے شخص جو اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ گئے وہ ڈاکٹر سید امتیاز خلف ثانی مولوی صاحب موصوف تھے۔ انگریزی تعلیم میں برابرترقی ہو رہی 1927ءء تک گریجویٹس کی تعداد دس تھے جو 1928ءء میں بیس ہو گئی اور 1935ءء میں چالیس ہوئی۔ بروقت تقسیم ملک یہ تعداد ستر ہو گئی اور اب الحمد اللہ (1964) یہ تعداد پانچ سو ہے۔ جس میں پندرہ خواتین شامل ہیں اور اس تعداد میں تقریباًپچاس اشخاص بیرونی تعلیم یافتہ ہیں۔ سادات امروہہ کا تبلیغی مزاج جہاں ہم اجتماعی زندگی کے عادی رہے ہیں وہاں ہمیشہ منظم بھی رہے ہیں جن کے بغیر اتحاد ممکن نہیں۔ بیسویں صدی کے شروع تک ہماری تنظیم بصورت انجمن نہ تھی بلکہ مختلف خاندانوں کے سربراہ آور وہ اشخاص کی ایک محدود جماعت ہوتی تھی جس کی تعداد دس سے کبھی زیادہ نہ تھی اور ان اشخاص کا ایک سربراہ ہوتا تھا۔ یہی حضرات ہمارے معاملات میں بااختیار تھے اور تمام برادری انھی کی قیادت میں رہتیتھی۔ یہی تنظیم ہماری اجتماعی زندگی کو قائم رکھنے کی باعث بنی۔
ہماری یہ تنظیم تقسیم ملک تک باقی رہی مگر بیسویں صدی کے شروع میں بھی انجمنوں کے ذریعے اس تنظیم کو مستحکم کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ ایک "انجمن سادات" امروہے میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے صدر ڈپٹی سید اولاد حسن تھے۔ اس انجمن کے ایک سالانہ جلسہ کی صدارت صاحبزادہ آفتاب احمد خان نے 1911ء میں بمقام امروہہ کی تھی۔ انجمن اصلاح معاشرت امروہہ جو 1915ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس سے بھی مفید نتائج مرتب ہوئے۔ آل احمد گرلس اسکول جس کے بانی سید آل احمد تھے اسی انجمن کی کوششوں سے کامیابی کی منزلوں پر پہنچا۔ ہمارے بعض شعرا سید مصور حسین نجم ،سید محمد مہدی رئیس، سید جعفر حیات وغیرہ کو ابتدائی مشق کے مواقع اسی انجمن کے سالانہ مشاعروں میں ملے۔ اس انجمن نے ہماری قوم کی قدامت پسندانہ ذہنیت بدلنے میں بہت کامیاب کام انجام دیا۔
جیسا کے آپ حضرات کو معلوم ہے کہ اس انجمن کا تعلق سیاسیات سے بالکل نہیں ہے۔ مگر آپ کے سامنے یہ عرض کرتا چلو کے آپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چل کر ہم نے مسلمانوں کی جنگ آزادی یعنی تحریک مسلم لیگ اور تحریک پاکستان میں بحیثیت برادری ایک نمایاں حصہ لیا سیاست نہیں بلکہ تاریخ سے ۔
میں نے یہ قصہ پارینہ سنانے میں آپ کا کافی وقت لگایا مگر اپنا ماضی سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ یہ قصے پدرم سلطان بود کے سلسلہ میں نہ تا بلکہ اس کا باعث قصص الاولین موعظتہ الا خرین (پہلوں کے قصے آنے والے کی نصیحت کے لیے ) تھا۔ میں محض فضیلت نسبی پر افتخارکا قائل نہیں ہوں۔ اصل چیزکسی قوم۔ خاندان یا فرد کا کردار ذاتی ہے جس کی وجہ سے دوسروں پر اعتبار حاصل ہوتا ہے لیکن اگر کسی کے بزرگ علم و فضل ذاتی کردار اور خدمت اسلامی میں نمایاں رہے ہوں تو ان کا ذکر کر نا نہ صرف ضروری بلکہ باعث افتخار اور موجب ثواب سمجھا ہوں ۔
متذکرہ بالا ماضی اور روایات کے ساتھ ہم اپنے اس جدید وطن پاکستان میں آئے جو خدا کے فضل سے ہمارے لیے جائے امن ہے اور جہاں ہم انپی اس ثقافت کو جس کے تحفظ کے لیے ہم جنگ آزاد ی میں شریک ہوئے تھے اس کو جدید تقاضوں کے پیش نظر ترقی دے سکتے ہیں۔ روایتی اعتبار سے ہم جذبہء اسلامی کے تحت ہمیشہ اسلامی خدمات میں پیش پیش رہے ہیں۔ فرقے دارانہ ذہنیت سے ہم ہمیشہ دور رہے ہیں۔ تحفظ سلطنت اسلامی کے لیے ہم نے کبھی کسی قربانی سے گر یز نہیں کیا۔ اب ان روایتوں کے پیش نظر ہمیں انپے اس جدید وطن میں الحمد اللہ ہر طرح ترقی کے مواقع ہیں۔ ہمیں انپے محبوب وطن اور قوم کی خدمت کرنی ہے۔ جو ہم صرف محنت و جفا کشی اوراعلیٰ کردار سے انجام دے سکے ہیں۔