قاسم بن معن
حضرت قاسم بن معنؒ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ وفات | سنہ 791ء |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف ، ماہرِ لسانیات ، ادیب |
درستی - ترمیم |
حضرت قاسم بن معنؒ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔
نام ونسب
[ترمیم]قاسم نام،ابو عبد اللہ کنیت اوروالدہ کا اسم گرامی معن تھا،شجرہ نسب یہ ہے:قاسم بن معن بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن مسعود بن غافل بن حبیب بن شمخ بن فاد بن مخزوم بن صاہلہ بن کاہل بن الحرث بن تمیم بن سعد بن ہذیل بن بدر کہ بن الیاس بن مضر بن نذار بن معد بن عدنان[1] نسبا ہذلی اورمسعودی کہلاتے ہیں۔
خاندان اوروطن
[ترمیم]مخزنِ علم کوفہ کو ان کی وطنیت کا شرف حاصل ہے ان کے جدِّ امجد حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی شخصیت آسمان صحابیت کا وہ کوکبِ تاباں تھی جس پر پوری اسلامی تاریخ فخر کرتی ہے ،وہ نہ صرف قرآن وحدیث اور اصول و فرائض وغیرہ علوم میں یگانہ زمانہ تھے ؛بلکہ فقہ میں ایک مستقبل مکتب فکر کے بانی بھی تھے جس کی اساس پر بعد میں فقہ حنفی کا فلک رفعت محل تعمیر ہوا،قاضی قاسم نے اپنی اس آبائی علمی وراثت سے حصہ وافر پایا تھا۔
شیوخ
[ترمیم]جن ائمہ و علما کے فیضانِ صحبت نے قاضی قاسم کو چشمک زن آفتاب بنانے میں حصہ لیا،ان میں نمایاں یہ نام ہیں،ہشام بن عروہ،عاصم الاحول،سلیمان التیمی، منصور ابن المعتمر، یحییٰ بن سعید، امام اعمش ،طلحہ بن یحییٰ،داؤد بن ابی ہند محمد بن عمرو۔ [2]
تلامذہ
[ترمیم]خود ان کے دامنِ فیض سے وابستہ رہنے والے اساطین علم میں عبد الرحمن بن مہدی، ابو نعیم ،عبد اللہ بن الولید،علی بن نصر اورمعانی بن سلیمان کے نام لائقِ ذکر ہیں۔ [3]
فضل وکمال
[ترمیم]علمی اعتبار سے ان کا مقام نہایت بلند تھا،جملہ علوم وفنون پر انھیں یکساں قدرت حاصل تھی،حدیث وفقہ،تاریخ ورجال ،زبان و ادب میں ان کا عبور مسلم خیال کیا جاتا تھا، امام ابو حاتمؒ بیان کرتے ہیں: کان من اروی الناس للحدیث والشعر واعلمھم بالفقہ والعربیۃ [4] وہ حدیث فقہ اورعربیت کے بہت بڑے واقف کار تھے۔ ابن ناصر الدین کہتے ہیں: کان اماماً علامۃ ثقۃ قاضی الکوفۃ [5] وہ امام ،علامہ،ثقہ اورکوفہ کے قاضی تھے۔ علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں: کان ثقۃ عالماً بالحدیث والفقہ والشعر وایام الناس [6] وہ ثقہ،حدیث وفقہ اورشعر وتاریخ کے عالم تھے۔ حافظ ذہبی نے الامام العلامۃ اورخزرجی نے احد الاعلام لکھ کر ان کے علم و فضل کا اعتراف کیا ہے، [7]امام وکیعؒ فرماتے ہیں کہ تنوع اورتفنن فی العلوم میں ان کی نظیر شاید وباید ہی مل سکتی ہے [8] علامہ یاقوت حموی لکھتے ہیں: ان القاسم من المحدثین والفقھا والزھاد والثقات ولم یکن بالکوفۃ فی عصرہ نظیرہ ولا احد یخالفہ فی شی یقولہ [9] بلاشبہ قاسم بن معن محدثین فقہا زہاد اورثقات کے زمرہ میں شمار کیے جاتے ہیں اور کوفہ میں اس زمانے میں ان کی کوئی نظر نہ تھی اور نہ ان کے قول کی مخالفت کرنے والا کوئی شخص تھا۔
ثقاہت
[ترمیم]ائمہ جرح و تعدیل نے متفقہ طور پر ان کے عدول اورثقہ ہونے کی شہادت دی ہے،امام احمد ابو حاتم اورابن حبان وغیرہ برملا ان کی توثیق کرتے ہیں،مزید برآں امام ابوداؤد اورامام ترمذی نے اپنی تصانیف میں ان کی مرویات کی تخریج کی ہے۔ [10]
