شعائر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

170PX

بسلسلہ مضامین:
اسلام

شعائر۔ شعیرۃ۔ کی جمع ہے شعیرۃ بروزن فعیلۃ بمعنی مفعلۃ ہے مشعرۃ کے معنی نشانی کے ہیں۔ شعائر اللہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اللہ کی نشانیاں۔ شعائر اللہ۔ عرف شریعت میں عبادات کے مکانات اور زمانوں اور علامات کو کہتے ہیں۔ مکانات عبادت جیسے کعبہ۔ عرفہ، مزدلفہ، جمرات ثلاث صفا مروہ۔ منی و جمیع مساجد وغیرہ۔ زمانے (اوقات) جیسے رمضان اور اشہر حج۔ عیدین۔ جمعہ اور علامات جیسے اذان، اقامت، نماز باجماعت وغیرہ۔[1] شعائر شعیرۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہے علامت۔ اصطلاح شریعت میں دین اللہ کی تمام علامات شعائر کہلاتی ہیں۔ جیسے نماز، روزہ، زکوۃ، حج، اذان، اقامت اور جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ۔

شعائر اللہ کی حقیقت[ترمیم]

شعائرجس کے معنی علامت یاکسی ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو کسی حقیقت کا احساس دلانے والی اس کا مظہر اور اس کا نشان ہو۔ چنانچہ ہمارے دین میں جن چیزوں کو شعائر اللہ کہا گیا ہے اگر آپ ان کی حیثیت، حقیقت اور تاریخ پر غور کریں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ وہ واقعی اللہ کی یاد دلانے والی، اللہ کاشوق پیدا کرنے والی، اس کے دین کی طرف مائل کرنے والی اور اس کے راستے میں سرفروشی کا جذبہ پیدا کرنے والی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ یہ چیزیں مقصودِباالذات نہیں ہیں کیونکہ مقصود بالذات تو وہ حقائق ہیں جو ان کے اندر مضمر ہوتے ہیں۔ لیکن ان چیزوں کو شعائر کی حیثیت چونکہ اللہ کی طرف سے عطا ہوئی ہے اس لیے ان کو ایک احترام اور تقدیس کا درجہ مل گیا ہے اور مسلمانوں کے لیے ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔[2]

شعائر کی تعظیم[ترمیم]

حضرت الامام شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ حصہ اول باب 7 (شعائر اللہ کی تعظیم واحترام) میں فرماتے ہیں:۔ ’’ شعائر الہیہ سے ہماری مراد وہ ظاہری ومحسوس امور اور اشیاء ہیں جن کا تقرر اسی لیے ہوا ہے کہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔ ان امورواشیاء کو خدا کی ذات سے ایسی مخصوص نسبت ہے کہ ان کی عظمت وحرمت کو لوگ خود اللہ تعالیٰ کی عظمت وحرمت سمجھتے ہیں۔ اور ان کے متعلق کسی قسم کی کوتاہی کو ذات الٰہی کے متعلق کوتاہی سمجھتے ہیں‘‘۔ پھر آگے چل کر فرماتے ہیں:۔ بڑے بڑے شعار الٰہیہ چار ہیں! قرآن حکیم۔ کعبۃ اللہ۔ نبی کریم ﷺ۔ نماز۔ قرآن حکیم میں ہے:۔ ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ (2:158) بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اور والبدن جعلنھا لکم من شعائر اللہ (22:36) اور قربانی کے فربہ جانوروں کو ہم نے تمھارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے۔ شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر فتح العزیز میں۔ کعبہ، عرفہ، مزدلفہ جمار ثلاثہ، صفا، مروہ، منیٰ، جمیع مساجد، ماہ رمضان، اشہر حرم، عید الفطر، عید النحر ایام تشریق۔ جمعہ، اذان، اقامت، نماز جماعت، نماز عیدین۔ سب کو شعائر اللہ میں سے گردانتے ہیں۔[3]

بیت اللہ[ترمیم]

’’ بیت اللہ‘‘ اللہ کے شعائر میں سے شائد سب سے بڑا شعیرہ ہے۔ مقصود اس کی عبادت کرنا نہیں بلکہ عبادت تو اللہ کی جاتی ہے، لیکن چونکہ یہ گھر اللہ کے ساتھ نسبت خاص رکھنے اور مرکز عبادت ہونے کی وجہ سے ایک خاص حیثیت کا مالک ہے۔ اس لیے اس کی تقدیس اور اس کا احترام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ بن گیا ہے۔ ہم جب بھی اسے دیکھتے ہیں تو جہاں اس کے سامنے سر جھکاتے ہیں وہیں اس کے احترام اور اس کی مرکزیت میں اضافے کے لیے اللہ ہی سے دعائیں مانگتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک مکان ہے، نہایت سادہ، نہایت پروقار، لیکن اس ایک کوٹھے نے دنیائے اسلام کو ایک جہت، ایک مرکزیت، ایک منزل اور ایک شعور میں پرو رکھا ہے۔ ہرسال لاکھوں لوگوں کے دل اس کی وجہ سے اللہ کی محبت سے سرشار ہوتے اور اپنی ذات کی معرفت سے آشنا ہوتے ہیں۔ دنیا کو مختلف طبقوں اور مختلف فرقوں میں بٹی ہوئی اس امت کو ایک جگہ اور ایک رنگ میں دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہی اس گھر کا وہ حقیقی کردار ہے، جس نے اسے اللہ کے شعائر میں ایک اہم حیثیت کا حامل بنادیا ہے۔

