مغیرہ ابن شعبہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مغیرہ بن شعبہ ثقفی
گورنرِ کوفہ (خلافت راشدہ)
عہدہ سنبھالا
642ء–645ء
حکمرانعمر بن خطاب (دور حکومت 634ء تا 644ء)
پیشروسعد بن ابی وقاص
جانشینسعد بن ابی وقاص
گورنر کوفہ (دولت امویہ)
عہدہ سنبھالا
661ء–671ء
حکمرانمعاویہ بن ابی سفیان
جانشینزیاد بن ابیہ
ذاتی تفصیلات
پیدائشلگ بھگ 600ء
وفات671ء
اولادعروہ
مطرف
حمزہ
والدینشعبہ بن ابی عامر

مغیرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ(20ق.ھ / 50ھ) کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی والدہ کا نام اسماء بنت الافقم تھا۔اور وہ نصر بن معاویہ کے قبیلے سے تھیں ۔ حضرت مغیرہ بن معاویہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ قبیلہ ثقیف کے مشہور سردار عروہ بن مسعود کے بھتیجے تھے ۔ طائف میں ہجرت سے کوئی بیس سال پہلے پیدا ہوئے اور وہیں آپ کی پرورش ہوئی ۔ مغیرہ مشہور بت لات کے مجاروں میں سے تھے ۔ انھوں نے قبول اسلام سے پہلے ثقیف کی ایک جماعت کے ساتھ مصر کا سفر بھی کیا تھا۔اور آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ غزوہ خندق میں اسلام قبول کیا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیعت رضوان میں شریک تھے ۔ اور وہاں تلوار لیے رسول اللہ صلَّی اللہُ علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی حفاظت کرنے کی سعادت بھی انھیں حاصل ہوئی ہیں۔اسی دوران ان کے چچا عروہ بن مسعود قریش کی طرف سے رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے ساتھ مذاکرات کرنے آئے تو بات بات میں وہ اپنا ہاتھ ان کی داڑھی مبارک تک لے جاتے تھے ۔ اور حضرت مغیرہ نے انھیں ہر بار روکا اور کہا کہ اپنے ہاتھ کو روکو ورنہ اس ہاتھ سے ہاتھ دھونا پڑے گے ۔ اس پر عروہ نے رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم سے پوچھا کہ یہ بدتمیز کون ہے ؟ تو آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے فرمایا : کہ یہ تمھارا بھتیجا مغیرا بن شعبہ ہے ۔ پھر جب عروہ واپس قریش کے پاس پہنچا تو اُن سے کہا " اے قریشیو ! میں بڑے بڑے بادشاہوں قیصروکسری اور نجاشی کے درباروں میں گیا ہوں مگر بخدا کہیں کسی کو اسی محبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا جائے محمد صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے ساتھی ان سے کرتے ہیں ۔ بلکہ یہ تو ان کے اشاروں پر مرتے ہیں ۔ وہ کبھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گے ۔ پس تم اپنی رائے اور فیصلہ پر نظر ثانی کرلو " ۔ عروہ بن مسعود کی رائے میں اور باتوں کے علاوہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بات کو بھی خاصا اثر تھا ۔ اس کے بعد تمام غزوات میں رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی کمان میں جہاد کرنے کا موقع ملا ۔ غزوہ حنین اور طائف میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ رسول صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے انھیں اور حضرت ابو سفیان کو طائف میں میں ثقیف کے مشہور بت لات کے ڈھا دینے پر مامور فرمایا تو انھوں نے اپنے نئے عقیدہ کی بنیاد سابقہ عقیدہ کے بت کو پاش پاش کر کے جلا دیا ۔ حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی کمان میں فتنہ ارتداد کی سرکوبی کے لیے جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کے خلاف نمایاں حصہ لیا ۔ اسی طرح ان کی ماتحتی میں عراق میں لڑی جانے والی تمام جنگوں میں شریک رہے اور پھر عراق سے شام کا رخ کیا تو یہ بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ اسی طرح جنگ یرموک میں بڑی بہادری کے ساتھ جنگ لڑتے ہوئے ان کی آنکھ اللہ کی راہ میں کام آئی ۔ پھر ملک شام کے معرکو میں بھی برابر کے شریک ہیں ۔ جنگ قادسیہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی کمان میں لڑے ، جنگ سے پہلے کسری اور اس کے کمانڈروں کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے مذاکرات کرنے بھی گئے تھے ، اسی طرح رستم سے بھی ان کے مذاکرات ہوئے ۔ ان کی مدبرانہ گفتگو کا مسلمانوں کے حوصلوں پر بڑا خوش گوار اثر ہواجبکہ دشمنوں کے حوصلے اس سے پست ہوئے ۔ اس جنگ میں مجاہدین اسلام کو جہاد پر ابھارتے رہے اور اللہ کی راہ میں ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار کیا ۔ پھر عتبہ بن غزوان کی قیادت میں بصری اور جنوبی عراق کی مہم میں شریک رہے۔اور جب عتبہ بن غزوان وہاں سے فریضہ حج کے لیے جانے لگے تو انھیں اپنا قائم مقام مقرر کیا اور جنوبی فرات کی مہم پر مجاشع بن مسعود کو آگے بھیجا ۔ مجاشع کو پہلے تو ایرانیوں پر غلبہ حاصل ہوا مگر ایک ایرانی قائد ایک بڑی تعداد میں فوج لے آیا تو اس کے مقابلے کے لیے بصرہ سے مغیرہ اپنی فوج لے کر نکلے ، سخت جنگ کے بعد اللّٰہ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے ۔ حجاز سے واپسی پر عتبہ کا راستہ میں ہی انتقال ہو گیا اور ان کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ان کی جگہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو بصرہ کا کا والی مقرر کیا ۔ حضرت مغیرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے نعمان بن مقرن کی قیادت میں میں سوق اور نہاوند کی جنگ میں میسرہ کی قیادت کرتے ہوئے نمایاں حصہ لیا ۔ 21ھ میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ انھیں کوفہ کا والی مقرر کیا ۔ اس دوران انھوں نے براءبن عازب کو قزین کی فتح پر مقرر کیا ، جو انھوں نے فتح کر لیا ۔22ھ ارجان بھی فتح کر لیا ۔ ان فتوحات کا سہرا بھی حضرت مغیرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے سر ہے ۔ حضرت مغیرہ بہترین قاری اور تجربہ کار کاتب تھے ۔ اس لیے رسول پاک صلَّی اللہُ علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے انھیں وحی کی کتابت پر مامور فرمایا تھا ۔ وہ فارسی زبان بھی جانتے تھے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور ہرمزان کے درمیان ترجمانی کا کام انھوں نے ہی سر انجام دیا تھا ۔ انھوں نے رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم سے 34 احادیث بھی روایت کی ہے۔آپ بہت بڑے معتبر اور سیاست دان تھے اس لیے انھیں مغیرو الرائے کہا جاتا تھا ۔ شعبی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ : عربوں میں چار مانے ہوئے مدبر سیاست دان ہوئے ہیں ۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رَضِیَ اللہُ عَنْہ حضرت عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ عَنْہ ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ ، زیاد اور معاویہ احتیاط اور صبر و تحمل میں۔حضرت عمر و بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مشکل کاموں کے حل کرنے میں ۔ حضرت مغیرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ ناگہانی مشکل کاموں میں اور زیادہ چھوٹے بڑے معاملات سلجھانے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے ۔ مصقلہ بن هبیرہ شیبانی کا کہنا ہے کہ : حضرت مغیرہ دوست کے لیے بہترین دوست اور دشمن کے حق میں بدترین دشمن تھے ۔ حضرت مغیرہ نے زیادہ تر ماتحتی میں جنگ لڑی اور ان میں کامیاب ہوئے اسی طرح جب اُنھوں نے خود کمان سنبھالی تو اپنے لوگوں کو بڑی عمدگی سے لڑایا ۔ اور کامیابیوں نے ہمیشہ ان کے قدم چومے ۔ میں ان کی عسکری زندگی پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کے عقائد اور ان کے ماتحت ہمیشہ ان سے خوش رہے ۔ بالکل آخری وقت میں کہنے : "اللھم ھذہ یمینی با یعت بھا نبیك و جاھدت بھا فی سبیلك " اے اللہ یہ میرا وہ دایاں ہاتھ ہے جس سے میں تیری نبی صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے ہاتھ پہ بیعت کی اور تیری راہ میں اس سے لڑتا رہا ۔ 50ھ میں کوفہ میں الثوبہ کے مقام پر طاعون سے 70 ستر سال کی عمر میں وفات پائی ۔ [1]