فقہ حنفی کی اتباع
[ترمیم]اگرچہ قاضی قاسم اپنے تبحر وکمال علم کی بنا پر امامت واجتہاد کے منصب جلیل پر فائز تھے،لیکن چونکہ انھوں نے ایک عرصہ تک امام ابو حنیفہ کی ہم نشینی کا شرف حاصل کیا تھا اور وہ ان کی علمی ژرف بینی ونکتہ رسی سے بے حد متاثر تھے،اس لیے بیشتر امور میں انھی کے مسلک کی اتباع کرتے اوراسی کے مطابق فتویٰ دیتے تھے[11]ایک بار کسی نے ان سے دریافت کیا کہ آپ خود کو امام ابو حنیفہ کے غلاموں میں شمار کرانا پسند کریں گے،برجستہ فرمایا: ماجلس الناس الیٰ احد انفع من مجالسۃ ابی حنیفۃ [12] امام ابو حنیفہؒ کی صحبت سے زیادہ نفع بخش کسی اور کی مجلس نہیں۔
عہدہ قضا
[ترمیم]فقہ وافتاء میں غیر معمولی مہارت کے باعث کوفہ کے عہدۂ قضا پر بھی ایک طویل عرصہ تک مامور رہے،ان کے جدِّ امجد حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بھی کامل دس سال تک کوفہ کے قاضی اور افسر خزانہ رہ چکے تھے جب قاضی شریک نخعی کی معزولی کے بعد یہ آبائی وراثت قاضی قاسم کے ہاتھوں میں منتقل ہوئی تو انھوں نے اس فرض کو ایسی شان وشکوہ اوراحتیاط وانصاف کے ساتھ انجام دیا کہ حضرت ابن مسعودؓ کے زمانہ کی یاد تازہ ہو گئی۔ خلیفہ منصور کے زمانہ میں اس عہدہ کی ذمہ داریاں سنبھالیں اورپھر ہارون الرشید کے عہد تک برابر اس پر مامور رہے۔
ایثار وتبرع
[ترمیم]استغناء اور بے نیازی کا عالم یہ تھا کہ اپنے طویل زمانہ قضا میں کبھی مشاہرہ اوراجرت لینا پسند نہ فرمایا اورتاحیات تبرعاً یہ خدمت انجام دیتے رہے، علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں: ولی قضاء الکوفۃ ولم یرتزق علیہ شیئاً حتیٰ مات [13] وہ کوفہ کے قاضی مقرر ہوئے اورزندگی بھر اس کا مشاہرہ نہیں لیا۔ جب ان کی خدمت میں تنخواہ پیش کی جاتی تو اس کو فوراً مستحقین میں تقسیم کردیتے اوراس میں سے ایک حبہ بھی اپنے استعمال میں نہ لاتے،یزید بن یحییٰ کہتے ہیں۔ کان القاسم یقسم ارزاقہ اذا جاء تہ ولا یستحل ان یاخذ رزقا [14] امام قاسم کے پاس جب تنخواہ آتی تو اس کو تقسیم کردیتے تھے اور کوئی مشاہرہ لینا جائز نہیں سمجھتے تھے۔
حالتِ مرض میں فرض کی ادائیگی
[ترمیم]اس تبرع وبے نیازی کے باوجود منصب قضا کی منصبی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سرمو کوتاہی نہ کرتے یہاں تک کہ شدید علالت ونقاہت کی حالت میں بھی مجلسِ عدالت منعقد کرتے اورپوری حاضر دماغی کے ساتھ عدالتی فیصلے نافذ کرتے، ابن کناسہ بیان کرتے ہیں کہ قاسم سخت بیماری کے عالم میں بھی عدالت میں بیٹھتے تھے۔ [15]
عالی ظرفی
[ترمیم]فطری شرافت،نرم خوئی،اوربلند ظرفی ان کی شخصیت کے خاص جوہر تھے،اس کا اندازہ لگانے کے لیے صرف ذیل کا واقعہ کافی ہے۔ ایک شخص نے اپنے مکان کا چھجہ اتنا نیچا لگوارکھا تھا کہ اس سے راہ گیروں کو دقت پیش آتی تھی،لوگوں نے اس معاملہ کو قاضی قاسم کی بارگاہِ عدل وانصاف میں پیش کیا، قاضی موصوف نے اس کے انہدام کا فیصلہ صادر کیا، اس پر مالکِ مکان نے بغیر کسی رعایت کے قاضی سے کہا کہ پھر آپ نے کیوں اپنے مکان میں سر راہ روزن کھلوار کھے ہیں؟ فرمایا:"اس سے کسی راہگیر کو زحمت نہیں ہوتی اورنہ سواریوں کی آمد ورفت میں کوئی رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے ،اس کے بعد فوراً اپنے بعض خدام کو حکم دیا کہ وہ جاکر پہلے ان کے مکان کے روزن بند کر دیں اورپھر بعد میں اس شخص کے چھجہ کو منہدم کریں،تاکہ پھر آئندہ کوئی شخص اس معاملہ میں انھیں شرمندہ نہ کرسکے۔ [16]
