نور جہاں (گلوکارہ)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(نورجہاں (گلوکارہ) سے رجوع مکرر)
نور جہاں (گلوکارہ)
 

معلومات شخصیت
پیدائش 21 ستمبر 1926ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قصور[1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 23 دسمبر 2000ء (74 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی[1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات عَجزِ قلب[2]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن گزری قبرستان[3]  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
شوہر شوکت حسین رضوی (1941–1953)
اعجاز درانی (19 اکتوبر 1959–1 جون 1970)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ظل ہما،  نازیہ اعجاز خان  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فنکارانہ زندگی
نوع فلمی،  قوالی،  مغربی موسیقی  ویکی ڈیٹا پر (P136) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آلہ موسیقی صوت  ویکی ڈیٹا پر (P1303) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فلمی ہدایت کارہ،  گلو کارہ،  فلم اداکارہ،  ادکارہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان پنجابی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ہندوستانی،  پنجابی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ویب سائٹ
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نور جہاں د(پیدائش:21 ستمبر 1925ء |وفات :23 دسمبر 2000ء) برصغیر کی مشہور گلوکارہ اور اداکارہ تھیں۔ ملکہ ترنم کا خطاب انھیں پاکستانیوں کی طرف سے ملا۔ انھوں نے 10000 کے قریب گیت ہندوستان و پاکستان میں اردو، سندھی، بنگالی، پشتو، عربی اور پنجابی زبانوں میں گا‎ئے۔ انھیں ہفت زبان گلوکارہ بھی کہاجاتاہے۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

نور جہاں21 ستمبر 1920 1923 1925 1926ء کو برطانوی ہند کے شہر میں قصور (موجوہ پاکستان) میں پیدا ہوئیں۔گھریلو نام اللہ وسائی تھا۔انکا گھرانہ موسیقی اور گانے بجانے سے وابستہ تھا اسی لیے ان کے گھروالوں نے انھیں بھی موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے استاد کے پاس بٹھادیا۔ جبکہ نورجہاں ذاتی طور پر اداکاری کرنے کو بھی پسند کرتی تھیں۔ استاد بابا غلام محمد سے موسیقی کی تربیت حاصل کی انھیں کلاسیکی روایتی ہندوستانی موسیقی کی خصوصی طور پر تربیت دی گئی تھی ان کو ٹھمری، دھرپد، خیال اور دیگر اصناف موسیقی پر چھوٹی عمر میں ہی عبور حاصل ہوچکاتھا۔ انھوں نے کم سنی میں ہی اسٹیج پر اداکاری اور گلوکاری کا مظاہرہ کیا۔ بعد ازاں اپنی بہنوں کے ساتھ کلکتہ چلی گئیں اور فلم پنجاب میل میں اداکاری اور گلوکاری کی۔ گیت کے بول تھے، سوہنا دیساں وچوں دیس پنجاب۔ یہ فلم 1935ء میں بنی۔کلکتہ میں قیام کے دوران میں ان کی ملاقات اپنے وقت کے معروف و مشہورگلوکارہ مختار بیگم سے ہوئی۔ مختار بیگم کو اللہ وسائی بہت پسند آئی انھوں نے اللہ وسائی کا نام بے بی نورجہاں تجویز کیا اور اپنے شوہر آغا حشر کاشمیری کو سفارش کی کہ وہ بے بی نورجہاں کو اپنے تھیٹر میں ملازمہ رکھیں۔ نورجہاں نے خود بھی با رہا اپنے مختلف انٹرویوز میں اعتراف کیاہے کہ وہ مختار بیگم کی مداح ہیں اور ان کے انداز کو نقل کرتے ہوئے سفید ساڑھی پہن کر انہی کی طرح ساڑھی کاپلو انگلی پر لپیٹتی ہیں۔ نورجہاں کہتی ہیں کہ جب مختار بیگم گاتی تھیں تو ہم محو ہوکے انھیں سنتے اور جب وہ اسٹیج سے نیچے آتیں تو ان کے جوتے سیدھے کرتے تھے۔
نورجہاں کی بہنوں کو سیٹھ سکھ کرنانی کی کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ اور تینوں بہنیں پنجاب میل کے نام سے مشہور ہوئیں۔ نورجہاں نے کافی فلموں میں بچپنے کے کرداروں کے لیے اداکاری بھی کی۔ جیسا کہ 1935ء میں کے ڈی مہرہ کی فلم پنڈ دی کڑی، فلم مصر کا ستارہ 1936ء کے لیے گائیکی و اداکاری بھی کی۔ 1937ءمیں فلم ہیر سیال میں نورجہاں نے ہیر کے بچپن کا کردار بھی اداکیا۔کلکتہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد نورجہاں لاہور واپس آگئیں۔ ماسٹر غلام حیدر نے ان کے لیے بہت سی دھنیں ترتیب دیں جنہیں گاکر نورجہاں کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔ نورجہاں نے پہلی بار سیٹھ دل سکھ جو پنچولی سٹوڈیوز کے مالک تھے کی فلم گل بکاؤلی کے لیے گیت گایا جس کے بول تھے
شالا جوانیاں مانے ۔۔۔۔ آکھا نہ موڑیں۔ پی لے
نورجہاں نے 1942ء میں پران کے مدمقابل فلم خاندان میں مرکزی کردار اداکیا۔ بطور مرکزی اداکارہ یہ فلم نورجہاں کی اولین فلم تھی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ بعد ازاں نورجہاں نے 1943میں بننے والی فلم دہائی کے لیے گیت گائے۔ یہ دوسری بارتھا کہ نورجہاں نے اپنی آواز کسی دیگر اداکارہ کے لیے دی۔ دہائی میں حسن بانو نے مرکزی کرداراداکیاتھا۔

