محمد سعید احمد مجددی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو البیان محمد سعید احمد مجددی
محمد سعید احمد مجددی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1947ء (عمر 76–77 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ عبد الغفور ہزاروی،  احمد سعید کاظمی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم،  سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد سعید احمد مجددی شارح مکتوبات امام ربانی ایک ہمہ صفت موصوف انسان تھے۔ جن کا شمار عالم اسلام کے نابغۂ روزگار علمائے شریعت، عرفائے طریقت اور خطبائے ملت میں ہوتا ہے۔ آپ صاحبِ مقام اور صاحب کشف عظیم اولیاء اللہ میں سے ہیں۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ ایک رات مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی 40 بار زیارت نصیب ہوئی۔ِ

ولادت و نسب[ترمیم]

ابو البیان محمد سعید احمد مجددی خطہ کشمیر جنت نظیر میں مولانا لال دین کے گھر 1943ء بروز جمعۃ المبارک بوقت فجر پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد آپ کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آیا تو ضلع جہلم کی تحصیل سرائے عالمگير کے گاؤں اورنگ آباد میں قیام کیا۔ آپ کا سلسلہ نسب صحابی رسول حضرت دحیہ کلبی سے جا ملتا ہے جو نہایت حسین و جمیل شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے والد ایک عالم باعمل اور صوفی منش بزرگ تھے، والدہ بھی دردِ دل رکھنے والی نیک سیرت اور پاکباز خاتون تھیں۔ والدین کی تربیت نے آداب فرزندی سکھائے۔ اس طرح خود شناسی و خدا شناسی اور خود آگہی و خدا آگاہی آپ کو ورثے میں ملی۔[1]

تعلیمی زندگی[ترمیم]

اولین درس گاہ ماں کی گود سے تعلیم و تربیت کے آغاز کے بعد اسکول کی تعلیم حاصل کی۔ ازاں بعد جہلم، لاہور اور گوجرانوالہ کے مختلف دینی مدارس میں ممتاز اور جید علمائے کرام سے علوم دینیہ کا اکتساب کیا۔ جامعہ نظامیہ لاہور سے تنظیم المدارس کا امتحان دے کر الشہادۃ العالمیہ (ایم۔ اے عربی و اسلامیات) کی سند حاصل کی۔ محمد عبد الغفور ہزاروی سے دورۂ قرآن پڑھا۔ سید احمد سعید کاظمی (ملتان) سے سند حدیث حاصل کی۔[2]

روحانی نسبت[ترمیم]

ابو البیان محمد سعید احمد مجددی نے درد و سوز اور تصوف کی طرف میلان ورثے میں پایا۔ حضرت داتا گنج بخش کے مزار اقدس پر زبدۃ الفقراء خواجہ صوفی محمد علی کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ آپ کے پیر و مرشد مادر زاد ولی اور بلند پایہ صاحب حال صوفی تھے، آپ نے اپنی توجہات کی برکت اس جوہرِ قابل اور گوہرِ نایاب کو تمام منازل سلوک طے کروا کے نہ صرف خرقہ خلافت سے نوازا بلکہ شہباز طریقت کا لقب بھی عطا کیا۔ آپ کو اپنے اس مرید کی قابلیت، صلاحیت اور نسبت پر اس قدر ناز تھا کہ آپ سے منسوب ہے کہ آپ نے بعض احباب کی موجودگی میں فرمایا:

اگر روزِ قیامت خدا نے پوچھا کہ اے محمد علی! دنیا سے کیا لائے ہو تو میں محمد سعید احمد کا ہاتھ پکڑ کر بارگاہِ ایزدی میں پیش کر دوں گا۔

[حوالہ درکار]

خواجہ خواجگان شمس الہند پیرسید محمد چنن شاہ نوری دائم الحضوری آلو مہار شریف کے مزار اقدس سے بھی اکتساب فیض کیا۔ آپ کی اعلیٰ روحانی و علمی استعداد کو دیکھتے ہوئے اندرون و بیرون ملک جلیل القدر مشائخ عظام و علمائے اعلام نے دیگر سلاسلِ طریقت کے فیوض و برکات اور خرقہ ہائے خلافت و اجازت سے نوازا۔ ان شیوخ کے اسمائے گرامی مع آستانہ درج ذیل ہیں:

عملی زندگی[ترمیم]

زمانہ طالب علمی میں ہی قدرت نے آپ کو تقریر اور تحریر کی اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ ذہن رسا اور ذوقِ بلند عطا فرمایا تھا۔ صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ (آلو مہار شریف) کی پچیس سالہ صحبت و رفاقت اور تربیت و شفقت نے آپ کے دینی، روحانی، فکری اور ادبی رجحانات میں وہ نکھار پیدا کیا جس سے میدان خطابت میں آپ کو عالمگیر شہرت اور پزیرائی حاصل ہوئی۔

خطابت[ترمیم]

عشق رسول میں ڈوبی ہوئی آواز، محبت بھرا لہجہ و انداز، تجنیسِ الفاظ، سخن دلنواز، مترادفات کی دل نشینی، استعارات آفرینی، مطالب کا سیلاب، اشارات و کنایات، تلمیحات و محاورات کا وافر استعمال آپ کی خطابت کے دلنشیں عناصر اور آپ کے عمیق مطالعہ کا بین ثبوت تھے۔

آپ کی خطابت کی جولانی، شعلہ بیانی اور سلاست و روانی کو دیکھ کر شیخ الاسلام خواجہ محمد قمر الدین سیالوی نے آپ کو ابو البیان کا لقب عطا فرمایا جو آپ کے نام کا جزو بن گیا۔

