حدیث منزلت
حدیث منزلت (عربی: حدیث المنزلہ) اہل سنت اور اہل تشیع میں مستند ترین حدیث شمار کی جاتی ہے جو علی بن ابی طالب کی فضیلت پر دلیل سمجھی جاتی ہے۔ اِس حدیث کو اہل سنت اور اہل تشیع کے سبھی علمائے محدثین نے اپنی اپنی کتب میں ثقہ راویوں کی بابت نقل کرتے ہوئے درج کیا ہے۔ شیعی علماء اِس حدیث کو حدیث متواتر کہتے ہیں۔
بسلسلہ مضامین |
علی بن ابی طالب (امیر المؤمنین) |
---|
متعلقہ مضامین |
متن حدیث
[ترمیم]حدیث منزلت کا پس منظر یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تو انھوں نے علی بن ابی طالب کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بنایا اور اُن کی فضیلت میں یہ الفاظ اداء فرمائے:
- أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکونَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ، مِنْ مُوسیٰ (کیا تم اِس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرے ساتھ تمھاری وہی نسبت ہو ہارون کو موسیٰ سے تھی)۔[1][2][3][4][5][6][7]
- صحیح مسلم میں حدیث کی عبارت کچھ یوں ہے: أَنْتَ مِنِّي بمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِن مُوسَى، إِلَّا أنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْدِي (تمھیں یہ پسند نہیں کہ تمھارا میرے ساتھ وہی مقام ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے)۔[8]
- احمد بن حنبل نے عبد اللہ بن عاس سے مروی ایک طویل حدیث میں آخر پر چند الفاظ کے اِضافے کے ساتھ یوں بیان کیا ہے کہ: ’’إنَّه لا ينبغي أن أذهَبَ إلَّا وأنتَ خليفتي‘‘ (تجھے اپنا نائب بنائے بغیر میرا کُوچ کرنا مناسب نہیں)۔[9]
زید بن ارقم (جن سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے) نے اِس بات کا اِضافہ بھی کیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بنایا تو کچھ لوگوں کو گمان ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی بن ابی طالب سے ناراض ہیں (یعنی غزوہ تبوک میں اپنے ساتھ لے کر نہیں جا رہے)۔ جب یہ خبر علی بن ابی طالب تک پہنچی تو انھوں نے اِس مسئلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دریافت کیا تو آپ نے جواباً یہ قول (یعنی حدیث ہٰذا) ارشاد فرمایا۔ اِس واقعہ کو ابن حجر ہیتمی نے نقل کیا ہے۔[10]
اہل سنت کے علما کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔ بخاری اور مسلم ، ترمذی، نسائی، امام ابن ماجہ، امام ابن حبان، ابو یعلیٰ موصلی نے اِس روایت کو سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے۔[1][2][3][4]
- ابن ابی الحدید معتزلی کا قول ہے کہ یہ حدیث تمام اِسلامی فرقوں اور مکاتب کے ہاں متفق علیہ حدیث ہے[11]
- علامہ ابن عبدالبر نے اِس حدیث کو نقل کرنے والی تمام اسناد اور روایات کو صحیح ترین اور مستحکم قرار دیا ہے۔[12]
- امام ترمذی نے اِس حدیث کو حدیثِ حَسَن قرار دیا ہے۔[6]
- حاکم نیشاپوری نے اِس حدیث کی اسناد و طُرق کو صحیح قرار دیا ہے[13] اور مؤرخ اسلام علامہ شمس الدین الذہبی نے تلخیص المستدرک میں اِس کی صحت پر تاکید کی ہے۔
- مؤرخ بغداد خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ ولید بن عبد الملک نے بھی اِس حدیث کو اُصولی طور پر قبول کیا لیکن اپنے اسلاف کی روایت کو قائم کرتے ہوئے لفظی تحریف کا ارتکاب کیا۔[14]
- مامون الرشید نے علما کے ساتھ بحث و مباحثہ میں اِس حدیث سے استناد کیا ہے۔
- خطیب بغدادی نے اِس حدیث کی رُو سے علی بن ابی طالب کے خلاف دشنام طرازی کرنے والے شخص کو منافق گردانا ہے۔[15]
- معاویہ بن ابو سفیان نے بھی اِس حدیث کا اِنکار نہیں کیا ہے اور جب سعد بن ابی وقاص سے پوچھا گیا کہ آپ علی بن ابی طالب پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے؟ تو انھوں نے جواباً اِس حدیث کو دہرایا۔[16][17][18]