نام و نسب[ترمیم]

مغیرہ نام ، ابو عبد اللہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے، مغیرہ بن شعبہ بن ابی عامر بن مسعود بن معتب بن مالک بن کعب بن عمرو بن عوف بن قیس۔ [2]

قبول اسلام[ترمیم]

غزوۂ خندق کے سال میں مشرف باسلام ہوئے اور اسی زمانہ میں ہجرت کر کے مدینہ آ گئے۔ [3]

غزوات[ترمیم]

اور آنحضرت کے ساتھ قیام کیا،غزوۂ حدیبیہ میں آپ کے ساتھ نکلے، قریش اس میں مزاحم ہوئے اور ان کی طرف سے عروہ بن مسعود ثقفی گفتگو کے لیے آیا اور عرب کے عام قاعدہ کے مطابق دوران گفتگو میں بار بار آنحضرت کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتا تھا، مسلمان اس گستاخانہ طریقہ تخاطب کے عادی نہ تھے، مغیرہؓ کو جو اس وقت ہتھیار لگائے آنحضرت کی پشت کی جانب کھڑے تھے، یہ انداز گفتگو ناگوار ہوا، وہ ہر مرتبہ تلوار کے قبضہ پر ہاتھ لے جاتے تھے آخر میں ضبط نہ ہو سکا ڈانٹ کر کہا خبردار! ہاتھ قابو میں رکھو، عروہ بن مسعود ثقفی نے پہچان کر کہا، او دغاباز میں نے تیری دغابازی کے معاملہ میں تیری طرف سے کوشش نہیں کی تھی۔ (زمانہ جاہلیت میں مغیرہ نے چند آدمیوں کو قتل کر دیا تھا، عروہ بن مسعود ثقفی نے ان کی دیت ادا کی تھی، یہ واقعہ بخاری کتاب الشروط فی الجہاد والمصالحہ مع اہل الحرم میں مفصل مذکور ہے، ہم نے صرف اسی قدر ہی لیا ہے جتنا مغیرہ بن شعبہ کی ذات سے متعلق ہے) [4]

آخری سعادت[ترمیم]

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین کے وقت موجودتھے،جب لوگ جسد مبارک کو قبر انور میں رکھ کر نکلے تو انھوں نے عمداً قبر میں اپنی انگوٹھی گرا دی ،حضرت علیؓ بن ابی طالب نے کہا نکال لو، انھوں نے قبر میں اتر کر قدم مبارک کو ہاتھ سے مس کیا اور جب مٹی گرائی جانے لگی اس وقت قبر سے نکلے، انھوں نے قصدا ًاس لیے انگوٹھی گرائی تاکہ یہ شرف ان کے ساتھ مخصوص ہوجائے کہ وہ ذات نبوی سے یہ سب سے آخری جدا ہونے والے ہیں، چنانچہ ہمیشہ لوگوں سے فخریہ کہا کرتے کہ میں تم سب میں آنحضرت سے آخری جدا ہونے والا ہوں۔ [5] [6]

عہد صدیقی[ترمیم]

آنحضرت کے بعد شیخین کے عہد کی اکثر معرکہ آرائیوں میں شریک رہے اور بڑے بڑے کار ہائے نمایاں کیے، سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکم سے اہل بحیرہ کی طرف گئے، پھر یمامہ کے مرتدوں کی سرکوبی میں پیش پیش رہے۔ [7]

عہد فاروقیؓ[ترمیم]

