عامر بن اکوع

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عامر بن اکوع
معلومات شخصیت
وفات مارچ628ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خیبر   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ خیبر   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عامر بن اکوع یہ صحابی رسول ،شاعر دربار رسالت تھے ۔

نام ونسب[ترمیم]

عامر نام،باپ کا نام سنان ہے،دادا کی نسبت سے عامر بن اکوع مشہور ہوئے نسب نامہ یہ ہے:عامر بن سنان بن اکوع بن عبد اللہ بن قشیر بن خزیمہ بن مالک بن سلامان بن اسلم اسلمی۔

اسلام[ترمیم]

ان کے اسلام کا زمانہ متعین طور سے نہیں بتایا جا سکتا، مگر اس قدر معلوم ہے کہ خیبر سے پہلے مشرف باسلام ہو چکے تھے، اوراس میں وہ آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے،عامر خوش گلو تھے کسی نے حُدی سنانے کی فرمایش کی،یہ سواری سے اتر کر سنانے لگے۔

  • اللھم لولاانت ما اھتدینا لا تصدقنا ولاصلینا
  • اے خدا اگر تو ہدایت نہ کرتا تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ ہم صدقہ کرتے نہ نماز پڑہتے
  • فاغفر فذالک ماابقینا وثبت الاقدام ان لاقینا
  • جب تک زندہ ہیں تجھ پر فدا ہوں،ہماری مغفرت فرما اورہم دشمنوں کے مقابلہ میں اٹھیں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔
  • والقین سکینۃ علینا افا اذا میح بنا اتینا
  • اورہم پر تسلی نازل کر جب ہم فریاد میں پکارے جاتے ہیں تو ہم پہنچ جاتے ہیں۔
  • وبالصیاح عولواعلینا
  • لوگوں نے پکار کر ہم سے استغاثہ چاہا ہے
  • آنحضرت ﷺ نے آواز سن کر پوچھا یہ سایق کون ہے، لوگوں نے کہا عامر بن اکوع فرمایا خدا ان پر رحم کرے یہ دعا سن کر کسی نے کہا، اب ان پر جنت واجب ہو گئی ،یا نبی اللہ ابھی ان کی بہادری سے فائدہ اٹھانے کا موقع کیوں نہ دیا گیا۔
  • (آنحضرتﷺ جسے رحمت کی دعا دیتے تھے وہ بہت جلد خلعت شہادت سے سرفراز ہوجاتا تھا،اس لیے کہنے والے (یہ عمر فاروق تھے) کو اس کا یقین ہو گیا کہ عامر اسی لڑائی میں شہید ہوجائیں گے اس لیے اس نے کہا کہ ہم کو ان کی بہادری سے استفادہ کا موقع کیوں نہ دیا گیا)[1]

شہادت[ترمیم]

غزوہ خیبر میں جب لڑائی کا آغاز ہوا تو عامر نے ایک یہودی کی پنڈلی پر تلوار کا وار کیا،تلوارچھوٹی تھی یہودی کو نہ لگی اورزور میں گھوم کر اس کا سر ا خود ان کے گھٹنے پر لگ گیا اس کے صدمہ سے وہ شہید ہو گئے، اس طرح کی موت پر لوگوں نے یہ غلط رائے قائم کی کہ یہ خودکشی ہے،اس لیے عامر کے تمام افعال برباد ہو گئے،غزوۂ خیبر سے واپسی کے بعد ایک دن آنحضرتﷺ عامر کے بھتیجے سلمہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے،سلمہ اس عام شہرت سے بہت متاثر تھے، آنحضرتﷺ نے پوچھا خیر ہے، عرض کیا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں لوگوں کا خیال ہے کہ عامر کے تمام اعمال باطل ہو گئے،فرمایا جو شخص ایسا کہتا ہے وہ جھوٹا ہے ان کو دوہرا اجر ملے گا۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اسد الغابہ ،مؤلف، عز الدين ابن الأثير ،ناشر: دار الفكر - بيروت
  2. الطبقات الكبرى ،مؤلف:ابن سعد ناشر: دار الكتب العلمیہ بيروت