- حاکم حسکانی نے اپنے شیخ ابو حازم حافظ العبدوی سے اِس حدیث کو نقل کیا ہے جنھوں نے اِس کو پانچ ہزار سندوں سے روایت کیا ہے۔[19]
- اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ (متوفی 235ھ) نے اپنی کتاب المُصَنَّف میں نقل کیا ہے۔[20]
- اِس حدیث کو مؤرخ دمشق ابن عساکر دمشقی (متوفی 571ھ) نے اپنی کتاب تاریخ دمشق میں نقل کیا ہے۔[21]
- ابن تیمیہ، شیخ عبد الحق محدثِ دہلوی اور امام جلال الدین السیوطی نے بھی اِس کی صحت و شہرت پر اِسے صحیح ترین قرار دیا ہے۔
علمائے تشیع کی اسنادِ روایت
[ترمیم]شیعی علماء اِس حدیث کو حدیث متواتر کہتے ہیں۔ شیعی علمائے محدثین نے اِس حدیث کو کثرت سے روایت کیا ہے۔ اولاً شیعی کتبِ حدیث میں یہ حدیث ابوجعفر محمد بن یعقوب الکُلَینِی (متوفی 941ء) کی کتاب الکافی میں ملتی ہے۔[22] متعدد علمائے شیعہ نے اِس حدیث کو مستقل کتب و تالیفات کا موضوع قرار دیا ہے جیسے کہ میر حامد حسین (متوفی 1306ھ نے اپنے مجموعہ عبقات الانوار کی ایک جلد کو اِس حدیث کے لیے مختص کیا ہے۔ دوسری نقل کردہ روایت کے مطابق مشہور ترین راویوں میں سے 88 راویوں نے اِس حدیث کو نقل کیا ہے۔ شیخ گنجی الشافعی، ابو القاسم علی بن محسن تنوخی بھی اِسے حدیث صحیحہ کہتے ہیں۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]- حدیث اثناعشر خلیفہ
- سامری
- حدیث غدیر
- حدیث ثقلین
- سقیفہ بنی ساعدہ
- عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب فضائل الصحابہ: باب مناقب علی بن ابی طالب، جلد 3، صفحہ 1359، رقم الحدیث 3503۔
- ^ ا ب ابن ماجہ: سنن ابن ماجہ، مقدمہ، باب فضائل الصحابہ، فضل علی بن ابی طالب، جلد 1، صفحہ 42۔ رقم الحدیث 115۔
- ^ ا ب ابن حبان: صحیح ابن حبان، جلد 15، صفحہ 369، رقم الحدیث 6926۔
- ^ ا ب ابویعلیٰ الموصلی: مسند ابویعلیٰ، جلد 2، صفحہ 73۔ رقم الحدیث 718۔
- ↑ امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی، جلد 4، صفحہ 1871، رقم 2404۔
- ^ ا ب امام نسائی: سنن الکبریٰ للنسائی، جلد 5، صفحہ 44، رقم 8139۔
- ↑ امام طبرانی: المعجم الأوسط، جلد 3، صفحہ 139، رقم 2728۔
- ↑ صحيح مسلم: كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب 4 /1870، ح2404
- ↑ امام احمد بن حنبل: مسند احمد بن حنبل، جلد 1، صفحہ 330۔ رقم 3062۔
- ↑ ابن حجر ہیتمی: مجمع الزوائد و منبع الفوائدم جلد9، صفحہ111 ۔
- ↑ ابن ابی الحدید: شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد 13، صفحہ 211، مطبوعہ قاہرہ، 1385ھ۔
- ↑ علامہ ابن عبدالبر: الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد 3، صفحہ 1097۔ مطبوعہ بیروت، 1412ھ مطابق 1992ء۔
- ↑ امام حاکم: المستدرک حاکم، جلد 3، صفحہ 134، مطبوعہ بیروت
- ↑ خطیب بغدادی: تاریخ مدینۃ السلام المعروف بہ تاریخ بغداد، جلد 8، صفحہ 262۔
- ↑ خطیب بغدادی: تاریخ مدینۃ السلام المعروف بہ تاریخ بغداد، جلد 8، صفحہ 498۔
- ↑ ابن الاثیر الجزری: اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، جلد 4، صفحہ104/105۔
- ↑ مفتیٔ اعظم الحافظ سلیمان بن ابراہیم قندوزی: ینابع المؤدہ لذوی القربیٰ، جلد 1، صفحہ161۔ مطبوعہ قم ، 1416ھ
- ↑ عبدالحسین شرف الدین: المراجعات، صفحہ 132/133، مطبوعہ قم، 1416ھ
- ↑ حاکم حسکانی: شواہد التنزیل، جلد 1، صفحہ195۔
- ↑ امام ابن ابی شیبہ: المُصَنَّف، جلد 6، صفحہ 366۔ رقم 32078۔
- ↑ علامہ ابن عساکر الدمشقی: تاریخ دمشق، جلد 42، صفحہ 116۔
- ↑ ابو جعفر محمد بن یعقوب الکُلَینِی: کتاب الکافی، جلد 8، صفحہ 106/107۔