رفیق غزنوی اور نورجہاں[ترمیم]

سعادت حسن منٹو نے لکھا ہے کہ رفیق غزنوی ایک رومان پسند انسان تھا اس کی مختلف ٹائیوں میں اس کے مختلف رومان بندھے تھے۔ رفیق غزنوی نے سعادت حسن منٹو سے نورجہاں کا تعارف کرواتے ہوئے کہا تھا کہ:

منٹو یہ نور ہے، نورجہاں ہے، سرور جہاں ہے۔ خدا کی قسم ایسی آواز پائی ہے کہ اگر جنت کی خوش الحان سے خوش الحان حور بھی اس کی آواز سن لے تو اسے سیندور کھلانے زمین پر اتر آئے۔

سعادت حسن منٹو کے بقول رفیق غزنوی نورجہاں پر شیفتہ وفریفتہ تھا اور نورجہاں سے عشق لڑا رہاتھا مگر اس کی عشق پیشہ آنکھ دیکھ نہ پائی اور شوکت حسین رضوی نورجہاں کو اڑا لے گیا۔

شوکت حسین رضوی سے تعلق[ترمیم]

فلم خاندان کی کامیابی کے بعد نورجہاں بمبئی منتقل ہوگئیں۔ وہاں ان کی ملاقات سید شوکت حسین رضوی سے ہوئی جو ایک اداکار اور ہدایتکار تھے۔ نورجہاں اور رضوی کی ملاقاتوں میں اضافہ ہوا اور نوبت شادی تک پہنچ گئی۔ نورجہاں کے گھر والے ان تعلقات کے خلاف تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک کماؤ لڑکی شادی کر کے ساری کمائی ساتھ لے جائے اس لیے رضوی سے تعلقات پر قدغن لگادی گئی۔ مگر رضوی اور نور کا عشق سر چڑھ کر بولا اور انجام شادی پر منتج ہوا۔ سعادت حسن منٹو بھی اس شادی کے مخالف تھا۔ سعادت اور شوکت دونوں دوست تھے، سعادت حسن منٹو نے رضوی کو کہاتھا کہ شادی سے پرہیز کرنا۔ سعادت حسن منٹو نے اپنی کتاب نورجہاں سرورجہاں میں نہایت تفصیل سے سارے واقعات قلمبند کیے ہیں۔