آپ گوجرانوالہ کی مختلف مساجد میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے، بالآخر 1970ء میں اپنے شیخ کامل کے حکم سے مرکزی جامعہ مسجد نقشبندیہ گوجرانوالہ ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ میں تشریف لائے اور تا دمِ آخر اسی مرکز سے سامعین کے قلوب و اذہان میں ہلچل پیدا کرتے رہے اور بالخصوص نوجوان نسل کے کردار و گفتار کو سنوارتے رہے۔

تبلیغی و تحریکی سرگرمیاں[ترمیم]

جمیعت علمائے پاکستان، جماعت اہل سنت اور دیگر کئی مذہبی و سیاسی تنظیموں میں نمایاں عہدوں پر فائز رہے۔ تین سال تک آزاد کشمیر کی سب سے موثر دینی و سیاسی تنظیم جمیعت علمائے جموں و کشمیر کی صدارت کے فرائض بھی انجام دیے لیکن آپ جلد ہی عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔

عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کا قیام[ترمیم]

فروری 1980ء میں عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کی بنیاد رکھی جس کا مقصد نوجوان نسل کی علمی و نظریاتی تربیت اور روحانی ذوق کی آبیاری کے لیے عملی جدو جہد کرنا تھا۔

ماہنامہ دعوت تنظیم الاسلام کا اجرا[ترمیم]

عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کے زیر اہتمام کثیر الا شاعت دینی و اصلاحی مجلہ ماہنامہ دعوت تنظیم الاسلام کا اجرا کیا جو آج بھی مسلسل اشاعت پزیر ہے۔

دینی مدارس کا قیام و سرپرستی[ترمیم]

گوجرانوالہ کی معروف دینی درسگاہ دارالعلوم نقشبندیہ امینیہ ماڈل ٹاؤن، گوجرانوالہ کے آپ ہی بانی و مہتمم تھے۔

گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر بالمقابل ریگل چائنہ پانچ ایکڑ اراضی پر مشتمل ایک اور اہم ترین دینی مرکز جامعہ ریاض المدینہ کی بنیاد 1982ء میں آپ نے رکھی جو اب المدینہ اسلامک یونیورسٹی کے نام سے علوم اسلامیہ و عصریہ کا حسین سنگم ہے۔

اس کے علاوہ اندرون ملک اور بیرون ملک بیسوں مساجد و مدارس کے انتظام و انصرام میں آپ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔

سنی جہاد کونسل کا قیام[ترمیم]

غلبہ اسلام، آزادی کشمیر اور تکمیل پاکستان کے لیے آپ نے 2 مارچ 1992ء کو راولپنڈی میں آل جموں و کشمیر سنی جہاد کونسل کی بنیاد رکھی جس کے پہلے کنوینئر آپ ہی تھے اور تا دمِ آخر شدتِ علالت کے باوجود پاکستان اور کشمیر میں اسلامی و روحانی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کے لیے عملی جہاد میں مصروف رہے۔

دروس تصوف[ترمیم]

طریقت کے نہایت باریک، لطیف اور دقیق مسائل و معارف پر شرح و بسط کے ساتھ کلام کرنے اور عامتہ الناس کے قلب و نظر میں صحیح اسلامی تصوف کو اجاگر کرنے کی صلاحیت خصوصی طور پر قدرت نے آپ کو ودیعت فرمائی تھی یہی وجہ ہے کہ آپ نے دین اسلام کے بنیادی نظریات اور کتاب و سنت کی آفاقی تعلیمات سے عوام کو روشناس کرانے کے لیے تمام اسلامی موضوعات پر دروس ارشاد فرمائے۔

علاوہ ازیں درس قرآن و حدیث کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے جن میں بالخصوص قرآنی سورتوں کا اجمالی تعارف اور مختلف قرآنی مضامین کی تعبیر و تشریح پیش فرماتے۔ درس حدیث میں خصوصاً شمائل ترمذی ایسے ایمان افروز اور دل نشیں انداز میں پیش فرماتے کہ سامعین پر رقت کی کیفیت طاری ہو جاتی۔

تصانیف[ترمیم]

  • البینات شرح مکتوبات۔ مکتوبات امام ربانی کی پہلی مبسوط اردو شرح۔
  • سعادت العباد شرح مبدا و معاد۔ (مکمل دو جلدیں)
  • البیان۔ تقریری مجموعہ (پانچ جلدیں)
  • تذکرہ مشائخ آلو مہار شریف۔ آلو مہار شریف کے جملہ مشائخ عظام کا تذکرہ۔
  • سرمایہ ملت کا نگہبان۔ امام ربانی کے سیرت و کردار اور تجدیدی افکار کا اجمالی تذکرہ۔
  • اسلام میں عید میلاد النبی کی حیثیت
  • کلمہ طیبہ اور اس کے تقاضے
  • مقالات ابو البیان
  • ایمان اور اس کے ثمرات
  • آداب الحرمین
  • صلوات الابرار۔ مجموعہ درود و سلام
  • قرآنی سورتوں کا اجمالی تعارف
  • شرح شمائل ترمذی
  • شرح کشف المحجوب شریف

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

[1]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ tanzeemulislam.org (Error: unknown archive URL) بانی ادارہ علامہ ابو البیان پیر محمد سعید احمد مجددی کا اجمالی تذکرہ

حوالہ جات[ترمیم]

  1. البینات شرح مکتوبات، مختصر تعارف مصنفِ کتاب ابو البیان محمد سعید احمد مجددی
  2. سرمایہ ملت کا نگہبان، مختصر تعارف مصنفِ کتاب ابو البیان محمد سعید احمد مجددی
  3. ماہنامہ دعوت تنظیم الاسلام ابو البیان نمبر، حیاتِ حضرت ابو البیان کا اجمالی تذکرہ