ابو عبد الرحمن سلمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو عبد الرحمن سلمی
(عربی میں: أبو عبد الرحمن السلمي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 24 اپریل 937ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیشاپور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 11 نومبر 1021ء (84 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیشاپور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت سامانیہ (24 اپریل 937–)
سلطنت غزنویہ (–11 نومبر 1021)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاد ابوبکر القفال الشاشی ،  دارقطنی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نمایاں شاگرد احمد بن محمد ثعلبی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  الٰہیات دان ،  محدث ،  مفسر قرآن ،  مرشد ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تصوف ،  تفسیر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں طبقات الصوفیہ   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو عبد الرحمن السلمی تفسیر اور تصوف کے بڑے امام تھے

ولادت[ترمیم]

ابو عبد الرحمن سلمی بروز منگل، 10 جمادی الآخرہ 325ھ مطابق 52 اپریل 937ء کو نیشا پور میں پیدا ہوئے۔ پورا نام محمد بن الحسین بن محمد بن موسیٰ، ابو عبد الرحمن السلمی، الازدی تھا۔ ان کے والد بہت امیر نہ تھے۔ لیکن بیٹے کی ولادت کی خوشی میں انھوں نے اپنا تمام اثاثہ بیچ کر صدقہ کر دیا۔[3]

تعلیم و تربیت[ترمیم]

ابو عبد الرحمن السلمی کا گھریلو ماحول علمی و دینی تھا۔ چنانچہ بالکل ابتدا میں ہی ان کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہو گیا۔ ابو عبد الرحمن کے نانا ابو عمرو بن نجید بڑے عالم اور صوفی تھے۔ انھوں نے ہی ابو عبد الرحمن کی پرورش کی تھی۔ اس لیے باپ کی نسبت الازدی کے مقابلے میں نانا کی نسبت السلمی سے زیادہ مشہور ہوئے۔ جب ان کی عمر صرف 7 یا 8 سال تھی اس وقت سے انھوں نے حدیث لکھنی شروع کی۔ نیشا پور کے جید عالم ابو بکر الضبعی کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا اور یہاں سے تعلیم کی تکمیل کے بعد بلاد اسلامیہ کا سفر کیا اور عراق، بغداد، رے، ہمدان، مرو، حجاز وغیرہ کے مشائخ سے حدیث، فقہ اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ خطیب نے بغداد کے متعدد اسفار کا تذکرہ کیا ہے۔ [4]

اساتذہ[ترمیم]

سلمیٰ نے بلاد اسلامیہ کے اپنے علمی سفر میں بے شمار علما ءسے استفادہ کیا۔ خاص طور پر تصوف اور حدیث کے ائمہ سے انھوں نے زیادہ استفادہ کیا۔ ان کے اساتذہ میں سب سے مشہور شخصیت امام دارقطنی کی ہے۔ جو حدیث کے جلیل القدر امام تھے۔ السلمی نے ان سے طویل عرصے تک استفادہ کیا، اس لیے اس کا نام ہی ’کتاب السوالات‘ ہے۔ دارقطنی کے علاوہ ابو نصر السّراج جن کی کتاب اللمع فی التصوف تصوف کی سب سے پہلی باضابطہ تصنیف مانی جاتی ہے، وہ بھی ان کے اساتذہ میں ہیں۔ ان کے علاوہ ابو القاسم النصر آبادی احمد بن علی بن شاذان ابن حسنویہ،حلیۃ الاولیاءکے مصنف ابو نعیم اصفہانی، ابو بکر القفال شاشی، ابو عبد اللہ محمد بن یعقوب الشیبانی اور بہت فن سے اساتذہ سے انھوں نے اکتساب فیض کیا۔ السلمیٰ نے ابو القاسم نصر آبادی کے ساتھ بہت وقت گزارا۔ سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہے۔ انھوں نے ابو القاسم کے بارے میں لکھا ہے کہ جب بھی ہم کسی نئے شہر میں پہنچتے تو ابو القاسم مجھ سے کہتے چلو یہاں چل کر حدیث سنتے ہیں [5]

تلامذہ[ترمیم]

السلمی کے تلامذہ کی تعداد بھی بہت ہے ان کے بعض تلامذہ کو تو شہرت لازوال حاصل ہوئی۔ وہ اپنے اپنے علم و فن کے میدان میں امام تسلیم کیے گئے۔ ان کے تلامذہ میں حدیث کے مشہور امام امام بیہقی بھی ہیں۔ ان کے علاوہ تصوف کے امام امام ابو القاسم عبد الکریم بن ہوازن القشیری بھی ان کے شاگرد ہیں۔ امام ابوالمعالی جوینی نیشا پوری بھی ان کے شاگرد ہیں۔ تصوف کے جلیل القدر امام شاہ ابو سعید ابوالخیر بھی ان کے شاگرد ہیں۔ مستدرک علی الصحجین کے مصنف امام حاکم اصلاً تو ان کے ساتھی ہیں،لیکن تاریخ نیشا پور میں انھوں نے السلمی سے روایات لی ہیں۔ اس لیے ان کو بھی ان کے تلامذہ میں شمار کیا جاتا ہے۔