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتنۂ ارتداد کے فرو ہونے کے بعد عراق کی فتوحات میں شریک ہوئے تھے ، بویب کی تسخیر کے بعد جب مسلمان قادسیہ کی طرف بڑھے اور رستم نے مصالحت کے لیے مسلمان سفرا بلائے تو کئی سفراء بھیجے گئے، آخر میں یہ خدمت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد ہوئی۔ [8]

سفارت[ترمیم]

ایرانیوں نے اسلامی سفیر پر رعب ڈالنے کے لیے بڑی شان و شوکت سے دربار سجایا تھا ، تمام افسرانِ فوج دیبا وحریر کے بیش قیمت ملبوسات زیب تن کیے تھے، رستم زرنگار تاج سر پر رکھے تخت پر بیٹھا تھا، دربار میں کارچوبی کا فرش تھا، مغیرہؓ بن شعبہ پہنچے تو بلا کسی جھجک کے سیدھے رستم کے تخت پر جاکر بیٹھ گئے، ان کا اس دلیری سے رستم کے پہلو بہ پہلو بیٹھ جانا درباریوں کو ناگوار گذرا، انھوں نے ہاتھ پکڑ کے نیچے بٹھادیا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا:ہم عرب ہیں ہمارے یہاں یہ دستور نہیں ہے کہ ایک شخص خدا بنے اور دوسرے لوگ اس کی پرستش کریں،ہم سب ایک دوسرے کے برابر ہیں، تم نے ہم کو خود بلایا ہے،ہم اپنی غرض سے نہیں آئے ہیں،پھر تمھارایہ سلوک کہاں تک مناسب ہے ، اگر تم لوگوں کا یہی حال رہا تو بہت جلد نیست و نابود ہو جاؤ گے، بقائے سلطنت کی یہ شکل نہیں ہے، ایرانی اس مساوات سے ناآشنا تھے، یہ خیالات سن کر دنگ رہ گئے، رستم بھی نادم ہوا، بولا کہ یہ نوکروں کی غلطی ہے اور حسن تلافی کے طور پر ان کے ترکش سے تیر نکال کر مذاق کے لہجہ میں کہا کہ ان تکلوں سے کیا ہو گا، کہا چنگاری کی لوگو چھوٹی ہو مگر پھر بھی آگ ہے، پھر اس نے تلوار کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ تمھاری تلوار کس قدر بوسیدہ ہے، کہا گو نیام بوسیدہ ہے؛ لیکن دھار تیز ہے، اس کے بعد اصل معاملہ پر گفتگو شروع ہوئی، رستم نے اپنی قوم کی شوکت و عظمت سطوت و جبروت اور عربوں کی حقارت و کم مایگی کا تذکرہ کرکے کہا کہ گو تمھاری جیسی ناچیز قوم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ،تاہم اگر تم لوٹ جاؤ تو تمھاری فوج اور سردار فوج کو ان کے مرتبہ کے موافق انعام دیا جائے گا، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت جوش سے جوابی تقریر کی اور آخر میں کہا کہ اگر تم کو جزیہ نہیں منظور ہے تو تلوار تمھارا فیصلہ کرے گی، رستم یہ سخت جواب سن کر آگ بگولا ہو گیا ، بولا کہ آفتاب سے پہلے تمھاری فوج کو تہ وبالا کردوں گا، اس گفتگو کے بعد مغیرہؓ بن شعبہ واپس چلے آئے ،[9]اور قادسیہ کی مشہور جنگ میں بھی مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شریک تھے۔ [10]

عراق پرفو ج کشی[ترمیم]

سنہ 19ھ میں رے ، قومس اور اصفہان والوں نے یزدگرد سے خط کتابت کر کے مسلمانوں کے خلاف ساٹھ ہزار فوج جمع کی اور مروان شاہ درفش کا ویانی لہراتا ہوا نکلا ، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دربار خلافت میں اطلاع دی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود نکلنے کا قصد کیا ؛ لیکن پھر نظام خلافت کے اختلال کے خیال سے ارادہ فسخ کر دیا اور امرائے کوفہ و بصرہ کے نام فرمان جاری کیے کہ وہ اپنی اپنی فوج لے کر نہاوند کی طرف بڑھیں اور نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار مقرر کرکے ہدایت کردی کہ اگر تم شہید ہو تو حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمھاری قائم مقامی کریں اگر وہ بھی شہید ہوں تو جریر بن عبداللہ بجلی جگہ لیں اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو مغیرہ بن شعبہ علم سنبھال لیں۔ [11]