خلیفہ کے نزدیک قدر ومنزلت
[ترمیم]ان کے علم و فضل اورایثار وقربانی سے خلیفہ ہارون الرشید بے حد متاثر تھا،بعض مفسد قاضی قاسم کے خلاف برابر ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے، اورخلیفہ کو ان کے خلاف برانگیختہ کرنے کی کوشش کرتے،لیکن وہ کسی کی بات پر کان نہ دہرتا۔ ایک بار ہارون حیرہ گیا اورچالیس دن تک وہاں مقیم رہا،لیکن قاضی قاسم بن معن اس سے ملنے نہ آئے،اس پر وزیر فضل نے خلیفہ سے کہا کہ "حضور آپ چالیس دن سے یہاں آئے ہوئے ہیں، اس عرصہ میں تمام شرفا اورقضاۃ آپ کے دربار میں حاضر ہوئے،مگر آپ نے خیال نہ فرمایا کہ قاسم بن معن ابھی تک نہیں آئے،یہ سن کر خلیفہ نے نہایت ترش لب ولہجہ میں جواب دیا: ما اعرفنی ای شے ما ذا ترید؟ ترید ان اعزلہ لا واللہ لا اعزلہ [17] مجھے معلوم نہیں تم کیا چاہتے ہو؟کیا تمھارا خیال ہے کہ میں قاسم کو معزول کردوں نہیں بخدا میں ایسا نہیں کرسکتا۔
کسائی کا اعتراف
[ترمیم]فقہ وحدیث کے ساتھ نحو میں بھی غیر معمولی مقام حاصل تھا،کسائی جو علم نحو کی مہارت میں آفاقی شہرت کا حامل ہے،قاضی قاسم کے فضل وتقدم کا معترف ہے اوربایں ہمہ فنی مہارت وتبحر علم کے ان کے سامنے زنوائے تلمذ تہ کرنے کو مایہ صد افتخارسمجھتا تھا،ایک بار کسی نے اس سے پوچھا کہ تم علم،نسب اورفضل میں ان سے مقدم ہو،پھر تم ان سے نحو کیوں حاصل کرتے ہو، اس نے برجستہ کہا، قاسم بن معن میں تین خوبیاں ایسی ہیں،جن میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ الحفظ لما یسمع العلم بما یعی والصدق فیما یؤوی [18] جو کچھ سنتے ہیں اس کو یاد رکھنے کی حیرت انگیز قوت ،علم اورصدق۔
وفات
[ترمیم]175ھ میں خلیفہ ہارون الرشید کے ہمراہ مقام رقہ کی طرف روانہ ہوئے درمیان میں مقام راس عین پہنچ کر پیغام اجل آگیا اورمحبوبِ حقیقی سے جاملے، احمد بن کامل نے ان کا سنہ وفات 188 بتلایا ہے،لیکن بقول مرز بانی اول الذکر ہی اصح ہے۔ [19]
تصنیفات
[ترمیم]قاضی قاسم نے کئی کتابیں بھی یاد گار چھوڑی ہیں،لغت میں"کتاب النوادر"حدیث میں "غریب المصنف" اوراس کے علاوہ فن نحو میں بھی کچھ کتابیں ہیں [20] لیکن ان کے کسی نسخہ کے وجود کا علم نہیں ہے۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ (معجم الادباء:6/200)
- ↑ (تہذیب التہذیب8/338)
- ↑ (تہذیب التہذیب:8/338)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/217)
- ↑ (شذرات الذہب:1/286)
- ↑ (طبقات ابن سعد:6/267)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/217 وخلاصہ تذہیب:314)
- ↑ (فہرست ابن ندیم :103 واخبار القضاۃ:3/175)
- ↑ (فہرست ابن ندیم :103،واخبار القضاۃ:3/175)
- ↑ (تہذیب التہذیب:8/338)
- ↑ (معجم الادباء:6/200)
- ↑ (اخبار القضاۃ: )
- ↑ (طبقات ابن سعد:6/267)
- ↑ (اخبار القضاۃ:3/177)
- ↑ (ایضاً:3/178)
- ↑ (اخبار القضاۃ:3/182)
- ↑ (اخبار القضاۃ:3/180)
- ↑ (اخبار القضاۃ:3/181)
- ↑ (معجم البلدان:6/200)
- ↑ (الاعلام :2/786 وفہرست ابن ندیم:113)