شادی کے بعد زندگی[ترمیم]

رضوی اور نور جہاں کی شادی کے بعد دونوں کے لیے کامیابی کی راہیں وا ہوگئیں۔ نورجہاں نے 1945ء میں بننے والی فلم بڑی ماں میں مرکزی کردار اداکیاجبکہ لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے نے اس فلم میں بچپنے کے کردار اداکئے تھے۔1945ء میں نورجہاں نے پہلی بار زہرابائی انبالے والی اور کلیان کے ہمراہ قوالی گائی۔ جنوبی ایشیا میں پہلی بار خواتین نے قوالی گائی تھی۔ قوالی کے بول تھے
آہیں بھریں نہ شکوے کیے
مرزاصاحباں نورجہاں کی متحدہ ہندوستان میں آخری فلم تھی۔ نورجہاں نے 1932ء سے 1947ء تک 127 گانے گائے جبکہ 69 فلموں میں اداکاری کی۔ انہو ں نے 12 خاموش فلموں بھی کام کیا۔۔ نورجہاں نے جن فلموں میں کام کیا ان میں سے 55 فلمیں بمبئی، 8 فلمیں کلکتہ، 5 فلمیں لاہور اور 1 فلم رنگون (یانگون) برما میں بنی تھیں۔

ہجرت[ترمیم]

1947ء میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان معرض وجودمیں آیاتو دونوں میاں بیوی پاکستان کے شہر کراچی ہجرت کرآئے۔ تین سال بعد نورجہاں نے اپنی پہلی فلم چن وے بناناشروع کی۔ اس فلم کی ہدایتکاری نورجہاں نے انجام دی تھی تاہم وہ کہتی تھیں کہ اصل میں ہدایت کاری کاساراکام شوکت حسین رضوی نے ہی کیاہے میرا تو سکرین پر صرف نام تھا۔ بطور مرکزی اداکارہ بھی یہ نورجہاں کی پہلی پنجابی فلم تھی۔ فلم نے درمیانے درجے کا کاروبار کیا۔ 1952ء میں نورجہاں کی فلم دوپٹہ نمائش کے لیے پیش کی گئی جس کی ہدایتکاری سبطین فضلی، پیشکار اسلم لودھی تھے۔ اس فلم نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ خصوصی طور پر نورجہاں کا گایاہوا یہ گانا:

سب جگ سوئے ہم جاگیں تارون سے کریں باتیں
چاندنی راتیں {{{2}}}
پچھلی رات میں ہم اٹھ اٹھ کر چپکے چپکے روئیں رے سکھ کی نیند میں میت ہمارے دیس پرائے سوئیں رے
راتوں نے میری نیند لوٹ لی ۔۔۔ دن نے چین چرائے رے{{{2}}}
دکھیا آنکھیں ڈھونڈ رہی ہیں وہی پیار کی باتیں{{{2}}}

1952 سے لے کر ابھی تک اس گانے کو زبان زدعام گانا ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

شوکت حسین رضوی سے اختلافات[ترمیم]

برِّصغیر کی تین عظیم گلوکارائیں؛ نورجہاں، لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے ایک ساتھ