دوسری سفارت[ترمیم]

جب اسلامی لشکر نہاوند کے قریب پہنچا تو ایرانیوں نے دوبارہ مصالحت کی گفتگو کے لیے ایک سفیر طلب کیا، مغیرہؓ بن شعبہ اس خدمت کو ایک مرتبہ حسن و خوبی کے ساتھ انجام دے چکے تھے، اس لیے دوبارہ ان ہی کا انتخاب ہوا،یہ سفیر بن کر گئے تو دربار کا وہی رنگ دیکھا ،مروان شاہ سر پر تاج زرنگار رکھے طلائی تخت پر بیٹھا تھا، درباری چپ دراست چمکدار تلواریں لگائے ،جن پر آنکھ نہیں ٹھہرتی تھی،کھڑے تھے، مغیرہؓ بن شعبہ نے کوئی توجہ نہ کی اور سیدھے گھستے ہوئے چلے گئے، راستہ میں درباریوں نے روکنا چاہا، کہا سفرا کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کیا جاتا اور مترجم کے ذریعہ گفتگو شروع ہوئی، مروان شاہ نے کہا کہ تم عرب ہو اور عربوں سے زیادہ بدبخت ،فاقہ مست اور نجس قوم دنیا میں نہیں ہے، میری سپاہ کب کا تمھارا فیصلہ کر چکی ہوتی ؛لیکن تم اس قدر ذلیل ہوکہ ہم ان کے تیر بھی تمھارے ناپاک خون سے آلودہ کرنا نہیں چاہتے،اب بھی اگر تم واپس چلے جاؤ تو معاف کر دیا جائے گا، ورنہ تمھاری لاشیں میدان میں تڑپتی نظر آئیں گی، انھوں نے حمد و نعت کے بعد جواب دیا کہ بیشک جیسا تمھارا خیال ہے ، ایک زمانہ میں ہم ویسے ہی تھے؛ لیکن ہمارے رسول اللہ نے ہماری کایا پلٹ دی اب ہر طرف ہمارے لیے میدان صاف ہے اور بغیر تمھارا تاج و تخت چھینے اس وقت تک نہیں لوٹ سکتے ،جب تک میدان جنگ میں ہماری لاشیں نہ تڑپیں،[12] غرض یہ سفارت بے نتیجہ رہی، طرفین میں لڑائی کی تیاریاں شروع ہو گئیں، مغیرہؓ میسرہ کے افسر مقرر ہوئے، نہاوند کے معرکہ میں اسلامی فوج کے سپہ سالار نعمان بن مقرن ایسے سخت زخمی ہوئے کہ پھر جان بر نہ ہو سکے؛لیکن مسلمانوں کے ثبات و استقلال میں کوئی فرق نہ آیا اور بالآخر ایرانیوں کو شکست ہوئی ، اختتام جنگ کے بعد معقل ،نعمان کی خبر لینے گئے، سانس کی آمد و شد باقی تھی لیکن نگاہ جواب دے چکی تھی، پوچھا کون، معقل بن یسار نے بتایا،پوچھا جنگ کا کیا نتیجہ رہا، عرض کیا اللہ نے کامیاب کیا، فرمایا الحمد للہ،حضرت عمرؓ بن خطاب کو اطلاع دو اوریہ مژدہ سننے کے بعد طائر روح پرواز کر گیا۔ [13] نہاوند کے بعد ایران پر عام فوج کشی ہوئی،ہر حصہ پر الگ الگ فوجیں بھیجی گئیں، ہمدان کی مہم مغیرہؓ کے سپرد ہوئی، انھوں نے نہایت بہادری سے اس کو سر کیا،پھر اہل ایران کی درخواست پر صلح کرلی۔ [14] بصرہ آباد ہونے کے بعد حضرت عمرؓ بن خطاب نے ان کو یہاں کا گورنر مقرر کیا ، انھوں نے اپنے عہد حکومت میں بہت سے نئے انتظامات کیے،باقاعدہ ایک دفتر کھولا، جہاں سے سپاہیوں کی تنخواہیں اور وظیفہ خواروں اور وثیقہ پانے والوں کے وظیفے اور وثیقے ملتے تھے، اس سے پہلے کوئی دفتر نہ تھا، اس کی ایجاد کا سہرا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر ہے،کچھ دنوں کے بعد ایک جرم کے الزام میں ماخوذ ہوئے،لیکن شہادت سے یہ الزام ثابت نہ ہو سکا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت خوش ہوئے کہ ایک صحابی کا دامن معصیت کی آلودگی سے پاک نکلا، تاہم سیاسی مصالح کے لحاظ سے بصرہ سے تبادلہ کرکے عمار بن یاسرؓ کی جگہ کوفہ کا گورنر بنایا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات تک یہاں کے گورنر رہے،[15] اور جدید عثمانی انتظامات میں معزول کر دیے گئے۔ [16]