حجر اسود[ترمیم]

’’ حجرِ اسود‘‘ بھی ایک شعیرہ ہے، جو بیت اللہ کے ایک کونے میں پیوست ہے۔ اسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھوں سے نصب کیا تھا۔ حدیث میں اسے اللہ کا دایاں ہاتھ قرار دیا گیا ہے۔ بندہ جب اسے ہاتھ لگاتا ہے تو وہ گویا اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے میثاقِ اطاعت کی تجدید کرتا ہے اور اپنے اس تعلق کو ازسر نو استوار کرتا ہے اور جب اسے بوسہ دیتا ہے تو وہ اس طرح سے اللہ سے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتا ہے۔ یہ جذبۂ اطاعت و بندگی اور عقیدت ومحبت جو اس پاکیزہ پتھر سے شعاؤوں کی طرح پھوٹتی ہے، اسی نے اس کو اللہ کا شعیرہ بنادیا ہے۔

جمرات[ترمیم]

حجاجِ کرام دس تاریخ کو پتھر کے جن تین ستونوں کو باری باری کنکر مارتے ہیں ان کو ’’ جمرات‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بھی شعائر اللہ میں سے ہیں کیونکہ ایک حاجی جب ان پر پتھر برساتا ہے، تو وہ درحقیقت ان پر نہیں برساتا بلکہ اللہ، بیت اللہ اور اسلام کے دشمنوں پر برساتا ہے اور ان کے خلاف مقدور بھر اعلانِ جہاد کرتا ہے اور اپنے عمل سے یہ تأثر دیتا ہے کہ میں جب اپنے ملک واپس جاؤ ں گا، تو میں اسی جذبے کے تحت ہر لادینی قوت سے لڑوں گا۔

صفا ومروہ[ترمیم]

’’ صفا اور مروہ‘‘ بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ ان کی سرفروشی کی تاریخ ایک ہی ذات سے شروع ہوتی ہے اور اسی ذات سے معراج کو پہنچتی ہے۔ لیکن اس ذات کاسررشتہ کبھی ماں کے ہاتھ میں ہے کبھی باپ کے ہاتھ میں تاکہ یہ معلوم ہو کہ ان دونوں شعائر سے ہمیں سرفروشی اور بندگی کا جو درس ملتا ہے وہ مرد اور عورت دونوں سے مل کر مکمل ہوتا ہے اور وہ دونوں اگر ایک ہی جہت اور ایک ہی تسلسل سے اپنا فرض انجام دیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں سرفروشی کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جب اپنے نوزائیدہ بچے اسمعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو ایک بے آب وگیاہ وادی میں اللہ کے سہارے چھوڑ آئے تو حضرت ہاجرہ نے بیٹے کو ریت پر لٹا کر ان دو پہاڑیوں پر چڑھ کر اور پھر ان دونوں کے درمیان بھاگ کر یہ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی کہ شائد ہمیں کوئی گزرتا ہوا قافلہ نظر آجائے یا کسی چشمے کا سراغ مل جائے او اس طرح سے اس بے آب وگیاہ وادی میں ماں بیٹے کی زندگی گزرنے کی سہولت پیدا ہو جائے۔ اللہ نے ماں کی اس دوڑ بھاگ کو قبول فرمایا اور بیٹے کے ایڑیاں رگڑنے کی جگہ سے وہ چشمہ جاری فرمایا جو چار ہزار سال سے زیادہ عرصہ گذر گیا، لیکن آج بھی پہلے دن کی طرح پانی سے بھرپور ہے۔ پھر ایک وقت آیا جب یہ بچہ دوڑنے بھاگنے کے قابل ہوا، تو باپ نے اللہ کے حکم سے اسی مروہ کے پاس اسے ذبح کرنے کی کوشش فرمائی۔ لیکن اللہ نے ہاتھ روکنے کا حکم دیا اور اس قربانی کو اس قربانی کی صورت دے دی جو آج ہم سال بہ سال عیدالاضحی کے موقع پر اللہ کے حضور جانوروں کی کرتے ہیں۔ اندازہ فرمائیے ! یہی وہ پہاڑیاں ہیں جن سے امت مسلمہ کی خواتین ہاجرہ کی سعی وکاوش کا منظر دیکھتی ہیں اور اپنے سینوں کو بندگی اور عبودیت کے جذبوں سے سیراب کرتی ہیں اور یہی وہ پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان بوڑھا باپ نو عمر بچے کو ساتھ لیے مقتل کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ کارنامہ انجام دینے کی فکر میں ہے جس کی مثال انسانوں کی تاریخ میں نہیں ملتی اور آج ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرتا ہوا ہرباپ اپنے دل ودماغ میں ایسے ہی جذبوں کو محسوس کرتا ہے جس میں بچوں کی قربانی کے نتیجے میں اسلام کی فصل لہلہاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ پسرِ خلیل کی سیکھ ادا جو ہے زندہ رہنے کی آرزو کہ چھری رکے تو رکے مگر نہ سرکنے پائے ترا گلا