1952 اور 1953کے دوران میں دونوں میاں بیوی میں اختلافات بڑھتے گئے۔ ان اختلافات کی بہت سی وجوہات تھیں۔ دونوں میاں بیوی ہی ایک دوسرے کو الزام دیتے تھے۔ رضوی کا یہ الزام تھا کہ نورجہاں ایک غلط عورت ہے اور دیگر مرد اداکاروں، موسیقاروں اور گلوکاروں سے اس کے ناجائز تعلقات ہیں۔ ان سب میں اہم الزام پاکستان کے کرکٹ کھلاڑی نذر محمد اور نورجہاں کے تعلقات کا الزام تھا۔ شوکت حسین رضوی نے اپنی کتاب "نورجہاں کی کہانی میری زبانی" میں نہاہت تفصیل سے بیان کیاہے کہ نورجہاں اور نذر محمد کے تعلقات کا مجھے شبہ تھا بعد میں میرے دوستوں نے تصدیق کردی تو میں نے اپنے ایک نوکر کو ذمہ داری دی کہ وہ نورجہاں کی نگرانی کرے اور جیسے ہی نورجہاں نذر محمد سے ملتی ہے مجھے اطلاع دے۔ ایک بار نورجہاں اپنی موٹر کار میں نوکرانی کے ہمراہ نذر محمد کو ملنے گئی تو میرے ملازم نے مجھے اطلاع دے دی میں بھی موقع پر پہنچ گیا۔ نورجہاں ایک مکان میں تھی میں دروازہ کھلوایا تو دیکھا کہ میری ملازمہ سیڑھیوں سے اوپری منزل کی طرف جا رہی تھی تاکہ نورجہاں کو خبردار کرے مگر میں نے بھاگ کر اسے پکڑ لیا اور جب اوپر پہنچا تو دیکھا کہ نورجہاں اورنذر محمد ایک پلنگ پر لیٹے ہوئے ہیں مجھے دیکھ کر نذر محمد نے بالائی منزل کی کھڑکی سے چھلانگ لگادی جس کی وجہ سے اس کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور کھیل کے لیے ناکارہ ہو گیا۔
اس کے علاوہ نورجہاں پر بے شمار اداکاروں، گلوکاروں اور نسیم پاپولر والے کے ساتھ تعلقات کا الزام تھا۔ جبکہ نورجہاں شوکت رضوی پر الزام عائد کرتی تھی کہ اس کے دیگر لڑکیوں کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں۔ ان سب کے بعد دونوں میاں بیوی میں نوبت طلاق تک پہنچ گئی ۔

شاہ نور سٹوڈیو[ترمیم]

ہندوستان کی تقسیم کے بعد نور جہاں اور شوکت حسین رضوی نے مل کر آر ایل شوری سٹوڈیو الاٹ کرایا اور اس کی از سر نو آبیاری کی۔ واضح رہے کہ اس دور میں شوری سٹوڈیو تقسیم ہند کے ہنگاموں میں جل چکا تھا۔ شوکت حسین رضوی نے اپنے اور نورجہاں کے نام کو ملا کر اس کا نیا نام شاہ نور سٹوڈیو رکھا ۔ جس وقت یہ مضمون لکھا جا رہا ہے یعنی نومبر 2022 تک شاہ نور سٹوڈیو کا بڑا حصہ ختم ہو چکا ہے اور وہاں پر ورکشاپس اور کچھ رہائشی مکان بن چکے ہیں جب کہ اس کے کچھ ہی فلور اور ہال بچے ہوئے ہیں۔ شاہ نور سٹوڈیو کے لیے نورجہاں کی پوتی فاطمہ سکندر نے لاہور کی سول عدالت میں کیس دائر کر رکھا ہے کہ اس کی والدہ کو شاہ نور سٹوڈیو سے حصہ نہیں دیا گیا۔[1][2]

اولاد[ترمیم]

سید شوکت حسین رضوی سے نورجہاں کی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔ بیٹوں کانام اکبر رضوی اور اصغر رضوی جبکہ بیٹی کانام ظل ہما ہے۔ اکبر، اصغر رضوی اور بیٹی ظل ہما کا انتقال ہوچکاہے۔ شوکت حسین رضوی سے طلاق لے کر نورجہاں نے بچے اپنے پاس رکھ لیے ۔

دوسری شادی[ترمیم]

رضوی سے طلاق کے بعد نورجہاں نے پاکستانی فلموں کے اداکار اعجاز درانی سے شادی کرلی۔ اعجاز درانی نے نورجہاں پر دباؤ بڑھاتے ہوئے کہاکہ فلموں میں کام ختم کردو مگر نورجہاں نے اداکاری چھوڑتے ہوئے گلوکاری چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ نورجہاں کی آخری فلم باجی تھی۔ نورجہاں نے مرزاغالب فلم میں بطور مرکزی اداکارہ کام کیا اور اپنے مداحین کی تعداد میں اضافہ کیا۔ کلام فیض گاکر بھی نورجہاں نے شہرت حاصل کی۔ خاص طور پر فیض احمد فیض کی غزل مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ایک لازوال تخلیق تھی۔