عہد معاویہ[ترمیم]

اس کے بعد امیر معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں اختلافات ہوئے تو ابتدا میں مغیرہؓ بن شعبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حامی و طرفدار تھے،چنانچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مخلصانہ مشورہ دیا کہ اگر آپ اپنی خلافت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو طلحہؓ و زبیرؓ کو کوفہ اور بصرہ کا والی بنائیے اور امیر معاویہؓ کو ان کے قدیم عہدہ پر واپس کیجئے، پورا تسلط ہو جانے کے بعد پھر جو خیال میں آئے وہ کیجئے گا؛لیکن حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے جواب دیا کہ طلحہ بن عبیداللہ ؓ و زبیرؓ بن عوام کے بارہ میں غور کروں گا؛ لیکن معاویہؓ جب تک اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں گے اس وقت تک نہ ان کو کہیں کا امیر بناؤں گا اور نہ ان سے کسی قسم کی مدد لوں گا ، مغیرہؓ بن شعبہ اس جواب سے بدظن ہو گئے، امیر معاویہؓ کو خبر ہوئی تو انھوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اوران کو اپنی طرف مائل کرکے ان سے بیعت لے لی،[17] اب مغیرہؓ ، معاویہؓ کے ساتھ تھے اور علی الاعلان حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مخالفت شروع کردی،مجمع عام میں آپ کے خلاف تقریر کرتے اور لوگوں کو آپ کی مخالفت پر ابھارتے تھے۔ [18] مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حمایت نے امیر معاویہؓ کو بڑی قیمتی مدد پہنچائی ،بڑی بڑی اہم گتھیاں انھوں نے اپنے ناخن تدبیر سے حل کر دیں،امیر معاویہؓ کے دعویٰ خلافت کے سلسلہ میں بعض مواقع ایسے نازک آگئے تھے کہ اگر مغیرہؓ بن شعبہ کا تدبر نہ ہوتا تو امیر معاویہؓ کو سخت ترین دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا"زیاد"دہاۃ عرب میں تھا اور حضرت علیؓ کی طرف سے فارس کا والی تھا، یہ امیر معاویہؓ کا سخت ترین دشمن تھا، حضرت حسنؓ کی دست برداری کے بعد گو امیر معاویہؓ سارے عالم اسلامی کے خلیفہ ہو گئے تھے۔ لیکن زیاد ان کی خلافت نہیں تسلیم کرتا تھا، امیر معاویہؓ نے مشہور جفاکار بسر بن ارطاط کو اس کے مطیع کرنے پر مامور کیا ؛ لیکن اس کی سختیاں بے کار ثابت ہوئیں اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے تدبیر سے زیاد کو امیر معاویہؓ کا مطیع بنا کر ایک بڑے خطرہ سے بچا لیا۔ [19] [20]

کوفہ کی گورنری[ترمیم]