معاصرین کی رائے[ترمیم]

سلمی کے بارے میں ان کے معاصرین اور تلامذہ نے جو کچھ لکھا ہے اس سے ان کے علمی مقام اور مرتبے کا اندازہ ہوتا ہے۔ السلمی کے ایک معاصر اور استاد اور اپنے وقت کے جید عالم ابو نعیم اصفہانی نے ان کے بارے میں لکھا ہے : ”سلمیٰ ان لوگوں میں سے تھے جن کو صوفیہ کے مذہب میں کامل درک حاصل تھا اور انھوں نے تصوف کو اسلاف اولین کے اقوال کی روشنی میں بیان کیا۔ ان کے طریقے کا اتباع کیا اور ان کے آثار و کتب سے وابستہ رہے جاہل اور نفس پرست صوفیہ نے تصوف میں جو اضافہ کیے ہیں وہ ان سے دور تھے اور ان پر تنقید بھی کرتے تھے۔ اس لیے کہ ان کی نظر میں تصوف کی حقیقت اتباع رسول ﷺمیں مضمر تھی۔ “ [6] خطیب بغدادی نے لکھا ہے : ”ابو عبد الرحمن کا مقام و مرتبہ ان کے اہل شہر میں بہت بلند تھا اور صوفیہ کے درمیان ان کی بڑی حیثیت تھی۔ ساتھ ہی وہ حدیث کے بھی عالم تھے۔ انھوں نے مشائخ حدیث سے روایات جمع کیں اور کتابیں لکھیں۔ نیشا پور میں ان کا ایک دائرہ [خانقاہ] اب بھی ہے جس میں صوفیہ رہتے ہیں، میں خود وہاں گیاتھا اسی دائرہ میں ان کی قبر ہے میں نے قبر کی زیارت بھی کی۔

تصنیفات[ترمیم]

ابو عبد الرحمن سلمی نے تفسیر، تصوف اور اسماءالرجال میں متعدد کتابیں لکھیں۔

  • 1- حقائق التفسیر
  • 2- طبقات الصوفیہ: یہ تصوف کی اہم ترین کتابوں میں سے ہے۔ شیخ الاسلام عبد اللہ انصاری نے اس کا آزاد فارسی ترجمہ اور اس پر اضافے کیے ہیں
  • 3- مناہج العارفین۔ یہی کتاب سلوک مناہج العارفین کے نام سے بھی ملتی ہے۔
  • 4- جوامع آداب الصوفیہ۔
  • 5- عیوب النفس ۔
  • 6- رسالہ الملامتیہ
  • 7- درجات المعاملات
  • 8- آداب الصحبۃ و حسن العشیرة
  • 9- آداب الفقر و شرائطہ
  • 10- الفرق بین علم الشریعہ والحقیقہ
  • 11- مسالا درجات الصالحین
  • 12- غلطات الصوفیہ
  • 13- بیان زلل الفقراءو مواجب آدابھم
  • 14- کتاب الفتوة
  • 15- سلوک العارفین
  • 16- مقدمہ فی التصوف
  • 17- بیان احوال الصوفیہ
  • 18- تہذیب الناسخ والمنسوخ فی القرآن لابن شہاب زہری
  • 19- الاربعون فی اخلاق الصوفیہ
  • 20- مسائل وردت من مکہ
  • 21- وصیت
  • 22- آداب الصوفیہ
  • 23- کتاب السماع
  • 24- حدیث السلمی
  • 25- سوالات للدارقطنی عن احوال المشائخ والرواة
  • 26- مقامات الاولیاء
  • 27- الرد علی اہل الکلام
  • 28- الفرق بین الشریعہ والحقیقہ
  • 29- الفتوة

وفات[ترمیم]

ابو عبد الرحمن السلمی کی وفات اتوار کے دن 3 شعبان 412ھ، 1012ء میں ہوئی۔ [7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب Babelio author ID: https://www.babelio.com/auteur/wd/47623 — بنام: Muhammad ibn al-Husayn Sulami — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. ^ ا ب بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb12133338g — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. نفحات الانس عبد الرحمن جامی
  4. تاریخ بغدادص 2/ 24
  5. سیر اعلام النبلا17/249
  6. ابو نعیم اصفہانی:حلیۃ الاولیاءدار الفکر بیروت
  7. تاریخ بغداد، ص 443