شعائر کے بارے چندباتیں[ترمیم]

ان شعائر کے سلسلے میں چند باتیں ضرور ذہن نشین رہنی چاہئیں : 1 شعائر اللہ، اللہ اور اس کے رسول کے مقر رکیے ہوئے ہیں۔ اللہ اور رسول کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی طرف سے کسی چیز کو شعائر اللہ میں شامل کرے۔ نہ کسی چیز کو شعائر اللہ میں شامل کیا جا سکتا ہے نہ خارج کیا جا سکتا ہے۔ ادب واحترام اپنی جگہ لیکن وہ مقام ومرتبہ جو اللہ نے شعائر اللہ کو عطا کیا ہے وہ کسی کے عطا کرنے سے کسی کو نہیں مل سکتا۔ جو ایسا کرے گا وہ ایک بہت بڑی گمراہی کے لیے راستہ کھولے گا اور اللہ کے سامنے اسے جوابدہی کرنا پڑے گی۔ 2 جس طرح شعائر اللہ کا تقرر اللہ اور رسول کا اختیا رہے اسی طرح ان کے ادب واحترام کی حدود بھی اللہ اور رسول ہی کی مقرر کی ہوئی ہیں چنانچہ جس شعیرہ کا احترام اور اس کی تعظیم کی جو شکل اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کردی ہے، ہم اس سے سرمو انحراف نہیں کرسکتے۔ مثلاً حجرِ اسود ایک شعیرہ ہے۔ ہمیں اس کے لیے حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کی تعظیم کے لیے، طواف کرتے ہوئے اس کو بوسہ دیں، اسے ہاتھ لگا کر چومیں یا دور سے اس کی طرف اشارہ کریں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی طرف سے تعظیم کے ان طریقوں میں اضافہ کرتا ہے، مثلاً وہ حجرِ اسود کے سامنے گھٹنے ٹیکتا ہے، اس کو سجدہ کرتا ہے، اس کے سامنے نذریں پیش کرتا ہے یا اس پر پھول چڑھانے لگتا ہے یا اس طرح کی کوئی اور حرکت کرتا ہے تو وہ اس طرح کی حرکتوں سے نہ صرف کہ حجرِ اسود کی تعظیم کا حق ادا نہیں کرسکے گابلکہ وہ اللہ کے سامنے ان گمراہیوں کے لیے جوابدہ ہوگا۔ حضرت عمر فاروق ( رض) نے شائد اسی حکمت کے تحت اپنے دور خلافت میں حجرِ اسود کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا :’’ اے حجرِ اسود ! تو صرف ایک سیاہ پتھر ہے تو مجھے نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر تجھے اللہ کے رسول نے نہ چوما ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا‘‘۔ 3 شعائر اللہ کی تعظیم اور احترام کے ساتھ ساتھ جو اصل چیز پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ یہ شعائر تو علامتیں ہیں کسی خاص حقیقت کی اور ان حقائق کے لیے ان کی حیثیت صرف قالب کی ہے۔ اس لیے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ ان کا احترام بجا لاتے ہوئے اصل حقائق کو دل ودماغ میں بسانے اور راسخ کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اس میں اگر تساہل برتاجائے تو دین ایک مجموعۂ رسوم بن کررہ جائے گا اور دین کی اصل روح زندگیوں سے نکل جائے گی۔[2]

شعائر کا حکم[ترمیم]

تمام مسلمانوں پر شعائر کی تعظیم، اقامت و اظہار واجب ہے۔ اگر کسی ملک، شہر یا بستی والے مجموعی طور پر کسی شعائر کو-خواہ اس پر عمل کرنا فرض ہو یا سنت مؤکدہ- ترک کرنے پر متفق ہو جائیں تو ان سے قتال ضروری ہے۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد1 صفحہ124 ،علی محمد، سورۃ البقرہ،158،مکتبہ سید احمد شہید لاہور
  2. ^ ا ب تفسیر روح القرآن،ڈاکٹرمحمد ا سلم صدیقی،سورۃ البقرہ 158
  3. انوار البیان،محمد علی ،سورۃ الحج:32
  4. أسنى المطالب 4 / 174، روضة الطالبين 10 / 217، بدائع الصنائع 1 / 232 و 7 / 98، كشاف القناع 1 / 232، نهاية المحتاج 2 / 36 ـ 37