سنہ 41ھ میں امیر معاویہؓ نے مغیرہؓ بن شعبہ کو ان کے حسن خدمات کے صلہ میں کوفہ کا عامل بنایا ، 42ھ میں خارجیوں نے بڑا سخت فتنہ برپا کیا،مغیرہؓ نے نہایت ہوشیاری اور سرعت سے اس کو فروکیا اور خارجیوں کا ایک سرغنہ مستورد مارا گیا، غرض مغیرہؓ بن شعبہ نے امیر معاویہؓ کی خلافت استوار کرنے میں پورا زور صرف کیا۔ [21][22]

وفات[ترمیم]

50ھ میں کوفہ میں طاعون کی وبا پھیلی،اسی میں انتقال کیا، وفات کے وقت 70 سال کی عمر تھی۔ [23]

حلیہ[ترمیم]

سر بڑا، بال بھورے، لب پیوستہ، بازو فراخ اور شانے کشادہ تھے۔ [24]

اولاد[ترمیم]

وفات کے وقت 3 اولادیں چھوڑیں، عروہ، حمزہ، مطرف۔ [25] [26]

فضل و کمال[ترمیم]

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ گو ایک مدبر اور فوجی شخص تھے، تاہم ان کو مذہبی علوم سے بھی وافر حصہ ملا تھا اور اپنے زمرہ میں علمی حیثیت سے ممتاز شخصیت رکھتے تھے،ان کی 133 روایتیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں ، ان میں سے 9 متفق علیہ ہیں اور ایک میں امام بخاری اور 2 میں مسلم منفرد ہیں [27] تلامذہ کا دائرہ بھی خاصہ وسیع تھا، ان میں ان کے تینوں لڑکے عروہ، حمزہ، مطرف اور عام لوگوں میں جیرہ بن وحیہ، مسور بن مخرمہ، قیس بن ابی حازم، مسروق بن احدع، نافع بن جبیرہ بن مطعم ،عروہ بن زبیر اور عمرو بن وہب قابل ذکر ہیں۔ [28] گو مغیرہؓ بن شعبہ مذہبی علوم سے بے بہرہ نہ تھے؛ لیکن ان کی عظمت و وقار کا حکم علم و افتا کی مسند کی بجائے سیاست کی خارزار وادیوں میں گڑا تھا اور یہی ان کے کمال کا حقیقی مظہر تھا، عقل ودانش اور تدبرو سیاست کے لحاظ سے وہ عرب کے ممتاز مدبرین میں تھے، ان کا شمار "دہاۃ عرب" میں تھا اور اپنے غیر معمولی دل و دماغ کے سبب سے "مغیرۃ الرائے" کہلاتے تھے [29] اسی وصف کی بنا پر حضرت عمرؓ کے عہد میں بڑے بڑے ذمہ دار عہدوں پر ممتاز رہے اور دربار ایران تک ان کے تدبر کا سکہ جم گیا تھا۔