اعجاز سے اختلافات[ترمیم]

نورجہاں اور لتا منگیشکر

سعادت حسن منٹو جس نے نورجہاں کا بمبئی اورلاہور میں نہائت گہرائی سے مطالعہ کیاتھا کہتاہے کہ نورجہاں ایک بددماغ عورت ہے۔ گوکہ اس کی آواز کی خوبی نہایت خدادادہے تاہم اسے بددماغ نہیں ہوناچاہئے۔
اعجاز سے شادی کے بعد نورجہاں فلمی دنیاکوخیربادکہہ چکی تھیں اور صرف پس پردہ گلوکاری کرنے میں مصروف تھیں جبکہ ان کے شوہرنامدار اعجاز نورجہاں کے رسوخ کی وجہ سے مصروف فلمی اداکاربن گئے تھے۔ ان دونوں کی زندگی اس وقت اختلافات کی زد میں آگئی جب فردوس نامی اداکارہ سے اعجاز کے تعلقات کی خبر عام ہوئی۔ نورجہاں کے استفسارپراعجاز نے لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے ان خبروں کی تردیدکی۔ مگر ہیررانجھا کی عکس بندی کے دوران میں واقعات کچھ اس طرح ظہورپذیرہوئے کہ اعجاز کے بھید کی قلعی کھل گئی اور اس کا فردوس سے تعلق منظرعام پر آگیاتاہم نورجہاں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح اعجاز اورفردوس کا تعلق ختم ہو جائے اور اس کے لیے نورجہاں نے فردوس پر دباؤ بھی ڈالا اور دباؤ کی آخری حد یہ تھی کہ نورجہاں نے اعلان کر دیاکہ وہ فردوس کے لیے کسی بھی فلم میں گانا نہیں گائیں گی۔ مگر اس کے باوجود فردوس اور اعجاز کے تعلقات قائم رہے اور فردوس واحد اداکارہ تھی جس نے نورجہاں کی آوازکے بغیر پنجابی اور اردوفلموں میں کامیابی حاصل کی وگرنہ نورجہاں سے اختلاف کسی بھی اداکار یا اداکارہ کی پیشہ ورانہ موت ہوتے تھے۔

فلمی جدول[ترمیم]

سال فلم
1939 گل بکاءولی
ایماندار
پیام حق
1940 سجنی
یملا جٹ
1941 چوہدری
ریڈ سگنل
امید
سسرال
1942 چاندنی
دھیرج
فریاد
خاندان
1943 نادان
دہائی
نوکر
1944 لال حویلی
دوست
1945 زینت
گاؤں کی گوری
بڑی ماں
بھائی جان
1946 انمول گھڑی
دل
ہمجولی
صوفیہ
جادوگر
مہاراجا پرتاب
1947 مرزا صاحباں
جگنو (1947ء فلم) – 23 مئی 1947ء
عابدہ
میرا بھائی
1951 چن وے
1952 دوپٹہ
1953 گلنار
1955 پاٹے خان
1956 لخت جگر
انتظار
1957 نوراں
1958 چھومنتر
انارکلی
1959 نیند
پردیسن
کوئل
1961 مرزا غالب

ملکہ ترنم نورجہاں کا فلمی سفر[ترمیم]

1947ء میں ملکہ ترنم ہجرت کرکے بمبئی سے پاکستان آگئیں۔

29 مارچ 1951ء کو پنجابی فلم چن وے ریلیز ہوئی جو نورجہاں کی پاکستان میں بطور ہیروئن پہلی فلم تھی اور اِس کی ڈائریکٹر بھی وہ خود ہی تھیں اور موسیقی فیروز نظامی کی اوراس میں اداکاری کے جوہر ان ادارکاروں نے دِکھائے : نورجہاں، سنتوش، جہانگیر خان، یاسمین، غلام محمد۔ لاہور میں یہ فلم ریجنٹ سینما پر 18 ہفتے تک سپر ہٹ بزنس کرتی رہی۔ کراچی میں یہ فلم 13 اپریل 1951ء کو ریلیز ہوئی اور 9 ہفتے تک جوبلی سینما پر بزنس کرتی رہی۔

