عبداللہ بن عبدنہم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت عبد اللہ بن عبدنہم ؓ
معلومات شخصیت
لقب ذوالبجادین

حضرت عبد اللہ بن عبدنہم صحابی رسول تھے۔معمولی بیمار پڑ کر تبوک کے لشکر گاہ میں وفات پاگئے۔

نام ونسب[ترمیم]

عبد اللہ نام،ذوالبجادین لقب، نسب نامہ یہ ہے، عبد اللہ بن عبد نہم بن عفیف بن سحیم بن عدی بن ثعلبہ بن سعد بن عدی عثمان وغیرہ۔

اسلام[ترمیم]

باپ کا سایہ بچپن ہی میں سر سے اٹھ گیا،چچا نے بڑے لطف ومحبت سے پرورش کی ٹوٹے ہوئے دلوں میں قبولِ حق کا مادہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے عبد اللہ کا دل جس میں یتیمی نے بہت گداز پیدا کر دیا تھا، ہوش سنبھالتے ہی اسلام سے متاثر ہو گیا، چچا کافر تھے انھیں جب معلوم ہوا کہ بھتیجے نے محمد کا مذہب اختیار کر لیا،تو ساری شفقت ومحبت سرد مہری سے بدل گئی اور عبد اللہ سے کہا اگر تم نے محمد کا دین قبول کر لیا تو جو کچھ دیا لیا ہے،سب چھین لونگا ،مکہ جس دل میں ایمن کی دولت بھر چکی تھی وہ دنیوی مزخرفات کو کیا دھیان میں لاسکتا تھا،عبد اللہ نے کہا اگر ایسا ہے تو میں مسلمان ہوں ،یہ بے باکانہ جواب سن کر چچا نے جو کچھ دیا تھا، سب واپس لے لیا حتیٰ کہ بدن کے کپڑے تک اتر والئے، عبد اللہ اسی حالت میں ماں کے پاس پہنچے ماں کی مامتا سے اس حالت میں نہ دیکھا گیا، ایک چادر تھی، اس کے دو ٹکڑے کرکے عبد اللہ کے حوالہ کی،انھوں نے ایک کاتہ بند بنایا اورایک کی چادر، اعزہ اقربا سے ناتہ ٹوٹ چکا تھا، نماز فجر کے وقت مسجد نبوی میں پہنچے اور آنحضرتﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، نماز کے بعد حسب معمول رسول اللہ ﷺ سب سے مصافحہ کرنے اورآنے والوں پر نظریں دوڑانے لگے،عبد اللہ پر نظر پڑی، پوچھا تم کون ہو؟ عرض کی عبدالعزیٰ ،فرمایا تم عبد اللہ ذوالجادین (دو چادروں والے) ہو تم میرے دروازہ پر رہا کرو، آستانہؓ نبویﷺ کی دربانی سے بڑھ کر کیاشرف ہو سکتا ہے؛چنانچہ عبد اللہ بابِ نبویﷺ پر رہنے لگے اور جب تک زندہ رہے اس در کے دربانی نہ چھوٹی۔ [1]

وفات[ترمیم]

9ھ میں آنحضرتﷺ کے ساتھ غزوۂ تبوک میں گئے،وقت آخر ہو چکا تھا،معمولی بیمار پڑ کر تبوک کے لشکر گاہ میں وفات پاگئے،خود آقائے نامدار ﷺ نے صدیق اکبرؓ اور فاروقؓ اعظم کے ساتھ مل کر رات کی تاریکی میں مشعل جلا کر قبر کھودی اوراپنے دستِ مبارک سے عبد اللہ کی لاش قبر میں اتار کر دعافرمائی، خدایا میں اس سے راضی تھا تو بھی رضا مندی ظاہر فرما، غرض آستان نبوی کا یہ دربان اس قابلِ رشک طریقہ پر سرکارِ دو عالمﷺ کے ہاتھوں پیوندِ خاک ہوا، اس واقعہ کے راوی حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے عبد اللہ کی موت پر اتنا رشک آیا کہ دل نے کہا کاش ان کی بجائے میں مرا ہوتا۔ [2]

عبادت[ترمیم]

عبد اللہ کا دل سوزِ ایمان اورگدازِ قلب سے پھکا جاتا تھا، اورآستان نبویﷺ ان کی پرسوز تہلیل و تسبیح اور تلاوتِ قرآن سے گونجا کرتا تھا، ایک دن حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ !یہ ریا کار معلوم ہوتا ہے، فرمایا، نہیں وہ سوزِ قلب رکھنے والوں میں ہیں۔ [3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (اسد الغابہ:3/123)
  2. (سیرۃ ابن ہشام:3/325)
  3. (اسد الغابہ:3/33)