قبیصہ بن جابر کا بیان ہے کہ میں عرصہ تک مغیرہؓ کے ساتھ رہا، وہ اس تدبیر و سیاست کے آدمی تھے کہ اگر کسی شہر کے آٹھ دروازے ہوں اوران میں ایک میں سے بھی بغیر ہوشیاری اور چالاکی کے گذر نا دشورا ہو تو مغیرہؓ بن شعبہ آٹھوں دروازوں سے نکل جاتے، [30] اہم امور کی گتھیاں سلجھانے میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا،جب کسی معاملہ میں رائے قائم کرتے تو اسی میں مفرکی صورت نکلتی۔ [31] حضرت مغیرہ بن شعبہ کی تدبیر و سیاست کے بعض واقعات نہایت دلچسپ ہیں،عموماً اس قسم کے حکام کو رعایا پسند نہیں کرتی، مغیرہؓ بن شعبہ بھی ان ہی میں تھے،حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں ان کو بحرین کا گور نر بنایا تھا، یہاں کی رعایا نے ان کی شکایت کی، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو معزول کر دیا، معزولی کے بعد چلتے چلتے رعایا نے ایک بڑی چوٹ یہ لگائی کہ ان کی آئندہ واپسی کے خطرہ کو روکنے کے لیے یہاں کے زمینداروں نے ایک لاکھ کی رقم جمع کرکے دربار خلافت میں پیش کی اور کہا کہ مغیرہؓ بن شعبہ نے سرکاری محاصل سے خیانت کر کے ہمارے پاس جمع کرائی تھی،حضرت عمرؓ نے نہایت سختی سے باز پرس کی،معاملہ بہت نازک تھا، رقم موجود تھی، سینکڑوں شاہد تھے، کسی مزید ثبوت کی ضرورت نہ تھی؛لیکن انھوں نے دماغی توازن قائم رکھا اور نہایت اطمینان کے ساتھ کہا میں نے دولاکھ جمع کیے تھے، ایک لاکھ اس نے دبالیا، یہ سن کر زمین دار بہت گھبرایا اورحلف لے کر اپنی صفائی پیش کی،ورنہ ان کو دولاکھ بیت المال میں داخل کرنا پڑتے تھے،مگر یہ واقعہ مغیرہؓ کو بدنام کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اس لیے تحقیقات سے غلط ثابت ہوا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا، تم نے دولاکھ کا کیوں اقرار کیا، بولے انھوں نے تہمت لگائی تھی اور اس کے سوا بدلہ لینے کی کوئی صورت نہ تھی۔ [32]حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہترین قاری اور تجربہ کار کاتب تھے ۔ اس لیے رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے انھیں وحی کی کتابت پر مامور فرمایا تھا ۔ وہ فارسی زبان بھی جانتے تھے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور ہرمزان کے درمیان ترجمانی کا کام انھوں نے ہی سر انجام دیا تھا ۔ انھوں نے رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم سے 34 احادیث بھی روایت کی ہے ۔ آپ بہت بڑے معتبر اور سیاست دان تھے اس لیے انھیں مغیرو الرائے کہا جاتا تھا ۔ [33]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الكامل في التاريخ آرکائیو شدہ 2016-03-04 بذریعہ وے بیک مشین
  2. (اسد الغابہ:4/406)
  3. (استیعاب:1/258)
  4. سير أعلام النبلاء - الذهبي - ج 3 - الصفحة 25
  5. (ابن سعد:2/77،78)
  6. مختصر تاريخ دمشق (7/383)
  7. (مستدرک:3/447)
  8. تاريخ دمشق لابن عساكر، ج 60، ص 55
  9. (طبری:5/2274)
  10. ابن كثير الدمشقي (1976)۔ السيرة النبوية الجزء الرابع (PDF)۔ بيروت: دار المعرفة للطباعة والنشر۔ صفحہ: 537 
  11. (فتوح البلدان بلاذری:311)
  12. (طبری:2/2602،2603)
  13. (فتوح البلدان بلاذری:312،313)
  14. (فتوح البلدان بلاذری:317، ومستدرک:3/448)
  15. (استیعاب:1/259 ومستدرک:3/448)
  16. كتاب مختصر تاريخ دمشق آرکائیو شدہ 2015-12-08 بذریعہ وے بیک مشین
  17. (اصابہ:6/132)
  18. (مستدرک: 450)
  19. (ابن ایثر:3/168)
  20. كتاب الأذكياء آرکائیو شدہ 2017-08-17 بذریعہ وے بیک مشین
  21. كتاب سير أعلام النبلاء
  22. تاريخ دمشق ج 60، ص 43
  23. (ابن اثیر:3/182)
  24. (اصابہ:6/132)
  25. (تہذیب التہذیب تذکرہ مغیرہ بن شعبہ)
  26. تغليق التعليق لابن حجر ، رقم الحديث: 286
  27. (تہذیب الکمال:385)
  28. (تہذیب التہذیب تذکرہ مغیرہ بن شعبہ)
  29. (اصابہ واستیعاب تذکرہ مغیرہ بن شعبہ)
  30. (تہذیب التہذیب:1/202)
  31. (مستدرک:3،تذکرہ مغیرہؓ)
  32. (اصابہ:6/132)
  33. المجالسة وجواهر العلم للدينوري ، رقم الحديث: 2656