29مارچ 1952ء کو دوپٹہ ریلیز ہوئی جس کے ڈائریکٹر سبطین فضلی تھے اور موسیقی فیروز نظامی کی تھی۔ اس فلم کا معاوضا میڈم نے اس وقت 6000 روپے لیا تھا۔

وفات[ترمیم]

نورجہاں 23 دسمبر 2000ء کو 80 سال 2 ماہ کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئیں۔ اُن کی نمازِ جنازہ عشاء کے بعد کراچی میں اداء کی گئی اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، کراچی کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔

کا رہائے نمایاں[ترمیم]

میں نورجہاں کی مداح ہوں (لتا منگیشکر)[4]

نورجہاں کے ایک قدردان نے کیاخوب لکھاتھا کہ پاکستانی فلمی صنعت کے نصف گانے نورجہاں نے گائے ہیں اور نصف سنے ہیں اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ نورجہاں پاکستانی فلمی صنعت کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل تھیں۔ نور جہاں نے زیادہ تر گانے انفرادی طور پر گائے اور کئی مرد گلوکاروں کے ساتھ بھی دو گانے گائے جن میں مہدی حسن، پرویز مہدی، احمد رشدی،مسعود رانا، عنایت حسین بھٹی، ندیم، بشیر احمداور اے نیئر شامل ہیں، اس کے علاوہ نورجہاں نے زنانہ گلوکاروں کے ساتھ بھی گانے گائے ہیں جن میں رونا لیلی، ناہید اختر، فریدہ خانم، مہناز اور مالا قابل ذکر ہيں ۔

یہ وادیاں یہ پربتوں کی شاہزادیاں

پوچھتی ہیں کب بنے گی تو دلہن
میں کہوں جب آئینگے میرے سجن
میرے سجن چلا بھی آ
آبھی جاکے میں نے آج تیرے واسطے
پھر سجادئے ہیں زندگی کے راستے
دور اب نہیں ہے پیار کا حسیں محل
گیسوؤں کی چھاؤں چھاؤں میرے ساتھ چل
بج اٹھیں گی دل میں جھانجریں چھنن چھنن
میرے سجن ۔۔۔۔۔ چلا بھی آ
یوں ہوا کے ساتھ بھاگ بھاگ کر
خواب کوئی دیکھتاہے جاگ جاگ کر
اپنے گرم بازوؤں میں تجھکو تھامنے
دیکھ میں کھڑی ہوں کب سے تیرے سامنے
سن رہی ہوں تیرے سانس کی سنن سنن
میرے سجن ۔۔۔۔ چلابھی آ
اڑ رہاہے پیاربدلیوں کے بھیس میں
یہ سماں بھلاکہاں پرائے دیس میں
اس طرف ہیں صرف سیم و زر کی راحتیں
میری دھڑکنوں میں کھنکھنائی چاہتیں
بج رہی ہوں جیسے چوڑیاں کھنن کھنن
میرے سجن۔۔۔۔ چلا بھی آ

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت Death anniversary of Malika-e-Tarannum Noor Jehan observed — اخذ شدہ بتاریخ: 7 ستمبر 2023
  2. Queen of Melody Noor Jehan remembered today on her birthday — اخذ شدہ بتاریخ: 7 ستمبر 2023 — شائع شدہ از: 21 ستمبر 2016
  3. A grave story of Shehenshah-i-Ghazal — اخذ شدہ بتاریخ: 8 ستمبر 2023 — شائع شدہ از: 31 جنوری 2021
  4. "I am a fan of Noor Jehan, says Lata Mangeshkar"۔ IWMBuzz۔ 10 November 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2021